سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(154) نماز تحیۃ المسجد واجب ہے یا سنت؟ بالوضاحت بیان فرمائیں؟

  • 4585
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 1761

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز تحیۃ المسجد واجب ہے یا سنت؟ بالوضاحت بیان فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہاں تین بحثیں ہیں اوّل دلائل وجوب ، دوم چند اصولی مباحث، سوم دلائل عدم وجوب کا جواب۔ دلائل وجوب دو طرح کے ہیں بعض میں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے جبکہ دوسرے دلائل پڑھے بغیر بیٹھنے سے نہی پر مشتمل ہیں۔ قسم اول کے دلائل: مثلاً ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے مرفوعاً بیان کیا : اذا دخل احدکم المسجد فلیرکع رکعتین اخرجہ الجماعۃ کلھم یعنی جب کوئی مسجد میں آئے تو دو رکعتیں پڑھے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ روایت تین طرق سے تخریج کی ہے۔ طریق اوّل یوں ہے:

عن عمرو بن دینار عن جابر قال جاء رجل والنبی ﷺ یخطب الناس یوم الجمعۃ فقال اصلیت یا فلان فعال لا قام قم فارکع رکعتین۔

یعنی آنحضرتﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک آدمی آیاآپﷺ نے اس سے پوچھا نماز پڑھ لی ہے؟ اس نے نفی میں جواب دیا۔ تو فرمایا اٹھ اور دو رکعتیں پڑھ دوسرے طریق میں الفاظ یوں ہیں:

عن عمرو بن دینار سمع جابراً قال دخل رجل یوم الجمعۃ والنبی ﷺ یخطب فقال اصلیت قال لا فقال فصل رکعتین۔

طریق سوم بایں الفاظ ہے:

اخبرنا عمرو بن دینار قال سمعت جابر بن عبداللّٰہ قال قال رسول اللّٰہ ﷺ وھو یخطب اذا جاء احدکم والامام یخطب فلیصل رکعتین۔

طریق اوّل و دوم ابواب صلوٰۃ الجمعہ میں ہیں اور طریق سوم باب ماجاء فی التطوع مثنیٰ مثنیٰ میں۔ کتاب البیع میں ایک چوتھا طریق بھی ہے۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے جابر رضی اللہ عنہ سے دس طریق سے بیان کیا ہے۔

(۱)دخلت علیہ ای علی النبی ﷺ فقال صل رکعتین یعنی میں گیا تو آپ نے فرمایا دو رکعتیں پڑھو (۲) اشتری منی رسول اللہ ﷺ بعیر افلما قدم المدینۃ امرنی ان اتی المسجد فاصلی رکعتین یعنی آپ نے مجھ سے اونٹ خریدا۔ مدینہ میں آئے تو مجھے حکم فرمایا کہ میں مسجد میں آؤں اور دو رکعتیں پڑھوں (۳) فدع جملک وادخل المسجد فصل رکعتین اونٹ کو چھوڑو اور مسجد میں دو رکعت نماز پڑھو۔ قال فدخلت فصلیت ثم رجعت میں مسجد میں آیا نماز پڑھ کر پھر لوٹا (۴) عن جابر قال بین النبی ﷺ یخطب یوم الجمعۃ اذ جاء رجل فقال لہ النبی ﷺ اصلیت یا فلان قال لاقال قم فارکع یعنی آپ جمعہ کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک آدمی آیا آپ نے فرمایا نماز پڑھ لی؟ اس نے کہا نہیں فرمایا پڑھو۔ (۵) اس طریق میں بھی چوتھے کی طرح رکعتین کا ذکر نہیں (۶) اس کے الفاظ بھی وہی ہیں البتہ رکعتین کے الفاظ اس میں ہیں۔ (۷) جاء رجل والنبی ﷺ علی المنبر یوم الجمعۃ یخطب فقال لہ ارکعت رکعتین قال لا قال ارکع (۸) ان النبی ﷺ خطب فقال اذا جاء کم یوم الجمعۃ وقد خرج الامام فلیصلی رکعتین (۹) جاء سید الغطفانی یوم الجمعۃ و رسول اللہ ﷺ قاعد علی المنبر فقعد سید الغطفانی قبل ان یصلی فقال لہ النبی ﷺ ارکعت رکعتین قال لاقام قم فارکعھا (۱۰) جاء سلیک الغطفانی یوم الجمعۃ و رسول اللّٰہ ﷺ یخطب فجلس فقال یا سلیک قم فارکع رکعتین و وتجوز فیھما، ثم قال اذا جاء احدکم یوم الجمعۃ والامام یخطب فلیرکع رکعتین ویتجوز فیھما یعنی سلیک الغطفانی آئے اور آپ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے وہ بیٹھ گئے تو فرمایا سلیک! اٹھو اور دو رکعتیں پڑھو اور ذرا تخفیف کے ساتھ پڑھو۔ پھر فرمایا جب کوئی جمعہ کے دن خطبہ کے دوران آئے تو دو مختصر ہی رکعتیں پڑھے۔

