سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(82) ایک شہر میں باوجود ایسی عید گاہ تیار ہونے کے کہ سارے شہر..الخ

  • 4513
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1692

سوال

(82) ایک شہر میں باوجود ایسی عید گاہ تیار ہونے کے کہ سارے شہر..الخ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

علمائے دین اس مسئلہ میں کیا فرماتے ہیں کہ ایک شہر میں باوجود ایسی عید گاہ تیار ہونے کے کہ سارے شہر کے نمازیوں کی اس میں بخوبی گنجائش ہے۔ پھر بھی نماز عید بعض لوگ عید گاہ میں پڑھتے ہیں اور بعض مسجد میں، پس ان میں افضل و بہتر کون سا طریقہ ہے۔ بینوا بالتفصیل توجروا بالاجر الجزیل۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وھو الموفق للصواب: شہر کے سب مسلمانوں کو نماز عیدین عید گاہ میں پڑھنا بہتر اور افضل ہے بشرطیکہ کوئی عذر شرعی مثل بارش و برد شدید و ضعف پیری و بیماری وغیرہ نہ رکھتے ہوں اور اس میں کئی خوبیاں ایسی مخصوص ہیں کہ کوئی ان میں سے اور جگہ نماز پڑھنے میں حاصل نہ ہوں گی۔ پہلے تو اتباع آنحضرتﷺ اور پیروی خلفاء رشدین کی اس واسطے کہ آپ ہمیشہ مع صحابہ کرام باوجود گنجائش مسجد نبوی کے نماز عیدین عید گاہ میں ادا فرماتے تھے جیسا کہ احادیث صحاح سے ثابت ہے۔

(۱) وکان النبی ﷺ یخرج یوم الفطر والاضحی الی المصلی ای الی الجبانۃ وھی الصحراء خارج المدینۃ ومسیرتھا من الحجرۃ الشریفۃ الف خطوۃ۔

۱:  آنحضرتﷺعید الفطر اور عیدالاضحی کے دن عید گاہ کی طرف نکلتے، مدینہ سے باہر جاتے اور وہ حجرہ شریف سے ایک ہزار قدم کا فاصلہ رکھتی تھی۔

 مگر ایک مرتبہ آپ نے بوجہ بارش شدید کے نماز عید مسجد نبوی میں ادا فرمائی تھی، چنانچہ حدیث شریف میں وارد ہے۔

 (۲) انہ اصابھم مطرفی یوم عید فصلی بھم النبی ﷺ صلٰوۃ العید فی المسجد رواہ ابوداؤد ابن ماجۃ۔

