سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(40) ابوداؤد اور بخاری میں ہے کہ جمعہ کے دن بارش ہوئی تو..الخ

  • 4471
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1402

سوال

(40) ابوداؤد اور بخاری میں ہے کہ جمعہ کے دن بارش ہوئی تو..الخ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید کہتا ہے کہ آدمی جنگل میں یا کھیت میں سخت ضرورت کے سبب گاؤں میں حاضر نہ ہوسکتا ہو۔ تو اپنے کھیت میں اکیلا جمعہ پڑھ لے تو فرض ادا ہو جائے گا۔ اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:

اوّل:… عبداللہ بن عباس کا قول ہے۔ امام شوکانی کشف الغمہ میں لکھتے ہیں کہ ایک آدمی کا جمعہ ہو جاتا ہے۔ ابن عباس سے کسی نے سوال کیا کہ اگر کوئی آدمی اکیلا اپنے کھیت میں جمعہ پڑھ لے تو کیا حکم ہے آپ نے فرمایا : لاحرج۔ ابن زبیر کے زمانہ میں عید و جمعہ اکٹھے آئے تو ابن زبیر جمعہ کو نہ آئے اکیلے پڑھ لیا۔

ابوداؤد اور بخاری میں ہے کہ جمعہ کے دن بارش ہوئی تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے مؤذن کو کہا الصلوٰۃ فی بیوتکم کہو۔ شاید انہوں نے اپنے گھروں میں ہی جمعہ پڑھا ہو۔

تیسری دلیل یہ ہے کہ وہ بکریوں والا جو پہاڑی پر رہتا تھا ہوسکتا ہے کہ وہ جمعہ اکیلا پڑھ لیتا ہو۔ واختلفوا فی مصداق لفظ الجماعۃ قال الحافظ فی فتح الباری شرح البخاری فیہ خمسۃ عشر مذھبا احدھا تصح من الواحد نقلہ ابن حزم والیہ ذھب القاشانی والحسن بن صالح الخ۔ دلیل آیت شریفہ کَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ اِنْ نَعْفُ عَنْ طَائِفَۃٍ مِنْکُمْ نُعَذِّبُ طَائِفَۃً بِانَّھُمْ کَانُوْا مُجْرِمِیْنَ۔ اس آیت میں ایک آدمی کو اللہ تعالیٰ نے جماعت فرمایا ہے۔ زید یہ دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص اشد ضرورت والا اپنے کھیت میں یا اکیلا آدمی ہے۔ اس کے گاؤں میں بالکل جمعہ ہوتا ہی نہیں اور دوسری جگہ جا نہیں سکتا تو ایسی ضرورت میں اکیلا جمعہ کی تکبیر بلند کہہ کر بطور جماعت کے پڑھ لے۔ تو جمعہ ادا ہو جائے گا۔

عمرو کہتا ہے کہ ایک آدمی کو مطلقاً ہرگز ہرگز جمعہ جائز نہیں۔ تمام اہل اسلام کے برخلاف ہے۔ اجماع کے برخلاف ہے۔ آنحضرت علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بھی برخلاف ہے۔ کیوں کہ حدیث میں جماعت کا لفظ آیا ہے۔ دو ہوں تو جمعہ ہوسکتا ہے۔ اکیلا ہرگز نہیں پڑھ سکتا۔ فقط

سوال یہ ہے کہ زید و عمرو دونوں میں سے حق پر کون ہے۔ اکیلا جمعہ پڑھ لے تو جمعہ ادا ہوتا ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مشکوٰۃ میں ہے:

عن طارق بن شھابؓ قال قال النبی ﷺ الجمعۃ قال قال النبی ﷺ الجمعۃ حق واجب علی کل مسلم فی جماعۃ الاعلی اربعۃ عبد مملوک او امرائۃ اوصبی او مریض رواہ ابوداؤد وفی شرح السنۃ بلفظ المصابیح عن رجل من بنی وائل۔ (مشکوٰۃ ۱۲۱، باب وجوبھا)

یعنی نبی علیہ السلام نے فرمایا چار کے سوا ہر مسلمان پر جماعت میں جمعہ حق واجب ہے۔ صرف غلام عورت، لڑکا، بیمار اس حکم سے خارج ہیں۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جماعت ضروری ہے۔

امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

لا مستند لصحتھا من الواحد المنفرد واما من قال انھا تصح باثنین فاستدل بان العدوا جب بالحدیث والاجماع ورای انہ لم یثبت دلیل علی اشتراط عدد مخصوص وقد صحت الجماعۃ فی سائر الصلوٰت باثنین ولافرق بینھا وبین الجماعۃ ولم یات نص من رسول اللہ ﷺ بان الجمعۃ لاتنعقد الا بکذا وھذا القول ھو الراجح عندی ۔

(نیل الاوطار جلد ۳،ص۱۰۸)

یعنی اکیلے کے جمعہ ہونے کی کوئی دلیل نہیں اور جو کہتے ہیں کم از کم دو کے ساتھ جمعہ ہو جاتا ہے۔ انہوں نے (اوپر کی) حدیث اور اجماع سے استدلال کیا ہے۔ حدیث اور اجماع دونوں سے جماعت کا وجوب ثابت ہوتا ہے۔ اور کسی حدیث میں عدد کی تعیین نہیں آئی۔ اور باقی نمازوں میں دو کی جماعت ہو جاتی ہے تو جمعہ کی بھی ادنیٰ درجہ سے جماعت ہو جائے گی۔ اور میرے نزدیک یہی قول راجح ہے۔

نیز امام شوکانی دراری المضیہ شرح درر لبہیہ میں اور نواب صدیق الحسن روضۃ الندیہ شرح دررالبہیہ لکھتے ہیں:

لولا حدیث طارق بن شھاب المذکور قریبا من تقیید الوجوب علی کل مسلم بکونہ فی جماعۃ ومن عدم اقامتھا ﷺ فی زمنہ فی غیر جماعۃ لکان فعلھا فرادی مجزیا کغیرھا من الصواب۔ (ص۸۹)

یعنی اگر طارق بن شہاب کی حدیث نہ ہوتی جس نے جمعہ کو جماعت میں واجب کہا ہے نیز رسول اللہﷺ کے ہمیشہ پڑھنے کا ذکر نہ ہوتا تو جیسے اور نمازیں اکیلے اکیلے ہو جاتی ہیں۔ جمعہ بھی اکیلے اکیلے جائز ہوتا مگر حدیث مذکور اور آپ کا ہمیشہ جماعت میں پڑھنا اکیلے کے جمعہ صحیح ہونے سے مانع ہے۔

زید نے اپنے دعویٰ کے جتنے بھی دلائل دیے ہیں۔ ان میں سے ایک بھی اس بارہ میں صریح نہیں کہ اکیلے کا جمعہ ہو جاتا ہے۔ عید جمعہ کے اکٹھا ہونے کے دن ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے جمعہ پڑھنے کا کہیں ذکر نہیں پھر صحابی کا قول فعل حدیث کے مقابلہ میں حجت نہیں۔ اسی طرح بارش کی روایت میں اور پہاڑی پر رہنے والے کی حدیث میں جمعہ پڑھنے کا کوئی ذکر نہیں پھر گھروں میں کئی آدمی ہوتے ہیں۔ اکیلے ہونے کی کوئی دلیل نہیں۔

رہا ابن عباس کا قول جو کشف الغمہ کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے امام شوکانی رحمہ اللہ کے نزدیک صحت کو نہیں پہنچا۔ ورنہ نیل الاوطار کی عبارت میں جماعت کی شرط پر اجماع نقل نہ کرتے۔ پھر یہ حدیث کے خلاف ہے اس لیے بھی اس کا اعتبار نہیں۔ اس کے علاوہ کشف الغمہ میں جو ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اکیلے کا حقیقت میں جمعہ نہیں۔ بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک جو جمعہ نہ پائے وہ دو رکعت بھی پڑھ سکتا ہے۔ اور چار بھی پڑھ سکتا ہے۔ گویا ان کے نزدیک جس کو جمعہ نہ ملے اس پر چار رکعت ضروری نہیں۔ چنانچہ اصل عبارت یہ ہے:

