خطبہ جمعہ کی نسبت امام نووی اذکار ص ۷۸ میں لکھتے ہیں: ویشترط کونھا بالعربیۃ ھکذا فی منھاج الطالبین ص۱۹۔اور شیخ الاسلام زکریا انصاری متن المنہج ص۱۹ میں لکھتے ہیں وشرط کونھما عربتین۔اور اُن کے سوا اور علمائے شافعیہ فرماتے ہیں اور حنابلہ نے بھی ایسا ہی لکھا ہے۔ اور جناب شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلی مصفی( ص۵۳۸) میں تحریر فرماتے ہیں کہ اس کا رواج عربی میں ہمیشہ سے ہے چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:
’’ عربی بودن نیز بجہتہ عمل مستمر مسلمین در مشارق و مغارب باوجود آنکہ دربسیارے ازا قالیم مخاطبان عجمی بودند۔‘‘
اب سوال یہ ہے کہ ان عبارات سے غیر لسان عرب میں خطبہ جمعہ پڑھنا ایک فعل محدث ثابت ہوتا ہے یا نہیں؟ نمبر ۲ بہتیرے امور محدث کہے جاتے ہیں وہ اسی وجہ سے کہ وہ از منہ مشہود لہا بالخیر سے متواتر نہیں۔ پس خطبہ جمعہ غیر لسان عرب میں جواز منہ مشہود لہا بالخیر سے متواتر ہے۔ اس کو کیوں محدث نہیں کہا جاسکتا؟ نمبر ۳: یہ اردو خطبہ کس وقت سے جاری ہوا؟
نمبر ۴: یہ عربی خطبہ جو ہمیشہ سے جاری ہے جس کو عوام نہیں سمجھتے، شرعاً ادا ہوسکتا ہے یا نہیں؟
نمبر ۵: نماز میں علاوہ دعا ماثورہ اگر کوئی شخص اپنی زبان اُردو یا فارسی میں کوئی دعا پڑھے تو یہ جائز ہے یا نہیں، دونوں شقوں کا جواب مدلل مطلوب ہے؟
ہر محدث کام بدعت نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے کچھ شرائط ہیں۔ ایک یہ کہ وہ دین میں داخل ہو۔ اگر دین میں داخل نہ ہو تو وہ بدعت نہیں۔ جیسے علم معانی، بیان، عروض وغیرہ۔ دوسری شرط یہ ہے کہ شریعت میں اس کا ثبوت نہ ہو۔ اگر شریعت میں اس کا ثبوت ہو تو وہ بھی بدعت نہیں۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تراویح کی بابت فرمایا: نعمت البدعۃ ھذہ۔ یعنی یہ اچھی بدعت ہے کیوں کہ رسول اللہﷺ نے تین روز پڑھ کر فرضیت کے خوف سے ترک کردی تھیں۔ اسی طرح تعدد جمعہ (یعنی شہر میں کئی جمعہ پڑھنے) کی بابت صحیح مسلک یہی ہے کہ درست ہے اگرچہ رسول اللہﷺ کے زمانہ میں اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک ہی جگہ ہوتا رہا متعدد جگہ نہیں ہوا۔ اسی طرح خطبہ جمعہ کو سمجھ لینا چاہیے۔ اگر کہا جائے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے متعدد جمعہ کی بابت مروی ہے کہ انہوں نے تعدد جمعہ کا حکم کیا۔ چنانچہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے منہاج السنہ میں ذکر کیا ہے۔ اس لیے یہ محدث نہ رہا۔ بخلاف خطبہ کے غیر عربی ہونے کی کونسی روایت ہے تو جواباً عرض ہے۔ کہ خطبہ جمعہ غیر عربی میں ہونے کی بابت ارشادِ نبویﷺ موجود ہے۔ مسلم وغیرہ میں حدیث خطبہ جمعہ میں ہے:
یقرأ القراٰن ویذکر الناس (منتقٰی)
یعنی رسول اللہﷺ لوگوں کو وعظ کرتے۔ اور ظاہر ہے کہ افہام (سمجھانا) نہ ہو تو وعظ ہی نہیں۔
اس کے علاوہ مسلم اور ابن ماجہ میں حدیث ہے کہ رسول اللہﷺ جب خطبہ کرتے تو آنکھیں سرخ ہو جاتیں۔ غصہ سخت ہو جاتا اور آواز بلند ہو جاتی۔ گویا کہ آپ فوجِ دشمن سے ڈرانے والے ہیں۔ جو کہتا ہے صبح کو لوٹا تمہیں شام کو لوٹا تمہیں۔
اسی بنا پر نواب صاحب روضۃ الندیہ کے صفحہ ۹۰ میں لکھتے ہیں:
ثم اعلم ان الخطبۃ المشروعۃ ھی ماکان یعتادہ رسول اللہ ﷺ من ترغیب الناس وترھیبھم فھذا فی الحقیقۃ روح الخطبۃ الذی لاجلہ شرعت واما اشراط الحمد للہ والصلوٰۃ علی رسول اللہ ﷺ او قرأۃ شئی من القراٰن فجمیعہ خارج عن معظم المقصود من شرعیۃ الخطبۃ۔ انتھیٰ
یعنی مشروع خطبہ وہ ہے جو رسول اللہﷺکی عادت مبارک تھی کہ لوگوں کو رغبت دیتے اور ڈراتے۔ پس یہ در حقیقت خطبہ کی جان ہے جس کی خاطر خطبہ کا حکم ہوا۔ اور خدا کی تعریف کی شرط اور رسول اللہﷺ پر درود کی شرط اور قرآن مجید پڑھنے کی شرط اصل مقصود خطبہ سے خارج ہے۔ جب اصل مقصد ہی لوگوں کو وعظ سے تو مخاطب لوگوں کی زبان کا لحاظ ضروری ہوا۔ بلکہ خود خطبہ کا لفظ بھی اسی کو چاہتا ہے کیوں کہ مخاطب سمجھتا نہ ہو تو اس کو مخاطب کرنے کے کچھ معنی ہی نہیں بعض لوگ جو خطبہ کو نماز پر قیاس کرتے ہیں اور دلیل اس کی حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت پیش کرتے ہیں جو مصنف ابی ابن شیبہ میں ہے کہ انما جعل الخطبۃ مکان الرکعتین یعنی خطبہ دو رکعت کے قائم مقام ہے تو یہ ان کی غلطی ہے۔ کیوں کہ ایک شے کا دوسرے کے قائم مقام ہونا۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہر طرح اس کے حکم میں ہو جائے۔ مثلاً بلوغ المرام میں حدیث ہے کہ نماز پہلے دو رکعت فرض ہوئی تھی جب آپﷺ نے ہجرت کی تو چار رکعت ہوگئی مگر سفر کی بدستور دو رکعت ہی رہی اور مغرب کی تین رکعت رہی کیوں کہ وہ دن کے وتر ہیں۔ اور فجر کی دو رکعت رہی کیوں کہ اس میں قرأت لمبی ہے۔ دیکھئے اس حدیث میں لمبی قرأۃ کو دو رکعت کے قائم مقام دیا قرار ہے۔ حالانکہ دو رکعت جو زیادہ ہوئی ہیں وہ فرض ہیں اور فجر میں کسی کے نزدیک بھی فرض نہیں بلکہ خود حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فجر کی نماز قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس کے ساتھ پڑھائی ہے ٹھیک اسی طرح خطبہ کو سمجھ لینا چاہیے کہ ہر حکم میں دو رکعت کے قائم مقام نہیں بلکہ بعض باتوں میں ہے۔ مثلاً ضروری ہونے میں نماز کی طرح ہے۔ یعنی خطبہ کے بغیر نماز جمعہ نہیں ہوسکتی یا جیسے نماز میں دوسرے سے بات چیت منع ہے اور کوئی فضول حرکت جائز نہیں اسی طرح خطبہ کے سننے کے وقت کسی سے کوئی بات چیت نہیں کرسکتا نہ کوئی فضول حرکت کرسکتا ہے یا جیسے نماز میں وضو ضروری ہے اسی طرح خطبہ میں باوضو بیٹھنا چاہیے تاکہ امام کے فارغ ہونے کے بعد وضو کرتے کراتے جمعہ نہ رہ جائے یا یہ مطلب کہ دو رکعت سے لمبا نہ ہو یا یہ مطلب کہ ثواب میں خطبہ دو رکعت کے قائم مقام ہے یعنی ظہر کی نسبت جو دو رکعت کی کمی ہوگئی ہے ان کا ثواب خطبہ سے حاصل ہوجاتا ہے۔ غرض ساری باتوں میں خطبہ دو رکعت کے قائم مقام نہیں اگر ایسا ہوتا تو جو شخص خطبے میں شامل نہیں ہوا بلکہ نماز میں آکر ملا اس کا جمعہ نہ ہونا چاہیے تھا چار پڑھے۔ کیوں کہ اس کا خطبہ جو دو رکعت کے قائم مقام ہے رہ گیا ہے حالاں کہ سب کا اتفاق ہے کہ جو شخص جمعہ کی پہلی رکعت میں مل جائے اس کا جمعہ ہو جاتا ہے۔ بلکہ دوسری رکعت پوری پالے تو بھی ایک ہی اُٹھ کر پڑھے گا نہ تین۔ پس معلوم ہوا کہ خطبہ ساری باتوں میں دو رکعت کے قائم مقام نہیں، نیز اگر ایسا ہوتا تو خطیب کے ساتھ کسی کو یا خطیب کو کسی کے ساتھ بات چیت جائز نہ ہوتی حالاں کہ یہ صریح حدیث کے خلاف ہے۔
(ا) بخاری، مسلم وغیرہ میں حدیث ہے کہ رسول اللہﷺ خطبہ پڑھ رہے تھے ایک اعرابی آیا اس نے کہا یا رسول اللہﷺ قحط سالی سے مال ہلاک ہوگئے، رستے بند ہوگئے بارش کی دعا کیجئے رسول الہﷺ نے اور مسلمانوں نے ہاتھ اُٹھائے اور بارش کی دعا کی۔ ایک ہفتہ تک برابر بارش ہوتی رہی دوسرے جمعہ پھر وہی یا دوسرا اعرابی آیا۔ رسول اللہﷺ خطبہ پڑھ رہے تھے کہا یا رسول اللہﷺ کثرتِ بارش سے مال ہلاک ہوگئے اور رستے بند ہوگئے، دعا کیجئے اللہ تعالیٰ بارش بند کردے، رسول اللہﷺ نے ہاتھ اُٹھا کر دعا کی کہ اے اللہ اردو گرد بارش برسا ہم پر نہ برسا اور ساتھ ساتھ ہاتھ سے اشارہ کرتے جدھر جدھر اشارہ کرتے بادل پھٹتا جاتا یہاں تک کہ مدینہ ایسا ہوگیا جیسے تاج میں ہوتا ہے یعنی مدینہ خالی تھا اور ارد گرد بادل تھا۔
(ب) نیز بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خطبہ پڑھ رہے تھے اس حال میں ایک صاحب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا یہ کونسی گھڑی ہے یعنی اتنی دیر کرکے کیوں آئے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ایک کام میں تھا اور اُس سے فارغ ہو کر گھر میں نہیں پہنچا تھا کہ اذان سنی۔ پس وضو کے سوا کوئی کام نہ کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ دوسرا قصور ہے کہ وضو پر کفایت کی۔
(ج) ترمذی، نسائی اور ابوداؤد وغیرہ میں ہے کہ رسول اللہﷺ خطبہ پڑھ رہے تھے۔ حسن حسین رضی اللہ عنہما آئے ان پر سرخ کُرتے تھے، چلتے اور ٹھوکریں کھاتے رسول اللہﷺ نے منبر سے اُتر کر اُن کو اٹھا لیا۔ اپنے آگے رکھ لیا۔ پھر کہا اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا {اِنَّمَا اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ} ’’یعنی تمہارے مال اور اولاد تمہارے لیے فتنہ ہیں۔‘‘ میں ان دونوں کو ٹھوکریں کھاتا دیکھ کر صبر نہ کرسکا یہاں تک کہ میں نے اپنی بات درمیان چھوڑ کر ان کو اُٹھا لیا۔
(ع) مسلم وغیرہ میں ہے ابو رفاعہ کہتے ہیں میں رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور آپ خطبہ پڑھ رہے تھے۔ میں نے اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا یا رسول اللہﷺ ایک شخص مسافر سے اپنے دین کے متعلق سوال کرتا ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ اس کا دین کیا ہے۔
رسول اللہﷺ خطبہ چھوڑ کر میرے پاس آئے۔ پھر ایک کرسی لائی گئی مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس کے پائے لوہے کے تھے آپ اس پر بیٹھ کر مجھے ان باتوں سے سکھاتے رہے جو آپ کو اللہ تعالیٰ نے سکھائی تھی۔ پھر (مجھ سے فارغ ہو کر) واپس آکر خطبہ اپنا پورا کیا۔