آخری چھ طرق امام مسلم رحمہ اللہ نے کتاب صلوٰۃ الجمعہ میں ذکر کئے۔

سنن ابوداؤد میں تین طریق سے یہ روایت منقول ہے۔

(۱) عن جابر ان رجلا جلاء یوم الجمعہ والنبی ﷺ یخطب فقال اصلیت یا فلان قال لاقال قم فارکع۔

(۲) جاء سلیک الغطفانی و رسول اللّٰہ ﷺ یخطب فقال اصلیت شیئا قال لاقال صلی رکعتین تجوز فیہما۔ (اختصار سے دو رکعتیں پڑھو)

(۳) طریق دوم کی ہی مثل ہے یہ الفاظ زائد ہیں:

ثم اقبل علی الناس ثم قال اذا جاء احدکم والامام یخطب فلیصلی رکعتین یتجوزہ فیہما۔

پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا اگر کوئی خطبہ کے دوران آئے تو دو مختصر رکعتیں پڑھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی ابوداؤد نے ایک روایت نقل کی ہے۔

اس کے علاوہ یہی حدیث جابر رضی اللہ عنہ نسائی، ترمذی اور ابن ماجہ میں کئی طرق سے مروی ہے لیکن بغرض اختصار ہم انہیں نقل نہیں کرتے۔

دوسری قسم کے دلائل:… صحیح بخاری میں ابو قتادہ رضی اللہ عنہ ربیع سے مروی ہے قال النبی ﷺ اذا دخل احدکم المسجد فلا یجلس حتی یصلی رکعتین یعنی جب کوئی مسجد میں داخل ہو تو دو رکعتیں پڑھنے سے پہلے نہ بیٹھے۔ مسلم میں یوں ہے:

عن ابی قتادۃ صاحب رسول اللہﷺ قال دخلت المسجد و رسول اللہ ﷺ جالس بین ظھرانی الناس قال فجلست فقال رسول اللّٰہ ﷺ ما منعک ان ترکع رکعتین قبل ان تجلس قال فقلت رایتک جالسا والناس جلوس قال فاذا دخل احدکم المسجد فلا یجلس حتی یرکع رکعتین۔

حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں مسجد میں گیا آنحضرتﷺ لوگوں کے درمیان تشریف فرما تھے میں بیٹھنے لگا تو فرمایا دو رکعتیں کیوں نہیں پڑھتا، میں نے عرض کیا کہ آپﷺ کو بیٹھا دیکھا اور لوگ آپﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اس لیے میں بھی بیٹھنے لگا، فرمایا جب مسجد میں آؤ تو دو رکعتیں پڑھنے سے پہلے نہ بیٹھو۔

اگرچہ تمام دوادین حدیث میں ایسی روایات موجود ہیں مگر ہم صرف صحیحین کی احادیث پر اکتفا کرتے ہیں۔

مبحث دوم:… اس مسئلہ میں دو اصولی بحثیں ہیں۔ ایک کا تعلق دلائل مشتمل بر امر پر ہے اور دوسری بحث دلائل نہی ہیں۔

