دیہات میں جمعہ پڑھنا جائز ہے کہ نہیں؟ (شیر علی)
جمعہ دیہات میں وجوباً و فرضاً پڑھنا چاہیے۔ اس لیے کہ اولہ مثبت وجوب جمعہ عام ہیں، جیسے قولہ علیہ السلام الجمعۃ واجب علی کل محتلم الحدیث رواہ ابوداؤد نسائی شروط جمعہ جن سے دیہات کو مستثنیٰ کیا جاتا ہے۔ ثابت نہیں ہیں۔
جمعہ اہل دیہات پر بھی فرض ہے اس لیے کہ آیت شریفہ یا ایھا الذین امنوا اذا نودی للصلوٰۃ الایۃ میں شہری اور دیہاتی سب ہی شامل ہیں ایسے ہی حدیث نبوی لینتھین اقوام عن ودعھم الجمعات… اولیختمن اللہ علی قلوبھم الحدیث (صحیح مسلم)۔ اس میں سب لوگ شامل ہیں، دیہاتی بھی شہری بھی سوائے عورت بچے مریض غلام کے سب پر جمعہ واجب یعنی فرض ہے۔ (ابوداؤد، مشکوٰۃ ص ۱۲۱، ج۱) اور رسول اللہﷺ نے قباء اور مدینہ کے درمیان ایک بستی و گاؤں میں جمعہ پڑھا۔ (سنن بیہقی وابن سعد) ایک مرسل میں ہے جمع فی سفرو خطب (مصنف عبدالرزاق) اور جواثی میں خود رسول اللہﷺ نے جمعہ نہیں پڑھا تھا بلکہ آپ کے زمانہ میں صحابہ رضی اللہ عنہم نے پڑھا تھا۔ (صحیح بخاری ص۱۲۲،ج۱)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عمال کو خط لکھا ان جمعوا حَیْثُ ماکنتم اخرجہ سعید بن منصورا انتہیٰ روایات مذکورہ ملاحظہ ہوں۔ (التلخیص الجیر ص۱۳۲، جلد اول و ص ۱۳۳) ابو سعید شرف الدین دہلوی (فتاویٰ ثنائیہ جلد اول ص ۶۱۳)