سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(125) جس مسافت پر نماز قصر کی جاسکتی ہے اس کی صحیح مقدار کیا ہے؟

  • 4556
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 968

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جس مسافت پر نماز قصر کی جاسکتی ہے اس کی صحیح مقدار کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مسئلہ میں بہت اختلاف ہے۔ ابن منذر نے تقریباً بیس مختلف اقوال نقل کئے ہیں، سب سے کم مقدار جو ان اقوال میں ہے ایک دن اور ایک رات کی مسافت ہے۔ بعض اہل علم کی رائے ہے کہ ایک دن کی مسافت قصر کے لیے کافی ہے۔ بعض ایک (برید) اور بعض ایک میل قرار دیتے ہیں۔ ابن ابی شیبہ کی روایت کے مطابق ابن عمر رضی اللہ عنہ کا مسلک یہی ہے ابنِ حزم بھی اسی رائے کے حاملین سے ہیں۔ کوئی تین میل اور بعض تین فرسخ کے قائل ہیں اسی طرح اس مسئلہ میں بیس سے کہیں زیادہ قول ہیں، ابن حزم رحمہ اللہ نے اس مسئلہ میں صحابہ تابعین اور ائمہ کے بہت سے اقوال نقل کیے ہیں لیکن ہم صرف راجح کا ذکر کرنا چاہتے ہیں ۔

بعض لوگوں نے آنحضرتﷺ کے اسفار سے استدلال کیا ہے اور بعض نے ان احادیث سے کہ لایحل لامرأۃ تؤمن باللّٰہ والیوم الاخران تسافر مسیرۃ یوم ولیلۃ الاومعھا ذو محرم اخرجہ الجماعۃ الانسائیکہ کسی مسلمان عورت کے لیے حلال نہیں کہ ایک دن رات سفر کسی ذو محرم کی رفاقت کے بغیر کرے، نیز یہ کہ لاتسافر المرأۃ ثلثلۃ ایام الامع ذی محرم (البخاری) یعنی عورت تین دن کا سفر بغیر محرم کے نہ کرے۔ ابوداؤد میں ہے: لا تسافر المرأۃ بریدًا۔ لیکن کسی روایت میں بھی دلیل نہیں ہے۔ آنحضرتﷺ کے اسفار سے دلیل اس لیے نہیں لی جاسکتی کہ ان میں سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس سے کم مسافت پر قصر جائز نہیں ہے اور جن احادیث میں عورت کو بغیر محرم سفر کے روکا گیا ہے ان میں زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوگا کہ اس حدیث میں ’’سفر‘‘ تین دن کے سفر کو قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک دن اور ایک برید کی روایات بھی۔ ان سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس سے کم مقدار میں قصر جائز نہیں ہے۔ نیز اس حدیث میں یہ بتانا مقصود ہے کہ عورت ذو محرم کے علاوہ سفر نہ کرے، قصر نماز کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ طبرانی میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: اہل مکہ لا تقصروا فی اقل من اربعۃ برد من مکۃ الی عسفان کہ اے اہل مکہ چار برید سے کم مسافت میں قصر نہ کرو، اور یہ مکہ سے عسفان تک ہے۔ اگر یہ روایت صحیح ہوتی تو واضح دلیل ہوتی لیکن اس کی سند میں عبدالوہاب بن مجاہد بن جبیر ہے اور وہ متروک ہے۔ بعض اسے وضاع بھی کہتے ہیں۔ ازدی کا قول ہے اس سے روایت بیان کرنا جائز نہیں۔ اس سے اسمٰعیل بن عیاش نے روایت کی ہے۔ اوروہ حجازیوں سے روایت کرنے میں ضعیف ہے اور عبدالوہاب حجازی ہے۔ یہ روایت امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کے مطابق موقوف ہے۔ مسلم، مسند امام احمد اور سنن ابی داؤد میں شعبہ کے طریق سے یہ روایت مروی ہے۔ عن یحي بن یزید قال سالت عن قصر الصلٰوۃ فقال کان رسول اللّٰہ ﷺ اذا خرج مسیرۃ ثلاثۃ امیال او ثلثۃ فراسخ صلی رکعتین۔ یعنی جب آپ تین میل یا تین فرسخ کا سفر کرتے تو قصر فرماتے، تردد شعبہ کو ہوا۔ بہتر یہ ہے تین فرسخ مراد لے لیے جائیں کہ اس میں تین میل بھی آجاتے ہیں جو لوگ اس مسافت کے قائل نہیں ہیں وہ کہتے ہیں کہ اتنی مسافت طے کرنے کے بعد قصر شروع کرنی چاہیے یہ انتہائے مسافت نہیں ہے۔ لیکن یہ درست نہیں اس لیے یحییٰ بن یزید نے انس رضی اللہ عنہ سے جواز قصر کی مسافت پوچھی تھی۔ ابتدائی نہیں۔ یہی مقدار درست معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے کہ آپﷺ نے بقیع کا سفر کیا کہ قبروں کو دیکھیں اس سفر میں آپﷺ نے قصر نہیں کی۔ شعبہ بن منصور نے ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے:

