سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(75) رسول اللہﷺ نے بذاتِ خود کسی گاؤں میں جمعہ پڑھا؟

  • 4506
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-06
  • مشاہدات : 1385

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اہل حدیث کے نزدیک گاؤں میں خواہ چھوٹا ہو یا بڑا جمعہ پڑھنا جائز ہے مگر کسی حدیث سے ثابت نہیں کہ رسول اللہﷺ نے بذاتِ خود کسی گاؤں میں جمعہ پڑھایا ہو یا کسی بستی یا گاؤں والوں کو جمعہ پڑھنے کا حکم دیا ہو اور نہ آپ کے زمانہ میں مدینہ شریف کے گرد و نواح میں نزدیک یا دور کسی گاؤں میں جمعہ پڑھنا پایا گیا ہے بلکہ جو لوگ دیہات میں جمعہ پڑھنا چاہتے تھے وہ بھی مدینہ میں آکر جمعہ پڑھ جاتے تھے اور جب رسول خداﷺ ہجرت کرکے مدینہ میں تشریف لائے تو قباء میں تین دن رہے اور ایک مسجد بھی وہاں بنوائی مگر جمعہ کے دن قباء میں جمعہ نہیں پڑھایا اور وہاں سے روانہ ہو کر مدینہ میں آکر جمعہ پڑھایا بلکہ قبا والوں کو حکم دیا کہ مدینہ میں آکر جمعہ پڑھا کرو اس سے ثابت ہوا کہ گاؤں میں جمعہ پڑھنا جائز نہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دیہات میں جمعہ کے جواز میں امام بخاری رحمہ اللہ نے دو روایتیں لکھی ہیں، ایک ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ مسجد نبوی میں جمعہ قائم ہونے کے بعد جواثی (گاؤں) میں جمعہ قائم ہوا تھا گو اس روایت میں اس بات کا ذکر نہیں کہ با اجازت آنحضرتﷺ ہوا تھا۔ مگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عام عادت یہ تھی کہ اس قسم کے کام اجازت ہی سے کیا کرتے تھے، دوسری حدیث امام ممدوح لائے ہیں جس کا مضمون ہے کہ تم مسلمانوں میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک کو محکوم سے سوال ہوگا۔ میں کہتا ہوں جمعہ کی فرضیت بالاتفاق ہے ہاں اس کے بعض شرائط میں اختلاف ہے۔ منجملہ شہر کا ہونا بھی شرط لگائی جاتی ہے اس کا ثبوت کسی صحیح حدیث مرفوع سے نہیں ہے۔ لہٰذا جمعہ ہر مسلمان بالغ مرد پر فرض ہے۔ رہا یہ کہ گاؤں والے مدینہ میں آکر جمعہ پڑھتے تھے بہ نیت فرض نہ آتے تھے بلکہ بہ نیت حضور جماعت نبویہ در مسجد نبوی۔ لا غیر ایام قیام قباء میں جمعہ فرض نہ ہوا تھا۔ اللہ اعلم

جمعہ فی القریٰ (از قلم مولوی محمد عبدالسلام صاحب مبارکپوری)

آیت جمعہ سے ثابت ہے کہ نماز جمعہ ہر مسلمان پر فرض ہے۔ شہر کا رہنے والا ہو یا دیہات کا یا کسی اور مقام کا۔ اور اقامت جمعہ ہر مقام میں جائز ہے۔ خواہ شہر ہو یا قریہ یا صحرا۔ کیوں کہ آیت جمعہ ہر مکلف کو عام ہے۔ اور بلا تخصیص ہر مقام کو شامل، مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں ہے: دلیل الافتراض من کلام اللّٰہ تعالیٰ علی العموم فی الامکنۃ انتھی اور حدیث لا جمعۃ ولا تشریق الا فی مصر جامع سے قریہ میں اقامتِ جمعہ کے عدم جواز پر استدلال صحیح نہیں ہے کیوں کہ یہ حدیث موقوف (یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول) ہے، ساتھ اس کے متحمل بھی ہے اور ایسی حدیث جو مشہور ہو اور ساتھ اس کے محتمل بھی ہو تو اس سے عند الاحناف زیادت علی الکتاب جائز نہیں ہے۔ علامہ عینی رحمہ اللہ حنفی نے نبایہ میں حدیث لا صلوٰۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب کا یہ جواب دیا ہے۔ ولئن سلمنا انہ مشھور فالزیادۃ بالمشھور انما یجوز اذا کان محکما امّا اذا کان محتملا فلا وھذا الحدیث محتمل لنفی الجواز ویستعمل لنفی الفضیلۃ لقولہ علیہ السلام لاصلوٰۃ لجارِ المسجد الا فی المسجد  یعنی اگر ہم تسلیم کرلیں کہ یہ حدیث مشہور ہے تو حدیث مشہور سے زیادہ علی الکتاب اسی صورت میں جائز ہے کہ حدیث محکم ہو لیکن جب محتمل ہو تو جائز نہیں ہے اور یہ حدیث (۱) محتمل ہے۔ کیوں کہ اس میں احتمال ہے کہ نفی جو ازمراد ہو اور احتمال ہے کہ نفی فضیلت مراد ہو جیسے حدیث لا صَلٰوۃَ لِجَارِ الْمَسْجِدِ اِلاَّ فِی الْمَسْجِدِ پس جب عند الاحناف حدیث مشہور سے زیادۃ علی الکتاب اسی صورت میں جائز ہے کہ حدیث محکم ہو تو اولاً حدیث لاجمعۃ وَلا  تَشْرِیْقَ اِلاَّ فِیْ مِصْرٍ جَامِعٍ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے حدیث تو درکنار خبر واحد بھی نہیں ہے۔ ثانیاً محکم بھی نہیں ہے کیوں کہ احتمال ہے کہ نفی فضیلت مراد ہو، یعنی اس کا مطلب یہ ہو کہ شہر میں نماز جمعہ اولیٰ و افضل ہو اور قریہ میں جائز و درست بلکہ یہی متعین ہے… کما قال شیخنا العلامۃ عبدالرحمٰن المبارکپوریؒ لا تشریق ولا جمعۃ علٰی وجہ الکمال الا فی مصر جامع جمعا بینہٖ وبین الاحادیث والاثار (نور الابصار ص۳۱)غرض حدیث لا جمعۃ ولا تشریق الا فی مصر جامع احناف کے نزدیک بھی پایہ استدلال سے ساقط ہے۔ تعجب ہے کہ احناف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول سے جو خبر واحد کے درجہ میں بھی نہیں ہے آیۃ (۲) جمعہ کی تخصیص کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اقامتِ جمعہ فقط شہر ہی میں جائز ہے اور دیہات میں ناجائز فَاعْتَبِرُوا یَا اُوْلی الْاَبَصْار و نیز واضح ہو کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول مذکور ان احادیث صحیحہ کے معارض و مخالف ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز جمعہ ہر مسلمان پر بجز پانچ اشخاص کے (غلام، عورت، مریض، لڑکے، مسافر) کے فرض ہے اور ہر مقام پر اس کا ادا کرنا جائز و صحیح ہے۔ چنانچہ ابوداؤد میں ہے:

عن طارق بن شھاب رضی اللّٰہ عنہ عن النبی ﷺ وسلم قَالَ اَلْجُمُعَۃُ حَقّ وَاجِبٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ فِیْ جَمَاعَۃٍ اِلاَّ اَرْبَعَۃَ عَبْدٍ مَمْلُوْکٍ اَوْ اِمْرَأَۃٍ اَوْ صَبِیٍّ اَوْ مَرِیْضٍ۔

یعنی فرمایا رسول اللہﷺ نے نماز جمعہ حق واجب ہے مگر چار شخص پر غلام، عورت، لڑکے، بیمار پر نہیں۔

بعض روایات صحیح سے مسافر کا مستثنیٰ ہونا بھی ثابت ہے۔ مگر اہل قریہ کا استثناء کسی آیت یا حدیث سے ثابت نہیں اور نسائی وغیرہ میں ہے۔

۱:  یعنی حدیث لا صلوٰۃ لمن لم یقرأ بفاتحہ الکتاب

عن نافع عن ابن عمر عن حفصۃ قالت قال رسول اللّٰہ ﷺ اَلْجُمُعَۃُ وَاجِبَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُحْتَلِمٍیعنی فرمایا رسول اللہﷺ نے کہ ہر مرد بالغ پر نماز جمعہ واجب ہے۔ دیہات میں نماز جمعہ پڑھنا خود آنحضرتﷺ سے ثابت ہے۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ محلی ص ۵۴ میں تحریر فرماتے ہیں ومن اعظم البرھان علیھم ان رسول اللّٰہ ﷺ اتی المدینۃ وانما ھی قری صغار متفرقۃ (الی) فبنٰی مسجدہ فی بنی مالک بن البخار وجمع فیہ قریۃ لیست بالکبیرۃ ولا مصر ھنالک فبطل قول من ادعی ان لاجمعۃ الا فی مصر وھذا لا یجھلہ احد لا مؤمن ولا کافر الخیعنی دیہات میں اقامت جمعہ کے جائز ہونے کی بہت بڑی دلیل یہ ہے کہ جب رسول اللہﷺ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو اس وقت مدینہ شہر نہ تھا، چند متفرق بستیاں تھیں، وہاں آپ نے بنو مالک بن نجار میں مسجد کی بنیاد ڈالی اور اس قریہ کے اندر جمعہ کی نماز پڑھی۔ وہ کوئی بڑا قریہ نہ تھا اور نہ وہاں شہر تھا پس ثابت ہوا کہ اس شخص کا قول باطل ہے جو دعویٰ کرے کہ ’’ شہر کے سوا اور کہیں جمعہ پڑھنا جائز نہیں۔‘‘ اور یہ ایسا امر ہے جو کسی مومن اور کافر سے مخفی نہیں۔ الحاصل آیت جمعہ اور احادیث مذکورہ سے صاف ظاہر ہے کہ بجز پانچ اشخاص مذکورین ہر مکلف پر جماعت کے ساتھ نمازِ جمعہ فرض ہے۔ اور ہر مقام میں اس کا ادا کرنا جائز و صحیح ہے شہر ہو یا قریہ اور کسی آیت یا حدیث سے ثابت نہیں کہ دیہات میں نماز جمعہ جائز نہیں بلکہ نماز جمعہ دیہات میں پڑھنا خود آنحضرتﷺ سے ثابت ہے۔ کما مر اور بالتفصیل معلوم ہوچکا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول لا جمعۃ ولا تشریق الا فی مصر جامع ناقابلِ احتجاج و استدلال ہے ۔ ھذا اٰخر الکلام وخلاصۃ المرام واللہ اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب۔

(فتاویٰ نذیریہ جلد اوّل ص ۵۱۰)

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 158-161

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