۲:  ایک دفعہ عید کے دن بارش ہوگئی تو نبیﷺ نے عید کی نماز مسجد میں پڑھائی۔

اور آپ کو جب رویت ہلال شوال کی خبر پہنچی تو آپ نے روزے افطار کرائے اور صبح کو عید گاہ جانے کا حکم فرمایا، جیسا کہ ابوداؤد اور نسائی میں مروی ہے: فامرھم ان یفطروا واذا اصبحوا ان یعدوا الی مصلاھم اور شرح السنۃ میں مرقوم ہے ان یخرج الامام لصلوٰۃ العید الی الجبانۃ اور فرمایا ابن ہمام نے سنت یہ ہے کہ نکلے امام عید گاہ کی طرف اور کسی کو اپنا خلیفہ کر جاوے، تاکہ وہ ضعیفوں اور معذوروں کو شہر میں نماز پڑھا دے۔ وھکذا فی الخلاصۃ و الخانیۃ السنۃ ان یخرج الامام الی الجبانۃ ویستخلف غیرہ لیصلی فی المصر بالضعفاء اور اسی طرح خروج الی الجبانہ کا مسنون ہونا کتب فقہ معتبرہ مثل در مختار و ہدایہ و کنز و عالمگیری وغیرہ میں لکھا ہے: فمن شاء الاطلاع علیھا فلیراجع الیھا۔ اور ابن حجر عسقلانی نے فرمایا کہ حکم خروج الی الجبانہ کا واسطے امام کے سوائے مسجد اقصیٰ اور مسجد حرام کے ہے۔ اس لیے کہ یہ دونوں مسجدیں بیت المقدس اور مکہ معظمہ کی عید گاہ سے افضل ہیں۔ اور سوا ان کے عید گاہ مساجد دیگر سے افضل ہے۔ حتیٰ کہ مسجد نبوی سے بھی ، ورنہ آنحضرتﷺ اپنی مسجد چھوڑ کے عید گاہ تشریف نہ لے جاتے۔ بہرحال عیدگاہ میں نماز پڑھنا سنت ٹھہرا اور تارک اس کا تارک سنت ہوا جیسا کہ طحطاوی حاشیہ در مختار میں مرقوم ہے۔ فلولم یتوجہ الیھا فقد ترک السنۃ اور تارکِ سنت بلا عذر شرعی معلون اور محروم الشفاعت اور قابل ملامت و عتاب اور مستحق عذاب و ضلالت ہے۔ اس واسطے کہ آنحضرتﷺ نے اس پر لعنت فرمائی کما وَرَدَ فی الحدیثِ ستۃ لعنتھم ولعنھم اللہ وکل نبی یجاب یعنی چھ شخصوں پر لعنت کی میں نے اور اللہ نے اور ہر نبی مستجاب الدعوات ہے، منجملہ ان کے چھٹا شخص آپ نے فرمایا والتارک لسنتی، فرمایا ملا علی قاری رحمہ اللہ نے اس کی شرح میں لکھا ہے تکاسلا عاص واستخفافا کافر یعنی جو کوئی ازراہِ سستی کے سنت کو چھوڑ دے وہ گنہگار ہے اور جو مخفر سمجھ کر اس کو ترک کرے وہ کافر ہے، عیاذا باللہ من ہذا الوعید۔ وفی (۱) الصبح الصادق شرح المنار انہ یستوجب لومًا فی الدنیا وحرمان الشفاعۃ فی العقبی لورودہٖ مرفوعا من ترک سنتی لم یئل شفاعتی وفی شرحہ فتح الغفار وتارکھا یستوجب اساء ۃ ای التضلیل واللوم وفی غایۃ البیان السنۃ ما فی فعلہ ثواب وترکہ عقاب وفی التلویح ترک السنۃ المؤکدۃ قریب من الحرام یستحق حرمان الشفاعۃ وفی رد المحتار حاشیۃ درالمختار الاصح انہ یاثم بترک السنۃ المؤکدۃ کالوا جب حق تعالیٰ ہم سب کو طریقہ مسنونہ پر چلاوے اور مواخذہ ترک سنت سے بچاوے۔

۱:  صبح صادق شرح المنار میں ہے کہ اس سے دنیا میں ملامت اور آخرت میں شفاعت سے محرومی نصیب ہوگی، کیوں کہ مرفوع حدیث میں ہے کہ جس نے میری سنت چھوڑ دی اسے میری شفاعت سے حصہ نہ ملے گا۔ شرح غفار میں ہے: سنت کا تارک سزا اور ملامت کا مستحق ہے۔ غایۃ البیان میں ہے۔ سنت وہ جس کے کرنے میں ثواب ہے اور چھوڑنے پر عقاب ہے۔ تلویح میں ہے۔ سنت مؤکدہ کا چھوڑنا حرام کے قریب ہے۔ اس سے شفاعت سے محرومی نصیب ہوتی ہے۔ ردالمختار میں ہے صحیح یہ ہے کہ سنت مؤکدہ کے چھوڑنے سے آدمی ایسا ہی گنہگار ہوتا ہے جیسا کہ واجب کے چھوڑنے سے ۔

