سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(70) لاجمعۃ ولا تشریق الافی مصر جامع صحیح سند سے ثابت ہے؟

  • 4501
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 1750

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

از فقیر حقیر ابو تراب محمد عبدالرحمن گیلانی، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، بخدمت شریف شیخ العرب والعجم، محی السنۃ وقامع البدعۃ، الشمس العلماء جناب حضرت مولانا مولوی سید محمد نذیر حسین صاحب دام فیضہم واضح رائے عالی باد، میں نے ایک رسالہ مسمی باز الۃ الشبہہ عن فرضیۃ الجمعہ مع ترجمہ، مطبوعہ احمدی لاہور کو اول سے آخر تک دیکھا اس رسالہ کے صفحہ ۲۴ میں یہ عبارت لکھی ہوئی ہے:

(۴) وقال ابن ابی شیبۃ حدثنا جریر عن منصور عن طلحۃ عن سعد بن عبیدۃ عن ابی عبدالرحمن انہ قال قال علی رضی اللّٰہ عنہ لاجمعۃ ولا تشریق الافی مصر جامع ذکر العینی فی عمدۃ القاری وسندہ صحیح۔

۴:  حضرت علیؓ نے کہا کہ جمعہ اور تشریق بڑے شہر ہی میں ہے۔ ۱۲

اب التماس ہے کہ اس ناچیز کے پاس اسماء الرجال میں تین ہی کتابیں ہیں، میزان الاعتدال ، تقریب التہذیب، خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال راقم خاکسار کے مسکن کی جگہ بہت چھوٹی سی بستی ہے، بھائی احناف اس رسالہ کو دیکھ کر مجھ پر بڑا اعتراض کرکے کہتے ہیں کہ تم ایسی بستی میں کیوں جمعہ پڑھتے ہو، کتب مذکورہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جریر جو اس میں راوی ہے، منصور سے اگرچہ رواۃ صحاح سے ہے لیکن متکلم فیہ ہے اور منصور ان کا استاذ ہے، لیکن ان کے ہم نام بہت سے راوی ہیں کوئی ثقہ ہے اور کوئی ضعیف اور یہ معلوم نہیں کہ طلحہ سے کون منصور روایت کرتا ہے اور طلحہ کے بھی ہم نام بہت سے ہیں، کوئی ثقہ ضعیف اور معلوم نہیں کہ کون طلحہ سعد بن عبیدہ سے روایت کرتا ہے اور سعد بن عبیدہ ثقہ ہیں، لیکن ابی عبدالرحمن سے روایت کرتے ہیں اور ابی عبدالرحمن کے ہم نام بھی بہت ہیں کوئی مجہول اور کوئی غیر مجہول، لیکن جو ابی عبدالرحمن حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ان کا پتہ ان کتابوں سے نہیں لگتا ہے، الحاصل جریر کو منصور سے تلمذ ضرور ہے لیکن منصور کو طلحہ سے اور طلحہ کو سعد بن عبیدہ سے اور سعد بن عبیدہ کو ابی عبدالرحمن سے اور ابی عبدالرحمن کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہرگز تلمذ نہیں معلوم ہوتا ہے اب التماس یہ ہے کہ عینی نے سند مذکور کو جو صحیح کہا ہے، آیا یہ کہنا ان کا صحیح ہے یا نہ، کتب مذکورہ و دیگر کتب رجال سے سند مذکور کی تنقید فرمائی جاوے۔ بینوا توجروا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ نے جو اثر علی رضی اللہ عنہ کی سند مذکور کو صحیح کہا ہے سوان کا یہ کہنا صحیح ہے (۱)، قاضی شوکانی  رحمہ اللہ نے نیل الاوطار صفحہ ۱۱۰ جلد ۳ میں لکھا ہے کہ ابن حزم نے اثر علی رضی اللہ عنہ کی تصحیح کی ہے اور حافظ ابن حجر درایہ صفحہ ۱۳۱ تخریج ہدایہ میں لکھتے ہیں:

