سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(142) کیا بارش کے روز نماز جمع کرکے پڑھنا جائز ہے؟

  • 4573
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 768

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا بارش کے روز نماز جمع کرکے پڑھنا جائز ہے۔ ایک مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ ایسے موقع پر نماز جمع کرکے پڑھنے کی بابت جتنی احادیث وارد ہوئی ہیں وہ سب ضعیف اور متروک العمل ہیں آپ اس مسئلہ کو قرآن و حدیث کی روشنی میں بالوضاحت حل فرما کر مشکور فرما ئیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بسم اللہ الرحمن الرحیم منتقی باب جمع المقیم للمطرا وغیرہ میں ہے۔ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللّٰہ عنھما ان النبی ﷺ صلّی بالمدیْنَۃِ سَبْعًا وَثَمَانِیًا الظھر والْعَصْرَ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَائَ متفق علیہ وفی لفظ لِلْجَمَاعَۃِ اِلاَّ البخارِی وابن ماجۃ جَمَعَ الظُّھْرَ وَالْعَصْرَ وَبَیْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَائِ بِالْمَدِیْنۃِ مِنْ غَیْرِ خَوْفٍ وَلَا مَطَر قِیْلَ لِاَبْنِ عَبَّاسٍ مَا اَرَادَہ بِذَالِکَ قَالَ اَرَاذَاَنْ لَا یحرجَ اُمَّتَہٗ۔

یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے مدینہ میں سات رکعتیں اور آٹھ رکعتیں پڑھیں یعنی ظہر و عصر کو اور مغرب و عشاء کو جمع کیا۔  (یہ حدیث بخاری و مسلم کی ہے)

بخاری اور ابن ماجہ کے علاوہ صحاح ستہ اور مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے خوف اور بارش کے بغیر ظہر اور عصر کی نماز اور مغرب اور عشاء کی نماز مدینہ میں جمع کرکے پڑھی۔

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ رسول اللہﷺ نے اس کا ارادہ کیوں کیا ہے؟ تو اس کے جواب میں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہﷺ نے اس کا ارادہ اس لیے کیا تاکہ آپﷺ اپنی امت کو تنگی میں نہ ڈالیں۔ یہ حدیث لکھ کر امام ابن تیمیہ صاحب منتقی میں فرماتے ہیں:

وھذا یدل بفجواہ علی الجمع للمطر والخوف وللمرض وانما خولف ظاھر منطوقہٖ فی الجمع لغیر عددٍ للاجماع ولاخبار المواقیت فتبقی فحواہ علی مقتضاہ وقد صح الحدیث فی الجمع للمستحاضۃ نوع مرض ولمالک فی الموطا عن نافع ان ابن عمر کان اذا جمع (۱) الامراء بین المغرب والعشائِ فی المطرجع معھم وللاثرم فی سنتہ عن ابی سلمۃ بن عبدالرحمن انہ قال من السنۃِ اذا کان یوم مطیر ان یجمع بین المغرب والعشائِ۔

۱:  امراء کا نمازوں کو جمع کرنا بارش میں مطلق دارد ہوا ہے، اسی طرح ابو سلمۃ بن عبدالرحمن کا قول بھی مطلق ہے۔ اس کو مقید کرنے کے لیے صریح نص کی ضرورت ہے۔ (سعید)

یہ حدیث اپنے مفہوم سے بارش، خوف، اور بیماری کی وجہ نمازوں کے جمع کرنے پر دلالت کرتی ہے۔ اور بغیر عذر کے جمع کرنے پر اس کے الفاظ دلالت کرتے ہیں۔ لیکن اجماع اور ان احادیث کی وجہ سے جن میں نمازوں کے اوقات مقرر کئے گئے ہیں۔ اس حدیث کا ظاہر چھوڑ دیا گیا ہے اور اس کا مفہوم اپنے تقاضا پر باقی رہے گا۔ یعنی بارش، خوف، اور بیماری کی وجہ سے جائز جمع جائز ہوگی۔

