خطبے میں بزبان دیسی وعظ کہنے کی اجازت ہے یا نہیں؟
حضور علیہ السلام خطبہ میں وعظ و نصیحت فرماتے تھے۔
(فتاویٰ ثنائیہ جلد اول ص۶۰۹)
خطبہ جمعہ بجواب ’’حمایت اسلام‘‘ لاہور
اخبار حمایت اسلام لاہور میں ایک سوال چھپا تھا۔ جس کے الفاظ یہ ہیں۔ علماء کرام توجہ فرمائیں۔
’’ حمایت اسلام‘‘ کے کسی صفحہ پر یہ عنوان تھا ’’ خطاب ترکی زبان میں‘‘ یہ خبر درج ہے کہ قسطنطنیہ کے پانچ علماء کی ایک جمعیت نے بزبان ترکی عیدین اور جمعہ کے ۵۸ خطبے تیار کیے ہیں جن کو آئندہ خطیب مساجد میں پڑھیں گے ان خطبات عالیات میں آیات و احادیث حمد و شکر کے بعد مسلمانوں کی شرعی احکام کی بنا پر اس امر کا جوش دلایا گیا ہے کہ وہ ہوائی کمیٹی یتیم خانوں، شہداء کے بچوں، جمعیت حمایت اطفال، اور جمعیت ہلال احمر وغیرہ نیک کاموں کی طرف متوجہ ہوں، کہا جاتا ہے کہ وزیر دینیات کی منظور کے بعد عنقریب ہی سرکاری فرمان جاری کردئیے جائیں گے۔ کہ تمام قلمروئے ترکیہ میں متذکرہ خطبے پڑھے جائیں۔ اس خبر سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں: 1 علماء ترکیہ کے نزدیک خطبوں کا اس زبان میں ہونا لازمی اور لابدی ہے۔ جس کو سامعین سمجھ سکیں۔2 خطبات میں ضروریات کا بیان ضروری جزو ہے۔ ہم اپنے علمائے کرام کی خدمت اقدس میں بصد آداب و نیاز گذارش کرتے ہیں کہ وہ اس امر پر غور فرمائیں کہ وہ ان دونوں باتوں میں سے ایک یا دونوں ہی اپنے ملک میں رائج کرسکتے ہیں یا نہیں یہ خیال رہے کہ یہاں خطبہ اردو زبان میں ہونا چاہیے یا عربی میں۔ اس کا تعلق عالموں سے ہے۔ ظاہر ہے کہ انسان مادری زبان میں زیادہ سہولت سے سمجھ سکتا ہے۔ معاملہ بالکل صاف ہے۔ ہمارے دینی پیشوا اگر تھوڑی سی توجہ مبذول فرمائیں تو وہ چند ہفتوں میں ایسے خطبات تیار فرما سکتے ہیں جو قوم کو موجودہ مشکلات کے حل اور ضروریات کی تکمیل پر راغب ومائل کرسکتے ہیں۔ امید ہے کہ دیگر علما کرام بالعموم اور جمعیت علماء بالخصوص ہماری عاجزانہ اور عامیانہ درخواست کو اپنی توجہ مبارکہ سے مشرف فرمائیں۔
(حمایت اسلام ۱۳؍ جنوری ۱۹۲۷ء ص ۵)
مسلمانوں کی خوش قسمتی سے خطبہ کے متعلق بھی اختلاف پیدا ہوچکا ہے کہ اس میں دیسی زبان میں وعظ کہنا جائز ہے یا نہیں، حالاں کہ خطیب کی ہیئت کو قبلہ کی طرف پیٹھ اور سامعین کی طرف منہ، ہاتھ میں عصاء سرو قد کھڑے ہو کر ایھا الناس ایھا الناس کہنا۔ اس پر شریعت کا یہ حکم کہ اثناء خطبہ میں خاموش رہ رک سنتے رہو، جو بولے وہ سخت گنگاہگار ہوگا۔ قطع نظر اور دلیل کے یہ صورت کذائی ہی بتا رہی ہے کہ خطیب کا خطبہ بغرض تفہیم ہے۔
