کیا فرماتے ہیں علمائے دین غیر مقلدین و مانع ظہر بعد الجمعہ اس مسئلہ میں کہ:
۱: نماز جمعہ عین ظہر ہے یا غیر ظہر، اگر عین ظہر ہے تو اس میں تخالف کیوں ہے مثلا (۱) غلام، مسافر، قیدی عورت، نابینا، لنگڑا، بیمار، بیمار کی خدمت کرنے والا، جنازہ کرنے والا، بوقت بارش دیہاتی صحرائی پر جمعہ فرض نہیں مگر ظہران سب پر فرض ہے۔
۲: جمعہ بلا شرط خطبہ ادا نہیں ہوتا مگر ظہر بلا خطبہ ادا ہوتی ہے۔
۳: جمعہ بلا جماعت نہیں مگر ظہر اکیلے بھی درست ہے۔
۴: جمعہ بلا شاہ اسلام نہیں مگر ظہر بغیر اس کے فرض ہے۔
۵: جمعہ اپنے وقت سے باہر فرض نہیں مگر ظہر اپنے وقت اور خارج از وقت برابر فرض ہے۔
۶: جمعہ بغیر عذر کے ترک ہو جائے تو ایک دینار دینے سے معاف ہو جاتا ہے، مگر ظہر کے لیے یہ شرط نہیں۔
۷: جمعہ دو رکعت اور ظہر چار رکعت، ظہر میں قرأۃ آہستہ اور جمعہ میں بلند پھر اس پر حکم ظہر؟
۸: نمازِ پنجگانہ روزانہ اور ہر مومن و مومنات پر فرض ہے یا نہیں اگر فرض ہے تو کتنی رکعت؟
۹: پانچ نمازیں پہلے فرض ہوئیں یا جمعہ؟ اگر پنجگانہ پہلے فرض ہوئیں تو بروز جمعہ ترکِ ظہر کے لیے کونسی دلیل ہے؟
۱۰: اگر جمعہ پہلے فرض ہوا ہے تو قبل از فرضیت صلوٰۃ خمسہ حضور علیہ السلام کہاں پر جمعہ ادا فرماتے تھے، اکیلے اکیلے یا جماعت کے ساتھ۔
۱۱: بروز جمعہ ظہر فرض ہے یا جمعہ اگر ظہر فرض ہے تو کتنی رکعت اگر جمعہ فرض ہے تو کتنے رکعت۔ اگر جمعہ فرض ہے تو جس کو جمعہ نہ ملے تو وہ جمعہ پڑھے یا ظہر اگر جمعہ پڑھے تو اس کی دلیل تحریر ہو۔ اگر ظہر پڑھے تو کیوں؟ اس روز تو بقول آپ کے اس پر جمعہ ہی فرض نہ تھا، نہ ظہر فرض تھی؟
۱۲: ہر نماز میں قبلہ کی طرف منہ کرنا شرط ہے۔ اگر بقول آپ کے خطبہ دو رکعت کے قائم مقام ہے تو اس میں توجہ قبلہ کیوں نہیں اگر نماز مشرق کی طرف منہ کرکے پڑھیں تو کیا نماز ادا ہو جائے گی۔
۱۳: اگر کسی کا نصف خطبہ ترک ہو جائے تو بعد سلام امام یا مقتدی ایک رکعت اُٹھ کر ادا کرے یا نہیں۔
۱۴: جمعہ کی ایک رکعت پانے والا بعد سلام امام مقتدی تین رکعت ادا کرے یا نہیں۔
۱۵: جماعت ظہر میں ایک رکعت پانے والا بعد سلام امام مقتدی تین رکعت ادا کرے گا یا نہیں۔
۱۶: جمعہ مشروط باشرائط ادا ہے یا نہیں اگر ہے تو کیا ایک شرط کے فوت ہونے سے جمعہ ادا ہو جائے گا۔ یعنی فرض وقتی سے بری الذمہ ہو جائے گا۔ اگر مشروط نہیں تو اکیلے جہاں چاہے آبادی ہو یا جنگل سواری ریلی ہو یا کشتی جمعہ پڑھ سکتا ہے یا نہیں۔
۱۷: جس مسجد میں جمعہ ہوچکا ہو، وہاں ایک دو نماز بعد میں آئیں تو ظہر پڑھیں یا جمعہ، اگر جمعہ پڑھیں تو اذان و اقامت سے ادا کریں یا نہیں۔
یہ تمام سوالات ایک حنفی مقلد نے کیے ہیں۔ (راقم محمد از کھپانوالی ڈاکخانہ کستر ضلع فیروز پور) ۲؍ شوال ۲۳۵۰ھ