تلخیص الجیر کے ص ۱۳۵ میں ہے:
البیھقی من طریق عبدالرحمن بن کعب ان الرھط الذین بعثھم النبی ﷺ الی ابن ابی الحقیق بخبیر لیقتلوہ فقتلوہ فقدموا علی رسول اللہ ﷺ وھو قائم علی المنبر یوم الجمعۃ فقال لھم حین رأھم افلحت الوجوہ فقالوا افلح وجھک یا رسول اللہ قال اقتلتموہ قالوا نعم فدعا بالسیف الذی قتل بہ وھو قائم علی المنبر فسلہ فقال اجل ھذا طعامہ فی ذباب سیفہ الحدیث قال البیھقی مرسل جیدوروی عن عروۃ نحوۃ ثم رواہ من طریق ابن عبداللہ ابن الیس عن ابیہ قال بعثنی رسول اللہ ﷺ الی ابن ابی الحقیق نحوہ انتھٰی۔
یعنی بیہقی نے عبدالرحمن بن کعب کے طریق سے روایت کیا ہے کہ جس جماعت کو رسول اللہﷺ نے خیبر میں ابن ابی الحقیق (یہودی) کے قتل کے لیے بھیجا تھا اُس جماعت نے اس کو قتل کیا اور رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور آپ جمعہ کے دن منبر پر آئے جب آپ نے اُن کو دیکھا تو فرمایا چہرے کامیاب ہوگئے، انہوں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ آپ کا چہرہ کامیاب ہو۔ پس فرمایا کیا تم نے ان کو قتل کردیا؟ کہاں ہاں۔ پس منبر پر کھڑے، پھر تلوار میان سے نکال کر فرمایا ہاں تم نے اس کو قتل کردیا، تلوار کی دھار پر اس کا کھانا لگا ہوا ہے۔ بیہقی نے کہا یہ حدیث مرسل ہے کھری ہے۔ اور عروہ سے بھی اسی طرح روایت کی ہے۔ پھر عبداللہ بن انیس سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے مجھے ابن ابی الحقیق کی طرف بھیجا۔
(د) بخاری و مسلم میں ہے کہ رسول اللہﷺ کے پاس ایک شخص (سلیک غطفانی) جمعہ کے دن آیا اور آپ خطبہ پڑھ رہے تھے۔ وہ بیٹھ گیا، آپ نے فرمایا کھڑا ہو اور دو رکعت ہلکی پڑھ۔
(ح) ابو داؤد ، نسائی، مسند احمد میں ہے کہ ایک شخص لوگوں کی گردنوں سے گزرتا ہوا آگے آرہا تھا۔ رسول اللہﷺ خطبہ پڑھ رہے تھے۔ آپ نے فرمایا بیٹھ جا تو نے ایذا دی اور مسند احمد میں ہے۔ تو نے ایذا دی اور دیر کی۔ (منتقیٰ)
(ز) بخاری مسلم وغیرہ میں ہے کہ رسول اللہﷺ عید الفطر اور عیدالاضحی کے دن عید گاہ کی طرف نکلتے پہلے نماز پڑھتے پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور لوگ اپنی اپنی جگہ پر ہوتے۔ پس اُن کو وعظ کرتے اور وصیت کرتے اور حکم دیتے اگر کسی لشکر بھیجنے کا ارادہ کرتے یا کسی اور شے کا حکم دینا ہوتا تو فرما دیتے پھر لوٹ جاتے۔
یہ سات روایتیں ہیں اس قسم کی اور بھی بہت ہیں۔ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ خطبہ کا حکم نماز کا نہیں۔ بلکہ عام وعظوں کی طرح ایک وعظ ہے۔ جو ہر زبان میں درست ہے۔ اس میں ہر قسم کی بات چیت درست ہے اس میں درمیان چھوڑ کر کوئی دوسرا کام کرکے پورا کرسکتے ہیں ابو رفاعہ رضی اللہ عنہ کو آپ نے خطبہ چھوڑ کر دین سکھایا۔ حسن رضی اللہ عنہ حسین رضی اللہ عنہ آئے تو آپ منبر سے اُترے اور لا کر آگے بڑھالیا۔ صرف اتنی بات ہے کہ خطبہ جمعہ کی بابت تاکید بہت آئی ہے کہ سامعین توجہ سے سنیں اور فضول حرکت نہ کریں تاکہ کم از کم ہفتہ میں ایک مرتبہ کان میں وعظ کی آواز پڑے جس سے دل نرم رہیں اگر ایسا نہ ہو تو دِل مردہ ہو جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ خطبہ عیدین کے لیے اتنی تاکید نہیں آئی پس جب خطبہ عام وعظوں کی طرح ایک وعظ ہے۔ صرف خطبہ جمعہ میں ایک خاص وجہ سے سننے کی تاکید ہے اور خطبہ عیدین میں یہ بھی نہیں تو پھر اس کو نماز پر قیاس کرنا کیوں کر صحیح ہوگا۔ اس کے علاوہ یہ بھی ایک بات ہے کہ جب لشکر وغیرہ بھیجنے کا کام خطبہ میں درست ہے تو یہ مخاطب لوگوں کی زبان میں ہی ہوسکتا ہے پھر یہ کہا جاسکتا ہے کہ عربی زبان کی پابندی ضروری ہے۔ غرض نماز پر خطبہ کا قیاس بالکل صحیح نہیں کیوں کہ خطبہ خطاب ہے۔ اور خطاب پر پابندی زبان کی اصل مقصود کو فوت کرتی ہے جو خطاب سے مقصود ہوتا ہے یعنی سامعین کو اپنی بات پہنچانا۔ برخلاف نماز کے کہ وہ خطاب نہیں۔ بلکہ مقصود اس سے خدا کا ذکر اور قرأۃ قرآن پاک ہے چنانچہ مسلم وغیرہ میں حدیث ہے:
ان ھذا الصلوٰۃ لایصح فیھا شئی من کلام الناس انما ھی التسبیح والتکبیر وقرأۃ القرأن۔
یعنی نماز میں بات چیت درست نہیں (یہاں تک کہ چھینک لینے والے کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا بھی جائز نہیں)