سئل ابن عباس رجل صلی الجمعۃ فی بستانہ فرادی فقال لاحرج اذا قام شعار الجمعۃ بغیرہ۔ (کشف الغمہ۔ص۱۲۲)

یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک شخص کی بابت سوال ہوا جو اکیلا اپنے باغ میں جمعہ پڑھے تو فرمایا کوئی حرج نہیں لیکن شرط یہ ہے کہ اس کے بغیر جمعہ کا شعار قائم ہو۔ جمعہ کا شعار قائم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ باجماعت خطبہ کے ساتھ اس کے بغیر وہاں جمعہ ہوتا ہو تو اس صورت میں (بوجہ دوری) کے باغ میں اکیلا پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں۔

اس عبارت کا مطلب صاف ہے کہ اس کی دو رکعت حقیقت میں جمعہ نہیں۔ ورنہ اس کے بغیر جمعہ کے شعار قائم ہونے کی شرط قائم نہ کرتے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یہ شرط اس لیے کہ ہے کہ اس کے اکیلے خطبہ پڑھنے کا تو کچھ معنی ہی نہیں۔ کیوں کہ خطبہ خطاب سے ہے جو مخاطب کو چاہتا ہے تو صرف دو رکعت بغیر جماعت کے ہوئیں، پس جب یہ دو رکعت حقیقت میں جمعہ نہ ہوئیں تو یہ کہنا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا مذہب ہے کہ اکیلے کا جمعہ ہو جاتا ہے۔ یہ صحیح نہ ہوا بلکہ اس کا مال اس طرف ہوا کہ جو جمعہ نہ پاسکے وہ جمعہ کے دن کتنی رکعت پڑھے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا مذہب ہے کہ دو رکعت پڑھنے میں بھی کوئی حرج نہیں اور اکثر علماء کہتے ہیں۔ چار پڑھے اور حدیث کی رو سے یہی صحیح ہے ملاحظہ ہو۔

(مشکوٰۃ باب ص۱۲۳ ، الخطبہ)

اور زید کا یہ کہنا کہ جماعت کا استعمال ایک میں بھی ہوتا ہے۔ یہ درست نہیں جس کی کئی وجہیں ہیں ایک یہ کہ ابن ماجہ وغیرہ میں حدیث ہے: اثنان فما فوقھما جماعۃ یعنی دو پس دو سے زیادہ جماعت ہیں اور بخاری رحمہ اللہ نے اس پر باب باندھا ہے۔

دوم: جماعت کا لفظ اجتماع کو چاہتا ہے۔ ایک شے کے اجتماع کا کچھ معنیٰ نہیں۔ اور آیت مذکورہ میں طائفہ کا لفظ اجتماع کو نہیں چاہتا، اس لیے اس کا استعمال ایک میں بھی ہوسکتا ہے کیوں کہ اس کے اصل معنی ٹکڑے کے ہیں۔ خواہ ایک شخص ہو یا زیادہ ہوں۔

سوم: طارق بن شہاب کی حدیث میں جماعت کی شرط کرنا فضول جاتا ہے۔ اگر ایک کا جمعہ ہو جاتا، تو جماعت کے لفظ کی ضرورت نہ تھی۔

