سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(138) حضر میں نمازیں جمع کرنے کی حدیث صحیح ہے؟

  • 4569
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3141

سوال

(138) حضر میں نمازیں جمع کرنے کی حدیث صحیح ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حضر میں نمازیں جمع کرنے کی حدیث صحیح ہے؟ نیز اس جمع کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

امام ترمذی رحمہ اللہ کی شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ وہ اپنی جامع میں صرف معمول بہ روایات لائیں گے ، اگرچہ اہل علم کا مختصر گروہ ہی اس پر عمل کرتا ہو، البتہ دو احادیث اس شرط پر نہیں ہیں۔ ایک تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے مدینہ میں بغیر کسی خوف کے مغرب و عشاء اور ظہر و عصر اکٹھی پڑھیں۔ دوسری حدیث اِذَا شَرِبَ الْخَمَرَفَا جْلِدُوْہُ فَاِنْ عَادَ فِی الرَّابِعَۃِ فَاقْتُلُوْہٗیعنی شراب پینے والے کو درے لگاؤ البتہ اگر وہ چوتھی مرتبہ اس جرم کا مرتکب ہو تو اسے قتل کردو۔

جہاں تک مؤخر الذکر حدیث کا تعلق ہے اس کا نسخ تو خود آنحضرتﷺ سے ثابت ہے۔ چنانچہ اس حدیث کے بعد ترمذی رحمہ اللہ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا قول روایت کیا ہے کہ آپ کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے چوتھی مرتبہ شراب پی تھی آپﷺ نے اسے درّے لگوائے لیکن قتل نہیں کیا اسی طرح ابوداؤد اور ترمذی میں قبیصہ بن ذویب کی روایت میں ہے۔ ثُمَّ اُتی النَّبی ﷺ یَعْنِیْ فِی الرَّاِبعَۃِ  یعنی آپ نے کوڑے لگوائے لیکن قتل نہیں کیا۔ مسند احمد میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یوں روایت کرتے ہیں۔ فَاُتِیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ بِسُکْراَنَ فِی الرَّابِعَۃِ فخلی سَبِیْلَہٗ یعنی آپ چوتھی مرتبہ شراب پینے والا لیا گیا آپﷺ نے اسے چھوڑ دیا۔

اول الذکر حدیث بلا خوف ولا مطر کے الفاظ سے بھی مروی ہے۔ اور بلا خوف و لا سفر بھی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ تینوں الفاظ اکٹھے کسی حدیث میں بھی نہیں آئے۔ مشہور یہی ہے۔ بلا خوف ولا سفر، اس حدیث کے آخر میں ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے لوگوں نے پوچھا کہ اس طرح نمازیں جمع کرنے سے آپ کا کیا مقصد ہے تو انہوں نے کہا اس لیے کہ آپ کی امت تنگی محسوس نہ کرے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ روایت طبرانی اوسط کبیر میں اور ہیثمی مجمع الزوائد میں بایں الفاظ مروی ہے: جَمَع رسول اللّٰہ ﷺ بین الظھروا لعصر والمغرب والعشاء فقیل لہ فی ذلک فقال صنعت ذالک لئلا تحرج امتییعنی آپ نے ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو جمع کرکے پڑھا تو لوگوں نے سبب پوچھا فرمایا امت پر وسعت امر ظاہر کرنے کے لیے۔ اس روایت کی سند میں ابن عبدالقدوس کو ضعیف کہا گیا ہے۔ لیکن یہ ضعف قادح نہیں ہے اس لیے کہ اس لیے متعلق کہا جاتا ہے کہ ضعفاء سے روایت کرتا ہے یا یہ کہ شیعی تھا اور اس روایت میں اعمش سے روایت کرتا ہے کسی ضعیف سے نہیں جہاں تک تشیع کا تعلق ہے وہ اس وقت تک قادح نہیں ہے۔ جب تک ایسا خاص سے متجاوز نہ ہو، ساتھ یہ بھی واضح ہے کہ بخاری رحمہ اللہ نے اسے صدوق قرار دیا اور ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے لاباس بہ فرمایا۔ الغرض یہ حدیث جب مسلم وغیرہ میں مروی ہے۔ تو اس کی صحت میں شک نہیں۔