(۱) حدیث لا جمعۃ ولا تشریق ولا فطر ولا اضحی الافی مصر جامع لم اجدہ وروی عبدالرزاق عن علیؓ موقوفا لاتشریق ولا جمعۃ الا فی مصر جامع و اسنادہ صحیح ورواہ ابن ابی شبیۃ مثلہ وزاد ولا فطر ولا اضحی وزاد فی اٰخرہ او مدینۃ عظیمۃ واسنادہ ضعیف۔

۱:  قول صحیح ہے، اقوال اس لیے کہ سند مذکور میں منصور ابن المعتمر ہے اور طلحہ ابن مصرف ہے اور ابو عبدالرحمن تعلمی ہے جس کا نام عبداللہ بن حبیب ہے اور یہ سب راوی ثقہ اور رجال صحیحین وغیرہ میں سے ہیں۔ البتہ جریر بن عبدالحمید مذکور کو اخیر عمر میں وہم ہوگیا تھا۔ اور علاوہ طلحہ بن مصرف کے ہر ایک راوی کو اپنے اپنے استاذ سے تلمذ اور سماع ثابت ہے اور طلحہ بن مصرف کی، اگرچہ سعید بن عبیدہ سے سماع کی تصریح نہیں، مگر سماع ممکن ہے، کیوں کہ یہ دونوں تابعی کوفی ہم عصر ہیں اور پھر طلحہ باوجود ثقہ اور غیر مدلس ہونے کے روایت بھی کرتا ہے تو سماع ضروری ہوا مزید برآں عبدالرزاق کی صحیح روایت میں زبیدا یامی نے طلحہ کی متابعت بھی کی ہے۔ لہٰذا سند مذکور کو بقول امام مسلم صحیح کہنا صحیح ہے۔ واللہ اعلم ہذا ملتقط من تہذیب التہذیب ونصب الرایہ۔ ابو سعید رف الدین رحمہ اللہ ۔

اور فتح الباری صفحہ ۳۸۰ جلد دوم مطبوعہ مصر میں لکھتے ہیں:

(۲) ومن ذلک حدیث علی لاجمعۃ ولا تشریق الا فی مصر جامع اخرجہ ابو عبیدۃ باسناد صحیح الیہ موقوفا۔

۲: 

مگر واضح رہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس اثر کے صحیح ہونے سے قری اور بستیوں میں نماز جمعہ پڑھنے کی ممانعت ثابت نہیں ہوتی، اولاً اس وجہ سے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول ایک ایسا قول ہے، جس میں قیاس و اجتہاد کو دخل ہے اور صحابی کا ایسا قول بالاتفاق حجت نہیں ہے، علامہ شوکانی نیل الاوطار میں لکھتے ہیں وللاجتھاد فیہ مسرح فلا ینتھض للاحتجاج بہ انتھی ثانیا اس وجہ سے کہ آیتِ قرآنیہ و احادیث مرفوعہ مطلق و عام ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مصر اور غیر مصر ہر مقام میں اقامت جمعہ جائز و درست ہے۔ پس یہ نصوص مطلقہ و عامہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس قول کے نافی ہیں اور صحابی کا ایسا قول جس سے احادیث مرفوعہ و آیاتِ قرآنیہ سے نفی ہوتی ہو، وہ قول بالاتفاق حجت نہیں، فقہائے حنفیہ کو بھی اس کا اعتراف ہے، ثالثا اس وجہ سے کہ آیت (۱) {یا ایھا الذین اٰمنوا اذا نودی للصلوٰۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا الی ذکر اللّٰہ} ہر مکلف کو عام ہے اور ہر مکان مصر و غیر مصر کو شامل ہے، پس اس آیت قرآنیہ کے عموم سے مصر وغیر مصر، ہر جگہ وہر مقام میں اقامت جمعہ کا جائز و درست ہونا صاف و روشن ہے۔ علامہ ملا علی قاری مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں: (۲) دلیل الافتراض من کلام اللّٰہ تعالی علی العموم فی الامکنۃ انتھی۔