جمعہ کے عین ظہر ہونے سے کیا مراد ہے۔ اگر یہ مراد ہے کہ احکام میں فرق نہیں تو اس معنی سے عین ظہر نہیں بلکہ غیر ظہر ہے۔ کیوں کہ ظہر اور جمعہ میں کئی احکام میں فرق ہے۔ چنانچہ سوال میں ذکر ہے اگرچہ سوال میں بعض ایسے احکام بھی ذکر ہیں جو صحیح نہیں۔ جیسے بادشاہ کی شرط کرنا یا بلا عذر ترک کی صورت میں بغیر توبہ کے ایک دینار سے معاف ہو جانا لیکن بعض کی صحت میں کوئی شبہ نہیں۔ جیسے خطبہ جمعہ وغیرہ۔
اگر عین ظہر ہونے سے یہ مراد ہے کہ اس سے ظہر ساقط ہو جاتی ہے تو یہ بے شک صحیح ہے۔ دلیل اس کی قرآن و حدیث ہے۔ قرآن مجید میں ہے: { وَاِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعْۃ} اس آیت میں نماز سے مراد بالاتفاق جمعہ کی نماز مراد ہے۔ شانِ نزول بھی جمعہ کی نماز میں ہے اس کے بعد فرمایا:
{ فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ }
’’ یعنی جب نمازِ جمعہ سے فراغت ہو جائے تو زمین میں روزی تلاش کے لیے پھیل جاؤ۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ جمعہ کے دن ظہر نہیں۔ مشکوٰۃ وغیرہ میں بکثرت احادیث موجود ہیں کہ رات دن میں پانچ نمازیں فرض ہیں اور یہ بھی آیا ہے کہ جو شخص تین جمعہ متواتر چھوڑ دے اُس کے دل پر مہر ہو جاتی ہے۔ نیز اوپر کی آیت بھی دلالت کرتی ہے کہ جمعہ کے دن نماز ضروری ہے۔ سب کاروبار چھوڑ کر نماز جمعہ کو حاضر ہونا چاہیے پس جمعہ کے دن نماز ضروری ہوئی تو اَب ظہر کا حکم نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ اس سے لازم آتا ہے کہ چھ نمازیں فرض ہوں، معاذ اللہ خدا ایسا نہیں کہ پچاس نمازوں کو پانچ کرکے چھ کردے، حالانکہ رسول اللہﷺ کو خدا کی طرف سے ندا آئی۔ امضیت فریضتی وخففت عن عبادی متفق علیہ (مشکوٰۃ باب المعراج) یعنی میں نے اپنا فرض جاری کردیا اور اپنے بندوں پر تخفیف کردی۔
اور بعض روایتوں میں مَا یُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ بھی آیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو فرمایا: اب یہ بات میرے نزدیک بدلی نہیں جائے گی۔ پانچ نمازوں سے نہ کم ہوں گی اور نہ زیادہ۔
اس تمہید کے بعد اب ہر سوال کا جواب نمبردار سنیے۔
احکام میں فرق ہونے کی وجہ سے جمعہ غیر ظہر ہے اور ظہر ساقط ہونے کی وجہ سے نمازِ جمعہ عین ظہر ہے۔ سنت مؤکدہ سے تحیۃ المسجد ادا ہو جاتا ہے۔ اور حنفیہ کے نزدیک رکوع سے سجدہ تلاوت ادا ہو جاتا ہے تو ظہر اور جمعہ میں تو اتنا فرق نہیں، اس سے جمعہ کا ساقط ہونا معمولی بات ہے۔ ظہر ساکت ہونے کی دلیل یہ ہے کہ رات دن میں صرف پانچ نمازیں فرض ہیں۔ چھ نہیں، چنانچہ اوپر تفصیل ہوچکی ہے۔ نیز وہ حدیث بھی دلیل ہے جو جواب نمبر ۱۱ میں آئی ہے۔