اور مستحاضہ کے لیے نمازوں کے جمع کرنے کی صحیح حدیث ثابت ہے۔ اور استحاضہ بیماری کی ایک قسم ہے اس سے بیماری کے لیے جمع کرنے کی تائید ہوتی ہے۔ اور مؤطا امام مالک رحمہ اللہ میں نافع سے روایت ہے کہ جب امراء مغرب اور عشاء کی نماز بارش کی وجہ سے جمع کرتے تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی ان کے ساتھ جمع کرتے اور امام اثرم رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں ابی سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت کیا ہے کہ جب بارش کا دن ہو تو مغرب و عشاء میں جمع کرنا یہ سنت میں سے ہے۔

یہ معلوم رہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اتباعِ سنت میں نہایت سخت تھے اور بہت محتاط رہتے تھے۔ اس کے باوجود ان کا امراء کے ساتھ نماز جمع کرنا یہ بہت بڑی دلیل ہے کہ جمع کرنا جائز ہے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں اور ابی سلمہ بن عبدالرحمن کا یہ کہنا کہ یہ ’’ سنت سے ہے۔‘‘ یہ بھی جمع کی مستقل دلیل ہے کیوں کہ سنت کا لفظ مرفوع کے حکم میں ہے۔ چنانچہ اصولِ حدیث کی کتابوں میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ اور اگر سنت صحابہ رضی اللہ عنہم سمجھی جائے تو بھی صحابہ کا عمل ثابت ہوگیا جو مفہوم حدیث کا مؤید ہے۔ خلاصہ یہ کہ بارش کی وجہ سے نماز جمع کرنے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔

نوٹ:

… سوال میں جو مذکور ہے کہ ان احادیث پر عمل متروک ہے، تو اس سے مراد اگر اجماعاً متروک العمل ہیں تو یہ غلط ہے۔ اس لیے ترمذی ملاحظہ ہو اس میں صاف یہ لفظ ہیں۔

ترمذی رحمہ اللہ امام بخاری رحمہ اللہ کے سب سے مشہور تلامذہ میں شمار ہوتے ہیں۔ اور مسلم و ابوداؤد اور ان کے شیوخ سے بھی روایت کرتے ہیں علم حدیث کی طلب میں بصرہ، کوفہ، واسط، رے، خراسان اور حجاز میں بہت سال گزارے۔ جامع ترمذی ان کی بہت مشہور اور مقبول تصنیف ہے۔ حفظ حدیث میں بے مثل اور امام بخاری رحمہ اللہ کے صحیح جانشین مشہور ہیں۔ ۱۷؍ رجب ۲۷۹ھ میں شب دو شنبہ کو خاص ترمذ میں امام ترمذی رحمہ اللہ کی وفات ہوئی۔  (سعیدی)

قال بعض اھل العلم (۱) یجمع بین الصلوتین فی المطروبہ یقول الشافعی واحمد واسحاق۔ اور اگر یہ مراد ہے کہ بعض اس پر عمل نہیں کرتے تو اس کا کوئی حرج نہیں، بعض کے عمل نہ کرنے سے حدیث نہیں چھوڑی جاسکتی۔ (ترمذی جلد اوّل باب ماجاء فی الجمع بین لصلوتین ص ۲۶) تنظیم اہل حدیث جلد ۱۵، ش ۲۶۔

۱:  ان تمام دلائل اور اقوال سے مطلق جمع تو ثابت ہو رہی ہے لیکن بارش وغیرہ میں جمع تقدیم کی تفصیل نہیں۔ لہٰذا بارش میں تقدیم کے لیے نص کی ضرورت ہے۔ تاکہ ان الصلوٰۃ کانت علی المومنین کتاباً موقوتاً کی تخصیص ہوسکے ورنہ احتمالات سے تخصیص جائز نہیں۔ (علی محمد سعیدی)

 


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 226-228

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