جو لوگ اس حدیث سے جمع کو مطلقاً جائز سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ جائز ہے بشرطیکہ عادت نہ بنا لے۔ فتح الباری میں ہے کہ ابن سیرین رحمہ اللہ، ربیعہ، ابن منذر اور فقال الکبیر کا یہی مذہب تھا۔ خطابی رحمہ اللہ نے بعض اہل حدیث کی طرف منسوب کیا ہے۔ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ بغیر کسی عزر کے جائز نہیں ہے۔ صاحبِ بحر ذخار نے بعض اہل علم کے حوالہ سے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ جمہور اس حدیث کے بہت سے جوابات دیتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ بوجہ مرض ایسا کیا۔ نووی رحمہ اللہ نے اسے قوی قرار دیا ہے لیکن حافظ فرماتے ہیں۔ یہ جواب درست نہیں اس لیے کہ ایسی صورت میں صرف آنحضرتﷺ کو نماز ادا کرنی چاہیے تھی۔ حالاں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے تصریح کی ہے کہ یہ نمازیں باجماعت ادا کی تھیں۔ یہ جواب بھی دیا گیا ہے کہ بادل چھائے ہوئے تھے ظہر کی نماز ادا کی، بادل ہٹا تو معلوم ہوا کہ عصر کا وقت ہوچکا ہے۔ تو عصر بھی ادا کی۔ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ احتمال ظہر و عصر میں تو ممکن ہے۔ لیکن مغرب و عشاء میں نہیں اس لیے یہ جواب بھی درست نہیں، حافظ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مغرب کا وقت معتمد ہے اس لیے یہ احتمال وہاں بھی موجود ہے۔

تیسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ یہ جمع صوری تھی۔ ظہر کو آخر وقت اور عصر کو اوّل وقت میں پڑھا۔ نووی رحمہ اللہ نے اسے بھی ضعیف اور باطل قرار دیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس جواب کو قرطبی نے پسند کیا ہے۔ امام الحرمین رحمہ اللہ نے اسے راجح قرار دیا ابن ماجشون اور طحاوی نے بھی پسند کیا۔ ابن سید الناس فرماتے ہیں کہ یہی جواب صحیح ترین ہے اس لیے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والا ابو الشعشاء اس کا ناقل ہے۔ شوکانی نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے۔ بدر تمام شرح بلوغ المرام میں ہے کہ اس حدیث سے جواز جمع پر استدلال کرنا درست نہیں اس لیے کہ اس میں تقدیم یا تاخیر کا یقین نہیں، کسی احتمال کو راجح قرار نہیں دیا جاسکتا۔ لہٰذا مقررہ اوقات سے بغیر عذر کے عدوں ممکن نہیں۔ البتہ مسافر کا ان احکام سے استثناء ثابت ہے یہی جواب بہتر ہے۔

بعض آثار صحابہ و تابعین سے بھی بعض لوگوں نے جمع مطلق پر استدلال کیا ہے۔ لیکن ان آثار سے حجت نہیں پکڑنی چاہیے اس لیے کہ اس مسئلہ میں اجتہاد کی گنجائش نہیں ہے۔

بعض لوگ اس جمع کو صوری کہتے ہیں۔ اس کا ثبوت حدیث میں ہے۔ نسائی کی روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے صراحۃً فرمایا:

صَلّیْتُ مَعَ رَسُوْلَ اللّٰہ ﷺ بِالْمَدِیْنَۃِ ثَمَانِیًا جَمْعًا وَّسَبْعًا جَمْعًا اَخّرَا لظَّھَر وَعَجَّلَ الْعَصْرَ وَاَخّرَ الْمَغْرِبَ وَعَجّلَ الْعِشَائَ۔

یعنی آپ کے ساتھ میں نے آٹھ رکعت بھی اکٹھی پڑھیں اور سات بھی وہ یوں کہ ظہر کو مؤخر کیا اور عصر کو مقدم اسی طرح مغرب کو ذرا دیر سے اور عشاء کو جلدی پڑھا۔