کیوں کہ نماز صرف تسبیح تکبیر اور قرأۃ قرآن ہے یعنی اصل مقصود یہ ہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز میں جو قرآن مجید پڑھا جاتا ہے۔ تو اس حیثیت سے نہیں پڑھا جاتا کہ وہ مقتدیوں کو خطاب ہے بلکہ اس طرح سے پڑھا جاتا ہے کہ جیسے کسی کو محبوب کا کلام پیارا معلوم ہوتا ہے تو اس کا ورد کرتا ہے۔ یا جیسے پڑھنے والے سے خدا باتیں کرتا ہے۔ اور وہ اپنے کو ان کا مصداق سمجھتا ہے جس سے اس کے دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے۔ بعض احادیث میں جو بعض نمازوں کی بابت خاص خاص سورتوں کے پڑھنے کا ذکر آیا ہے۔ جیسے جمعہ کے دن فجر کی نماز میں سورۃ سجدہ اور سورۃ دہر اور جمعہ کی نماز میں سورۃ ھل اتاک یا سورۃ جمعہ اور سورۃ منافقون اور عیدین کی نماز میں سورۃ قٓ اور سورۃ اقتربت اور سورۃ اعلیٰ اور سورۃ ھل اتاک اور جمعرات کو مغرب کی نماز میں قل یایھا الکافرون اور قل ھو اللہ احد تو اس کی وجہ بھی یہی معلوم ہوتی ہے کہ ان کے پڑھنے سے پڑھنے والے کے اعتقاد کی اصلاح ہے۔ یا اس کو رقت اور نرمی زیادہ پیدا ہوتی ہے۔ اور اس کے دل پر ایک خاص اثر ہوتا ہے اور اس سے مقتدیوں پر بھی خاص اثر پڑتا ہے۔ اور نماز میں بھی خشوع خضوع بڑھتا ہے اور دِل زیادہ لگتا ہے۔ بلکہ اگر کوئی شخص نماز سے باہر امام کی قرأۃ سن لے تو اس کی بھی یہی حالت ہوگی۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ نماز سے اصلی مقصود کیا ہے دوسرے کو وعظ خطاب مقصود ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض احادیث میں بعض سری نمازوں کی بابت اور بعض نوافل کی بابت بھی خاص سورتوں آیتوں کا ذکر آیا ہے۔ حالاں کہ وہاں دوسرے سے تعلق نہیں، جیسے مشکوٰۃ باب القرأۃ میں ہے رسول اللہﷺ ظہر میں سورۃ والیل اذا یغشیٰ پڑھا کرتے تھے اور ایک روایت میں سورۃ سبح اسم ربک الاعلیٰ آئی ہے اور فجر کی سنتوں میں آیت قولوا امنا باللہ وما انزل الینا اور آیت قل یاہل الکتاب تعالوا پڑھا کرتے تھے تو گویا یہ ایسا ہوگیا جیسے نماز کے علاوہ خاص خاص وقتوں میں اپنی اصلاح کے لیے خاص خاص آیتوں اور خاص خاص سورتوں کے پڑھنے کا ذکر آیا ہے۔ جیسے سوتے وقت آیۃ الکرسی اور سورۃ سجدہ، سورۃ ملک اور وہ سورتیں جن کے شروع میں سبح یا یسبح ہے اور جمعہ کے دن سورۂ کہف سورۂ ہود اور سورۂ آل عمران وغیرہ اور ہر روز شروع دن میں سورۂ یٰسین اور ہر رات آخر رکوع آل عمران اور سورۂ واقعہ وغیرہ وغیرہ۔ پس نماز اور خطبہ کی اصل غرض دیکھتے ہوئے کوئی شخص خطبے کو نماز کا حکم نہیں دے سکتا اور نہ نماز کو خطبے کا حکم دے سکتا ہے۔ بلکہ نماز کی ہیئت ہی وعظ کی ہیئت کے خلاف ہے۔ چنانچہ گزر چکا ہے کہ خطبہ میں رسول اللہﷺ کی آنکھیں سرخ ہو جاتیں اور بہت جوش اور بہت غصہ میں آجاتے اور آواز بلند ہو جاتی جیسے کوئی دشمن کی فوج سے ڈراتا ہے تمہیں صبح کو لوٹ لیا یا شام کو لوٹ لیا۔ نماز کی حالت ایسی نہیں بلکہ وہ عاجزی اور انکساری کی حالت ہے۔ چنانچہ مشکوٰۃ میں عبداللہ بن شیخ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہﷺ کے پاس تھا۔ آپ نماز پڑھ رہے تھے آپ کے پیٹ میں ہنڈیا کے پکنے کی آواز تھی اور ایک روایت میں ہے میں نے آپ کو نماز پڑھتے دیکھا آپ کی سینہ کی آواز چکی کی آواز تھی۔ اور یہی وجہ ہے کہ اِدھر اُدھر گردن موڑنا اور دیکھنا منع ہے نیز نماز کی ہیئت قیام اور نیچے اوپر ہونا اور مقتدیوں کا اس میں امام کی تابعداری کرنا یہ بھی وعظ کے خلاف ہے۔ کیوں کہ خطبہ اور دیگر وعظ کلام میں سامعین کی ایسی حالت ہوتی ہے جیسے کسی کے سر پر پرندہ بیٹھا ہوا ہے۔ اور وہ اس کو پکڑنا چاہتا ہو۔ جیسے مشکوٰۃ میں براء بن عاذب سے روایت ہے:
جلسنا حولہ کان علٰی روسنا الطیر
یعنی ہم رسول اللہﷺ کے گرد بیٹھ گئے گویا کہ ہمارے سر پر پرندے ہیں۔ پھر عذاب قبر کا حال سنایا۔
خلاصہ یہ کہ خطبہ عام وعظوں کی طرح ایک وعظ ہے خواہ جمعہ کا ہو یا عیدین کا ہو خطیب کو اس میں کلام وغیرہ جائز ہے۔ زبان کی پابندی اس میں ضروری نہیں۔ کیوں کہ خطبہ کی غرض کے خلاف بلکہ خطبہ کے لفظ کے خلاف ہے۔ کیوں کہ خطبہ خطاب ہے جو سامعین کی زبان میں ہوتا ہے۔ نماز پر اس کو قیاس کرنا غلط ہے۔ کیوں کہ نماز مناجات ہے۔ خطبہ مناجات نہیں خطبہ کی ہیئت عام وعظوں کی ہے۔ نماز کی اس طرح نہیں، خطبہ میں کلام وغیرہ جائز ہے، نماز میں جائز نہیں، صرف خطبہ جمعہ کے سننے کی تاکید آئی ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ دل کی کھیتی کو پانی ملتا رہے تاکہ خشک نہ ہو جائے۔