صنف اوّل:… ابن حاجب نے مختصر المنتہیٰ میں لکھا ہے والجمھور حقیقۃ فی الوجوب یعنی امر جمہور کے نزدیک وجوب کے لیے ہوتا ہے۔ شارح نے اس کی شرح یوں بیان کی ’’ الجمہورانہ حقیقۃ فی الوجوب ‘‘ ابن حاجب رحمہ اللہ نے بہت مضبوط دلائل سے اس مذہب کو راجح ثابت کیا ہے۔ اسی طرح اس کے شارح نے بھی علامہ سعد الدین تفتازنیٰ نے بھی مطول اور بعض حواشی میں تصریح کی ہے کہ جمہور کا مذہب یہی ہے چنانچہ وہ فرماتے ہیں واکثر علی کونہ حققیۃ فی الوجوب محقق ابن الامام نے غایہ اور اس کی شرح میں اس مذہب کو جمہور کا مذہب قرار دیا ہے۔ عقلی اور نقلی دلائل سے استدلال کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ امر کا لعنۃ و سرعاً مقتضی وجوب ہی ہے۔ المہدی نے المعیار میں تصریح کی ہے اسی طرح شارح الفصول نے بھی صراحت سے اسی کو راجح قرار دیا ہے۔ محل میں ہے کہ ابو اسحق شیرازی کے نزدیک بھی یہی صحیح ہے۔ ابن ابی شریف نے شرح المنہاج کے حوالے سے امام الحرمین کا بھی یہی مسلک لکھا ہے۔ امام الحرمین نے مختصر التقریب میں لکھا ہے۔

ان الاکثر من القائلین باقتضاء الصیغۃ الوجوب علیہ ای علی انہ حقیقۃ فی الوجوب۔

اگر کوئی اعتراض کرے کہ آراء رجال کے در پے ہونا مناسب نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ لغت کے مسئلہ میں اجتہاد و قیاس و استنباط کا دخل نہیں، لہٰذا یہ مسئلہ ائمہ والا شان کے اقوال سے حل ہوگا۔ ہر انصاف پسند جانتا ہے کہ لغت کے مسئلہ میں خبر واحد پر بھی عمل واجب ہے۔ اور یہاں یہ حال ہے جمہور نے الامر للوجوب لغۃ و شرعاً تصریح کردی ہے اور ظاہر ہے۔ احکام شریعت کا انہی دو ماخذ سے تعلق ہے۔

صنف دوم:… (حکم نہی) ابن حاجب نے اس بحث کو ’’امر‘‘ کی بحث پر مبنی قرار دیا ہے فرماتے ہیں جو امر کا حقیقی معنی وجوب سمجھتے ہیں ان کے نزدیک نہی موجب تحریم ہوگی۔ پھر غضون میں اسی مذہب کو راجح ثابت کیا ہے۔ ان کے شارح بھی اس باب میں انہیں کے پیرو ہیں۔ محقق ابن الامام نے غایہ و شرح الغایہ میں صراحت کی ہے کہ نہی حقیقۃً تحریم کے لیے ہے نیز فرماتے ہیں اصح المذاہب یہی ہے ہمارے ائمہ اور جمہور اسی کے قائل ہیں۔

مبحث سوم:… اعتراضات کا جواب: منکرین وجوب تحیۃ المسجد کی ایک دلیل یہ ہے آنحضرتﷺ سے ضمام بن ثعلبہ نے پوچھا کتنی نمازیں فرض ہیں فرمایا پانچ اس نے دریافت کیا اس کے علاوہ؟ فرمایا لا الا ان تطوع یعنی نہیں البتہ تم نفلی طور پر پڑھنا چاہو تو الگ بات ہے۔ دوسری روایت میں الصلوٰت الخمس الا ان تطوع اس کا جواب تین طرح سے ممکن ہے۔ اولاً ابتدائی تعلیمات سے بعد میں آنے والے احکام میں تبدیلی ممکن نہیں۔ اگر ایسا ہو تو ماننا پڑے گا کہ صرف وہی چیزیں واجب ہیں جو اوّل میں تھیں اور یہ عمل باطل ہے۔ آنحضرتﷺ نے صرف چار واجبات کا ذکر فرمایا، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج۔ اس نے کہا واللہ لا ازید علی ھذا ولا انقص کہ میں اس پر کمی بیشی نہ کروں گا ۔ تو فرمایا افلح ان صدق اگر سچا ہے تو فلاح پائے گا ۔ صرف انہیں واجبات پر عمل کرنے پر آنحضرت اسے فلاح کی بشارت دے رہے ہیں۔ اب معترض سے سوال کرنا چاہیے کہ کیا شریعت میں ان چار چیزوں کے سوا کچھ بھی واجب نہیں ہے؟ حالاں کہ اس سے کئی گنا واجبات اجماعِ امت سے ثابت ہیں اور وہ بھی اسی طرح کے اوامر سے ثابت ہیں۔ ثانیاً الا ان تطوع سے لازم نہیں آتا کہ اس سے وہ نمازیں بھی مراد ہوں جو اسباب پر موقوف ہیں۔ ان نمازوں کو اللہ تعالیٰ کی واجب کردہ نمازوں میں سے الگ اس لیے رکھا گیا ہے کہ ان کا وجوب انسان کے اختیار میں ہے تو گویا مکلف نے خود اپنے اوپر انہیں واجب کرلیا ہے۔ مثلاً احرام فی نفسہٖ واجب نہیں لیکن جو حرم میں داخل ہو اس کے لیے یہ واجب ہو جاتا ہے۔ ثالثاً نماز جنازہ، طواف کی دو رکعتیں، عیدین کی نمازیں اور نماز جمعہ یہ سب پانچ نمازوں کے علاوہ ہی تو ہیں۔ یہ قول کہ نماز جمعہ پانچ نمازوں میں سے ہے کہ ظہر کا بدل ہے درست نہیں اس لیے کہ اس صورت میں اس کے وجوب میں اختلاف نہ ہوتا اور اس کے وجوب پر دلائل لانے کی بھی ضرورت نہ تھی۔