اس شہادت اور قرینہ حالیہ کے بعد ہم اسوۂ حسنہ (سنت نبویہ) پر نظر کرتے ہیں تو وہاں ایک عجیب طریق خطبہ کا پاتے ہیں۔ حدیث صحیح میں وارد ہے کانت لرسول اللہ ﷺ خطبتان یقرأ القراٰن ویذکر الناس(مشکوٰۃ باب الخطبہ) یعنی آنحضرتﷺ کے دو خطبے ہوتے تھے اُن میں آپ قرآن شریف پڑھتے اور لوگوں کو وعظ فرماتے تھے۔
یہ حدیث اپنا مضمون بتانے میں صاف اور صحیح ہے جو کسی مزید تشریح کی محتاج نہیں۔ صاف الفاظ سے سمجھ میں آتا ہے کہ خطبہ میں حضور علیہ السلام قرآن مجید پڑھ کر وعظ فرماتے تھے۔
یہ تو ہر ایک واقف اور ماہر قرآن پر واضح ہے کہ قرآنِ مجید میں ہر ضرورت کو پورا کرنے اور ہر مرض کی دوا بتائی گئی ہے۔ پس خطیب کو چاہیے جیسا موسم اور جیسی ضرورت ہو اُسی کے مطابق قرآن مجید سے حکم اور حکمت کی آیات پڑھ کر خطبہ میں وعظ فرماویں اور بس۔ چنانچہ اہل حدیث کی مساجد میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ بہت سے علماء کرام نے سال بھر کے خطبے بھی بنائے ہیں۔ لیکن جن خطیبوں نے قرآن شریف بامعنیٰ پڑھا ہو ان کو کوئی ضرورت نہیں:
ماقصہ سکندرو دارا بخواندہ ایم
ازما بجز حکایت مہرو وفا مپرس
ایڈیٹر صاحب ’’ حمایت اسلام‘‘ سے امید ہے کہ اس جواب کو اپنے پرچہ میں نقل کریں گے۔
۲۳؍ رجب ۱۳۴۵ھ
از مولانا حافظ عبداللہ صاحب غازی پوری مذاکرہ علمیہ بابت مسئلہ وعظ جمعہ مندرجہ اہل حدیث ۱۳ جلد ۹ مؤرخہ ۵؍ صفر ۱۳۳۰ھ۔ اس مسئلہ میں جہاں تک مجھے معلوم ہے یہی ہے کہ رسول اللہﷺ خطبہ جمعہ میں قرآن مجید پڑھتے اور تذکیر فرماتے یعنی وعظ کہتے۔ جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلم میں مروی ہے کانت للنبی ﷺ خطبتان یجلس بینھما یقرأ القرآن ویذکر الناس۔الحدیث اور میری نظر سے یہ کہیں نہیں گزرا ہے کہ رسول اللہﷺ نمازِ جمعہ کے بعد وعظ کہتے اور لوگوں کو اس کے لیے ٹھہراتے اور صیغہ امر آیت کریمہ { فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا} میں ویسا ہی ہے جیسا کہ آیت کریمہ {فاذا حللتم فاصطا دوا} میں ہے یعنی اباحت کے لیے، وجوب کے لیے نہیں ہے، پس بعد نماز جمعہ ہر شخص کو مباح ہے کہ چلا جائے یا ٹھہرا رہے نہ چلا جانا ہی واجب نہ ٹھہر جانا ہی واجب اور نہ کوئی ان میں سے ممنوع۔ وعظ و تذکیر بعد نماز جمعہ کا وہی حکم ہے جو اور وقتوں کا ہے تو جس طرح اور وقتوں میں وعظ و تذکیر جائز ہے اسی طرح بعد نمازِ جمعہ بھی جائز ہے۔ تو اگر کوئی شخص بعد نماز جمعہ محض جواز کے خیال سے وعظ کہے اور دوسرے لوگ وعظ سننے کے لیے ٹھہر جائیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن جو شخص اس وعظ میں شامل نہ ہو اور بعد نماز جمعہ چلا جاوے اس کو زجر کرنا البتہ بے وجہ اور ناجائز ہے۔ واللہ اعلم
کتبہ محمد عبداللہ از دہلی فتاویٰ ثنائیہ جلد ص ۶۲۲