دوسرے کثرت جماعت کا ثواب بے حساب ہے۔ اس واسطے کہ نماز جماعت کا ثواب اکیلے کی نماز سے پچیس حصے زیادہ ہوتا ہے جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہوا صلوٰۃ الجماعۃ تفضل صلوٰۃ الفذ بخمس وعشرین درجۃ رواہ البخاری و مسلم اور بعض روایات میں ستائیس درجے آیا ہے بہرحال یہ ثواب جماعت کا اقل عدد جماعت سے حاصل ہوتا ہے کہ وہ امام اعظم اور امام محمد کے نزدیک سوائے امام کے تین شخص ہیں اور امام ابو یوسف کے نزدیک دو شخص اور جس قدر اس پر زیادہ ہوں گے اسی حساب سے ثواب بھی بڑھتا رہے گا۔ ظاہر ہے کہ کہ جو گنجائش کثرتِ جماعت کی میدان عیدگاہ میں ہوگی وہ کسی مسجد میں ممکن نہیں، پس ثواب نماز عید گاہ کا بسبب زیادہ ہونے نمازیوں کے زیادہ ہوگا، جیسا کہ تنویر الحوالک شرح موطا امام مالک رحمہ اللہ میں بروایت ابن عباس مروی ہے۔ فضل صلوٰۃ الجماعۃ علی صلوٰۃ الواحد خمس وعشرون درجۃ فان کانوا اکثر فعلی عدد من فی المسجد فقال رجل وان کانوا عشرۃ الاف قال نعم وان کانوا اربعین الفا ھذا یدل علی ان التضعیف المذکور فی الجماعت مرتب علٰی اقل عدد یحصل بہ الجماعۃ فیزید بذیادۃ المصلیننظر برآن اگر سب مساجد شہر کی جماعتیں ٹوٹ کر عید گاہ جاویں تو کس قدر کثرتِ جماعت سے ثواب بے حساب اور اجر کثیر پاویں۔

تیسرے فی نفسہٖ عید گاہ میں نماز پڑھنے کا بہت بڑا ثواب ہے۔ اس واسطے کہ موافق اس حدیث کے صلوتھا فی مسجدی ھذا خیر من الف صلوٰۃ فیما سواہ الا المسجد الحرام مسجد نبوی کی ایک نماز کا ثواب سوائے نماز مسجد کعبہ کے اور مساجد کی ہزار نمازوں سے افضل اور بڑھ کر ہے۔ مثلاً دو رکعتیں عید کی مسجد نبوی میں پڑھی جاویں تو دو ہزار رکعت کا ثواب ملے گا، پھر برایں ہمہ افضیلت و کثرتِ ثواب کے آنحضرتﷺ مسجد نبوی کو چھوڑ کر عید گاہ میں نماز پڑھتے تھے تو بیشک یہاں ان دو رکعتوں کا ثواب دو ہزار رکعت سے بھی زیادہ ہوگا اور اجر کثیر ملے گا۔

چوتھے جو شخص محض اتباع سنت نبوی عید گاہ جائے گا، یقینی وہ سو شہیدوں کا ثواب پائے گا کہ حدیث شریف میں وارد ہے من تمسک بسنتی عند فساد امتی فلہ اجر مایۃ شھید۔

پانچویں جو کوئی بھائی مسلمانوں کو عید گاہ کی طرف بلائے گا، وہ برابر ان لوگوں کے ثواب پائے گا جو اس نیک کام میں اس کے تابع ہوئے ہیں، چنانچہ مسلم میں حدیث وارد ہے۔ (۱) من دعا الی الھدی کان لہ من الاجر مثل اجور من تَبِعَہٗ لا ینقص ذلک من اجورھم شیئا  اور مضمون حدیث من دل علی خیر فلہ اجر مثل فاعلہ کا بھی اسی پر دلالت کرتا ہے۔

۱:  جو آدمی بھلائی کی طرف راہنمائی کرے اس کو بھلائی کرنے والے کے برابر اجر ملتا ہے۔

چھٹے جو کوئی واسطے نماز کے جس قدر دُور سے چل کر آوے گا۔ اتنا ہی ثواب زیادہ پائے گا کہ حدیث شریف میں وارد ہے۔ اعظم الناس اجرا فی الصلوٰۃ ابعدھم فابعدھم ممشییعنی بڑا لوگوں میں از روئے ثواب کے نماز میں جو دوران کا ہے پھر دوران کا ہے۔ چلنے میں یعنی جس کا گھر دور ہو مسجد سے بلکہ نماز کے واسطے جس قدر زیادہ چلنا ہوگا ہر قدم پر ایک ایک درجہ ثواب کا بڑھتا جاوے گا اور ایک ایک گناہ اس کا مٹتا جائے گا۔ چنانچہ حدیث میں وارد ہے: من یذھب الی المصلی لم یخط خطوۃ الارفعہ اللّٰہ بھا درجۃ وحط عنہ بھا خطیئۃ… پس ظاہر ہے کہ عید گاہ جو باہر آبادی سے ہوتی ہے لامحالہ بہ نسبت مساجد شہر کے دور ہوگی۔ پس ثواب اس کا بہ سبب زیادہ ہونے بعد مسافت اور قدموں کے بھی زیادہ ہوگا۔