۱:  اے ایمان والو! جب جمعہ کی نماز کے لیے اذان کہی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو۔

۲:  اللہ تعالیٰ کے قول سے جمعہ ہر جگہ فرض ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو عموم الا مکنہ کے لیے فرض کیا ہے۔ ۱۲

پس اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس قول کی وجہ سے یہ کہا جائے کہ بستیوں اور دیہاتوں میں اقامت جائز نہیں، بلکہ فقط مصر میں ہی جائز ہے، تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس قول سے آیت قرآنیہ کی تخصیص لازم آتی ہے حالانکہ صحابی کے قول سے قرآن کی تخصیص بالاتفاق جائز نہیں ہے، نہایت تعجب ہے علمائے حنفیہ سے کہ ان کے تمام اصول کی کتابوں میں یہ لکھا ہوا ہے کہ اخبار احاد سے قرآن کی تخصیص جائز نہیں ہے چنانچہ تلویح میں ہے:

لا یجوز تخصیص الکتاب بخبر الواحد لان خبر الواحد دون الکتاب ولانہ ظنی والکتاب قطعی فلا یجوز تخصیصہ لان التخصیص تغییر والتغییر لا یکون الا بما یساویہ او یکون فوقہ انتھی۔

یعنی خبر واحد سے قرآن کی تخصیص جائز نہیں کیوں کہ خبر واحد کا درجہ قرآن کے درجہ سے ادنیٰ ہے۔ اس لیے کہ خبر واحد ظنی ہے اور قرآن قطعی ہے۔ پس خبر واحد سے قرآن کی تخصیص جائز نہیں، اس وجہ سے کہ تخصیص کے معنی ہیں متغیر کردینا اور بدل دینا اور کسی شے کا متغیر کرنا اور اس کو بدل دینا اسی چیز سے ہوگا، جو اس شے کے مساوی ہو یا اس سے بڑھ کر ہو، یہی مضمون اصولِ فقہ کی تمام کتابوں میں لکھا ہوا ہے مگر باوجود اس کے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول مذکور سے جو خبر واحد کے درجہ میں بھی نہیں ہے۔ آیت مذکورہ کی تخصیص کرتے ہیں اور اس کے حکم عام کو اس قول سے منسوخ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اقامت جمعہ فقط مصر میں درست و جائز ہے اور غیر مصر میں ناجائز و نادرست، دیکھو علمائے حنفیہ کا یہ ضیع کس قدر قابل تعجب ہے۔رابعاً اس وجہ سے کہ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول سے غیر مصر میں جمعہ کا ہونا ناجائز نکلتا ہے تو حضرت عمرو عثمان و ابوہریرہ رضی اللہ عنہ و ابن عمر وغیرہم رضی اللہ عنہم کے افعال و اقوال سے غیر مصر میں جمعہ کا جائز و درست ہونا ثابت ہوتا ہے پس چونکہ ان اصحاب رضی اللہ عنہم کے اقوال و افعال کا لینا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول کا ترک کرنا لازم ہے یا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول کو اور ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال کو ترک کرنا اور قول اللہ اور قول رسول اللہﷺ کی طرف رجوع کرنا لازم ہے۔

(۱) { قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَی فَرُدوہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الاخر ذلک خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاوِیْلاَ }

اور جب کہ ہم نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی طرف یعنی قرآن و حدیث کی طرف رجوع کیا، تو ثابت ہوا کہ اقامت جمعہ مصر وغیر مصر ہر جگہ جائز و درست ہے پس اسی کو لینا اور اسی پر عمل کرنا فرض ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم و علمہ اتم

کتبہ عبدالرحمن عفاء اللہ عنہ

سید محمد نذیر حسین

(فتاویٰ نذیریہ جلد اول ص ۵۹۵)

۱:  اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر کسی چیز میں تمہارا جھگڑا ہو جاوے تو اس کو اللہ و رسول کے پاس لے آؤ، اگر تم اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو، یہ بہت بہتر ہے اور اسی کا انجام اچھا ہے۔

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 142-145

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