کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ رسول اللہﷺ کے وقت میں یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و تبع تابعین رحمہ اللہ و ائمہ دین رحمہ اللہ کے زمانے میں عورتیں مردوں سے علیحدہ ہو کر آپس میں جمعہ یا دونوں عیدوں کی نماز پڑھا کرتی تھیں یا نہیں؟ اگر ان کی عید و جمعہ مردوں سے علیحدہ پڑھنا ثابت نہیں تو اب جو عورتیں مردوں سے علیحدہ ہو کر آپس میں جمعہ یا دونوں عیدوں کی نماز مردوں کی طرح خطبہ پڑھتی پڑھاتی ہیں کیا ان کا یہ کام سنت کے موافق ہے یا بدعت؟ اگر بدعت ہے تو بتائیے اب عورتیں کس جگہ جمعہ یا دونوں عیدوں کی نماز پڑھا کریں؟ بینوا توجروا۔
(محمد داؤد و نوٹیاں والی ضلع شیخوپورہ)
جمعہ کی نماز چونکہ پانچ وقتی نمازوں میں داخل ہے اس لیے اس کا حکم پانچ نمازوں کا ہوگا۔ سوان باتوں کے جن کی خصوصیت حدیث نے کردی، جیسے جمعہ کے لیے جماعت ضروری ہے۔ پانچ وقتی نماز میں اگر جماعت نہ ملے تو اکیلا ہی پڑھ سکتا ہے۔ اس لیے جن جن باتوں کا ذکر احادیث میں آگیا ہے ان میں نماز جمعہ باقی نمازوں سے ممتاز ہوگی۔ ان کے علاوہ سب باتوں میں نماز جمعہ کا حکم وہی ہوگا۔ جو پانچ نمازوں کا ہے۔ اب پانچ نمازیں عورتوں کے لیے گھر میں بہتر ہے۔ اگر دوسری جگہ پڑھیں تو جائز ہیں خواہ کسی مرو کے ساتھ پڑھیں یا کسی عورت کے ساتھ کیوں کہ عورتوں کی امامت آپس میں صحیح ہے۔
رہا عید کا حکم تو اس کی تاکید حدیث میں بہت آئی ہے۔ اس لیے گھر میں نہیں پڑھنی چاہیے بلکہ جہاں سب جاتے ہیں وہاں چلے جانا ہی بہتر ہے۔ اور نماز عید وہاں ہی ادا کرنی چاہیے۔
حضرت العلام محدث روپڑی رحمہ اللہ
تنظیم اہل حدیث جلد ۲۰ ش ۳۲