چہارم: طارق بن شہاب کی حدیث میں کلمہ فی ہے۔ جس کے معنی اندر کے ہیں اور اندر تبھی ہوگا، جب کم سے کم دو ہوں۔ گویا ایک یہ ہوا اور ایک دوسرا ہو تو دونوں کے مجموعے سے جماعت بن گئی۔ اب ہر ایک کو اس جماعت کے اندر کہہ سکتے ہیں۔ جیسے نحوی کہتے ہیں ’’ الکلام ماتضمن کلمتین‘‘ یعنی کلام وہ ہے جس کے اندر دو کلمے ہوں حالاں کہ کلام اصل میں دو کلموں سے بنتی ہے۔ تو یہاں اندر کہنے کی وجہ یہی ہے کہ اکیلا اکیلا کلمہ دو کے مجموعے کے اندر ہے۔ بس اسی طرح اس حدیث میں سمجھنا چاہیے۔ اگر کوئی صاحب کہیں کہ فرشتے اور جن شریک ہو جاتے ہیں اس سے جماعت کا حکم ادا ہو جاتا ہے۔ جیسے بعض روایتوں میں اس شخص کی نسبت اللہ کے لشکر فرشتوں، جنوں کے ساتھ ہونے کا ذکر آیا ہے جو جنگل میں اذان دے کر نماز پڑھے۔ ملاحظہ ہو ترغیب منذری (باب الصلوٰۃ فی الفلاۃ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے مراد ثوابِ جماعت ہے۔ جیسے حدیث میں آتا ہے کہ رمضان میں عمرہ حج کے برابر ہے۔ یعنی حج کا ثواب مل جاتا ہے نہ یہ کہ حج کا فرض اس کے ذمہ سے اتر گیا۔ ٹھیک اسی طرح فرشتوں کے ملنے کا مطلب یہ ہے کہ جماعت کا ثواب مل جاتا ہے۔ نیز فرشتوں جنوں کا شریک ہونا ایک باطنی معاملہ ہے۔ ظاہری احکام کا تعلق اس سے نہیں ہوسکتا یہی وجہ ہے کہ اگر امام کے ساتھ ایک شخص ہو تو وہ امام کے دائیں جانب کھڑا ہوگا۔ اس خیال سے پیچھے کھڑا نہیں ہوسکتا کہ فرشتے اور جن آملیں گے۔ اسی طرح کوئی شخص اکیلا صف کے پیچھے کھڑا نہیں ہوسکتا۔ اور یہی وجہ ہے کہ جماعت سے فراغت کے بعد ایک شخص مسجد میں آیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کیا تم سے کوئی ہے۔ جو ثواب حاصل کرے۔ یعنی اس کے ساتھ شامل ہو کر جماعت کرا دے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر شامل ہوگئے۔  (منتقی مع نیل الاوطار جلد ۳، ص ۲۹)

اسی طرح اگر ہمارے احکام فرشتوں، جنوں سے تعلق رکھتے تو حضرت یا کسی اور کے ساتھ شامل ہونے کی ضرورت نہ ہوتی اور یہی وجہ ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے شرط کی ہے کہ شعار جمعہ کسی اور سے قائم ہو۔ اگر فرشتوں اور جنوں سے جماعت کا حکم پورا ہو جاتا تو اس شرط کی کیا ضرورت تھی؟ اور حدیث میں بھی جماعت کے شرط کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔ کیوں کہ جب جن فرشتے شامل ہو جاتے ہیں اور ان کے شامل ہونے سے جماعت کا حکم پورا ہو جاتا ہے۔ تو آپ کا یہ فرمانا فضول ہے۔ کہ ہر مسلمان پر جماعت میں جمعہ واجب ہے۔ غرض جنوں فرشتوں کا شامل ہونا ایک باطنی معاملہ ہے ظاہری احکام کی بنا اس پر نہیں رکھی جاسکتی۔ اس کا مطلب صرف اتنا ہی ہے کہ کوئی شخص جنگل میں اذان دے کر نماز پڑھے تو اس کی حرص کی وجہ سے فرشتوں، جنوں کا شامل ہونا اس کے لیے جماعت کے ثواب کا سبب بن جاتا ہے۔ جیسے رسول اللہﷺ فرماتے ہیں۔ میں صبح کی نماز سے آفتاب نکلنے تک ذکر الٰہی کرنے والوں کے ساتھ بیٹھوں تو میرے نزدیک اولادِ اسماعیل سے چار غلام آزاد کرنے سے بہتر ہے۔ اسی طرح عصر سے مغرب تک فرمایا۔  (مشکوٰۃ باب الذکر بعد الصلوٰۃ)

حالاں کے کسی کے ذمہ غلام کا کفارہ ہو تو وہ اس ذکر سے ادا نہیں ہوسکتا۔ ٹھیک اسی طرح فرشتوں جنوں کے شریک ہونے سے جماعت کا ثواب مل جاتا ہے۔ جماعت کا حکم ادا نہیں ہوتا۔

مولانا عبداللہ امرتسری              

(فتاویٰ اہل حدیث ص۳۴۲)        

 


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 89-94

محدث فتویٰ

تبصرے