سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(121) کیا عورتوں کو عید گاہ میں جانا ضروری ہے؟

  • 4552
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 1688

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا عورتوں کو عید گاہ میں جانا ضروری ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اُم عطیہ فرماتی ہیں کہ ہمیں رسول اللہﷺ کی طرف سے حکم دیا گیا کہ حیض والیوں پر وہ والیوں کو بھی عیدین میں نکالیں تاکہ مسلمانوں کی دعا اور جماعت میں شامل ہو جائیں۔ لیکن حائضہ عورت نماز کی جگہ سے الگ رہے۔ ایک عورت نے کہا یا رسول اللہﷺ! بعض دفعہ ہم سے کسی کے پاس چادر نہیں ہوتی، تو فرمایا اس کی سہیلی اپنی چادر سے اُس کو پہنا دے۔  (مشکوٰۃ)

اس سے ظاہر ہے کہ عورتیں ضرور عیدین میں پردے کے ساتھ شامل ہوں۔ لیکن خوشبو وغیرہ نہ لگائیں اور زینت بھی ظاہر نہ کریں۔ یہ سنت بھی متروک ہے اس پر عمل کرنا چاہیے۔

(فتاویٰ اہل حدیث جلد دوم ص ۳۹۳)

فتویٰ میر واعظ پنجاب

فی حضور النساء فی العیدین بالحجاب

الحمد للّٰہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علی سید المرسلین۔

اما بعد! پس فرمایا اللہ جل شانہ نے یہ آیۃ شریفہ پہلے پارہ میں ہے۔ {وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسَاجِدَ اللّٰہِ اَنْ یُّذِکَرَ فِیْھَا اسْمُہٗ۔} تفسیر جلالین و مدارک میں ’’ ای لا احد اظلم‘‘ کے معنی میں ’’ اکفر وابغی ‘‘ لکھا ہے۔ یعنی بہت بڑا کافر اور بڑا سرکش ہے اس سے زیادہ اور کوئی نہیں ہے جو اللہ کی مسجدوں سے کسی کو نماز پڑھنے سے روکے۔ اللہ جل شانہ نے جمع کے لفظ سے ارشاد فرمایا ہے۔ خواہ عید گاہ یا جامع یا کوئی مسجد ہو، نماز کے واسطے جو کوئی آوے مرد ہو یا عورت عید کی نماز ہو یا جمعہ کی یا فجر یا عشاء کی ہو۔ روکنے والا اللہ جل شانہ اور رسول  علیہ السلام کا بہت دشمن ہوگا۔ حدیثیں تو بہت ہیں مگر اس وقت چار پانچ پر کفایت کیا جاتا ہے۔

صحیح بخاری اور مسلم میں ہے۔ عن ابن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما قال قال رسول اللّٰہ ﷺ لو اشاذنت امرٔۃ حدکم الی المسجد فلایمنعھا متفق علیہ۔ یہ ارشاد رسول اللہﷺ کا واسطے امر وجوب کے ہے۔ یعنی جب عورت مسجد میں نماز پڑھنے کے واسطے اذن مانگے، تو مرد پر واجب ہے کہ اذن دے اگر نہیں دے گا، تو گنہگار ہوگا۔ اور خاص کر عید کی نماز کے لیے تو سخت تاکید ہے۔ جیسا کہ اُم عطیہ  رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہمیں رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ہم عیدین میں حائضہ اور پردے والی عورتوں کو لیجایا کریں۔ وہ مسلمانوں کی جماعت اور ان کی دعا میں شریک رہیں۔ ایک عورت نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہم میں سے بعض کے پاس چادر نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا اُس کو اُس کے ساتھ والی عورت اپنی چادر میں لیجاوے۔ روایت کیا اس کو بخاری اور مسلم نے ۔

(۲) رسول اللہﷺ تمام کنوری اور نوجوان اور پردے والیوں کو اور حیض والوں کو عید گاہ میں لے جایا کرتے تھے۔