اگر کہا جاوے کہ غیر عربی میں خطبہ پڑھنا خیر قرون کے خلاف ہے۔ چنانچہ سائل نے شاہ ولی اللہ صاحب سے نقل کیا ہے کہ ہمیشہ سب جگہ خطبہ عربی میں ہوتا رہا اور جو بات خیر قرون کے خلاف ہو اس کے بدعت ہونے میں کیا شبہ ہے تو جواب اس کا یہ ہے کہ خیر قرون کے خلاف اس وقت ہوتا جب خیر قرون سے کسی کا اس پر فتویٰ نہ ہوتا۔ جب خیر قرون سے بعض اس طرف گئے ہیں کہ خطبہ غیر عربی درست ہے چنانچہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ صاحب کا یہی مذہب ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ کے مذہب میں دو وجہیں ہیں۔ ایک جائز ہونے کی اور ایک ناجائز ہونے کی تو اس کو خیر قرون کے خلاف نہیں کہہ سکتے بلکہ اس کو خیر قرون کے اختلافی مسائل سمجھ کر دلائل سے راجح مرجوع کا فیصلہ کریں گے۔ سو دلائل کی رو سے راجح یہی ہے کہ غیر عربی میں درست ہے۔ علامہ زبیدی شرح احیاء العلوم میں لکھتے ہیں:
وھل یشترط ان تکون الخطبۃ کلھا بالعربیۃ وجھان الصحیح اشتراطہ فان لم یکن فیھم من یحسن العربیۃ خطب بغیرھا ویجب علیھم التعلیم والاعصوا ولا جمعۃ۔ (شرح احیاء العلوم ۲۶۶،۳)
یعنی خطبہ کے عربی ہونے کی بابت دو وجہیں ہیں ایک یہ کہ عربی میں ہونا چاہیے دوسری یہ کہ شرط نہیں صحیح یہ ہے کہ شرط ہے پس اگر کوئی اچھی طرح عربی نہ جانے تو غیر عربی میں خطبہ پڑھے اور لوگوں پر عربی کا سیکھنا واجب ہے ورنہ گنہگار ہو جائیں گے، اور ان کا جمعہ نہیں۔
شرح احیاء العلوم کے دوسرے مقام میں ہے:
قال الرافعی وھل یشترط ان تکون الخطبۃ کلھا بالعربیۃ وجھان صحیح اشتراطہ فان لم یکن فیھم من یحسن العربیۃ خطب بغیرھا وقال اصحابنا ان الخطبۃ بالفارسیۃ وھو بحسن العربیۃ لایجزیۃ۔
یعنی رافعی کہتے ہیں کہ خطبہ کے عربی ہونے کی دو وجہیں ہیں (ایک یہ کہ عربی میں شرط ہے، دوسری یہ کہ شرط نہیں) صحیح یہ ہے کہ شرط ہے پس اگر کوئی ٹھیک عربی نہ جانتا ہو اس کو کافی نہیں ہوگا۔ (شرح احیاء العلوم ص ۲۳۰، ۳)
ان دونوں عبارتوں میں امام شافعی رحمہ اللہ کے مذہب میں دو وجہیں بتلائی ہیں (ایک عربی میں ضروری ہونے کی اور ایک غیر ضروری ہونے کی) مذہب میں وجہ سے مراد فقہاء کی یہ ہوتی ہے کہ صریح قول امام کا اس بارے میں کوئی نہیں۔ امام کے اقوال سے یہ بات سمجھی جاتی ہے، کبھی امام کے اقوال سے دو باتیں سمجھی جاتی ہیں تو وہ مذہب میں دو وجہیں ہو جاتی ہیں۔ جیسے خطبہ کے عربی ہونے اور نہ ہونے کی بابت دو وجہیں ہیں۔ شرح احیاء العلوم میں اگرچہ عربی میں ضروری ہونے کی وجہ کو صحیح کہا ہے لیکن درحقیقت صحیح دوسری ہے چنانچہ اوپر دلائل سے ہم ثابت کرچکے ہیں کہ خطبہ غیر عربی میں درست ہے پس جب امام شافعی کے مذہب میں ایک وجہ ہوئی تو اس کو خیر قرون کے خلاف نہیں کہہ سکتے کیوں کہ امام شافعی تبع تابعین سے ہیں اور تبع تابعین خیر قرون سے ہیں۔
رد المحتار میں ہے:
لم یقید الخطبۃ یکونھا بالعربیۃ اکتفاء بما قدمہ فی باب صفۃ الصلوٰۃ من انھا غیر شرط ولو مع القدرۃ علی العربیۃ عندہ خلافا لھما حیث شرطاھا الا عند العجز کالخلاف فی الشروع فی الصلٰوۃ۔
(رد المحتار جلد اول، ص۵۹۷)
یعنی مصنف نے خطبہ کے عربی میں ہونے کی قید نہیں لگائی کیوں کہ باب صفۃ الصلوٰۃ میں گزر چکا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک یہ شرط نہیں خواہ عربی پر قادر ہی ہو۔ برخلاف صاحبین کے کیوں کہ اُن کے نزدیک عربی میں ہونا شرط ہے مگر عربی سے عاجز ہو تو پھر صاحبین کے نزدیک بھی غیر عربی میں جائز ہے۔ جیسے شروع نماز (تکبیر تحریمہ) میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ صاحب اور ان کے شاگردوں کا اختلاف ہے کہ عربی میں جائز ہے یا نہیں (ایسے ہی یہ اختلاف ہے)۔
امام ابو حنیفہ صاحب رحمہ اللہ کی بابت بعض کا خیال تو تابعی ہونے کا ہے لیکن تبع تابعین سے ہونے میں تو کوئی شبہ نہیں تو جب ان کا فتویٰ خطبہ کے غیر عربی ہونے کی بابت موجود ہے تو اس کو خیر قرون کے خلاف کس طرح کہہ سکتے ہیں۔ پس یہ سلف کے اختلافی مسائل سے ہوا۔ جس کا فیصلہ دلائل کے رو سے یہ ہی ہے کہ خطبہ غیر عربی میں درست ہے چنانچہ اوپر تفصیل ہوچکی اور جو لوگ کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک درست تو ہے لیکن مکروہ ہے تو یہ غلط ہے کیوں کہ وہ صرف اس بات پر کہتے ہیں کہ خیر قرون میں سے کسی نے غیر عربی میں نہیں پڑھا۔ ورنہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے کراہت کی تصریح موجود نہیں۔ پھر یہ کہنا کہ خیر قرون میں غیر عربی میں کسی نے پڑھا نہیں اس میں بھی شبہ ہے۔ کیوں کہ جب فتویٰ دیا گیا ہے تو قرین قیاس یہ ہی ہے کہ کسی نے عمل کے لیے سوال کیا ہوگا کیونکہ خیر قرون میں تکلف نہیں تھا کہ فرضی صورتیں گھڑا کریں اور نہ ان کی یہ شان تھی بلکہ واقعات پیش آنے کی صورت میں بھی بہت ان سے ایسے تھے کہ احتیاط کرتے اور مسئلہ نہ بتاتے اور ایک دوسرے کا سہارا لیتے۔ یعنی یہ چاہتے کہ کوئی دوسرا مسئلہ بتلا دے چنانچہ اعلام الموقعین وغیرہ میں اس قسم کی روایتیں بہت موجود ہیں پس صرف صراحۃ نقل نہ ہونے سے عمل کی نفی سمجھ لینا اور جو بات قرین قیاس ہو اس کو نظر انداز کردینا یہ مناسب نہیں۔ اس کے علاوہ جب ایک بات کی بابت خیر قرون میں فتویٰ ہوگیا اور فتویٰ میں کراہت کا ذکر نہ آیا تو صرف عمل نہ ہونے سے کراہت سمجھنا ڈبل غلطی ہے۔ دیکھئے تراویح باجماعت پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں عمل نہ ہوا۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شروع خلافت میں بھی عمل نہیں ہوا اس کے بعد ہوا۔ اسی لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو بدعت کہا۔ چنانچہ گزر چکا ہے اور تعدد جمعہ پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت تک عمل رہا ہوا۔ چنانچہ یہ بھی گزر چکا ہے اور علاوہ خطبہ جمعہ اور خطبہ عیدین کے بھی غیر عربی میں وعظ پر عمل خیر قرون میں صحیح سند سے مروی نہیں ہوا۔ اسی طرح خیر قرون میں کسی نے کوئی تصنیف غیر عربی میں نہیں کی۔ نہ کسی نے تفسیر غیر عربی میں لکھی نہ کوئی اور دینیات کی کتاب غیر عربی میں لکھی بلکہ خیر قرون کے بعد میں مدت تک غیر عربی میں تصنیف کرنے کا ثبوت نہیں ملتا جس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ عربی کا اس وقت زور تھا کیوں کہ سلطنت اسلامی تھی۔ دین و دنیا سب کچھ عربی میں تھا۔ زور اَور کثرتِ میل جول سے اتنا اثر ضرور ہوگیا تھا کہ اگر غیر عرب عربی بولنے پر قادر نہ تھے تو اکثر کچھ کچھ سمجھ لیا کرتے۔ اس لیے غیر عربی میں تصنیف کی طرف کسی نے توجہ نہ کی۔ پس یہی وجہ بعینہٖ خطبہ وغیرہ کی ہوسکتی ہے اور ممکن ہے یہ وجہ ہو کہ امام جمعہ اور عیدین عموماً اس وقت امیر ہوتے تھے تو ان کے خیال میں خطبہ عربی میں بہتر یا ضروری ہو تو اس وجہ سے وہ عربی میں پڑھتے رہیے۔ اور جن کے نزدیک مخاطب کا لحاظ رکھنا مناسب تھا ان کو امیر بننے کا اتفاق نہ ہوا۔ یا یہ وجہ ہو کہ عربی زبان کی اُس وقت ابھی پوری حفاظت نہیں ہوئی تھی۔ اس لیے حتی الوسع وہ غیر عربی سے دور رہتے تھے تاکہ عربی کا زور ہو کر اس کی پوری حفاظت ہو جائے اور اس کے ہر قسم کے قواعد بن جائیں چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اگر اُن کو توجہ ملکی زبانوں کی طرف رہتی تو آج ہمیں عربی زبان کے قواعد اور اس کی حفاظت کا یہ نظارہ نصیب نہ ہوتا جو دیکھ رہے ہیں کہ خدا کے فضل قواعد میں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ بلکہ جو کچھ تھوڑے بہت قواعد دوسری زبان کے تیار ہوئے اس کی خوشہ چینی میں ہوئے غرض اس قسم کے بہتیرے وجوہ اس وقت خطبہ کے عربی میں پڑھنے کے ہوسکتے ہیں جو اس وقت نہیں پس غیر عربی میں اس وقت کسی نے خطبہ نہیں پڑھا تو کوئی حرج نہیں۔ عمل کا اصل جو ہمارے ہاتھ میں موجود ہے یعنی فتویٰ اس سے سب عقدے حل ہوسکتے ہیں۔
جو لوگ خطبہ کے غیر عربی میں ہونے کے قائل نہیں عاجز ہونے کے وقت وہ بھی قائل ہیں یعنی اگر عربی میں قائل نہ ہو تو غیر عربی میں پڑھ سکتا ہے۔ چنانچہ کچھ عبارتیں اوپر گزر چکی ہیں کچھ اور ملاحظہ ہوں۔
کشاف القناع میں ہے:
( ولا تصح الخطبۃ بغیر العربیۃ مع القدرۃ، علیھا بالعربیۃ (کفرأۃ) فانھا لا تجریٔ بغیر العربیۃ وتقدر (وتصح) الخطبۃ بغیر العربیۃ (مع العجز) عنھا بالعربیۃ لان المقصود بھا الوعظ والتذکیر وحمد اللّٰہ والصلوٰۃ علی رسول اللہ ﷺ بخلاف لفظ القراٰن فانہ دلیل النبوۃ وعلامۃ الرسالۃ ولا یحصل بالعجمیۃ (غیر القرأۃ) فلا تجزی بغیر العربیۃ لما تقدم (فان عجز عنھا) ای عن قرأۃ (وجب بدلھا) قیاسا علی الصلوٰۃ (کشاف القناع عن متن الاقناع للشیخ منصور بن ادریس الحنبلی جلد اول ص۳۴۸)
یعنی باوجود قدرت کے خطبہ غیر عربی میں صحیح نہیں جیسے قرأۃ القرآن (خطبہ میں) غیر عربی میں صحیح نہیں۔ اور عربی سے عاجز ہونے کی صورت میں خطبہ غیر عربی میں صحیح ہے کیوں کہ خطبہ سے مقصود وعظ و نصیحت کرنا ہے اللہ کی تعریف کرنا، رسول اللہﷺ پر درود بھیجنا ہے۔ بخلاف قرآن کے کہ وہ غیر عربی میں درست نہیں کیوں کہ لفظ قرآن کے نبوت کی دلیل ہیں اور رسالت کی علامت ہیں اور عربی زبان سے یہ بات حاصل نہیں ہوتی پس قرأۃ غیر عربی میں کفایت نہیں کرے گی۔ پس اگر قرأۃ سے عاجز ہو جائے تو اس کے عوض ذکر واجب ہوگا جیسے نماز میں قرأۃ سے عاجز ہو جائے تو اس کے عوض میں ذکر واجب ہوتا ہے۔
شرح منتہی الارادات میں ہے:
(وھی) ای الخطبۃ (بغیر العربیۃ) مع القدرۃ (کقرأۃ) فلا یجوز وتصح مع العجز غیر القرأۃ فان عجز عنھا وجب بدلھا ذکر (شرح منتھی الارادات ص۳۵۰ للشیخ منصور بن یونس بھرتی الحنبلی جلد اول)
یعنی عربی میں قدرت ہونے کی صورت میں غیر عربی میں خطبہ جائز نہیں جیسے قرأت جائز نہیں اور عربی سے عاجز ہونے کی صورت میں خطبہ غیر عربی میں جائز ہے۔ قرأت جائز نہیں۔ قرأت کے عوض ذکر واجب ہوگا۔
ان عبارتوں سے معلوم ہوا کہ خطیب جب عربی پر قادر نہ ہو تو خطبہ غیر عربی میں پڑھ سکتا ہے اور اس میں شبہ نہیں کہ آج کل عموماً خطیبوں کو اتنی لیاقت نہیں کہ عربی میں تقریر یا تحریر کرسکیں پس غیر عربی میںجائز ہوگا۔ اگر کہا جائے کہ کسی کا بنا ہوا خطبہ یاد کرلیں یا دیکھ کر پڑھ لیں تو اس کی بابت عرض ہے کہ اگر کسی کا بنا ہوا یاد کرکے پڑھ لینا یا دیکھ کر پڑھ لینا درست ہے تو غیر عربی میں بطریق اولیٰ درست ہے کیوں کہ دوسرے کا یاد کرکے سنانا یا دیکھ کر سنانا اس کی بابت تو خیر قرون میں نہ کسی کا عمل ثابت ہے نہ فتویٰ اور غیر عربی میں پڑھنے کی بابت اگر عمل صراحتہً منقول نہیں ہوا تو فتویٰ تو ہے اس کے علاوہ یہ بات ظاہر ہے کہ قرآن مجید کافی وعظ ہے لیکن اوپر کی عبارتیں دلالت کرتی ہیں کہ عربی پر قادر نہ ہونے کی صورت میں قرآن کے علاوہ باقی خطبہ غیر عربی میں جائز ہے۔ تو اس باقی خطبہ سے عام وعظ مراد نہیں ہوسکتا کیوں کہ قرآن خود عام وعظ ہے، تو قرآن کے علاوہ غیر عربی میں جائز کہنے کی کوئی ضرورت نہ تھی پس اس سے مراد خاص ہوگا یعنی جہاں کوئی رہتا ہے ان لوگوں میں جیسی کوئی خرابی دیکھتا ہے اُس کے موافق خطبہ کرتا ہے تاکہ اُن کی اصلاح ہو کہ وہ خرابی دور ہو جائے اور ایسی خرابیاں بے شمار ہوتی ہیں اور حسب موقعہ ان کی اصلاح کے مختلف طریقے اختیار کیے جاتے ہیں اس کے لیے لوگوں کے بارہ بارہ کے بنے ہوئے خطبے یا صرف قرآن پڑھنا کافی نہیں ہوسکتا۔ پس جب قرآن کے علاوہ خطبہ میں خاص وعظ مراد ہے تو عموماً خطیب ملکی زبان ہی میں کرسکتے ہیں تو غیر عربی میں خطبے سے انکار کی کوئی وجہ نہیں۔ امام نووی شرح مسلم میں حدیث یقرأ القراٰن ویذکر الناس میں لکھتے ہیں:
فیہ دلیل للشافعی فی انہ یشترط فی الخطبۃ الوعظ والقرأۃ قال الشافعی لا یصح الخطبتان الا بحمد اللہ تعالیٰ والصلوٰۃ علی رسول اللہ ﷺ والوعظ وھذہ الثلاثۃ واجبات فی الخطبتین وتجب قرأۃ ایۃ من القراٰن فی احدیھما علی الاصح ویجب الدعا للمؤمنین فی الثانیۃ علی الاصح۔ (نووی شرح مسلم طبع مصر جلد ۲، ص۲۸۱)
یعنی اس حدیث میں امام شافعی کی دلیل ہے کہ خطبہ میں وعظ اور قرأۃ قرآن شرط ہے امام شافعی فرماتے ہیں کہ دونوں خطبے الحمد للہ اور درود اور وعظ کے بغیر صحیح نہیں ہوتے اور یہ تینوں اشیاء دونوں خطبوں میں واجب ہیں اور ایک آیت دونوں خطبوں سے ایک میں واجب ہے (خواہ پہلے خطبہ میں پڑھ لے یعنی بیٹھنے سے پہلے یا دوسرے میں یعنی بیٹھ کھڑا ہونے کے بعد) امام شافعی کے قول سے بھی اس بات کی تائید ہوگئی کہ خطبہ میں وعظ الگ ہے قرآن مجید الگ ہے پس حسب موقعہ وعظ مراد ہوگا جو ملکی زبان ہی میں ہوسکتا ہے۔
یہ بات ظاہر ہے کہ خطبہ کا تعلق جیسے خطیب سے ہے ویسے ہی سامعین سے ہے۔ اگر بالفرض کوئی سننے والا نہ ہو تو خطبہ نہیں ہوگا۔ اس پر سب کا اتفاق ہے کسی کو اس پر اختلاف نہیں جو عربی پڑھنے کے قابل ہیں وہ بھی یہی کہتے ہیں۔ چنانچہ ان ہی کتابوں میں اس کی تصریح موجود ہے جن کی عبارتیں اوپر گزر چکی ہیں تمثیلاً ہم نے ایک دو کتابوں کی عبارت حاشیہ میں نقل کردی ہے پس جب خطیب عربی نہ جاننے کی صورت میں غیر عربی پڑھ سکتا ہے تو سامعین کے ناواقف ہونے کی صورت میں بھی غیر عربی میں جائز ہونا چاہیے۔ مثلاً دو چار پائے سامنے بٹھا کر کوئی شخص خطبہ پڑھے تو یہ خطبہ نہیں کیوں کہ چارپاؤں کے کانوں تک صرف آواز پہنچتی ہے۔ سمجھتے نہیں۔ ٹھیک اسی طرح اس خطبہ کو سمجھ لینا چاہیے۔ جو بالکل عربی سے ناواقف لوگوں کے سامنے پڑھا جاتا ہے۔
مولانا عبداللہ امرتسری روپڑی
مولوی محمد علی صاحب ابو المکارم ساکن متوناتھ بھجن ضلع اعظم گڑھ نے دو شبہ اور پیش کیے ہیں ایک شبہ یہ ہے انہوں نے لکھا ہے کہ مذکورہ بالا فتوے سے میرے تشفی نہیں ہوئی۔ میری تشفی کی صورت یہ ہے کہ جو فتویٰ خود میں نے لکھ کر بذریعہ رجسٹری آپ کے پاس بھیجا ہے اس پر بحث کرکے بھیج دیں اور ایک صورت تشفی کی یہ ہے کہ آپ سابقین اہل حدیث سے اردو خطبہ کا جواز ثابت کریں۔ آخر جماعت اہل حدیث تو ایک زمانہ سے چلی آتی ہے۔ لہٰذا آپ اس جماعت کے چند اشخاص کے نام تحریر فرما دیں اور ان سے اس مسئلہ کو ثابت فرمائیں۔ اگر سابقین اہل حدیث سے غیر عربی میں پڑھنا ثابت نہیں تو کیوں ان کا قول قابل عمل نہیں۔ کیا اتباع سلف و خلف کوئی چیز نہیں۔
