یہ سب شرطیں نماز جمعہ کی جواز کے واسطے جو فقہ کی کتابوں میں مذکور ہیں ان کی کوئی سند ہے یا نہیں؟
جمعہ کی نماز اور فرض نمازوں کی مثل ہے ۔ جو کچھ اُن میں شرط ہے، جیسے پاک ہونا بدن کا اور کپڑے کا اور جگہ کا وغیرہ ذلک اس نماز میں بھی شرط ہے اور اس کے پہلے دو خطبوں کا مشروع ہونا اس میں زیادہ ہے۔ اور نمازوں کی نسبت اور اس نماز کی اور نمازوں سے مخالف ہونے کے لیے کوئی دلیل نہیں آئی۔ اس جگہ سے معلوم ہوگیا کہ اس نماز میں اور نمازوں سے زیادہ مثل امام اعظم اور مصر جامع اور عدد مخصوص وغیرہ کے شرط ٹھہرانے کے لیے کوئی سند صحیح نہیں، اس لیے کہ اس کے مستحب ہونے کی بھی کوئی دلیل نہیں ہے۔ واجب ہونا تو بجائے خود رہا اور شرطیت تو چیز دیگر ہے بلکہ دو شخصوں کا ایسی جگہ میں جہاں اُن کے سوا کوئی موجود نہ ہو جمعہ کا ادا کرلینا اُن سے واجب کو ساقط کردیتا ہے۔ اور اگر ایک نے اُن میں سے خطبہ بھی پڑھ لیا تو سنت پر عمل کیا اور اگر نہ پڑھا تو خطبہ ایک سنت ہی ہے یعنی واجب نہیں ہے۔ بلکہ اگر نماز جمعہ میں جماعت کے واجب ہونے کی دلیل وارد نہ ہوتی اور رسول اللہﷺ کا جمعہ کو جماعت کے بغیر کبھی ادا کرنا ثابت ہوتا تو ایک آدمی کا بھی جمعہ کو ادا کرلینا اور نمازوں کی طرح کافی ہو جاتا و لیکن حدیث طارق بن شہاب میں آیا ہے۔ اَلْجُمْعَۃُ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ فِیْ جَمَاعَۃٍ۔ رواہ ابوداؤد یعنی جمعہ کا ادا کرنا جماعت میں ہر مسلمان پر حق واجب ہے۔ اور اس سے جماعت کا وجوب ثابت ہوتا ہے اور مذہب والوں کے نزدیک جمعہ کی شرطوں میں سے عمدہ دو شرطیں ہیں۔ ایک عدد مخصوص دوسرا مصر جامع اور خلاف اس مسئلہ میں نہایت پھیلا ہوا ہے۔ حافظ نے فتح الباری میں عدد معین کے اعتبار میں پندرہ مذہب ذکر کیے ہیں۔ اور کہا ہے کہ پندرہواں مذہب یہ ہے کہ جماعت کثیر ہو بلا قید، اور سیوطی رحمہ اللہ نے اسی کو امام مالک رحمہ اللہ سے نقل کیا۔ اور دلیل کی رو سے اُمید ہے کہ یہی مذہب اخیر قوی ہو انتہیٰ شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الاوطار میں کہا جس طرح کہ تنہا ایک کے لیے جمعہ کے صحیح ہو جانے کی کوئی سند نہیں اسی طرح اسی یا تیس یا بیس یا نو یا سات نفر کی شرط ہونے کی کوئی سند نہیں۔ اور جس نے کہا کہ دو آدمیوں کے ساتھ جمعہ صحیح ہے اُس کی دلیل واجب ہونا عدد کا ہے۔ حدیث اور اجماع سے اور کسی عدد مخصوص کی شرط ہونے کا دلیل سے نہ ثابت ہونا اور سب نمازوں میں دو کی جماعت کا صحیح ہونا اور جمعہ اور باقی جماعتوں کا یکساں ہونا اور بغیر اس عدد یا اُس عدد کے جمعہ کے نہ منعقد ہونے کا آنحضرتﷺ سے مروی نہ ہونا اور میرے نزدیک یہی قول راجح ہے۔ انتہیٰ حاصل کلام یہ ہے کہ شارع نے جماعت کا اطلاق دوپر اور دو سے زیادہ پر کیا ہے۔ اور باقی سب نمازیں باتفاق علماء دو سے منعقد ہو جاتی ہیں۔ اور جمعہ بھی ایک نماز ہے۔ تو جب تک کوئی دلیل خاص کرنے والی نہ ہو اور نمازوں کے خلاف کسی حکم سے مختص نہ ہوگا۔ اور جو عدد کہ اور نمازوں میں معتبر ہے۔ اس کے علاوہ جمعہ میں اعتبار کرنے کی کوئی دلیل نہیں۔ عبدالحق نے (جو قدمائے اہل حدیث سے ہیں کہا کہ جمعہ کے عدد میں کوئی حدیث ثابت نہیں اور سیوطی نے کہا کسی حدیث سے عدد مخصوص کی تعیین ثابت نہیں انتہیٰ اور جو احادیث عددِ مخصوص کی اعتبار پر دلالت کرتی ہیں۔ سب ضعیف ہیں اور حفاظ حدیث نے ان میں کلام کی ہے پس وہ استدلال کے لائق نہ رہیں۔ اور اُن سے حجت قائم نہ ہوئی۔ علی ہذالقیاس مصر جامع کے نہ شرط ہونے پر، حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما کی دلالت کرتی ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ کی مسجد میں جمعہ ہونے کے بعد پہلا جمعہ موضوع جواثا (جو بحرین کے ملک میں ہے) عبدالقیس کی مسجد میں پڑھا گیا۔ (رواہ البخاری) اور جواثا ایک گاؤں کا نام ہے۔ بحرین کی بستیوں میں سے اور ظاہر یہ ہے کہ عبدالقیس نے اس جمعہ کو رسول اللہﷺ کے حکم کے بغیر قائم نہ کیا ہوگا۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عادت تھی کہ نزولِ وحی کے زمانہ میں کسی چیز کی مشروعیت کا خود اذن نہیں مانگتے تھے۔ اور اپنی طرف سے اسے مشروع نہیں ٹھہرایا کرتے تھے پس اگر یہ جمعہ جائز نہ ہوتا تو ضرور اس کے بارے میں قرآن کریم نازل ہوتا۔ چنانچہ جابر رضی اللہ عنہ اور ابو سعید رضی اللہ عنہ نے عزل (یعنی انزال کے وقت ذکر کو نکال کر باہر انزاں کرنا تاکہ علوقِ حمل نہ ہو جائے) کے جواز پر استدلال کیا اس سے کہ انہوں نے زمان نزول وحی میں عزل کیا اور اس کی ممانعت نہ آئی۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس حدیث لا جمعۃ ولا تشریق الا فی مصر جامع (یعنی جمعہ اور عید کا پڑھنا مصر جامع کے سوا درست نہیں) کو امام احمد نے ضعیف کہا اور کہا کہ اس کا مرفوع ہونا صحیح نہیں۔ اور ابن حزم نے اس کے موقوف ہونے کا جزم کیا ہے۔ اور یہ موقوف مرفوع حکمی بھی نہیں ہوسکتی کیوں کہ اس میں اجتہاد کی گنجائش ہے۔ پس حجت اس سے قائم نہ ہوگی اور ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے کہ حضرت امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بحرین والوں کو لکھا کہ جس جگہ ہوا کرو جمعہ ادا کرلیا کرو۔ اور ابن خزیمہ نے اس کو صحیح کہا۔ اور یہ بستیوں اور شہروں کو شامل ہے اور بیہقی نے لیث بن سعد سے روایت کی کہ حضرت عمر اور عثمان رضی اللہ عنہما کے زمانہ میں اہل مصر اور اطراف مصر کے رہنے والے ان کے حکم سے جمعہ ادا کرتے تھے اور ان میں ایک جماعت صحابہ کی بھی موجود تھی۔ اور عبدالرزاق نے صحیح سندھ کے ساتھ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ وہ مکے اور مدینہ کے بیچ کے گاؤں والوں کو جمعہ پڑھتے دیکھتے تھے اور ان پر کچھ عیب نہیں کرتے تھے۔ اور صحابہ کے اختلاف کے وقت مرفوع کی طرف رجوع کرنا ضرور ہے۔ اور اسباب میں اور بھی حدیثیں ہیں اور جب بستیوں میں جمعہ پڑھنا ثابت ہوگیا۔ تو امام اعظم (یعنی بادشاہ) شرط ہونا بے اصل ہوگیا، کیوں کہ بادشاہ بستیوں میں نہیں رہا کرتا۔ اور علی القیاس مسجد بھی شرط نہیں اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے اور باقی علماء بھی یہی فرماتے ہیں کیوں کہ اُس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اور یہی قول قوی ہے۔ اور اہل تواریخ کے نزدیک آنحضرتﷺ کا میدان کے بیچ جمعہ پڑھنا مروی ہے۔ اور ابن سعد نے بھی اس کو روایت کیا۔ اور اگر اس کی صحت کو نہ مانیں تب بھی آنحضرتﷺ کا صرف مسجد میں جمعہ ادا کرنا مسجد کے شرط ہونے کی دلیل نہیں ہوسکتا۔ واللہ اعلم
مجموعہ فتاویٰ جلد دوم، ص ۱۲
(مؤلفہ نواب صدیق حسن خانؒ)