سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(42) ایک صحابی جمعہ کا خطبہ پڑھتے ہیں تو دوسرے صحابی فرماتے ہیں..الخ

  • 4473
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 2044

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک صحابی جمعہ کا خطبہ پڑھتے ہیں تو دوسرے صحابی فرماتے ہیں کہ آج کا تماہرا خطبہ نہایت فصیح و بلیغ تھا۔ مگر مختصراً۔ اگر میں ہوتا تو اس کو بہت طول کرتا۔ اس کے جواب میں خطیب صحابی نے فرمایا کہ میں نے نبیﷺ سے سنا ہے آپﷺ نے فرمایا کہ خطبہ جمعہ کو مختصر کرو اور نماز کو طول کرو۔ اور یہ کہ خطبہ کو مختصر کرنا خطیب کی دانائی کی علامت ہے۔ لہٰذا جواباً تحریر فرما دیں کہ مقدار وقت کے لحاظ سے صحیح طور سے خطبہ کس قدر ہونا چاہیے، اور نمازِ جمعہ روزانہ ظہر کی نماز کے اوقات میں ہونی چاہیے یا اس سے پہلے یا اگر دیر میں ہو تو یہ سب سنت کے مطابق نماز ہوگی۔ اور خطبہ مختصر کے ساتھ ہی نماز کو طول کرنے کے بیان کی کیا ضرورت تھی۔ کیا اس سے یہ مطلب ہے کہ اگر نماز بیس پچیس منٹ کی ہو تو خطبہ اس سے دو چار منٹ چھوٹا ہونا چاہیے یا اس کے سوا کوئی مطلب ہوسکتا ہے۔ آج کل اکثر جگہ اہل حدیث میں یہ طریق رائج ہے کہ جمعہ کا خطبہ قریب قریب ایک گھنٹہ کے ہوتا ہے۔ اور نماز آٹھ یا دس منٹ میں ہوجاتی ہے۔ کیا اس قسم کا خطبہ سنت کے مطابق ہوگا۔ اس مسئلہ کو وضاحت سے بیان فرمائیں؟ (جواب مولانا عبدالرحمن صاحب مبارکپوری رحمہ اللہ )


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

احادیث صحیحہ صریحہ سے ثابت ہے کہ رسول اللہﷺ جمعہ کا خطبہ مختصر پڑھتے تھے اور کسی حدیث صحیح و صریح سے خطبہ جمعہ کا طویل پڑھنا آنحضرتﷺ سے ثابت نہیں ہوتا بلکہ اس کی نفی ثابت ہوتی ہے۔ سنن ابی داؤد میں ہے:

عن جابر بن سمرۃ عن النبی ﷺ انہ کان لایطیل الموعظۃ یوم الجمعۃ انما ھی کلمات یسیرات۔ یعنی جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ جمعہ کے روز خطبہ کو طویل نہیں کرتے تھے۔ اور آپ کا خطبہ جمعہ صرف چند کلمات سہل اور آسان ہوتا تھا۔

صحیح مسلم ہے:

قال ابو وائل خطبنا عمار فاوجزوا بلغ فلما نزل قلنا یا ابا الیقظان لقد ابلغت واوجزت فلوکنت تنفست فقال انی سمعت رسول اللہ ﷺ یقول ان طول صلوٰۃ الرجل وقصر خطبتہ مئۃٌ من فقھہ فاطیلوا الصلوٰۃ واقصروا الخطبۃ۔

یعنی ابو وائل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے ہم کو خطبہ دیا جو مختصر اور بلیغ تھا۔ جب وہ ممبر سے اُترے تو ہم نے کہا کہ اے ابو الیقظان آپ نے خطبہ نہایت بلیغ فرمایا۔ مگر مختصر پس آپ اگر خطبہ کو طول کئے ہوتے تو خوب ہوتا۔ تو حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے آپ فرماتے تھے کہ آدمی کا نماز کو طویل کرنا اور خطبہ کو مختصر کرنا اس کی دانائی کی علامت ہے پس نماز کو طویل کیا کرو۔ اور خطبہ کو مختصر۔