امر کو وجوب کے لیے مان لینے سے یہ بھی لازم نہیں آتا کہ مذکورۃ تمام امور واجب ہوں، اس لیے کہ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ امر کا مقتضی وجوب ہے تاوقتیکہ کوئی قرینہ صارفہ نہ ہو، اس لیے امر للوجوب کا قائل اگر کسی کہ بعض مامور بہ واجب نہیں ہیں تو اس پر یہ اعتراض نہیں کرنا چاہیے کہ اس نے اصل کے خلاف کیا اس لیے کہ ممکن ہے اس کے علم میں وہ قرینہ صارفہ ہو جو معترض کے علم میں نہ ہو۔

یہ اعتراض بھی معقول نہیں کہ نذر کی نماز خاص دلیل سے ثابت ہے اس لیے کہ تحیۃ المسجد کے متعلق بھی ہم یہی لکھ چکے ہیں۔ معترض نے نذر کی نماز کے وجوب کا سبب سمجھا ہے۔ تو ہم ان احادیث کو جن میں اس کے پڑھنے کا حکم ہے۔ اور پڑھے بغیر بیٹھنے سے منع کیا گیا ہے اس کے وجوب کی دلیل مانتے ہیں۔ مزید برآں اس نماز کی تاکید آنحضرتﷺ نے بہت زیادہ فرمائی کہ اس کے حکم کے ساتھ اس کے ترک کو منع کیا۔ اس کے علاوہ یہ دخول مسجد سے معلق ہے۔ اس لیے اسے اس حکم پر زیادت نہیں کہا جاسکتا۔

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ نماز جنازہ نماز نہیں ہے اس لیے کہ اس کی ہیئت نمازوں سے مختلف ہے۔ یہ قول بھی معقول نہیں اس لیے کہ خود شارعﷺ نے اسے نماز قرار دیا۔ جیسے کہ دوسری نمازوں کو قرار دیا ہے۔ اسے صلوٰۃ سے خارج قرار دینا انصاف نہیں ہے۔ تعجب ہے کہ معترضین نماز جنازہ کے وجوب کے قائل ہیں۔ نماز تحیۃ المسجد کو الا ان تطوع کے تحت لانا اور جنازہ کے وجوب کا قائل ہونا محض سینہ زوری ہے۔ اسی طرح نماز طواف بھی سمجھ لیجئے۔ بعض لوگوں کا یہ گمان اگر درست ہو کہ تحیۃ المسجد کے متعلق بعض احادیث میں لمن شاء کے الفاظ ہیں تو یہ قرینہ صارفہ ہوتا۔ لیکن یہ لفظ کسی بھی روایت میں نہیں ہیں۔ لہٰذا حقیقت پر عمل کرنا ہوگا۔ ان سمعا فسمعا وان عقلا فلا فطاعۃ  ؎

وانما یبلغ الانسان طاقتہ

ما کل ما شیۃ بالرحل شملال

واللہ اعلم بالصواب ایضاً

الدلیل الطالب (ص۳۵۵)

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 241-345

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