سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(122) سفر میں نماز قصر کرنا صرف جائز ہے یا واجب؟

  • 4553
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 3352

سوال

(122) سفر میں نماز قصر کرنا صرف جائز ہے یا واجب؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سفر میں نماز قصر کرنا صرف جائز ہے یا واجب؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

علمائے سلف و خلف میں سے بہت سے وجوب قصر کے قائل ہیں، خطابی رحمہ اللہ معالم میں فرماتے ہیں اکثر علماء سلف اور فقہاء عصر کا خیال ہے کہ یہ واجب ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ، عمر رضی اللہ عنہ ، ابنِ عمر رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کے علاوہ عمر بن عبدالعزیز قتادہ رحمہ اللہ و حسن رحمہ اللہ سے بھی یہی مروی ہے۔ حماد بن سلیمان رحمہ اللہ تو اس قدر فرماتے ہیں اگر سفر میں کوئی چار رکعت پڑھ لے تو وہ دوبارہ نماز پڑھے۔ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر وقت باقی ہے تو دھرا لے۔ نووی نے بھی بہت سے اہل علم کی طرف اسے منسوب کیا ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس کی رخصت کے قائل ہیں، ابن عباس رضی اللہ عنہ (ایک روایت میں) شافعی رحمہ اللہ اور احمد رحمہ اللہ کا بھی یہی خیال ہے نووی نے اس فعل کو بھی اہل علم کے ایک گروہ کی طرف منسوب کیا ہے۔

 

قائلین وجوب کے دلائل میں سے صحیحین کی یہ حدیث ہے ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں صحبت النبی ﷺ وکان لا یزید فی السفر علی رکعتین وابابکر و عمر و عثمان یعنی میں آنحضرتﷺ کے ساتھ رہا آپﷺ سفر میں دو رکعت سے زیادہ نہ پڑھتے تھے اسی طرح ابوبکررضی اللہ عنہ، عمر رضی اللہ عنہ و عثمان رضی اللہ عنہ کا عمل تھا۔ لیکن اس حدیث سے استدلال درست نہیں صرف مداومت سے وجوب ثابت نہیں ہوتا۔

دوسری دلیل یہ حدیث ہے:

فرضت الصلوٰۃ رکعتین فاخرت صلوٰۃ السفر واتمت صلوٰۃ الحضر۔

(متفق علیہ)

جیسا کہ پہلے صرف دو رکعت نماز فرض ہوئی، پھر حضر میں چار رکعتیں کردی گئیں لیکن سفر میں وہی دو رکعت ہی فرض رہی، یہ استدلال یوں ہے کہ حضر میں چار رکعت سے زیادہ پڑھنا جس طرح ناجائز ہے اسی طرح سفر میں دو رکعت سے زیادہ پڑھنا ناجائز ہے۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے اور وہ فرضیت نماز کے وقت حاضر نہ تھیں۔ یہ جواب اتنا عمدہ نہیں ہے اس لیے کہ یہ ایسا معاملہ ہے جس میں اجتہاد کو دخل نہیں، لہٰذا یہ مرفوع حکمی میں داخل ہے۔ نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بوقتِ فرضیت نماز حاضر نہ ہونا قادح نہیں اس لیے کہ انہوں نے کسی صحابی ہی سے سنا ہوگا۔ اور مراسیل صحابہ باجماع اہل اصول حجت ہیں۔ اسی دلیل پر یہ اعتراض بھی ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت سے متعارض ہے۔ روایت یوں ہے:

فرضت الصلوٰۃ فی الحضر اربعا وفی السفر رکعتین۔ (مسلم)

یعنی حضرت میں چار اور سفر میں دو رکعتیں فرض ہیں۔

اس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث اور اس سے پہلی حدیث میں تطبیق ممکن ہے کہ شبِ معراج تو دو رکعت ہی فرض ہوئی لیکن بعد میں زیادہ کردی گئی۔ چنانچہ ابن حبان ابن خزیمہ اور بیہقی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:

