سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(143) کیا حضر میں بغیر عذر شرعی ظہر عصر اور شام عشاء نماز میں جمع ہوسکتی ہیں؟

  • 4574
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1276

سوال

(143) کیا حضر میں بغیر عذر شرعی ظہر عصر اور شام عشاء نماز میں جمع ہوسکتی ہیں؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا حضر میں بغیر عذر شرعی ظہر عصر اور شام عشاء نماز میں جمع ہوسکتی ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حضر میں شرعی عذر کے بغیر ظہر او ر عصر اور اسی طرح مغرب اور عشاء کو جمع کرنا جائز نہیں ہے، قرآن حکیم میں ہے۔ اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَابًا مَّوْقُوْتًا(سورۂ نسائ) یعنی اہل ایمان پر اپنے وقتوں میں نماز پڑھنا فرض ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ شب معراج میں نماز فرض ہونے کے بعد دوسرے دن جبرائیل  علیہ السلام نماز کی تفصیل اور اس کے اوقات کی تعین کے لیے تشریف لائے اور آنحضرتﷺ کو دو دن جماعت کے ساتھ نماز پڑھائی، پہلے دن پچانوں نمازیں اوّل وقت پڑھائیں اور دوسرے دن بجز مغرب آخری وقت میں ، پھر فرمایا: اَلْوَقْتُ مَا بَیْنَ ھٰذَین۔ ہر نماز کا وقت وہ ہے جس میں وہ ان دونوں میں پڑھی گئی۔ نیز فرمایا: بِھَذَا اُمِرْتَ یعنی اس طرح آپ کو ہر روز اپنے اپنے وقت پر نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (مؤطا شریف مع زرقانی باب الوقت)

مذکورہ بالا آیت اور حدیث سے معلوم ہوا کہ حضر میں نماز اپنے اپنے وقت میں ادا کرنی چاہیے، بلا عذر دو نمازوں کو جمع کرنا درست نہیں، ہاں سفر، خوف، بارش اور مرض جیسے عذروں میں فقہائے محدثین کے نزدیک جمع کرنا جائز ہے۔ سفر میں آنحضرتﷺ سے صحیح احادیث میں تقدیم، تاخیر اور صوری تینوں طریق پر جمع کرنا ثابت ہے دوسرے عذروں کو اس پر قیاس کیا جاتا ہے۔ نیز بعض احادیث، صحابہ کرام اور سلف صالحین کے آثار سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے۔

کچھ لوگ حضر میں بوقت ضرورت بلا عذر شرعی دو نمازیں جمع کرکے پڑھنے کو جائز کہتے ہیں بشرطیکہ اس کو عادت نہ بنا لیا جائے اور اس کی دلیل میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی وہ روایت پیش کرتے ہیں جو جامع ترمذی اور حدیث کی دوسری کتابوں میں مروی ہے کہ آنحضرتﷺ نے مدینہ میں سفر بارش اور خوف جیسے شرعی عذروں کے بغیر ظہر اور عصر، مغرب اور عشاء کو جمع کرکے پڑھا جب ان سے پوچھا گیا کہ آنحضرتﷺ نے ایسا کیوں کیا؟ تو جواب دیا کہ آپﷺ چاہتے تھے کہ آپﷺ کی امت حرج اور تنگی میں مبتلا نہ ہو۔

لیکن مذکورہ بالا آیت اور احادیث مواقیت کے خلاف ہونے کی وجہ سے علمائے محققین نے اس حدیث کو جمع صوری سے محمول کیا ہے۔ یعنی آپ نے ظہر اور مغرب کو آخر وقت میں اور عصر اور عشا کو اوّل وقت میں پڑھا اس طرح دو نمازیں جمع بھی ہوگئیں اور اپنے اپنے وقت پر بھی پڑھی گئیں، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری اور علامہ شوکانی نے نیل الاوطار میں اسی کو ترجیح دی ہے اور اس سے نماز کو بغیر عذر شرعی اپنے وقت سے نکالنا بھی لازم نہیں آتا اور مختلف احادیث کے درمیان تطبیق بھی ہو جاتی ہے۔ مولانا عبدالرحمن صاحب مبارکپوری حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور علامہ شوکانی کا فیصلہ نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

وھذا الجواب ھو اولٰی الاجزیۃ عندی واقواھا واحسنھا فانہ یحصل بہ التوفیق والجمع بین مفترق الاحادیث واللّٰہ اعلم (تحفۃ الاحوذی ص۱۶۷،۱)

حافظ محمد اسحاق شیخ الحدیث مدرسہ تقویۃ الاسلام غزنویہ لاہور   

(الاعتصام لاہور)           

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 228

محدث فتویٰ

تبصرے