خاکسار ۱۲۹۸ھ سے لے کر ۱۲۹۹ھ تک کامل ڈیڑھ برس تک جناب میاں صاحب کی خدمت میں رہا۔ آپ کے صاحبزادے مولوی شریف حسین ہمیشہ خطبہ عربی میں پڑھا کرتے تھے اور اُس وقت تک کوئی جھگڑا اور اختلاف اس مسئلہ میں نہ تھا۔ خدا جانے کون اس کا موجد ہے۔ دہلی کے بزرگانِ دین جیسے جناب شاہ ولی اللہ و مولانا عبدالعزیز، مولانا اسماعیل وغیرہم سے بھی غیر عربی میں پڑھنا ثابت نہیں بلکہ مصفی میں تو شاہ صاحب نے صاف تحریر فرما دیا ہے کہ اس کا پڑھنا عربی میں ہمیشہ سے مروج ہے۔ اور ایسا ہی جناب نواب سید محمد صدیق نے بدور الاہلہ میں تحریر فرمایا ہے:
سوال دوم
امام نووی اذکار ص۲۱۷ میں لکھتے ہیں:
باب نھی العلم وغیرہ ان یحدث الناس بمالا یفھمونہ قال اللہ تعالیٰ وما ارسلنا من رسول الابلسان قومہ لیبین لھم۔
اور خطبہ جمعہ کی نسبت کتاب مذکور کے ص ۷۸ پر لکھتے ہیں:
ویشترط کونھا بالعربیۃ
امام نووی رحمہ اللہ کے ان قولوں میں مطابعت کی کیا صورت ہے۔
جواب نمبر اوّل
عالمانہ اور منصفانہ بات تو یہ ہے کہ جس بات کی بابت سلف میں اختلاف ہو اُس کی بابت دلیل سے فیصلہ کیا جائے جو جانب دلیل کی رو سے راجح وہ پہلے خواہ ائمہ مجتہدین سے کسی کا مذہب اس مسئلہ کی نسبت معلوم ہو یا نہ ہو اہل حدیث کا اصل مذہب یہی ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر فتح الباری میں جمعہ فی القریٰ کی بابت لکھتے ہیں:
فلما اختلف الصحابۃ وجب الرجوع الی المرفوع۔
یعنی جب صحابہ کا اختلاف ہوا تو مرفوع کی طرف رجوع واجب ہوا۔
مگر آپ باوجود اس کے مصر ہیں کہ کسی اہل حدیث کا مذہب بتلائیں۔ سو لیجئے امام شافعی رحمہ اللہ سرکردہ اہل حدیث ہیں ان کے مذہب میں ایک وجہ جواز غیر عربی کی بھی ہے اور میں نے اس فتویٰ میں لکھا تھا کہ دلیل کی رو سے راجح یہی ہے تو سامعین اہل حدیث سے بھی ثبوت ہوگیا پھر تردد کے کیا معنی؟
رہے امام مالک رحمہ اللہ، امام احمد رحمہ اللہ، امام بخاری رحمہ اللہ اور دیگر محدثین تو اُن سے نہ جواز کا قول منقول ہے نہ عدم جواز کا بلکہ سکوت محض ہے۔ پس غیر عربی میں پڑھنے کو اُن کے مخالفین کہہ سکتے ہیں یہ تو متقدمین اہل حدیث کا ذکر ہوا اب متاخرین اہل حدیث جن کا زمانہ ہم سے زیادہ قریب ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ پھر نواب صدیق حسن رحمہ اللہ یہ دونوں بزرگ خطبہ ہی کو جمعہ کے لیے شرط نہیں مانتے چہ جائیکہ عربی ہونا شرط ہو ملاحظہ ہو دراری المضیۂ اور روضۃ الندیہ۔ حضرت مولانا نذیر حسین رحمہ اللہ کے صاحبزادے کا اُن کی زندگی میں خطبہ عربی میں پڑھنا تو اس وقت ذکر کرتے جب کوئی یہ کہتا کہ کسی نے عربی میں پڑھا ہی نہیں۔ اور شاہ ولی اللہ وغیرہ سے جو آپ نے عمل مستمر نقل کیا ہے اول تو اس کی بابت اطمینان نہیں کیوں کہ سلف میں جب اس کی بابت فتویٰ ہوچکا ہے تو قرین قیاس یہی ہے کہ کسی نے عمل کی غرض سے فتویٰ پوچھا ہے چنانچہ اس کی تفصیل ہم نے کردی ہے۔ دوسرے اگر عمل نہ ہوا ہو تو بھی کوئی حرج نہیں کیوں کہ اس کے نظائر موجود ہیں اور اس کے وجوہات بھی منقول ہیں چنانچہ اس کا ذکر بھی فتویٰ میں کردیا ہے۔
جواب نمبر دوم
اس بات پر سب متفق ہیں کہ اگر سماع نہ ہو تو خطبہ نہیں مثلاً سارے بہرے ہوں تو اُس کو خطبہ نہیں کہہ سکتے جو عربی ہونے کی شرط کرتے ہیں۔ وہ بھی اس کے قائل ہیں۔ چنانچہ بعض عبارتیں ہم فتویٰ میں نقل کرچکے ہیں اور ظاہر ہے کہ سماع سے مقصود فہم ہے اگر فہم نہ ہو تو بھی خطبہ نہیں کہہ سکتے چنانچہ اس کا بیان بھی فتویٰ میں ہوچکا ہے پس اب تو یہ بعید ہے کہ امام نووی رحمہ اللہ کے نزدیک خطبہ جمعہ میں فہم شرط نہ ہو۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ امام نووی رحمہ اللہ کے خیال میں ایک آدھ کا فہم کافی ہو اور عموماً ایسے مجمع ایک آدھ سے خالی نہیں ہوتے خاص کر امام نووی رحمہ اللہ کے زمانہ میں کیوں کہ اُس وقت علم کا زور تھا۔ اس بنا پر امام نووی رحمہ اللہ نے خیر قرون کی عملی حالت سے متاثر ہوتے ہوئے خطبہ جمعہ کے عربی ہونے کی شرط کردی لیکن ہم نے فتویٰ میں لکھ دیا ہے کہ خیر قرون کی عملی حالت میں شبہ ہو کیوں کہ جب فتویٰ ہوچکا ہے تو قرین قیاس یہی ہے کہ فتویٰ عمل کی غرض سے پوچھا گیا ہے۔ چنانچہ فتویٰ میں اس کی تفصیل ہوچکی ہے دوسرے اس عمل کے کئی ایک وجوہات بھی ہیں اور اس کے نظاہر بھی ہیں۔ پس ایسی حالت میں عمل سے شرطیت پر استدلال صحیح نہیں۔ اس کی بھی بقدر ضرورت فتویٰ میں تفصیل ہوچکی ہے۔
مولانا عبداللہ امرتسری روپڑی
(فتاویٰ اہل حدیث ص۳۷۱ )