سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(115) نمازِ عید میں کتنی تکبیرات کہی جاتی ہیں اور ان کا محل کیا ہے؟

  • 4546
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2923

سوال

(115) نمازِ عید میں کتنی تکبیرات کہی جاتی ہیں اور ان کا محل کیا ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نمازِ عید میں کتنی تکبیرات کہی جاتی ہیں اور ان کا محل کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(۱) کثیر بن عبداللہ اپنے باپ سے وہ اس کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے عیدین میں پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے سات تکبیریں کہیں اور دوسری میں قرأت سے پہلے پانچ کہیں۔  (مشکوٰۃ)

(۲) جعفر بن محمد سے مرسل روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ، ابوبکر عمر بن عبدالعزیز نے عیدین میں اور نمازِ استسقاء میں پہلی رکعت میں سات دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہیں اور خطبہ سے پہلے نماز پڑھی اور قرأت بلند آواز سے پڑھی۔  (مشکوٰۃ)

اس میں اختلاف ہے کہ پہلی رکعت میں سات تکبیریں تکبیر تحریمہ کے ساتھ مراد ہیں یا تکبیر تحریمہ کے بغیر لیکن ظاہر حدیث سے دوسری صورت ظاہر ہوتی ہے۔ ہاں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دارقطنی میں حدیث ہے۔ سوی تکبیرۃ الافتتاح یعنی رکوع کی تکبیروں کے سوا لیکن اس اسناد ضعیف ہیں۔

چونکہ صریح صحیح دلیل کسی طرح نہیں اس لیے اس میں تشدد نہ کرنا چاہیے۔ کوئی تکبیر تحریمہ اور تکبیر رکوع کے سوا سات پانچ کہے یا اس کے ساتھ ابن عبدالبر کہتے ہیں۔ پہلا امام شافعی رحمہ اللہ کا مذہب ہے۔ دوسرا امام مالک رحمہ اللہ کا تحفۃ الاحوذی ص ۳۳۶۔ سعید بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔ میں نے ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ اور حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہﷺ عیدالاضحی اور فطر میں کس طرح کہتے تھے۔ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا جیسے جنازہ پر چار تکبیرہیں کہتے ہیں۔ اس طرح چار کہتے تھے حذیفہ رضی اللہ عنہ نے تصدیق کی کہ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے سچ کہا۔

مگر اس حدیث کی اسناد میں عبدالرحمن ثوبان راوی ضعیف ہے۔ اور دوسرا راوی ابو عائشہ ہے۔ وہ مجہول ہے سات پانچ والی روایت کی کئی سندیں ہیں۔ وہ حسن کے درجہ سے کم نہیں۔ اس لیے راجح یہی ہے کہ پہلی رکعت میں سات تکبیریں کہے اور دوسری میں پانچ کہے اور کہے بھی قرأت سے پہلے۔

عبداللہ امرتسری           

(فتاویٰ اہل حدیث ص ۳۹۸)       

 


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 193

محدث فتویٰ

تبصرے