فرضت الصلوٰۃ فی الحضر والسفر رکعتین رکعتین فلما قدم النبی ﷺ المدینۃ واطمان زید فی صلوٰۃ الحضر وترکت صلوٰۃ الفجر لطول القرأۃ وصلوٰۃ المغرب لانھا وتر النھار۔

یعنی سفر وحضر میں دو رکعتیں فرض تھیں جب آپﷺ مدینہ میں تشریف لائے اور امن ہوگیا تو حضر میں نماز کی رکعتیں بڑھا دی گئیں، نماز فجر ا سی طرح رہی کیوں کہ اس کی قرأۃ لمبی ہوتی ہے اور نماز مغرب دن کے وتر ہیں۔

رخصت کے قائلین اس حدیث کا معنی یہ کرتے ہیں: فرضت بمعنی قدرت یہ لیکن یہ تاویل تکلف محض ہے، نیز حدیث کا دوسرا حصہ فاقرت فی السفر وزیدت فی الحضر اس کی نفی کرتا ہے۔ نووی کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جو قصر کرنا چاہے اس پر یہی فرض ہے لیکن یہ پہلے سے بھی زیادہ تکلف ہے۔

قائلین وجوب کی تیسری دلیل مسلم کی یہ روایت ہے:

عن ابن عباس قال اِن اللّٰہ فرض الصلٰوۃ علی لسان نبیکم ﷺ علی المسافر رکعتین وعلی المقیم اربعا والخوف رکعۃً۔

یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے ذریعے سے مسافر پر دو رکعتیں فرض کی ہیں اور مقیم پر چار اور بحالت خوف صرف ایک رکعت۔

اس حدیث میں تصریح ہے کہ بحالت سفر فرض ہی دو رکعت ہے اللہ کی فرض کی ہوئی رکعات پر زیادتی درست نہیں۔

چوتھی دلیل ان کی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جو نسائی میں ہے:

صلوٰۃ الاضحٰی رکعتین وصلوٰۃ الفجر رکعتین وصلوٰۃ المسافر رکعتین تمام غیر قصر علی لسان محمدٍ ﷺ۔

اس حدیث کے رجال صحیح بخاری کے ہیں اس میں تصریح ہے کہ مسافر کی نماز دو رکعت ہی ہے اور یہ قصر نہیں بلکہ مکمل ہے۔

پانچویں دلیل ابن عمر رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ہے: ارنا ان نصلی رکعتین فی السفر(النسائی) یعنی ہمیں سفر میں دو رکعت پڑھنے کا ہی حکم ہے۔ اور قصر کو جو واجب نہیں سمجھتے ان کی پہلی دلیل یہ آیت ہے: { لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحُ اَنْ تقصرُوْ مِنَ الصَّلٰوۃِ} تم پر گناہ نہیں اگر تم نماز قصر کرلو۔ یہ الفاظ رخصت پر دلالت کرتے ہیں وجوب پر نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ آیت صلوٰۃ الخوف سے متعلق ہے، قصر دو چیزوں میں ہے۔ تعداد رکعات میں اور ارکان میں اسی طرح اس کا نقص بھی دو چیزوں سے ہے ضرب فی الارض (سفر) اور خوف ہونگے تو ارکان میں بھی قصر ہوگا اور تعداد رکعات میں بھی۔ اگر خوف بحالت اقامت ہو تو تعداد مکمل رہے گی۔ لیکن ارکان میں قصر ہوگا۔ اسی طرح جب سفر ہو لیکن خوف نہ ہو اس وقت قصرِ تعداد ہوگا، لیکن ارکان مکمل ادا کئے جائیں گے، ظاہر ہے یہ آیت صلوٰۃ الخوف کے متعلق ہے اس میں قصر عدد کا ذکر نہیں بلکہ قصرِ ارکان کا ذکر ہے۔

قائلین رخصت کی دوسری دلیل مسلم اور سن کی یہ روایت ہے:

