سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(114) عید کے دن جمعہ کی رخصت ہے؟

  • 4545
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 1163

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عید کے دن جمعہ کی رخصت ہے تو کیا نمازِ ظہر بھی معاف ہے یا صرف جمعہ کی رخصت ہے۔ ہمارے ہاں دو صاحبِ علم بزرگوں کے ارشادات اس سلسلہ میں جداگانہ ہیں۔

ایک صاحب فرماتے ہیں:

عید کے دن صرف جمعہ کی رخصت ہے نمازِ ظہر پڑھنی ضروری ہے۔

دوسرے صاحب فرماتے ہیں:

جمعہ ظہر کے قائم مقام ہے جب عید کے دن جمعہ معاف ہے۔ تو نمازِ ظہر بھی معاف ہونی چاہیے۔

اس مسئلہ میں صحیح رہنمائی فرمائی جاوے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں عید اور جمعہ اکٹھے آگئے۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے عید پڑھائی اس کے بعد عصر تک گھر سے نہیں نکلے۔

اس واقعہ سے بعض نے استدلال کیا ہے کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے عید کے دن نماز ظہر بھی نہیں پڑھی، لیکن یہ ایک خاص واقعہ ہے۔ اور یہ اُصولِ مسلمہ ہے کہ ’’ وقائع الاعیان لایحتج بہا علی العموم‘‘ یعنی خاص واقعہ سے عام استدلال نہیں ہوسکتا۔ اس میں احتمال ہے کہ شاید گھر میں اکیلے یا باجماعت نماز پڑھ لی ہو، اور مسجد میں آکر نمازیوں کے ساتھ باجماعت اس لیے نہ پڑھی ہو کہ عام طور پر جوگ پیچھے آتے ہیں۔ اور خطبہ نہیں پاتے ان کو اشتباہ نہ پڑے کہ جمعہ پڑھا گیا ہے۔ یا ممکن ہے کہ گھر سے نہ نکلنے کی کوئی اور وجہ ہے۔ اس قسم کے بعض استدلال اور بھی ہیں۔ جو تسلی بخش نہیں اور معاملہ فرض کا ہے۔ اس لیے احتیاطاً نماز ظہر پڑھنی چاہیے۔

رہی یہ بات کہ جمعہ ظہر کے قائم مقام ہے۔ جب جمعہ معاف ہے تو نمازِ ظہر بھی معاف ہونی چاہیے۔ یہ اُلٹا استدلال ہے کیوں کہ قائم مقام کے جانے سے اصل آجاتا ہے۔ حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ چنانچہ مشکوٰۃ میں حدیث ہے۔ جو شخص جمعہ کی ایک رکعت پائے، وہ دوسری ساتھ ملائے اور جس کو ایک رکعت بھی نہ ملے وہ ظہر پڑھے۔

اس بنا پر جن لوگوں پر جمعہ فرض نہیں جیسے عورت، مسافر، غلام وغیرہ ان کو نماز ظہر پڑھنے کا حکم ہے۔ پس معلوم ہوا کہ قائم مقام یعنی جمعہ کے جانے نمازِ ظہر کی نفی نہیں ہوتی۔ پس عید اور جمعہ ایک دن اکٹھے آجائیں تو ایسی صورت میں جمعہ کی رخصت ہے۔ پڑھے یا نہ پڑھے اگر جمعہ نہ پڑھے تو ظہر ضرور پڑھنی چاہیے۔ بہتر جمعہ پڑھنا ہے کیوں کہ نبی کریمﷺ نے جمعہ کی رخصت دیتے ہوئے یہ بھی فرمایا:

وانا مجمعون ان شاء اللّٰہ

یعنی ہم جمعہ پڑھیں گے ان شاء اللہ

نوٹ:… اس مسئلہ میں دو فریق اور ہیں۔ ایک فریق کہتا ہے جمعہ کے دن اصل جمعہ فرض ہے۔ اور شہر اس کا بدل ہے۔ اس لیے اگر جمعہ معاف ہوا تو ظہر بھی معاف ہے لیکن مشکوٰۃ کی مذکورہ بالا حدیث اس کی تردید کرتی ہے۔ اس میں جمعہ نہ ملے تو ظہر پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جن پر جمعہ فرض نہیں اُن کو ظہر پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ظہر کی دو رکعت کم کرکے اُن کے قائم مقام خطبہ کردیا گیا ہے۔ یہ صاف دلیل ہے کہ نمازِ ظہر اصل ہے اور جمعہ اس کا بدل ہے۔

ظہر احتیاطی

دوسرا فریق کہتا ہے کہ جمعہ کے دن دو فرض ہیں۔ جمعہ اور ظہر اس بنا پر وہ جمعہ کے بعد بھی ظہر پڑھتے ہیں۔ اس کا نام احتیاطی رکھتے ہیں۔ یہ مذہب بھی غلط ہے۔ کیوں کہ قرآن مجید میں نماز جمعہ ہونے کے بعد کاروبار کے لیے جانے کی رخصت دی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:

فاذا قضیت الصلوٰۃ فانتشروا فی الارض۔

اس کے علاوہ تعامل خیر القرون بھی اس کے خلاف ہے۔ اس میں سے کسی سے بھی جمعہ کے بعد نمازِ ظہر پڑھنا ثابت نہیں۔

خلاصہ یہ کہ پہلے مذہب کو بہر صورت ترجیح ہے یعنی جمعہ قائم مقام ظہر ہے۔ اگر کسی وجہ سے جمعہ نہ پڑھے تو نمازِ ظہر ضرور پڑھنی چاہیے۔

خلاصہ یہ کہ عید کے بعد جمعہ کے لیے بھی حاضری ضروری ہوتی تو عید کی خوشی میں رکاوٹ اور بے لطفی سی پیدا ہو جاتی۔

عبداللہ امرتسری روپڑی

(فتاویٰ اہل حدیث ص ۴۰۶)


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 192

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