ساتویں ایک جگہ شہر کے کنارے عید گاہ میں سب دیندار بھائی جمع ہو کر نماز پڑھیں گے تو کس قدر شوکت و شان دینی اور ترقی د رونق اسلامی ظاہر ہوگی اور کیسا کچھ مسلمانوں میں اتفاق اور اتحاد باہمی ایک دوسرے کی ملاقات سے بڑھے گا اور اظہار فرحت و سرور ہوگا کہ یہ باعث ہے نزول انوار رحمت کا اور سبب ہے حصول خیر و برکت کا اور وسیلہ ہے قبول حاجات کا اور ذریعہ ہے اجابتِ و عوات کا کہ حق تعالیٰ اس روز اپنے بندوں کی طرف جو عید گاہ میں جاتے ہیں متوجہ ہو جاتا ہے کہ انہوں نے تمام ماہِ رمضان کے روزے رکھے اور ہماری اطاعت کی آج کا دن ان کی مزدوری لینے کا ہے جو یہ مانگیں گے دوں گا۔ اور ان کی دعاؤں کو قبول کروں گا۔ واللہ اعلم بالصواب وعندہٗ علم الکتاب حررہ العبد الآسی محمد المدعو بعبد العلی المدراسی تجاوز اللہ عن جمیع المعاصی ۔ محمد عبدالعلی المدراسی

ما احسن ہذا التقریر المتضمن للخیر الکثیر فی الواقع عید گاہ میں نماز عیدین ادا کرنا سنت ہے اور ترک اس کا بلا عذر شرعی باعثِ ملامت ہے۔ حق جل شانہٗ اہل اسلام کو توفیق اس سنت کے اجرا کی دیوے اور مخالفت سنت سے محفوظ رکھے۔ حررہ الراجی عفو ربہ القوی ابو الحسنات محمد عبدالحئی تجاوز اللہ عن ذنبہ الجلی والخفی ابو الحسنات محمد عبدالحئی ۱۲۸۹ھ

حامداً ومصلیاً مسلمان دیندار پر واضح ہو کہ سنت رسول اللہﷺ یہی ہے کہ نماز عیدین باہر نکل کر عید گاہ میں پڑھنی چاہیے۔ (۱) لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ الایۃ وَمَنْ یُطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ الایۃ اسی لیے تعامل خلفائے راشدین و دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و تابعین و مجتہدین و محدثین رضی اللہ عنہم اسی پر چلا آیا ہے۔ بنا بر اس کے تمامی فقہائے متقدمین و متاخرین لکھتے چلے آتے ہیں کہ باہر جا کر جبانہ یعنی عید گاہ میں نماز ادا کرنا سنت و شعائر اسلام سے ہے اگرچہ جامع مسجد گنجائش نماز کی رکھتی ہو۔ (۲) والخروج الیھا ای الجبانۃ لصلوٰۃ العید سنۃ وان وسعھم المسجد الجامع الی اٰخر ما فی تنویر الابصار والدرالمختار والکنز والھدایۃ وغیرھا من المتون والشروخ والفتاوٰی۔ واللہ اعلم الراقم العاجز سید محمد نذیر حسین عفی عنہ

سید محمد نذیر حسین ۱۲۸۱            

(فتاویٰ نذیریہ ص ۶۲۳، ج۱)      

۱:  تمہارے لیے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ ہے۔ الایۃ اور جس نے رسول کی پیروی کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔

۲:  عید کی نماز کے لیے عید گاہ کی طرف باہر نکلنا سنت ہے۔ اگرچہ جامع مسجد میں تمام لوگ سما سکتے ہوں۔ تنویر الابصار درالمختار، کنز، ہدایہ وغیرہ میں، متون اور شروح اور فتاویٰ میں ایسا ہی ہے۔

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 164-168

محدث فتویٰ

تبصرے