کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ عیدین کی نماز میں زوائد تکبیرات کے اندر اکثر اہل حدیث رفع یدین کرتے ہیں۔ بالخصوص شہر دہلی میں جو علمائے ہر فریق اہل حدیث کا مرکز ہے وہاں بھی یہ عمل دیکھا گیا ہے۔ احادیث و آثار سے اس پر کیا دلیل ہے؟ بینوا توجروا
اہل حدیث اس بارے میں دو روایتیں پیش کرتے ہیں۔ التلخیص الجیر میں صلوٰۃ العیدین میں تکبیرات کے وقت وقفہ کے متعلق ہے۔ الی قولہ۔ عن عمر رضی اللہ عنہ انہ کان یرفع یدیہ فی التکبیرات۔ رواہ البیھقی الخ۔ دونوں روایتوں میں ایک ایک راوی متکلم فیہ ہے۔ پہلی میں عبداللہ بن لہیعہ وہ صدوق ہے، خلط بعد احتراق کتبہ سنن کا راوی ہے۔ مسلم نے بھی اس سے مقرونا روایت کی ہے۔ (تقریب التہذیب) دوسری میں بقیہ ابن ولید ہے، وہ بھی مسلم و سنن اربعہ کا راوی ہے۔ امام بخاری نے بھی تعلیقاً روایت کی ہے۔ ’’ صدوق کثیر انہ لیس عن الضعفائ‘‘ ہے۔ (التقریب التہذیب) یہاں اس کا شیخ محمد بن ولید زبیدی ثقہ ہے۔ صحیحین کا راوی ہے۔ اگرچہ ان دونوں میں کچھ کلام ہے، مگر دونوں روایتوں اور دو سندوں کے ملنے سے ہر ایک کو دوسری سے تقویت حاصل ہوگئی ہے گویا ہر واحد ’’ حسن لغیرہ‘‘ کے درجہ میں ہے۔ لہٰذا قابل عمل ہے۔ خصوصاً امام بیہقی و امام ابن مندر کا روایت کرکے اس سے استدلال کرنا اور پھر صدیوں سے محدثین کا اس پر تعامل قابل عمل ہے۔ اور مطلق نماز میں رفع یدین تو اللہ کی تعظیم اور سنت النبیﷺ ہے۔ قالہ الامام الشافعی رحمہ اللہ (فتح الباری) ونقل ابن عبدالبر عن ابن عمر انہ قال رفع الیدین زنیۃ للصلوٰۃ وعن عقبۃ بن عامر قال لکل رفع عشر حسنات بکل اصبع حسنۃ (فتح الباری انصاری ص ۴۰۳ جلد اوّل) بہرحال یہ فعل تعظیم الٰہی اور اس کی توحید فعلی باعثِ ثواب ہے اور یہ فعل حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ (وقد قال رسول اللّٰہ ﷺ انی لا ادری ما بقائی فیکم فاقتدوا بالذین من بعدی ابی بکرؓ و عمرؓ (رواہ الترمذی مشکوٰۃ ص۵۶۰) واللّٰہ اعلم بالصواب (ملخص)
ابو سعید محمد شرف الدین دہلوی
(فتاویٰ ثنائیہ جلد اوّل ص ۵۲۵)