یہ حدیث اگرچہ مطلق خطبہ کے بارے میں ہے اور اس میں جمعہ کے خطبہ کی قید نہیں ہے لیکن یہ حدیث کے اطلاق سے خطبہ جمعہ کا بھی مختصر ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اور سائل نے جو اس حدیث کے ترجمہ میں خطبہ جمعہ کی قید لگائی ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ اور واضح رہے کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی اس حدیث مرفوع میں مطلق خطبہ اور وعظ کا مختصر کرنا اور مطلق نماز طویل کرنے کا ذکر ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ خطیب کو مطلق خطبہ کا جمعہ ہو یا غیر جمعہ کا مختصر دینا چاہیے اور مطلق نماز جمعہ کی ہو یا غیر جمعہ کی، طویل کرنی چاہیے۔ میرے نزدیک اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نماز جمعہ کو بہ نسبت خطبہ جمعہ کے طویل کرنا چاہیے اور خطبہ جمعہ کو بہ نسبت نماز جمعہ کے مختصر کرنا چاہیے۔ نیز واضح رہے کہ اس حدیث میں اگرچہ مطلق خطبہ کے مختصر دینے کا حکم ہے مگر خاص ضرورت کے وقت طویل خطبہ دینا بھی غیر نماز جمعہ میں آنحضرتﷺ سے ثابت ہے۔ اور جب جماعت میں بوڑھے، ضعیف، بیمار لوگ موجود ہوں تو امام کو نماز میں تخفیف کرنے کا حکم ہے۔ الحاصل خطبہ جمعہ کا طویل پڑھنا حدیث سے ثابت نہیں ہوتا بلکہ اس کی نفی ثابت ہے۔ ہاں جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے مطلق خطبہ کا متوسط ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔

صحیح مسلم میں ہے:

عن جابر سمرۃ قال کنت اصلی مع رسول اللّٰہ ﷺ فکانت صلوتہ قصد او خطبتہ قصدا۔

یعنی جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کی نماز متوسط ہوتی تھی یعنی نہ بہت مختصر نہ بہت طویل آپ کا خطبہ بھی متوسط ہوتا تھا، یعنی نہ بہت مختصر نہ بہت طویل۔

پس جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کے اطلاق سے خطبہ جمعہ کا بھی متوسط ہونا ثابت ہوتا ہے۔ جو کچھ احادیث صحیحہ و صریحہ سے ثابت ہے وہ یہی ہے کہ زوال آفتاب کے بعد خطبہ شروع کرنا چاہیے اور مختصر یا متوسط خطبہ پڑھ کر نماز جمعہ پڑھنی چاہیے۔  (عبدالرحمن مبارکپوری، شارح ترمذی)

محدث روپڑی

محدثِ روپڑی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مولوی عبدالرحمن صاحب نے جواب میں بہت تفصیل کی ہے اور بتلایا ہے کہ خطبہ چھوٹا ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ خطبہ نماز سے چھوٹا ہو بلکہ مطلب یہ ہے کہ عام وعظوں کی نسبت چھوٹا ہونا چاہیے۔ یہ بالکل ٹھیک ہے کیوں کہ ہفتہ کے بعد ایک دن اِسی خاطر مقرر کیا گیا ہے اگر آٹھ دس منٹ پر اکتفاء کی جائے تو بہت لوگ خطبہ سے محروم رہ جائیں گے کسی کے وضو کرتے کرتے خطبہ ہو جائے گا۔ کسی کے دو رکعت پڑھتے پڑھتے خطیب فارغ ہو جائے گا۔

مسلم میں حدیث ہے کہ جب خطبہ کی حالت میں کوئی آئے دو رکعت ہلکی پڑھ لے اگر خطبہ دو رکعت سے لمبا نہ ہو تو اس حکم کی تعمیل مشکل ہے۔ نیز خطبہ کے دو حصے کرکے درمیان میں بیٹھنا یہ بھی چاہتا ہے کہ خطبہ نماز سے چھوٹا مراد نہیں کیوں کہ یہ بیٹھنا راحت کا ہے۔

نیز مشکوٰۃ باب الخطبہ میں حدیث ہے کہ خطبہ کے وقت رسول اللہﷺ کی آنکھیں سرخ ہو جاتیں اور آواز بلند ہو جاتی۔ اور بہت جوش میں آجاتے اور ظاہر ہے کہ ایسا جوش آٹھ دس منٹ میں پیدا ہونا مشکل ہے۔ نیز مسلم میں حدیث ہے ابو رفاعہ کہتے ہیں۔ میں نے خطبہ میں سوال کیا کہ میں دین سے ناواقف ہوں تو رسول اللہﷺ خطبہ چھوڑ کر میرے پاس آئے آپ کے لیے کرسی لائی گئی آپ نے اس پر بیٹھ کر مجھے کچھ باتیں سکھائیں جو خدا نے آپ کو سکھائی تھیں پھر واپس آکر خطبہ پورا کیا۔ اس حدیث سے بھی ثابت ہوا ہے کہ خطبہ کچھ لمبا ہوتا ہے۔ اگر آٹھ دس منٹ ہوتا تو فارغ ہو کر ابو رفاعہ رضی اللہ عنہ کی حاجت روائی کرتے خطبہ توڑنے کی ضرورت نہ تھی۔

نیز مشکوٰۃ باب التنظیف میں حدیث ہے۔ جب جمعہ کے دن نیند آئے تو اپنی جگہ بدل دے۔ اس سے بھی صاف معلوم ہوتا ہے کہ خطبہ میں کچھ طول دے کیوں کہ نیند عموماً زیادہ دیر تک بیٹھنے سے آتی ہے اس کے علاوہ اس کی مؤید دارمی کی حدیث اس بارہ میں صریح آئی ہے جو مع سند مندرجہ ذیل ہے:

اخبرنا محمد بن حمیدثنا تمیم بن عبدالمؤمن ثنا صالح بن حیان حدثنی ابن بریدۃ عن ابیہ قال کان النبی ﷺ اذا خطب قام فاطال القیام فکان یشق علیہ قیامہ فاتی بجذع نخلۃ فحفرلہ واقیم الٰی جذبہ قائما للنبی ﷺ اذا خطب فطال القیام علیہ استند الیہ فاتکأ علیہ فبصربہ رجل کان ورد المدینۃ فراہُ قائما الٰی جنب ذلک الجذع فقال لمن یلیہ من الناس لو اعلم ان محمدا یحمدنی فی شی یرفق بہ لصنعت لہ مجلسا یقوم علیہ فان شاء حبس ماشاء وان شاء قام فبلغ ذالک النبی ﷺ فقال ائتونی بہ فأتوہ بہ فامران یصنع لہ ھذہ المراقی الثلث او الاربع ھی الان فی ممبر المدینۃ فوجد النبی ﷺ فی ذالک راحۃ فلما فارق النبی ﷺ الجزع وعمد الٰی ھذہ التی صنعت لہ جزع الجذع فحن کما تحن الناقۃ حین فارقہ النبی ﷺ بزعم ابن بریدۃ عن ابیہ ان النبی ﷺ حین سمع حنین الجذع رجع الیہ فوضع یدہ علیہ وقال اختران اغرسک فی المکان الذی کنت فیہ فتکون کما کنت وان شئت ان اغرسک فی الجنۃ فتشرب من انھارھا وعیونھا فیحسن نبتک وتثمر فیأکل اولیاء اللہ من ثمرتک ونخلک فعلت فزعم انہ نسمع من النبی ﷺ وھو یقول لہ نعم قد فعلت مرتین فسال النبی ﷺ فقال اختار ان اعرسہ فی الجنۃ۔

(باب اکرم النبی ﷺ بحنین المنبر ص۸ج۱)

’’ یعنی ابن بریدہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ جب خطبہ پڑھتے تو بہت دیر کھڑے رہتے اور اس سے مشقت پاتے۔ آپ کے لیے ایک تنا کھجور کا لایا گیا اور گڑھا کھود کر ایک طرف کھڑا کیا گیا جب آپ خطبہ پڑھتے اور دیر تک کھڑے رہتے تو اس سے ٹیک لگا لیتے۔ ایک شخص مدینہ میں آیا۔ اس نے یہ حال دیکھ کر اپنے پاس کے لوگوں کو کہا کہ اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ رسول اللہﷺ آرام کی شے کو پسند کریں گے تو میں آپ کے لیے ممبر تیار کردوں، جتنی دیر چاہیں اس پر بیٹھیں اگر چاہیں کھڑے ہوں، نبیﷺ کو اس کی خبر پہنچی تو اس کو بلا کر ممبر بنانے کو کہہ دیا۔ جب ممبر تیار ہو کر نبیﷺ کی تکلیف دور ہوگئی اور آپ ممبر پر بیٹھے تو تنہ آپ کی جدائی میں رویا۔ جیسے اونٹنی درد سے آواز نکالتی ہے۔ آپ ممبر سے اتر کر تنہ کے پاس آئے اور اس پر اپنا ہاتھ رکھا اور فرمایا دو باتوں سے ایک بات پسند کرلے۔ اگر تو چاہے تو میں تجھے وہیں گاڑھ دوں گا۔ جہاں پہلے تھا اور پہلے کی طرح کھجور کا درخت ہو جائے گا۔ اور اگر تو چاہے تو میں تجھ کو جنت میں لگا دوں اور جنت کی نہروں اور چشموں سے پئے گا۔ اور بہت عمدہ اُگے گا۔ اور پھلدار ہو جائے گا۔ اور تیرے پھل اور کھجور سے اولیاء اللہ کھائیں گے راوی بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں تنا نے نبیﷺ سے یہ بات سن کر دو مرتبہ کہا مجھے منظور ہے۔ راوی نے حضورﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپﷺ نے فرمایا تمنا نے اس بات کو پسند کیا کہ میں اس کو جنت میں لگا دوں۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ بہت دیر تک قیام کرتے اور خطبہ میں طول دیتے پس خطبہ کے چھوٹا ہونے کا یہ معنی لینا کہ خطبہ نماز سے چھوٹا ہو یہ کسی صورت صحیح نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ عام وعظوں کی نسبت خطبہ چھوٹا ہونا چاہیے۔  (مولانا عبداللہ امرتسری)

(فتاویٰ اہل حدیث ص ۳۵۳)

 


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 97-101

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