تعجب ہے کہ نووی رحمہ اللہ نے اس تاویل کو ضعیف قرار دیا حالاں کہ متن حدیث میں تصریح موجود ہے۔ ایک ہی قصہ میں اگر ایک روایت مطلق ہو اور دوسری مقید تو مطلق کو مقید بہ محمول کرنا چاہیے۔ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس حدیث کے کسی طریق میں بھی یہ مذکور نہیں کہ جمع کس وقت میں کی گئیں۔ اب یا تو اس کو مطلق رکھا جائے تو بغیر کسی عذر کے نماز کو اس کے وقت سے نکالنا لازم آتا ہے۔ یا اسے مقید و مخصوص سمجھا جائے اب یہ لازم نہیں ہے۔ لہٰذا احادیث میں تطبیق کی یہی صورت اولیٰ ہے کہ یہ جمع صوری تھی۔ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ جمع ہے کیوں کہ ہر نماز اصل میں اپنے وقت میں ہوئی، جیسے بخاری، امام مالک، نسائی اور ابوداؤد نے نقل کیا ہے۔

آپ نے مدینہ میں جو نمازیں جمع کرکے پڑھی ہیں تو اس راوی حدیث (ابن عباس رضی اللہ عنہ) کی تصریح بعض طرق میں موجود ہے کہ یہ جمع صوری تھی اس کی وضاحت ہم نے ایک مستقل رسالہ میں کی ہے۔ اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ بلا عذر نمازیں جمع کی جاسکتی ہیں یا نہیں۔ البتہ صحیح احادیث سے نمازیں وقت پر پڑھنے کا حکم ثابت ہے اور دوسرے اوقات میں پڑھنے سے نہی بھی وارد ہے۔ نیل الاوطار میں ہے۔ جمع صوری کے مؤیدات میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ روایت بھی ہے جسے بخاری، امام مالک، نسائی اور ابوداؤد نے نقل کیا ہے۔ مَا رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ صَلّٰی صَلٰوۃً لِغَیْرِ مِیْقَاتِھَا اِلاَّ صَلٰوتَیْنِ جَمَعَ بَیْنَ الْمَغْرب والْعِشَائِ بالمزدلفۃ وَصَلیَّ الْفَجْرَ یَوْمَئِذٍ قَبْلَ مِیْقَاتِھَاآنحضرت ﷺ نے صرف دو نمازیں وقت کے بغیر پڑھیں ایک مزدلفہ میں کہ مغرب و عشاء کو جمع کیا اور دوسرے اسی دن نمازِ فجر کو وقت سے پہلے پڑھ لیا۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ بھی مدینہ میں جمع کرنے کی روایت کے راویوں میں سے ہیں۔ اور یہاں فرما رہے ہیں آپﷺ نے صرف مزدلفہ میں نمازیں جمع کیں۔ ظاہر ہے ۔ تعارض سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے کہ مدینہ والی روایات کو جمع صوری پر محمول کیا جاوے۔ ابن جریر کہتے ہیں جمع صوری کی تائید ابن عمر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ فکان یوخر الظھر ویعجل العصر فیجمع بینھما ویؤخر المغرب ویعجل العشاء فیجمع بینھما (مسند عبدالرزاق) یعنی آپ ظہر کو مؤخر اور عصر کو مقدم کر لیتے اسی طرح مغرب کو مؤخر اور عشاء کو مقدم کرکے اکٹھی پڑھتے۔ ظاہر ہے یہ جمع صدی ہے۔ ان تمام روایات سے جمع صوری کے اقوال کو تقویت ملتی ہے۔ مزید برآں اصول کے مطابق لفظ جمع نمازوں کے اوقات کو شامل نہیں بلکہ اس سے مراد صرف ہیئت احتماعیہ ہے۔ چنانچہ اصول کی سب کتابوں مثلاً المنتہیٰ اور اس کی شرح الغایہ اور اس کی شرح میں ہے۔ اور یہ ہیئت اجتماعیہ ہر قسم کی جمع میں حاصل ہے۔ تقدیم ہو یا تاخیر اور خواہ صوری ہو۔ لیکن خیال رہے ان تین اقسام میں سے کوئی بھی باقی دو کو شامل نہ ہوگی۔ اس لیے ثابت شدہ اصول ہے کہ فعل مثبت میں عموم نہیں ہوتا۔ اب ہم ان تین صورتوں میں سے صرف ایک مراد لے سکتے ہیں۔ لیکن اس کی تعین دلیل کے ساتھ ہونی چاہیے۔ جمع صوری ہونے کے دلائل و مویذات (جیسا کہ ہم ذکر کرچکے ہیں) موجود ہیں۔ لہٰذا یہاں صرف ہی مراد لی جاسکتی ہے۔

