سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(132) جو لوگ ہمیشہ سفر میں رہتے ہوں جیسے جہاز کے سارنگ..الخ

  • 4563
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1106

سوال

(132) جو لوگ ہمیشہ سفر میں رہتے ہوں جیسے جہاز کے سارنگ..الخ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جو لوگ ہمیشہ سفر میں رہتے ہوں جیسے جہاز کے سارنگ یا خلاصی وغیرہ ان کو نماز قصر پڑھنی چاہیے یا پوری؟ بینوا توجروا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو لوگ ہمیشہ سفر میں رہتے ہوں، جیسے جہاز کے خلاصی وغیرہ و شرعاً مقیم نہیں ہیں۔ بلکہ مسافر ہیں، کیوں کہ وطن کی تین ہی قسمیں ہیں، وطن اصلی، وطن اقامت و وطن سکنی، فتح القدیر میں ہے:

الاوطان ثلثۃ وطن اصلی وھو مولد الانسان او موضع تأھل بہ ومن قصدۃ التعیش بہ لا الارتحال و وطن اقامۃ وھو ماینوی الاقامۃ فیہ خمسۃ عشر یوما و وطن سکنی وھو ما ینوی الاقامۃ فیہ اقل من خمسۃ عشر یوما۔

وطن تین ہیں، وطن اصلی یہ انسان کی رہائش کی جگہ ہے اور وطن اقامت، جہاں پندرہ دن سے زیادہ ٹھہرنے کا ارادہ ہو اور وطن سکنی یہ وہ جگہ ہے جہاں پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کا ارادہ ہو، اور مخفی نہیں کہ خلاصی وغیرہ ان تینوں اوطان سے خالی ہیں۔ پس بلاشبہ وہ مسافر ٹھہرے، پس احکام سفر ان پر لازم رہیں گے۔

و نیز احادیث و آیات قرآنیہ عام ہیں، چنانچہ آیت: واذا ضربتم فی الارض اور او کنتم علی سفر } میزان شعرانی میں ہے:

(۱) قال الائمۃ الثلاثۃ انہ الملاح اذا سا فرفی سفینۃ فیھا اھلہ ومالہ لہ القصر وقال احمد انہ لا یقصر وقال احمد کذلک المکاریٔ الذی یسافر دائما خالفہ فیہ الائمۃ الثلاثۃ ایضا فقالوا ان لہ الترخص بالقصر والفطر۔

۱:  ملاح جب کشتی میں اپنے اہل و عیال کے سمیت سفر کرے، تو تینوں اماموں کے نزدیک وہ قصر کرے۔ امام احمد قصر کے قائل نہیں ہیں۔ اور کرایے پر کام کرنے والا مثلاً گاڑیوں کے ڈرائیور اور جہازوں کے ملاح وغیرہ بھی اسی حکم میں ہیں۔

پس ثابت ہوگیا کہ دائم السفر کو بھی قصر کرنا چاہیے، چنانچہ تاجر جو ہمیشہ تجارت کے لیے سفر میں رہتے ہیں۔ مصنف ’’ ابن ابی شبیہ‘‘ میں ہے:

(۲) قال حدثنا وکیع عن الاعمش عن ابراھیم قال جاء رجل فقال یا رسول اللّٰہ انی رجل تاجر الختلف الی البحرین فامرہ ان یصلی رکعتین ھذا مرسل۔ واللّٰہ اعلم

حررہ محمد عبدالحق ملتانی ۴؍ ربیع الثانی ۱۳۱۸ھ سید محمد نذیر حسین

(فتاویٰ نذیریہ جلد اوّل ص ۵۵۶)



فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 212

محدث فتویٰ

تبصرے