(۳) حضرتﷺ اپنی صاحبزادیوں اور بیویوں کو عیدین میں لے جایا کرتے تھے۔

(۴) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ کو فرمایا حضرتﷺ نے ایک جماعت عورتوں کی طرف بھیجا کہ تم عیدین میں حائضہ عورتوں اور جوان لڑکیوں کے ساتھ آیا کرو۔

(۵) حضرتﷺ عید کی نماز کے بعد پہلے مردوں کو پیچھے عورتوں کو خطبہ سناتے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں کہ ہر عورت پر عیدین گاہ جانا واجب ہے۔  (رواہ ابن ابی شیبہ)

اور علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہر ایک عورت پر جس کے پاس چادر ہو، عید گاہ جانا واجب ہے (رواہ ابوبکر فی مصنفہ) اور ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنی تمام عورتوں اور بال بچوں کو عیدین میں عید گاہ لیجایا کرتے تھے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری شرح صحیح البخاری میں اس مسئلہ پر تمام صحابہ کا اجماع نقل کرتے ہیں۔ امام علقمہ اور اسود دونوں اپنی عورتوں کو عید گاہ لے جایا کرتے تھے۔ ابن جریج نے حضرت عطا تابعی سے کہا کہ کیا آج کل بھی امام کے ذمہ ضروری ہے کہ مردوں کو خطبہ سنا کر پھر عورتوں کے پاس آکر انہیں سنائے؟ انہوں نے کہا قسم ہے کہ اُن پر واجب ہے۔

اور نہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کسی عورت کو منع کیا ہے۔ ہاں سب مردوں کو چاہیے کہ اپنے اپنے گھروں میں تاکید سے کہہ دیں کہ عورتیں زیب و زینت اور عطر وغیرہ سے معطر ہو کر نہ جائیں۔ سیدھے سادے لباس میں جائیں۔ اور بعض فقہاء نے جو منع کیا ہے تو اللہ اور رسول علیہ السلام اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے حکم کے مقابلہ میں اُن کے قول پر عمل کرنا گناہ ہے۔ وما علینا الا البلاغ :

ہمارا کام سمجھانا ہے یارو

اب آگے چاہو تم مانو نہ مانو

راقم محمد علی واعظ عفاء اللہ عنہ۔ محلہ قلعہ خراسیاں۔ امرتسر

الحمد للہ و سلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ: مولانا محمد علی صاحب میر واعظ سلمہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ عورتوں کے عید گاہ جانے اور اہل اسلام کی صلوٰۃ و دعا میں شریک ہونے کے بارے میں لکھا ہے۔ بہت صحیح ہے اور احادیث صحیح اس پر شاہد عدل ہیں۔ ’’ اذا جاء نھر اللہ نھر معقل‘‘ جس کام کو رسول اللہﷺ نے جاری کیا، سلف صالحین کا اس پر عملدرآمد رہا۔ اب کسی کی کیا مجال کہ چون و چرا کرے۔ ابو سعید محمد شرف الدین مدرس اوّل مدرسہ ریاض العلوم ہے ۔ الجواب صحیح السید ابو الحسن عفی عنہ۔ الجواب صحیح محمد بن ابراہیم مدرس مدرسہ محمدیہ اجمیری دروازہ دہلی۔ الجواب صحیح العاجز عبداللہ پشاوری۔ الجواب صحیح بندہ غلام اکبر اگروہی ضلع حصار۔ الجواب صحیح عبدالرزاق مالدہی۔ الجواب صحیح عبدالمجید۔ جو کچھ اس میں لکھا ہے وہ صحیح ہے۔ محمد عبدالرحمن مدرس مدرسہ مسجد علی خان۔ الجواب صحیح نجم الدین راجشاہی۔ الجواب صحیح امجد علی عفی عنہ بسوی، الجواب صحیح عبدالرشید عفا عنہ الحمید مدرس مدرسہ محتسب۔ الجواب صحیح حررہ عبدالستار کلانوری (مفتی) مدرس مدرسہ حمیدیہ عربیہ موری دروازہ دہلی۔ الجواب صحیح حررہ العاجز ابو محمد عبدالوہاب المہاجر امام جماعت غرباء اہل حدیث دہلی۔ الجواب صحیح حررہ احمد سلمہ الصمد مدرس مدرسہ حاجی علی خان۔ الجواب صحیح عبدالرحمن بن علی بن حسن العربی آل علی ساکن مسجد مولانا نذیر حسین۔ الجواب صحیح ابو محمد عبید اللہ مدرس مدرسہ کشن گنج۔