اس کے بعد شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ترمذی نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث نقل کی ہے: مَنْ جَمَعَ بَیْنَ الصلوٰتین مِنْ غَیْرِ عُذْرٍ فَقَدْ اَلّی بَابًا مِنْ اَبْوَابِیعنی جس نے بلا عذر نمازوں کو جمع کرکے پڑھا اس نے کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا۔ یہ حدیث صحیح نہیں جیسا کہ خود ترمذی نے کتاب العلل میں لکھا ہے۔ اس روایت سے بھی معلوم ہوا کہ نماز وقت پر چاہیے اور عذر کے بغیر نماز جمع کرنا درست نہیں، پھر فرماتے ہیں ’’ واضح ہے یہ حدیث (جمع فی المدینہ) صحیح ہے جمہور کے اس پر عمل ترک کردینے سے اس کی صحت پر اثر نہیں آتا صرف استدلال ساقط ہے۔ اگرچہ ترمذی کے کلام سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ کسی نے بھی یہ مذہب اختیار نہیں کیا۔ لیکن کئی دوسروں نے بعض اہل علم کی طرف اس مذہب کو منسوب کیا ہے۔ اور مثبت کو ترجیح حاصل ہے۔ الغرض احادیث جمع میں صرف جمع صوری مراد ہے جسے تفصیل مطلوب ہو وہ ہمارا رسالہ ’’ تشنیف السمع بابطال اولۃ الجمع‘‘ پڑھے۔

امام علامہ ابو البرکات مجدالدین ابن تیمیہ رحمہ اللہ حرنی ’’ منتقی‘‘ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث نقل کرکے فرماتے ہیں۔ یہ حدیث اپنے الفاظ سے دلالت کرتی ہے کہ بارش، خوف یا بیماری کی وجہ سے نمازیں جمع کی جاسکتی ہیں۔ اس لیے کہ اس کے ظاہر (جمع بلا خوف ولا مطر) کے خلاف اجماع ہوچکا ہے۔ نیز اوقات کی احادیث بھی اس کے متعارض میں لہٰذا صرف مذکورۃ فی الصدر دلالت باقی رہ جاتی ہے۔ صحیح احادیث سے مستحاضہ کے لیے نماز جمع کرنا ثابت ہے۔ لیکن استحاضہ بیماری ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے مؤطا میں روایت کیا ہے کہ نافع فرماتے ہیں جب اُمراء مغرب اور عشاء کو بارش میں جمع کرتے تو ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی ان کے ساتھ جمع کرلیتے۔ اثرم نے اپنی سنن میں ابو سلمہ بن عبدالرحمن کا قول نقل کیا ہے کہ یہ سنت سے ہے کہ جب بارش ہو تو مغرب اور عشاء کو جمع کرکے پڑھا جائے۔

الغرض تمام دلائل کو سامنے رکھ کر یہ واضح ہوا کہ حضر میں بلا عذر جمع بین الصلوتین جائز نہیں اور آپﷺ نے جو جمع کی وہ صوری تھی جو اس جمع کا قائل ہے وہ بھی اسے عادت بنا لینے کو جائز نہیں کہتا۔ ثابت ہوا کہ جمہور کے مذہب پر عمل ہونا چاہیے۔ واللہ اعلم بالصواب الدلیل الطالب علی ارجح المطالب ص ۳۴۶ تا ص ۳۵۰

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 218-222

محدث فتویٰ

تبصرے