آنحضرتﷺ نے نفل پڑھنا عید گاہ میں قبل نماز عید کے یا بعد نماز عید کے ثابت ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا
در صورتِ مرقومہ واضح ہو کہ آنحضرتﷺ سے عیدگاہ میں نفل پڑھنا ثابت نہیں ہے۔ نہ قبل نماز عید کے اور نہ بعد نماز عید کے بلکہ نہ پڑھنا ثابت ہے صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے: (۱) عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ ان النبی ﷺ یوم الفطر رکعتین لم یصل یصل قبلھا ولا بعدھما رواہ البخاری ومسلم کذافی المشکوٰۃ (ترجمہ) ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ہے کہ نبیﷺ نے پڑھیں دن فطر کے دو رکعتیں نہ پڑھی پہلے ان کے اور نہ پیچھے ان کے روایت کیا اس کو بخاری اور مسلم نے اور امت کو کرنے نہ کرنے دونوں میں اقتداء و اتباع رسول اللہﷺ کی لازم ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (۱)لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ الایۃ و نیز فرماتا ہے (۲) مَا اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نٰھَکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا اور رسول اللہﷺ فرماتے ہیں واحسن الکلام کلام اللہ وخیر الھدی ھدی محمد الحدیث۔ وما علینا الا البلاغ واللّٰہ اعلم بالصواب۔ حررہ السید محمد نذیر حسین عفی عنہ
۱: جو رسول تمہیں دے اسے لے لو اور جس سے روکے باز آجاؤ۔
۲: بہترین کلام اللہ کی کلام ہے اور بہترین راستہ محمد ﷺ کا راستہ ہے۔
مسئلہ
واضح ہو کہ عید گاہ میں نفل پڑھنے کی بابت علماء کا اختلاف ہے علماء سلف کوفہ کے قبل نماز عید کے عید گاہ میں نفل پڑھنا جائز نہیں رکھتے اور بعد نماز کے جائز رکھتے ہیں اور علمائے بصرہ کے قبل نماز عید کے جائز رکھتے ہیں۔ اور بعد نماز کے جائز نہیں رکھتے اور علمائے مدینہ منورہ کے نہ قبل نماز عید کے جائز رکھتے ہیں اور نہ بعد نماز عید کے۔ ان تینوں مذہبوں میں مذہب علمائے مدینہ منورہ کا مطابق فعل آنحضرتﷺ اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے ہے کیوں کہ آنحضرتﷺ نے کبھی نہ گھر میں قبل نماز عید کے نفل پڑھی ہے اور نہ عید گاہ میں نہ قبل نماز کے نہ بعد نماز کے اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کبھی پڑھنا منقول ہے۔ پس یہی مذہب حق ہے اسی پر عمل کرنا چاہیے۔ کہ اتباع سنت و ترک سنیہ نبویہ امت مرحومہ کو نصیب ہوا اور اتباع و اقتدار آنحضرتﷺ کے فعل و ترک فعل دونوں میں ضروری ہے: قال اللّٰہ تعالٰی لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اسوہ حسنہ الایۃ وقال رسول اللّٰہ ﷺ احسن الکلام کلا اللّٰہ واحسن الھدی ھدی محمد ﷺ اور جب آنحضرتﷺ نے کبھی نہ گھر میں قبل نماز عید کے نفل پڑھے اور نہ عید گاہ میں نہ قبل نماز عید اور نہ بعد نماز عید کے تو جو کوئی برخلاف اس کے کرے یعنی عیدگاہ میں قبل نماز کے یا بعد نماز کے نفل پڑھے یا گھر میں نفل پڑھ کر عید گاہ میں جاوے سو وہ حدیث (۱)من عمل عملاً لیس علیہ امرنا فھورد کا مصداق ہوگا اور بہ سبب عدم ثبوت نفل کے عید گاہ میں آنحضرتﷺ سے عبداللہ بن مسعود اور حذیفہ رضی اللہ عنہما عید گاہ میں نفل پڑھنے سے لوگوں کو منع کرتے تھے (۲) روی سعید بن منصور فی سننہ عن ابن سیرین ان ابن مسعود و حذیفۃ قاما ونھیا الناس ان یصلوا یوم العید قبل خروج الامام الی المصلی واللہ اعلم بالصواب حررہ السید محمد نذیر حسین عفی عنہ ۔ سید محمد نذیر حسین
۱: جو کوئی ایسا کام کرے جس پر ہمارا حکم نہیں ہے۔ تو وہ کام مردود ہے۔
۲: حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت حذیفہ دونوں اٹھ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو عید کے دن امام کے نکلنے سے پہلے نفل پڑھنے سے روکنے لگے۔
ھوالموفق
فی الواقع عید گاہ میں نفل پڑھنا رسول اللہﷺ سے ثابت نہیں نہ قبل نماز عید کے اور نہ بعد نماز عید کے بلکہ نہ پڑھنا ثابت ہے۔ اور اسی طرح قبل نماز عید کے گھر میں بھی نفل پڑھنا ثابت نہیں ہاں بعد نماز عید کے گھر میں آکر دو رکعت نفل پڑھنا رسول اللہﷺ سے ثابت ہے، بلوغ المرام میں ہے (۳) عن ابی سعید قال کان رسول اللّٰہ ﷺ لا یصلی قبل العید شیئا فاذ ارجع الی منزلہ صلی رکعتین رواہ ابن ماجہ باسناد حسن وقال فی السبل ص ۱۷۳ جلد اوّل اخرجہ الحاکم واحمد وروی الترمذی عن ابن عمر نحوہ و صححہ انتھی۔ کتبہ محمد عبدالرحمن المبارکفوری عفی عنہ فتاوی نذیریہ ص ۶۳۱ جلد اول
۳: رسول اللہﷺعید کی نماز سے پہلے کچھ نہیں پڑھتے تھے اور جب گھر آتے تو دو رکعت پڑھتے۔