عن یعلی بن امیۃ قال قلت لعمر بن الخطاب فلیس علیکم جناح ان تقصروا من الصلوٰۃ ان خفتم ان یفتنکم الذین کفروا فقد امن الناس فقال عجبت مما عجت منہ فسألت رسول اللّٰہ ﷺ فقال صدقۃ تصدق اللّٰہ بھا علیکم فاقبلو صدقتہ۔

یعنی انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا اللہ تعالیٰ نے بحالت خوف نمازِ قصر کرنے کی اجازت دی تھی، اب تو امن ہوچکا اب قصر کرنے کی کیا ضرورت ہے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا مجھے بھی یہی تعجب ہوا تھا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا یہ تو صدقہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم پر کیا ہے، اس کا صدقہ قبول کرو۔

اس سے استدلال یوں ہے کہ صدقہ کے الفاظ دلالت کرنے میں واجب نہیں لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ امر وجوب کے لیے ہوتا ہے اور آنحضرتﷺ فرماتے ہیں: فاقبلوا صدقتہ اللہ کا صدقہ قبول کرو۔ اس لیے یہ دلیل ان کے خلاف جاتی ہے۔ تیسری دلیل ان کی یہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے ایک دفعہ آنحضرتﷺ کے ہمراہ سفر کیا۔ بعض نے روزہ رکھا بعض نے افطار کیا، بعض نے نماز قصر کی بعض نے پوری پڑھی کسی نے دوسرے پر اعتراض نہ کیا۔ نووی نے شرح مسلم میں لکھا ہے کہ یہ حدیث مسلم کی طرف منسوب کی جاتی ہے لیکن ہمیں اس میں نہیں ملی، اس کا جواب یوں ہے کہ اس حدیث میں ذکر نہیں کہ آنحضرت کو بھی اس امر کی اطلاع تھی۔ اس کے برعکس آپ کے اقوال و افعال اس کے خلاف موجود ہیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جب منا میں پوری نماز پڑھی تو کئی صحابہ رضی اللہ عنہم اس پر معترض ہوئے۔

قارئین رخصت کی چوتھی دلیل نسائی، دارقطنی اور بیہقی کی یہ روایت ہے:

عن عائشۃ قالت خرجت مع النبی ﷺ فی عمرۃ فی رمضان فافطر و صمت و قصروا تمعت فقلت بابی و امی افطرت وصمت وقصرت واتممت فقال احسنت یا عائشۃ قال الدارقطنی ھذا اسنادہ حسن۔

یعنی حضرت عائشہ فرماتی ہیں میں آنحضرتﷺ کے ساتھ رمضان میں عمرہ کے لیے روانہ ہوئی، آپ نے روزہ نہ رکھا میں نے رکھا، آپﷺ نے نماز قصر ادا کی اور میں نے پوری نماز پڑھی، پھر آپ سے دریافت کیا تو فرمایا تو نے اچھا کیا اے عائشہ رضی اللہ عنہا اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی سند میں علی بن زہر بن عبدالرحمن بن یزید بن الاسود نخعی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتا ہے اور اس کے متعلق ابن حبان کہتے ہیں ثقات سے نہیں، البتہ ابن معین نے اسے ثقہ قرار دیا ہے اس کے علاوہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس کا سماع بھی مختلف ہے۔ دارقطنی کہتے ہیں وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس اس وقت گیا جبکہ ابو حاتم کا قول ہے کہ اس کی حضرت عائشہ کے پاس حاضر بحالت صغر سنی ہوئی۔ اُس نے اُن سے کچھ بھی نہیں سنا۔ ابوبکر نیشاپوری کہتے ہیں اس کا عن عائشہ رضی اللہ عنہا کہنا غلط ہے۔ اس کے باوجود دارقطنی نے سنن میں اس اسناد کو حسن قرار دیا۔ بدر منیر میں ہے کہ اس حدیث کا متن منکر ہے۔ اس لیے کہ آنحضرتﷺ نے چار عمرے کیے ان میں سے رمضان میں کوئی بھی نہیں ہے۔ اس کے برعکس اس روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رمضان میں عمرہ کے لیے روانہ ہوئیں۔ آپ کے چاروں عمرے ذوالقعدہ میں ہیں، البتہ جو عمرہ آپ نے حج کے ساتھ کیا اس کا احرام ذوالقعدہ میں باندھا لیکن اسے ذوالحجہ میں کیا۔ شوکانی فرماتے ہیں بعض اہل علم نے اس حدیث کی توجیہات بیان کی ہیں، لیکن یہ توجیہات سے زیادہ تاویلات ہیں۔ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ ھذا الحدیث لا خیر فیہ ابن جوزی رحمہ اللہ نے آپ کی تردید کرنا چاہی ہے مگر کر نہیں سکے۔ الہدی میں ہے: ابن قیم نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر جھوٹ باندھا گیا ہے۔

