سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(149) نماز وتر خاص کر تین رکعت آنحضرتﷺ سے کس طرح ثابت ہے

  • 4580
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1097

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز وتر خاص کر تین رکعت آنحضرتﷺ سے کس طرح ثابت ہے بعینہٖ نماز مغرب کی طرح یا کہ دو رکعت جدا اور ایک جدایا تینوں رکعتیں ایک ہی تشہد آخری کے ساتھ اور جو تشہد کہ درمیان ہے وہ آنحضرتﷺ کے قول یا فعل سے ثابت ہے یا نہیں اور جو کوئی وتر تین رکعت نماز مغرب کی طرح پڑھے اور قعدہ اولیٰ بھول جاوے تو اس پر سجدہ سہو ہوگا یا نہ اور قنوت کی دعا یا تکبیر کے بھول جانے سے سجدہ سہو ہوگا۔ یا نہ اور قنوت کی دعا یا تکبیر کے بھول جانے سے سجدہ سہو ہوگا۔ یا نہ بادلائل بیان فرما دیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وتر تین رکعت نماز رسول اللہﷺ سے معتبر سندوں کے ساتھ دو طرح سے ثابت ہیں ایک یہ کہ دو رکعت پڑھ کر سلام پھیرنا بعدہٗ ایک رکعت تنہا پڑھنی جیسے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ دو رکعت وتر کی نماز پڑھ کر سلام پھیرتے تھے اور پھر ایک رکعت علیحدہ تنہا پڑھتے تھے اس حدیث کو امام احمد رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے اور اس کو قوی کہا ہے۔ اور ابن حبان اور ابن سکن نے بھی اس حدیث کو اپنی صحیحین میں بیان کیا ہے اور طبرانی نے بھی یہ حدیث بیان کی ہے۔ اسی طرح تلخیص الجیر میں ہے۔ دوسری یہ کہ تینوں رکعت پڑھ کر اخیر میں سلام پھیرنا۔ چنانچہ مائی عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہﷺ تین رکعت نماز وتر پڑھتے اخیر کے سوا اور کہیں نہ بیٹھتے یعنی تینوں ایک ہی تشہد سے پڑھتے اس حدیث کو امام احمد اور نسائی اور بیہقی اور حاکم نے بیان کیا ہے اور امام احمد اور حاکم کے لفظوں میں اختلاف ہے۔ مگر معنی سب کا یہی ہے جو اوپر گزرا اور جیسے کہ اس زمانہ میں وتر کی نماز مغرب کی نماز کی طرح پڑھتے ہیں میری نظر سے کوئی صحیح حدیث اس بارہ میں نہیں گزری۔ ہاں عبداللہ بن مسعود کا ایک قول ہے کہ نماز وتر نماز مغرب کی طرح ہے دارقطنی نے اس روایت کو حضرتﷺ کا قول بیان کیا ہے۔ مگر بیہقی نے کہا کہ صحیح یہی ہے کہ یہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔ پس جب کہ نماز وتر میں قعدہ اولیٰ کا نہ ہونا صحیح طور پر رسول اللہﷺ سے ثابت ہے۔ اور آنحضرتﷺ وتر میں قنوت اور رفع یدین اور تکبیر پر مداومت نہیں کی اس لیے اگلے اور پچھلے علماء کا ان کے ثبوت میں اختلاف ہے تو وتر میں قعدہ اولیٰ یا قنوت یا رفع الیدین (۱) یا تکبیر کے چھوڑنے سے سجدہ سہو کس طرح لازم ہوگا۔  حررہ عبدالجبار الغزنوی عفی عنہ فتاویٰ غزنویہ ص ۴۹

۱:  وتر میں دونوں ہاتھوں کو دعا کے لیے اٹھانا مراد ہے۔ سعیدی


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 238

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