سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(145) کیا فرماتے ہیں علماء دین آیت شریفہ

  • 4576
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 2193

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علماء دین آیت شریفہ { مَنْ یُشَافِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہٗ الْھُدٰی وَیَتَبعُ غَیْرَ سَبِیْلِ المؤْمنین الخ } میں مومنین سے صحابہ کرام مراد ہیں تو ان کے وہ اعمال جو نبی ﷺ کے سامنے کثرت سے ثابت ہوں بلکہ خود نبی علیہ السلام نے عمل کرکے فرمایا ہو کہ ’’ایسا کرو‘‘ اس کا روکنے والا زبان یا ہاتھ سے یا ایسے ذرائع اختیار کرکے جس سے عامل کو لامحالہ وہ عمل ترک کرنا ہی پڑے وعید مذکور آیت میں شامل ہوگا یا نہیں اگر مستثنیٰ ہے تو کس دلیل ہے؟

(۲) سمعت انس بن مالک یقول ان کان المؤذن لیؤذن علی عھد رسول اللّٰہ ﷺ فیری انھا الاقامۃ من کثرۃ ما یقول فیصلی الرکعتین قبل المغرب (ابن ماجہ) اس حدیث کے معنی میں دو شخصوں کا اختلاف ہے ۔ ایک کہتا ہے کہ اذان کے بعد لوگ کھڑے ہوتے تھے اور یہ صریح دلیل ہے کہ اطمینان سے لوگ سنت ادا کرتے کہ مسجد میں اگر نیا شخص آجاتا تو اس اذان کی آواز کو اقامت تصور کرتا اور جانتا کہ فرض پڑھ کر اب لوگ سنتیں ادا کر رہے ہیں۔ اس معنیٰ کی تائید انہیں انس رضی اللہ عنہ کی روایت جو مسلم شریف میں ہے کرتی ہے۔ رکعوا رکعتین حتی ان الرجل الغریب لیدخل المسجد فیحسب ان الصلوٰۃ قد صلیت من کثرت من یصلیھا۔ مغرب کا وقت اس قدر تنگ نہیں ہے کہ اذان ہوتے ہی سنت شروع ہو جائیں اور تیزی سے پڑھے کہ مؤذن کے صف میں آنے تک دو رکعت تمام کرلے کہ فوراً اقامت ہو جائے اور اذان کے جواب اور وہ دعا جو آپ نے بتائی ہے۔ اس سے محروم رہے اگر ایسا تنگ وقت ہے تو مسلم شریف کی روایت مذکورۃ الصدر صحیح نہیں اور نبیﷺ کا مغرب میں سورۂ اعراف پڑھناعجیب بات ٹھہری کہ نماز کا اکثر حصہ اوّل وقت سے خارج میں ہوگا ۔

دوسرے صاحب معنیٰ فرماتے ہیں کہ مغرب کا وقت بہت ہی تنگ ہے اس لیے مؤذن کے اذان شروع کرتے ہی صحابہ  رضی اللہ عنہم سنت پڑھنے کے لیے اس تیزی سے بڑھتے تھے کہ حاضرین مسجد کو گمان ہوتا کہ وہ اذان نہ تھی۔ اقامت ہوئی۔ (یہ عجب اُن کی اس لیے تھی کہ فرض میں تاخیر نہ ہو، اذان کے بعد فوراً اقامت ہو جائے۔)

علماء محدثین سے گزارش ہے کہ صحیح کیا ہے مفصل تحریر فرما دیں۔

(۳) بَیْنَ کُلِ اَذَانِیْنَ صَلٰوۃٌ(متفق علیہ) میں آپ کے فرمان کلی سے کوئی وقت مستثنیٰ بھی ہے؟ وہ کونسا وقت ہے یہ استثناء بھی صحیح حدیث سے ثابت ہونا چاہیے اور یہ نماز کس وقت شروع کرے؟ تخمیناً اذان ختم ہونے کے بعد اقامت کے شروع تک کتنا وقفہ ہونا چاہیے؟ ہر ایک سوال کا جواب نمبر دار کتاب و سنت سے مرحمت فرمائیں۔ بینوا توجروا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