قال کان رسول اللّٰہ ﷺ اذا مسافر فرسخا لقصر الصلوٰۃ۔

یعنی ایک فرسخ پر قصر فرماتے اگر اس روایت کی صحت ثابت ہو جائے تو اسے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت پر مقدر سمجھا جائے لیکن مسند سعید بن منصور موجود نہیں۔

اب یہ جاننا چاہیے کہ جب مسافر کے اپنی بستی یا شہر کے نکلنے کے بعد نماز بروقت ہو جائے تو وہ قصر کرے خواہ ابھی وہ اتنی دور گیا ہو کہ بستی میں پتھر پھینک سکتا ہو اس لیے کہ وہ مسافر ہے اسی طرح واپس بستی یا شہر میں داخل ہونے تک قصر کرتا رہے۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک ایک میل کا سفر طے نہ کرلیں قصر نہ کریں گے، لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں۔

ممکن ہے کوئی کہے کہ صرف چلنے کو لغت میں سفر نہیں کہتے، بلکہ اسے مسافر کہتے ہیں جو اپنا سامان باندھے اور عصا کندھے پر رکھ کر چلے اسے مسافر کہتے ہیں اس کا جواب یہ ہے کہ مسئلہ لغت کا نہیں شریعت کا ہے۔ آنحضرتﷺ نے اس سے کم مسافت میں قصر نہیں پڑھی۔ اگر مسئلہ لغت ہی سے حل کرنا ہے تو اہل عرب ایک دو یا تین چار میل کو سفر نہیں کہتے، بلکہ وہ اپنے ریوڑ چراتے ہوئے اس سے کہیں زیادہ مسافت طے کرلیتے ہیں اور اسے سفر نہیں کہتے۔ اسی طرح ایک دوسرے کو ملنے کے لیے اسی طرح مسافتیں طے کرتے لیکن اسے سفر نہ کہتے اور سامان باندھ کر اور عصا کندھے پر رکھ کر آئیں یا جاتے ہوں۔ بہرحال بنیاد اس مسئلہ میں دلیل شرعی پر ہی ہوسکتی ہے۔

آنحضرتﷺ سے ثابت ہے کہ جب آپﷺ کا سفر تین فرسخ یا اس سے زیادہ ہوتا تو باہر آکر قصر کرلیتے چنانچہ ثابت ہے کہ آپﷺ ظہر کی چار رکعتیں پڑھ کر مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے اور عصر کی نماز بمقام ذی الحلیفہ قصر پڑھی۔ حالاں کہ یہ فاصلہ چھ میل ہے۔ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس مسافت پر بھی قصر جائز ہے کیوں کہ ذوالحلیفہ منزل نہ تھی، منزل مقصود مکہ تھا۔

تین فرسخ کی حدیث سے یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ یہ ابتداء سفر ہے۔ بلکہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس مسافت پر آپ قصر کیا کرتے تھے لفظ کان اسی پر دلالت کرتا ہے۔ حدیث کے الفاظ میں تردد ہے کہ تین میل یا تین فرسخ تو احتیاط اسی میں ہے کہ فرسخ مراد لیے جائیں۔ شوکانی رحمہ اللہ دبل الغمام میں فرماتے ہیں ’’ اس مسئلہ میں مراد وہ مسافت لی جائے گی، جس پر شرعاً لغۃ اور عرفاً لفظ سفر کا اطلاق ہو۔ دارقطنی کی روایت اہل مکہ لا تقصروا فی اقل من اربعۃ برد ضعیف ہے۔ اس سے دلیل قائم نہیں ہوسکتی۔ واللہ اعلم

(دلیل الطالب ص ۳۷۶ تا ص ۳۷۹)

 


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 208-211

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