نیز فتاویٰ نذیریہ اسم معروف سید محمد نذیر حسین صاحب رحمہ اللہ محدث دہلوی۔ جلد پہلی صفحہ ۳۷۷ میں اس مسئلہ کو بڑے زور و شور سے ثابت کیا ہے کہ عورتوں کو عیدین کی نماز کے لیے عید گاہ میں جانا ضروری نہایت مؤکدہ ہے اور اس فتویٰ پر چند علماء کرام کے دستخط تائیدی بھی ہیں۔ جن کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔

سید محمد نذیر حسین ، سید شریف حسین، نور الحسن ۱۲۹۲۔ محمد تلطف حسین، محمد جمیل، محمد عبدالعزیز، سید احمد حسن نعم المولیٰ و نعم النصیر ۱۳۹۲۔ امیر حسن ساکن بہار۔ علی حسن خان۔

اسی طرح علامہ زماں نواب صدیق حسن خان صاحب والئی ریاست بھوپال نے اپنی کتاب روضۃ الندیہ صفحہ ۱۲۸۱ میں بڑے شد و مد سے اس بات کو مفصل مدلل احادیث صحیحہ مرفوعہ سے ثابت کیا ہے کہ عورتوں کو نمازِ عید کے لیے عید گاہ جانا واجب اور ضروری ہے۔

(اہل حدیث امرتسر ۲۰؍ اگست ۱۹۲۰ء ج ۱۷، ش ۴۱)

سنتِ نبوی کے مطابق نماز عید کا طریقہ

باوضو قبلہ کی طرف منہ کرکے تکبیر تحریمہ کہتا ہوا سینے پر ہاتھ باندھ کر اللھم باعد الخ یا کوئی اور دعا افتتاح پڑھے، پھر قرأت سے پہلے ٹھہر ٹھہر کر سات تکبیریں اور کہے۔ ہر تکبیر پر رفع یدین کرکے سینہ پر ہاتھ باندھے۔ زائد تکبیروں کے درمیان یہ دعا پڑھے جو کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود، حذیفہ اور ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ اَللّٰہُ اَکْبَرْ کِبَیْرًا وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرًا وَسُبْحَانَ اللّٰہِ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلاً وَصَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَمْ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحّمدٍ تَسْلِیماً کثیرًا۔ پھر اعوذ باللہ پڑھ کر امام با آواز بلند اور مقتدی آہستہ سے الحمد شریف پڑھیں پھر امام اونچی آواز سے قرأت پڑھے اور مقتدی خاموشی سے سنیں۔ بہتر ہے کہ پہلی رکعت میں سورۃ قٓ اور دوسری میں اِفْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ پڑھے یا سَبِّحْ اسْمَ اور ھَلْ آتَکَ یَا عَمَّ یَتَسَآئَ لُوْنَ اور وَالشَّمُسِ  پڑھے۔ پھر عام نماز کی طرح رکعت کو پوری کرکے جب دوسری رکعت کے لیے کھڑا ہو تو قرأت شروع کرنے سے پہلے مذکورہ بالا طریقہ پر پانچ تکبیریں کہے، پھر دوسری رکعت کے بعد سلام پھیر دے۔ نماز کے بعد امام اپنی جگہ پر کھڑا ہو کر مسنون خطبہ پڑھے۔ اور لوگ اپنی اپنی جگہ خاموش بیٹھے سنتے رہیں۔ بعد میں امام اور مقتدی سب مل کر بارگاہِ الٰہی میں ہاتھ اُٹھا کر دعا کریں۔ یہ بہت خضوع اور خشوع سے کریں۔ بعد میں راستہ بدلتے ہوئے تکبیرات کہتے ہوئے واپس آئیں۔ علی محمد سعیدی

باب السفر والقصر  

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 199-203

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