الجواب:… (۱) اس آیت کریمہ میں مومنین سے مراد صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں۔ اور صحابہ کے علاوہ دوسرے وہ تمام لوگ بھی مراد ہوسکتے ہیں۔ جو سچ مچ مومن ہیں۔ جس شخص کو یہ معلوم ہو کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا فلاں عمل رسول اللہﷺ کے ہاں کثرت سے پایا گیا اور آپ نے انکار نہیں فرمایا بلکہ خود رسول اللہﷺ نے اس عمل کو کرکے فرمایا ہو کہ ایسا کرو اور ساتھ اس کے اُس شخص کو یہ بھی معلوم ہو کہ یہ عمل منسوخ نہیں ہوا ہے۔ پس اگر وہ شخص باوجود معلوم ہونے ان دونوں باتوں کے اُس عمل سے لوگوں کو روکے اور منع کرے زبان سے یا ہاتھ سے یا کسی اور طریقہ سے وہ شخص بلاشبہ اس آیت کریمہ کی وعید میں شامل ہوگا۔

جواب:… (۲) قبل نماز مغرب دو رکعت سنت پڑھنا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اس کو اذان اور اقامت کے درمیان پڑھنا چاہیے اس کے ثبوت کے لیے عبداللہ بن مغفل کی حدیث متفق علیہ بین کل اذانین صلوٰۃ  نص صریح ہے۔ اور یہ حدیث اپنے عموم پر باقی ہے۔ اس عموم سے مغرب کا وقت ہرگز مستثنیٰ نہیں ہے کسی حدیث صحیح سے اوقات فرائض پنجگانہ سے کسی وقت کو خارج و مستثنیٰ ہونا ثابت نہیں اور بزار کی روایت میں جو الاالمغرب کی زیادتی آئی ہے۔ سو وہ زیادتی غیر محفوظ ہے۔ ناقابل استدلال ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کو مفصل و مدلل طور پر بیان کیا ہے۔ دیکھو فتح الباری صفحہ ۳۴۸ جلد ۱ مطبوعہ مطبع انصاری۔

مغرب کی اذان ختم ہونے کے ساتھ ہی بلا وقفہ درود پڑھنا چاہیے۔ اللھم رب ہذہ الدعوۃ التامۃ آخر تک پڑھنا چاہیے پھر سنت شروع کرنی چاہیے۔ اور مغرب کی سنتیں فجر کی سنت کی طرح ہلکی پڑھنی چاہیے، حافظ ابن حجر فتح الباری (۱) میں لکھتے ہیں: ومجموع الادلۃ یرشد الی استحباب تخفیفھا کما فی رکعتی الفجر اذان کے ختم ہونے کے بعد اقامت کے شروع تک بس اسی قدر وقفہ ہونا چاہیے کہ درود پھر دعا مذکور کو پھر ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھ لی جائیں۔ اس سے زیادہ وقفہ نہیں کرنا چاہیے۔ صحیح مسلم کی یہ روایت: اذا سمعتم الموذن فقولوا مثل ما یقول ثم صلوا اعلی فانہ من صلی علی صلوٰۃ صلی اللّٰہ علیہ بھا عشراً ثم سلوالی الوسیلۃ الخ اور صحیحین کی حدیث بین کل اذانین صلوۃ اور بخاری کی یہ روایت کان المؤذن اذا اذن قام ناس من اصحاب رسول اللہ یبتدرون السواری حتی یخرج النبی ﷺ وھم کذلک یصلون رکعتین ولم یکن بین الاذان والاقامۃ بشئی وقال عثمان بن جبلۃ و ابوداؤد عن شعبۃ لم یکن بینھما الاقلیلاور امام محمد بن نصر کی روایت میں ہے: وکان بین الاذان والاقامۃ یسیرٌ۔ان سب احادیث کے ملانے سے وہی بات ثابت ہوتی ہے۔ جو لکھی گئی اور جو صاحب یہ فرماتے ہیں کہ مؤذن کے اذان سنتے ہی صحابہ سنت پڑھنے کے لیے کھڑے ہو جاتے تھے اور ابن ماجہ کی حدیث مذکور فی السوال سے استدلال کرتے ہیں۔ و نیز یہ بھی فرماتے ہیں کہ مغرب کا وقت بہت تنگ ہے اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایسا کرتے تھے سو واضح رہے کہ ابن ماجہ کی حدث مذکور صحیح نہیں ہے۔ اس حدیث کو شعبہ نے علی بن زید بن جدعان سے روایت کیا ہے اور علی بن زید بن جدعان ضعیف ہے۔ دیکھو تقریب التہذیب اور اس کے علاوہ اس حدیث کے اجمال اور کئی مطلب کا احتمال ہے۔ پس اس حدیث سے استدلال صحیح نہیں ہے۔ و نیز یہ بھی فرماتے ہیں کہ مغرب کا وقت بہت تنگ ہے اس لیے صحابہ کرام ایسا کرتے تھے سو واضح رہے کہ ابن ماجہ کی حدیث مذکور صحیح نہیں ہے۔ اس حدیث کو شعبہ نے علی بن زید بن جدعان سے روایت کیا ہے اور علی بن زید بن جدعان ضعیف ہے۔ دیکھو تقریب التہذیب اور اس کے علاوہ اس حدیث کے اجمال اور کئی مطلب کا احتمال ہے۔ پس اس حدیث سے استدلال صحیح نہیں ہے۔ اور اسی طرح پر یہ خیال کہ مغرب کا وقت بہت تنگ ہے اس لیے صحابہ رضی اللہ عنہم اذان کے شروع ہوتے ہی سنت پڑھنے کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے۔ صحیح نہیں ہے۔ مغرب کا وقت تنگ ہے۔ مگر اتنا تنگ نہیں ہے کہ اذان اور اقامت کے درمیان دو رکعت پڑھنے کی گنجائش نہ ہو اس خیال کا غلط ہونا احادیث مذکورہ بالا سے و نیز دیگر احادیث سے ظاہر ہے۔ ہذا ما عندی واللہ تعالیٰ اعلم

