ابوداؤد مسلم شریف میں ہے۔ صلیت معہ الجمعۃ فی المقصورۃ۔مقصورہ سے کیا مراد ہے؟
قال القاری المقصورۃ موضع معین فی الجامع وقال ابن عابدین الظاھر ان المقصورۃ فی زمانھم اسم لبیت فی داخل الجدار القبلی من المسجد کان یصلی فیھا الامراء الجمعۃ ویمنعون الناس من دخولھا خوفا من العدو انتھی وقال اوّل من عملھا معاویۃ بن ابی سفیان حین ضربہ الخارجی ۔
(محمدث دہلی جلد ۱۰، ش ۴)
مشکوٰۃ میں حدیث ہے: عن جابر قال قال رسول اللّٰہ ﷺ وھو یخطب اذا جاء احدکم والامام یخطب فلیرکع رکعتین ولیتجوز فیھا۔ یعنی جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے خطبہ میں فرمایا جب تم میں سے کوئی آئے اور امام خطبہ پڑھ رہا ہو تو ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھ لے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اوّل خطبہ کی یا دوسرے کی کوئی شرط نہیں بلکہ جب آئے پڑھ لے، مسلمان کو چاہیے کہ رسول اللہﷺ کے فرمان میں اپنی طرف سے ذرا کم و بیش نہ کرے۔ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان یہی تھی، جیسے مشکوٰۃ میں حدیث ہے کہ رسول اللہﷺ نے خطبہ جمعہ میں فرمایا ’’ اجلسوا‘‘ یعنی بیٹھ جاؤ، عبداللہ بن مسعود آرہے تھے۔ مسجد کے دروازہ میں تھے کہ یہ ارشاد ان کے کان میں پڑا وہیں بیٹھ گئے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اے عبداللہ آگے آجا، پھر آگے آگئے۔ سو مسلمان کی یہی شان ہونی چاہیے کہ فرمانِ نبوی کے سامنے ذرا چوں چرا نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں سنتِ نبوی کا شوق دے تاکہ بغیر کمی و بیشی کے عامل ہو جائیں۔ (آمین)
(حافظ عبداللہ روپڑی ، رسالہ بدعات مروجہ کی تردید ص ۶ )
ظہر احتیاطی کی بڑی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جمعہ کے شرائط میں شک ہے۔ اس لیے جمعہ پڑھ کر ظہر بھی پڑھ لینی چاہیے۔ اگر بالفرض جمعہ صحیح نہ ہوا تو ظہر ہو جائے گی۔ مگر یہ بات ظاہر ہے کہ جب ایک شے کے لیے کوئی شرط ہو اور شرط کے نہ ہونے کا ہمیں یقین ہو جائے تو اس میں شک کرنا فضول ہے۔ اور اگر اس کا شرط ہونا ہی معلوم نہیں، تو اس کا ہونا نہ یکساں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس کو ایک مثال سے سمجھائیں۔ مثلاً ہم نماز کے لیے وضو کرنا چاہتے ہیں، مگر وضو کے لیے جو پانی ملا ہے۔ اس کے نجس ہونے کا ہمیں یقین ہے تو اس صورت میں ہم تیمم کریں گے، کیوں کہ تیمم وضو کا نائب ہے۔ اب بتلائیے پانی کے ہوتے ہوئے تیمم کی ضرورت کیوں ہوئی۔ اس لیے کہ پانی کے لیے طہارت شرط ہے۔ جب پانی میں طہارت نہ ہونے کا یقین ہوگیا تو تیمم کے مسئلہ پر عمل کرلیا۔ اور اگر ہمیں پانی کے لیے طہارت کا شرط ہونا معلوم نہ ہو، یعنی کسی دلیل سے معلوم نہ ہو، کہ وضو کے پانی کے پانی کے لیے طہارت شرط ہے اور یہ مسئلہ معلوم ہے کہ وضو کرنا فرض ہے تو کیا ہم اس صورت میں صرف وضو کریں گے یا وضو اور تیمم دونوں کو جمع کریں گے۔ ظاہر ہے کہ وضو پر اکتفا کریں گے کیوں کہ تیمم اُس وقت ہوتا ہے۔ جب وضو نہ ہو، اور جب پانی کے لیے طہارت کا شرط ہونا معلوم نہیں تو نجس سے وضو صحیح ہوگا۔ پھر تیمم کا کیا محل۔
جب مثال سمجھ میں آگئی تو اب ہم پوچھتے ہیں کہ جمعہ کے لیے شہر کی شرط یا سلطان کی شرط یا شہر میں ایک جگہ ہونے کی شرط ہے یا نہ، اگر شرط ہے تو جہاں یہ شرائط ہوں گے، وہاں جمعہ صحیح ہوگا۔ جہاں نہیں ہوں گے، جمعہ نہیں ہوگا۔ جمعہ پڑھ کر ظہر پڑھنے کی کوئی وجہ نہیں، اور اگر شرط نہیں یعنی کسی دلیل سے ان کا شرائط ہونا معلوم نہیں۔ اور خدا حکم دیتا ہے کہ جمعہ پڑھو تو پھر جمعہ صحیح ہے۔ اس میں شکی ہو کر ظہر پڑھنا اس کا کیا مطلب، اللہ اور اُس کا رسول تو ایک فرض کرے اور ہم دونوں جمع کرلیں۔ یہ تو ایسا ہوا جیسے ظہر کے چار فرضوں کی بجائے چھ پڑلیں، اسی واسطے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور باقی تین اماموں سے ظہر احتیاطی کی کوئی روایت نہیں ملتی اگر کوئی چار اماموں سے صحیح سند کے ساتھ ثابت کردے تو بڑی خوش قسمتی کی بات ہے۔ مگر ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ یہ ثابت نہیں۔ ہم نے اس بارہ میں ایک مستقل رسالہ لکھا ہے۔ جس کو زیادہ تفصیل کی ضرورت ہو منگا کر دیکھے اس میں نہایت عجیب پیرائے میں اس مسئلہ پر اور دیگر شرائط جمعہ پر روشنی ڈالی ہے۔ (رسالہ بدعات مروجہ کی تردید ص ۱۱)