ان کی پانچویں دلیل دارقطنی کی یہ روایت ہے:

عن عائشۃ ان النبی ﷺ کان یقصر فی السفرویتم ویفطر ویصوم۔

یعنی آنحضرتﷺ سفر میں قصر بھی کرتے تھے کبھی پوری بھی پڑھ لیتے تھے، اسی طرح کبھی روزہ رکھتے لیکن افطار بھی کرلیتے۔ دارقطنی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ امام احمد نے اس حدیث کو منکر قرار دیا۔ چنانچہ صاحب التلخیص نے اس کا ذکر کیا ہے۔ اس کے بعد لکھتے ہیں وصحتہ بعیدۃ کہ اس کا صحیح ہونا بعید از امکان ہے۔ اس لیے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد نماز پوری پڑھنی شروع کی۔ عروہ کہتے ہیں کہ انہوں نے بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرح تاویل کی۔ اگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس کوئی مرفوع روایت ہوتی ت عروہ اسے نہ کہتے۔ الہدی میں منقول ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اسے بھی کذب علی رسول اللہﷺ قرار دیا۔ الغرض اس طرح کی ضعیف روایات قائلین وجوب کے دلائل کے معارض ہونے کے قابل نہیں۔ تحقیق یہی ہے کہ قصر واجب ہے۔ رخصت نہیں۔ چنانچہ شوکانی و بل الغمام میں لکھتے ہیں۔ حق بات یہی ہے کہ قصر واجب ہے۔ احادیث کا مقتضی یہی ہے۔

قصر نماز اس طرح ہوتی ہے کہ چار رکعت کی جگہ دو رکعت پڑھے۔ مغرب میں شارع علیہ السلام نے قصر نہیں کیا۔ شوکانی فرماتے ہیں ’’ یہ امر کسی دلیل کا محتاج نہیں اس لیے کہ اس پر اجماع ہوچکا ہے۔ اور ہر ایک مسلمان یہ جانتا ہے، یہ نماز قصر سفر کی ہے، رہی صلوٰۃ الخوف تو احادیث میں ایک رکعت بھی وارد ہے۔

بظاہر دلائل سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ قصر اور افطار کے مسئلہ میں سفرِ معصیت اور سفر اطاعت میں فرق نہیں، شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں قصر کے دلائل افطار کے دلائل سے عام ہیں۔ اس لیے کہ قصر واجب ہے اور شریعت نے صرف مطیع کو ہی حکم نہیں دیا بلکہ عاصی بھی اس حکم میں شامل ہے۔ البتہ افطار (روزہ نہ رکھنا) رخصت ہے واجب نہیں۔ یہ اصل میں صرف مطیع کو ہی حاصل ہو۔ اگرچہ بظاہر عام ہے۔ اس لیے قصر کو افطار پر قیاس کرنا درست نہیں۔ واللہ اعلم 

(الدلیل الطالب ص ۳۷۹)

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 203-207

محدث فتویٰ

تبصرے