کتبہ عبدالرحمن المبارک پوری

الجواب صحیح:… ابن ماجہ کی حدیث مذکور کا ظاہر مطلب یہ ہے کہ اذان مغرب کے ہوجانے کے بعد اس کثرت سے لوگ دو رکعت سنت پڑھنے کو کھڑے ہو جاتے کہ نیا آدمی جو آجاتا تو اس کو گمان ہوتا کہ اذان اذان بھی نہ تھی بلکہ اقامت تھی اور یہ لوگ جو اس کثرت سے کھڑے ہوگئے ہیں اور اس گمان کے ہونے کی وجہ اذان کے بعد کثرت سے لوگوں کا سنت پڑھنے کو کھڑے ہو جانا ہے۔ جیسا کہ اس لفظ پر من کثرۃِ من یقوم صراحۃً دلالت کرتا ہے۔ اور ابن ماجہ کی اس حدیث سے ہرگز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مؤذن کے شروع کرتے ہی صحابہ رضی اللہ عنہم سنت پڑھنے کے لیے کھڑے ہو جاتے تھے۔ اور ابن ماجہ کی یہی حدیث بسند صحیح بخاری اور کتاب قیام میں مروی ہے۔ بخاری کے الفاظ یہ ہیں:

کان المؤذن یوذن علی عھد رسول اللّٰہ ﷺ لصلوٰۃ المغرب لُباب اصحاب رسول اللّٰہ۔ الخ

ان الفاظ سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ اصحاب رسول اللہ اذان ہونے کے بعد سنت شروع کرتے تھے۔ واللہ تعالیٰ اعلم

کتبہ محمد اسماعیل المبارک پوری عفا اللہ عنہ

الجواب صحیح ابو القاسم بنارسی

الجواب (۱):… آیۃ مذکورہ فی السوال میں جو لفظ ’’ سبیل المومنین‘‘ ہے اس سے مراد بیشک یہی سبیل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مراد ہے۔ اس واسطے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جو راہ اختیار کی تھی وہ راہ نبیﷺ کی بتائی ہوئی تھی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے عمل و عقیدہ کی بنیاد اس نقشہ پر رکھی کہ جو نقشہ آنحضرتﷺ نے اپنے عمل و عقیدہ کا صحابہ رضی اللہ عنہم کے سامنے پیش کیا تھا۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

من کان منکم مستنا فلیستن بمن قد مضٰی فان الحي لا تؤمن علیہ لافتنۃ اولئک اصحاب محمد الحدیث۔

