ایک مولوی صاحب سے سوال کیا گیا کہ اگر جمعہ فرض ہوتا تو اس کی عدم ادائیگی پر قضاء لازم آتی۔ یعنی کسی آدمی کا جمعہ رہ جاتا تو وہ جمعہ کی قضا بھی کرتا۔ حالانکہ ایسا کوئی نہیں کرتا۔ ظہر پڑھتا ہے معلوم ہوا جمعہ فرض نہیں۔
میں نے جواب دیا کہ اس کی فرضیت کتاب اللہ و سنت رسول اللہ واجماع امت سے ہوچکی ہے۔ جو تمہارے گھر کی ہی کتابیں ثابت کر رہی ہیں۔ دوسرا اس کی فرضیت کے لیے جماعت شرط ہے۔ جیسا کہ حدیث طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ الجمعۃ حق واجب علی کل مسلم فی جماعۃ موجود ہے یعنی ہر مسلمان پر جماعت میں حق و واجب ہے۔ اور شرط و مشروط لازم و ملزوم ہوا کرتی ہیں۔ جہاں شرط وہاں مشروط جیسا کہ وضو نماز کے واسطے شرط ہے۔ بلا وضو نماز نہیں ہوتی اسی طرح ایک نفر کا جمعہ نہیں ہوتا کیوں کہ جماعت کی شرط موجود ہے ۔ یہ جواب ٹھیک ہے یا نہیں؟
قضاء جمعہ کے متعلق جو کچھ آپ نے فرما دیا ہے نہایت موزوں ہے۔ ایک جواب یہ ہے کہ قضا اس شے کی ہوتی ہے جس کا بدل نہ ہو مثلاً ظہار میں روزے نہ رکھ سکے تو اس کے عوض ساٹھ مسکینوں کو کھانا دینے کا حکم ہے۔ گویا کھانا روزوں کے قائم مقام ہے۔ ٹھیک اِسی طرح جس کا جمعہ رہ جائے اس کو ظہر کا حکم ہے۔ کیوں ظہر اس کا بدل ہے۔ اب قضاء کی ضرورت نہیں۔ دواؤں میں بھی اگر ایک دوا نہ ملے تو بہت دفعہ اس کا بدل دوسری دوا کام دے جاتی ہے۔
مولانا عبداللہ امرتسری
(فتاویٰ علماء حدیث ، ص ۳۵۸)