بغیر عذر کے نمازوں کو جمع کرنا کیسا ہے؟
جمہور علماء کے نزدیک بغیر عذر کے نمازوں کو جمع کرنا حرام ہے بلکہ بعض کتب میں اس حرمت پر اجماع بھی منقول ہے۔ لیکن صدر اوّل کے اجماع کے بعد کتب فروع میں جواز کی نسبت حضرت علی رضی اللہ عنہ و زید بن علی رضی اللہ عنہ کی طرف کی جاتی ہے۔ لیکن اس روایت کی صحت معلوم نہیں ہوسکی، کیوں کہ انہیں سے اس کے خلاف بھی روایت منقول ہے۔ فرمانِ خداوندی ہے:
{ اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَابًا مَوْقُوْتًا } ۔ (النسائ)
یعنی نماز بقید وقت مسلمانوں پر فرض ہے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ نماز اس کے وقت کے علاوہ پڑھنا کسی حالت میں جائز نہیں ہے ۔ اور جب جمع کرے گا تو لامحالہ ایک کو دوسری کے وقت میں پڑھے گا۔ اگر ان سے انحراف کرے گا تب بھی مجرم ہے۔ بہرکیف بغیر عذر جمع نہیں کرسکتا۔ حدیث میں اس کی صراحت ہے کہ جس نے بغیر عذر کے نماز جمع کی وہ گناہِ کبیرہ کا مستحق ہے اور جو حضور علیہ السلام سے منقول ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے جمع کی تھی تو اس کا مطلب جمع حقیقی نہیں بلکہ جمع صوری ہے، جس کی یہ صورت ہے کہ ایک نماز کو مؤخر کیا جائے اور دوسری کو اس کے وقت میں مقدم دونوں علیحدہ علیحدہ اپنے وقت میں ادا کرنا۔ سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ اگر صلوتین جمع کی جائیں تو ان کی ایک یہ صورت بھی بنتی ہے کہ نماز جمعہ کے ساتھ نماز عصر کو جمع کیا جاتا ہے اور وہ یعنی نماز عصر قبل از وقت ادا کی جاتی ہے۔ حالانکہ حضور علیہ السلام سے اس کے متعلق ایک حدیث بھی منقول نہیں کہ آپ نے بغیر عذر کے کسی نماز کو قبل از وقت ادا کیا ہو۔ ہاں بغیر عذر کے عرفہ میں جمع کرسکتا ہے۔
جو دلائل اس کے جواز میں پیش کیے جاتے ہیں۔ وہ نہایت کمزور اور مثل لاشئی ہے۔ جن کی وضاحت اصل میں ہوچکی ہے ہم ان کا اعادہ نہیں کرنا چاہتے۔
ففیہ کفایۃ لمن لہٗ ھدایۃ۔
(الدلیل الطالب ص ۳۰۹)