لہٰذا صحابہ نے جو طرز عمل آپ کے عہد مبارک میں رکھا و نیز جو طرز بعد آنحضرتﷺ کے رکھا اس کا مخالف و روکنے والا زبان یا ہاتھ سے یا دیگر ذرائع سے جس سے عامل کو لامحالہ وہ عمل ترک کرنا پڑے ایسا شخص ضال و مضل ہے۔ اور وعید مذکور فی الایہ میں شامل ہے۔ اس کے مستثنیٰ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ واللہ اعلم

(۲) احادیث کثیرہ مشہور سے ثابت ہے کہ آنحضرتﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فرمایا کرتے تھے کہ صلوا قبل المغرب الحدیث (بخاری شریف) وغیرہ یعنی نماز مغرب کے پہلے سنتیں پڑھ لیا کرو۔ دوسری روایت بخاری میں یوں ہے کہ دو رکعت پڑھ لیا کرو۔ ابن حبان کی روایت میں یوں ہے۔ صلی قبل المغرب رکعتین یعنی آنحضرتﷺ نے خود قبل مغرب دو رکعتیں پڑھیں۔ ان روایتوں سے بادی النظر میں یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہ دو رکعتیں بعد اذان ہو جانے کے پڑھنی چاہئیں نہ کہ اذان ہوتے وقت چنانچہ اس معنیٰ کی وضاحت اس حدیث سے ہوتی ہے۔ قال النبی ﷺ بین کل اذانین صلوٰۃٌ الحدیث (ابن ماجہ وغیرہ) یعنی آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ درمیان ہر اذان اور تکبیر کے نماز پڑھنی چاہیے لفظ بین کا یہی مقصد ہے کہ سنتیں اذان و تکبیر کے بیچ میں ہونی چاہیے نہ کہ اذان ہوتے ہوئے، چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہی طرز عمل تھا کہ نماز مغرب سے پہلے اذان کے بعد سنتیں پڑھتے تھے جیسا کہ اس روایت سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے۔ عن عبدالرحمن بن عوف قال کنا نر کعہما اذا از احمنا یعنی بین الاذان والاقامۃ فی المغرب (قیام اللیل للمروزی) یعنی حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ مغرب کی اذان و اقامت کے درمیان سنتیں پڑھتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں: صلوا الاوابین ما بین الاذان واقامۃ المغرب  (قیام اللیل) نماز اوابین کی درمیان اذان و اقامت مغرب کے ہوتی ہے۔ حضرت مکحول تابعی فرماتے ہیں۔ علی المؤذن ان یرکع رکعتین علٰی اثر التاذین  (قیا م اللیل) یعنی مؤذن کو چاہیے کہ اذان کے بعد دو رکعت پڑھ لیا کرے۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے کسی نے پوچھا قبل الاذان ام بین الاذان والاقامۃ فقال بین الاقامۃ (قیام اللیل) یعنی مغرب کے قبل کی سنتیں اذان سے پہلے پڑھنی چاہئیں یا اذان کے بعد فرمایا اذان کے بعد اقامت سے پہلے۔ ان روایات مرفوعہ و آثار صحابہ و محدثین سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ سنتیں مغرب کی اذان کے بعد ہونی چاہئیں نہ کہ اذان ہوتے ہی۔ اگر اذان ہوتے ہی کسی نے سنتیں شروع کیں تو اذان کا جواب و بعد اذان کی دعا مسنونہ ترک ہو جائے گی۔ لہٰذا جو لوگ کہتے ہیں کہ سنتیں بعد اذان پڑھنی چاہئیں اُن کا قول صحیح ہے اور جو لوگ فرماتے ہیں کہ سنتیں اذان ہوتے وقت پڑھنی چاہئیں اور اذان ہوتے ہی فرضوں کے لیے کھڑا ہو جانا چاہیے اُن کا قول غلط ہے اور یہ کہنا کہ نماز مغرب کا وقت تنگ ہو جائے گا۔ اگر بعد اذان سنتیں پڑھی جائیں گی یہ بھی غلطی ہے اس واسطے کہ وقت نماز مغرب کا تھوڑا نہیں ہے۔ بلکہ غروب شمس سے غروب شفق تک ہے لہٰذا اذان کے بعد دو سنتیں پڑھ کر فرضوں کے لیے کھڑے ہو جانے سے کوئی تنگی وقت میں واقع نہ ہوگی۔ واللہ تعالیٰ اعلم