( ۱) روزانہ پانچ نمازیں ہی فرض ہیں۔ جمعہ کے دن پندرہ رکعتیں فرض ہیں۔ اور باقی دنوں میں سترہ کیوں کہ جب جمعہ سے ظہر ساقط ہوگئی تو ضرور ہے کہ جمعہ کے دن پندرہ رکعتیں فرض ہوں۔ ۹۔۱۰ حدیث میں ہے کہ پہلے نماز دو، دو رکعت فرض ہوئی۔ پھر ہجرت کے بعد چار رکعت ہوگئی اور سفر کی نماز اسی حالت پر رہی۔ اور خوف کی نماز ایک رکعت ہوگئی بلوغ المرام میں ہے مغرب کی نماز چار رکعت نہیں ہوئی اس لیے کہ وہ دن کے وتر ہیں۔ اور فجر کی نماز بھی چار رکعت نہیں ہوئی۔ کیونکہ اس میں قرأت لمبی ہے۔ نیز ہجرت سے پہلے وضو کے فرض ہونے کی کوئی دلیل نہیں۔ جس آیت سے وضو کی فرضیت ثابت ہوتی ہے۔ اس طرح سے آہستہ آہستہ نمازوں کے احکام میں فرق پڑتا رہا۔ اس فرق سے بعض نمازوں کے نام میں بھی فرق پڑ گیا۔ مثلاً نمازِ سفر، نمازِ خوف، نمازِ جمعہ وغیرہ۔
اب سوال میں نماز کو نمازِ پنجگانہ سے الگ کرکے یوں سوال کرنا کہ نمازِ پنجگانہ پہلے فرض ہوئی یا جمعہ اس سے کیا مراد ہے۔ اگر یہ مراد ہے کہ نماز جمعہ نمازِ پنجگانہ سے الگ ہے تو یہ بالکل غلط ہے۔ اس سے لازم آتا ہے کہ نمازِ خوف وغیرہ بھی الگ ہو، کیوں کہ معراج کی رات یہ قسمیں نہ تھیں۔ اور اگر یہ مراد ہے کہ نماز جمعہ پانچ نمازوں میں داخل ہے۔ لیکن ظہر میں جمعہ کے دن کچھ تفصیل آنے کی وجہ سے جمعہ کے دن کی ظہر کو نمازِ جمعہ نام رکھ دیا تو یہ بالکل صحیح ہے۔ لیکن اس صورت میں پہلے اور پچھلے کا سوال فضول ہے۔ اگر پیچھے ہو (اور حقیقت میں ہے بھی پیچھے کیوں کہ آیت جمعہ پیچھے اُترے ہے) تو اس میں کوئی حرج نہیں، عموماً عبادات میں ایسا فرق پڑتا رہا۔ دیکھئے زکوٰۃ مکہ میں فرض ہوئی، لیکن سونا، چاندی، اونٹ، بکری کی تفصیل سے اور ہر ایک کا الگ نصاب یہ سب کچھ مدینہ میں ہوا۔ پہلے محرم کا روزہ تھا۔ پھر رمضان اُترا۔ جس میں روزہ کی جگہ فدیہ (ایک مسکین کو کھانا دینے) کا بھی اختیار تھا۔ پھر اس کے بعد روزہ رکھنا لازم آگیا۔ اس طرح سے بہت سے احکام بدلتے رہے۔ ٹھیک اس طرح ظہر میں کچھ کمی بیشی کرکے نماز جمعہ ہوگئی، زید کا اگر ہاتھ کٹ جائے یا کوئی جگہ اس کی سوج جائے یا بچہ سے جوان یا بوڑھا ہو جائے تو کیا وہ کوئی اور شخص ہو جایا کرتا ہے۔ یہ کیسا فضول سوال ہے جس کا نہ سر ہے نہ پیر ہے۔
( ۱۱) جمعہ کے دن جمعہ ہی فرض ہے لیکن اگر جمعہ نہ ملے تو ظہر پڑھے۔ مشکوٰۃ باب الخطبۃ والصلوٰۃ میں حدیث ہے۔ جو جمعہ کی ایک رکعت پائے وہ دوسری ساتھ ملائے اور جس سے دونوں رکعتیں فوت ہوگئیں وہ چار پڑھے یا فرمایا ظہر پڑھے اس کی موید اور روایتیں بھی ہیں۔ ملاحظہ ہو نیل الاوطار وغیرہ۔
(۱۲)ہم یہ نہیں کہتے حضرت عمررضی اللہ عنہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مصنف ابن ابی شیبہ میں روایت ہے کہ خطبہ دو رکعت کے قائم مقام کیا گیا ہے۔ لیکن اس کے بعض احکام میں فرق کردیا گیا ہے۔ جیسے ظہر جمعہ میں فرق ہے کیوں کہ دو رکعتیں ظہر کی کم کرکے ان کی جگہ خطبہ رکھنا۔ اس سے مقصد یہ ہے کہ سامعین کو وعظ ہو، اور وعظ کی اصل صورت یہ ہے کہ سامعین کی طرف منہ ہو۔ اس لیے قبلہ رُخ ہونے کی شرط اڑا دی، جیسے صلوٰۃ خوف کی بعض صورتوں میں جس طرف منہ ہو۔ اُسی طرف درست ہے۔ اس طرح سفر میں وتر اور نفل سواری پر جس طرف منہ ہو درست ہیں۔ اس طرح فجر کی نماز میں لمبی قرأت دو رکعت کے قائم مقام ہے۔ لیکن لمبی قرأت ضروری نہیں، اس طرح صدقہ فطر روزہ کی کمی اور نقصان کو پورا کرتا ہے۔ مگر احکام الگ ہیں۔ اور صدقہ فطر کے الگ اور نماز میں بھول کر پانچ رکعت پڑھی جائیں تو سجدہ سہو ایک رکعت کے قائم مقام ہو جاتا ہے اسی طرح سورۂ بقر کی آخری دو آیتیں رات میں پڑھے تو قیام لیل کا کام دے سکتی ہیں۔ اسی طرح سورہ آل عمران کا آخری رکوع حالانکہ قرآن مجید میں قبلہ رُخ ہونا شرط نہیں۔ غرض یہاں رائے قیاس کو کوئی دخل نہیں۔ حکم کی تعمیل ہے جس طرح وارد ہوا اُسی طرح کرتے جانا چاہیے۔ مومن کا کام آمنا و صدقنا ہے، نہ چون و چرا، اور اگر آپ ضرور کرید ہی کرنا چاہتے ہیں تو اس کی مثال آپ یوں سمجھئے کہ تھانیدار کی عدم موجودگی میں تھانیدار کا کام منشی کرتا ہے۔ حالانکہ ویسے ان میں بڑا فرق ہے۔
(۱۳،۱۴،۱۵) ان تینوں نمبروں کا جواب نمبر ۱۱ میں آچکا ہے۔
(۱۶) جو شرائط قرآن و حدیث میں آچکے ہیں، وہ بسرو چشم منظور ہیں اور ان کے فوت ہونے سے جمعہ نہیں ہوگا جیسے جماعت ہاں کسی شرط کی بابت حدیث میں آجائے کہ اس کے نہ پانے کی صورت میں بھی جمعہ ہو جائے گا تو اس صورت میں جمعہ ہو جائے گا۔ جیسے (۱۱) میں گزر چکا ہے۔ کہ ایک شخص نے صرف ایک رکعت پائی نہ خطبہ پایا نہ پہلی رکعت میں شامل ہوا تو وہ ایک رکعت اور ملا لے۔ گویا خطبہ فوت ہونے سے اس کے جمعہ میں فرق نہیں آیا۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے شافعیہ کہتے ہیں۔ رکوع میں رکعت ہو جاتی ہے۔ حالانکہ ان کے نزدیک فاتحہ واجب ہے۔ اور حنفیہ کے نزدیک بھی رکوع میں رکعت ہو جاتی ہے۔ حالانکہ ان کے نزدیک قیامِ فرض رہ جاتا ہے۔ اگر وہ کہیں کہ ہم تکبیر کہہ کر قیام کرکے امام کے ساتھ ملتے ہیں تو یہ حدیث کے خلاف ہے۔ کیوں کہ حدیث میں آیا ہے کہ امام کو جس حالت میں پاؤ اس کے ساتھ شامل ہو جاؤ، اس لیے اگر امام سجدہ میں ہو تو کوئی شخص رکوع کرکے سجدہ میں امام سے ملے تو اس کا نہ شافعیہ اعتبار کرتے ہیں نہ حنفیہ۔
(۱۷) نمبر ۱۱ میں اس سوال کا جواب آچکا ہے کیوں کہ نمبر ۱۱ میں جو حدیث گزری ہے وہ عام ہے ایک کو بھی شامل ہے۔ زیادہ کو بھی۔ چنانچہ اس کے الفاظ یہ ہیں:
مَنْ اَدْرَکَ مِنَ الْجُمُعَۃِ فَلْیُصِلْ اِلَیْھَا اُخْرٰی وَمَنْ فَاتَتْہُ الرَّکْعَتَانِ فَلْیُصَلِّ اَرْبَعًا او قال الظُّھْرِ۔
یعنی جو جمعہ کی ایک رکعت پائے وہ ساتھ دوسری ملائے اور جس سے دونوں رکعتیں فوت ہو جائیں تو وہ چار پڑھے یا فرمایا ظہر پڑھے۔
اس میں حدیث کلمہ مَنْ ہے جس میں ایک بھی داخل ہے اور زیادہ بھی داخل ہیں۔ جیسے قرآن مجید میں ہے:
{ ومن الناس من یقول اٰمنا بااللّٰہ وبالیوم الاخر وماھم بمومنین}
’’ یعنی بعض لوگ کہتے ہیں ہم ایمان لائے اللہ پر اور دن آخرت پر لیکن حقیقت میں وہ سب ایمان والے نہیں۔‘‘
نوٹ: جمعہ اور ظہر اور دیہات میں جمعہ کی زیادہ تحقیق منظور ہو تو ہمارا رسالہ اطفاء الشمعہ ملاحظہ کریں۔
عبداللہ امرتسری مقیم روپڑی
(فتاویٰ اہل حدیث ص۳۳۶، ج۲)