(۳) حدیث ’’ بین کل اذانین صلوٰۃ‘‘ (بخاری وغیرہ) یہ حدیث عام ہے اور اپنے معنیٰ میں واضح ہے کہ چاہے جونسے وقت کی نماز ہو اذان و تکبیر کے درمیان سنتیں پڑھنی چاہئیں اس میں کسی وقت کا استثناء نہیں اور نہ کسی اور روایت سے کوئی وقت مستثنیٰ کیا گیا ہے۔ اذان اور اقامت کے بیچ میں مقدار دو رکعت یا چار رکعت کا وقفہ ہونا چاہیے مقدار دو رکعت یا چار رکعت سے زیادہ وقفہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ ہذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب کتبہ ابو الزبیر محمد یونس غفرلہ مدرس مدرسہ جناب میاں صاحب مرحومؒ پھاٹک حبش خاں دہلی

الجواب صحیح۔ سید ابو الحسن عفی عنہ

المجیب مصیب۔ حررہٗ السید محمد عبدالحفیظ غفرلہ

الجواب صحیح: ابو سعید محمد شرف الدین مدرس مدرسہ میاں صاحب مرحومؒ

مجیب کا جواب صحیح ہے۔ اذان و نماز فرض کے درمیان دو رکعت چار رکعت کا فاصلہ ہونا چاہیے۔ تاکہ سنتیں مقررہ مسنونہ ہے مغرب کے پہلے سنتیں پڑھنے والے کو کوئی روکے یا اس کو سنت نہ سمجھے وہ ظالم اور بدعتی ہے۔ فقط ۱۹؍ ذیقعد ۱۳۶۴ھ

احمد اللہ۔ مدرس مدرسہ دارالحدیث رحمانیہ دہلی

جواب صحیح ہے، صحابہ بالخصوص کبار صحابہ مغرب کے قبل کی سنت التزام کے ساتھ پڑھتے اس سنت کو کبھی چھوڑتے نہ تھے۔ بعض فرماتے ہیں کہ اگرچہ میں کوڑے مارا جاؤں مگر اس سنت کو ترک نہ کروں گا۔ اولاد کو وصیت فرمائی کہ اسے ترک نہ کرنا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ کان المؤذن لیؤذن بالمغرب ثم تضرع المجالس من الرجال لیصلونھا ۔ موذن اذان مغرب کی دے چکتا تھا اس کے بعد عموماً لوگوں کے کھڑے ہوجانے کی وجہ سے بیٹھنے کی جگہ خالی ہو جاتی ہے۔ لفظ ثم سے اذان کے بعد کھڑے ہونا خوب واضح ہے۔ سعید بن مسیب سے مروی ہے حق علی کل مؤذن اذن ان یرکع رکعتین ہر مؤذن پر حق ہے کہ جب اذان دے چکے تو دو رکعت پڑھے۔ (یعنی اذان کے بعد دو رکعت نہ پڑھیں تو اس نے حق ادا کیا) امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں لکھا ہے: قول من قال ان فعلھا یؤدی الی تاخیر المغرب عن اوّل وقتھا خیال فاسد منا بذللسنۃ الخ جو یہ کہتا ہے کہ ان دو رکعتوں سے مغرب کی نماز میں تاخیر ہوتی ہے۔ خیال فاسد ہے۔ سنت کے پھینکنے کے لیے (یہ حیلے حوالے میں ان کی طرف دھیان نہ دینا چاہیے) اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ اگر اذان شروع ہوتے یہ سنت شروع کرنے کی کوئی حدیث ہوتی تو اس حیلہ کی ضرورت نہ پڑتی، کیوں کہ اس صورت میں تاخیر ہی نہیں ہوتی اس سے روکنے والا خدا سے ڈرے دیکھو سورۃ علق میں فرمایا: اَرَیْتَ الذی ینھٰی عبدًا اذا صلی الخ اگر اپنی حرکت سے باز نہ آیا تو بُری سزا کا قیامت کو مستحق ہوگا۔ واللہ اعلم حررہ ابوالفضل غفرلہٗ ولوالدیہ بحمدہ اللہ مجیبین نے بہت جچے تلے صحیح اور مدلل اور مفصل جوابات دیدئیے ہیں جو بالکل سچ ہے۔

جزاہم اللہ محمد جونا گڑھی دہلوی

(اخبار محمدی دہلی جلد ۷، ش۲۰ ، ۱۹۳۰ئ)


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 231-236

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