سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(28) لاؤڈ سپیکر وعظ اور خطبہ میں استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟

  • 4460
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-06
  • مشاہدات : 2139

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آلہ آواز جس کو انگریزی میں لاؤڈ سپیکر کہتے ہیں وعظ اور خطبہ میں استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

لاؤڈ سپیکر رکھنا جائز ہے وہ انسانی آواز ہے جو بلند ہوا کرتی ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ علماء کرام! امور مندرجہ ذیل کی اباحت و جواز یا حرمت کے متعلق تشریح فرما دیں و نیز ان مسائل کے بارے میں علمائے دین کا اگر کوئی فیصلہ ہو تو وہ بھی تحریر فرما دیں۔ جوابات مختصر نمبروار ہوں۔ بینوا توجروا۔

۱:       موجودہ دور کی ایجادات (جن کے استعمال سے ارکانِ اسلام کی ادائیگی میں خلل کا اندیشہ نہ ہو) سے فائدہ اٹھانا کیسا ہے؟

۲:       بدعت اور سنت میں کیا فرق ہے اگر زمانہ نبوی کے بعد کی ہر نئی چیز یا نیا کام بدعت ہے تو مسلمانوں کو عہد نبوی کے بعد کی اشیاء کا استعمال کیسا ہے اور ہر چیز میں اصل اباحت ہے اس کی وضاحت فرمائیں۔

۳:       مسلمانوں کو زمانہ نبوی سے مختلف زبان، لباس، خوراک ذرائع تجارت و طریقہ معاشرت اختیار کرنے کے جواز پر کیا دلیل ہے؟

۴:       دیگر قومیں اپنے خیالات و عقائد و مذاہب کی اشاعت کے لیے لاؤڈ سپیکر استعمال کرتی ہیں تاکہ ان کی آواز دور تک زیادہ سے زیادہ لوگوں کے کانوں میں پہنچ سکے اور کچھ عرصہ سے مسلمان بھی اپنے مذہبی جلسوں میں استعمال کرتے ہیں۔ اگر اسے جمعہ و عیدین کے خطبات میں بھی استعمال کرتے ہیں اگر اسے جمعہ و عیدین کے خطبات میں بھی استعمال کیا جائے تاکہ خطبوں کی افادیت وسیع تر ہوسکے تو کیا یہ ناجائز ہے؟ اور کیا لوگوں کا ایسے جلسوں میں جانا بند کردیا جائے علماء کے وعظ کے لیے لاؤڈ سپیکر لگا ہوا ہو۔

جواب:… منجانب مولانا مولوی محمد اسمٰعیل صاحب مدرس و خطیب جامع مسجد اہل حدیث گوجرانوالہ الجواب وباللہ التوفیق۔

۱:       ایجادات سے استفادہ بلا کراہت درست ہے۔ ریل، سیارہ، تار، ٹیلیفون لاؤڈ سپیکر وغیرہ اسی نوعیت کی اشیاء ہیں۔ جہاں تک اسلام اور دین کی اشاعت میں استفادہ ممکن ہو ان کا استعمال بلا نکیر درست ہے۔

۲:       سنت اور بدعت میں فرق ایک مبسوط بحث ہے جس کے لیے شاطبی کی الاعتصام اور سید اسماعیل شہید کے رسالہ متعلقہ احکام تجہیز و تکفین کی طرف رجوع فرمائیں۔ مختصر اتنا سمجھ لیجئے کہ بدعت کا تصور آنحضرتﷺ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھورد الحدیث یعنی جو شخص امورِ دین میں اضافہ کرے اور دین کی متعین مقداروں پر اضافہ کرے اسے بدعت فرمایا گیا ہے۔ ایجادات حالیہ عن راسہا دین ہی نہیں۔ اس لیے ان سے استفادہ قطعاً بدعت کی تعریف میں نہیں آسکتا بلکہ ان کا تعلق انتم اعلم بامور دنیاکم سے ہے یہ دنیوی چیزیں ہم برائے افادہ دینی امور میں استعمال کرسکتے ہیں۔ سامان حرب میں دنیا بدل چکی ہے آج پرانے ہتھیاروں سے لڑنا اپنی موت کے محضر پر تصدق کے مترادف ہے۔

۳:       زبان، لباس، خوراک، طریقہ تجارت میں اسلام کی اساسی ہدایات کو پیش نظر رکھ کر ساری چیزیں استعمال ہوسکتی ہیں۔ آنحضرتﷺکا ارشاد ہے کل والبس ماشئیت ما اخطاتک اثنتان سرف ومخیلۃ (بخاری) کبرو اسراف سے بچتے ہوئے ہر چیز استعمال فرما سکتے ہیں۔ الحلال بین والحرام بین وسکت عن اشیاء من غیر نسیان۔ البتہ طریقہ معاشرت ایک عام لفظ ہے معلوم نہیں آپ کی کیا مراد ہے ہندوستان کے موجودہ حالات کے پیش نظر اس سے مراد ہندوانہ بود و باش ہے تو یہ درست نہیں۔ اوضاع و اطوار میں دینی اوضاع کی پابندی ضروری ہے۔ دوسرے اوضاع کی طرف رجحان ذہنی شکست کی دلیل ہے۔

۴:       لاؤڈ اسپیکر کا استعمال تقاریر اور خطبوں میں یقینا درست ہے۔ ہم لوگ تو یہاں نماز میں اسے استعمال کرتے ہیں۔ بظاہر اس کے خلاف موہوم خطرات کے علاوہ کوئی شرعی دلیل میری نظر سے نہیں گزری۔ سنا ہے بعض علمائے دیوبند نے نماز میں استعمال کی مخالفت کی ہے۔ میری نظر سے اُن کے دلائل نہیں گزرے۔ والسلام

          محمد اسماعیل مدرس و خطیب جامع مسجد اہل حدیث گوجرانوالہ

جواب:… از مولانا عبدالجبار صاحب کھنڈیلوی جے پوری شیخ الحدیث مدرسہ احمدیہ سلفیہ لہریا سرائے دربھنگہ 

الجواب۱: موجودہ دور کی ایجادات جن کا شرعاً استعمال کرنا درست نہ ہو وہ استعمال کرسکتے ہیں لقولہٖ تعالیٰ ھُوَ الَّذِی خَلَقََ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا الایۃ یعنی جو چیزیں زمین میں پیدا کی گئی ہیں وہ سب تمہار فائدے کے لیے ہیں۔ دوسری آیت میں فرماتا ہے وَیَخْلُقُ مَالَا تَعْلَمُوْنَ الایۃ یعنی اللہ تعالیٰ وہ وہ سواریاں اور چیزیں پیدا کرے گا جن کا تم کو علم نہیں ہے۔ اس آیت میں آئندہ کی ایجادات موٹر، ہوائی جہاز، ٹینک، ریڈیو وغیرہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

۲:       بدعت وہ عمل ہے جو دین میں ثواب سمجھ کر کیا جائے۔ ہر نئی ایجادات بدعت نہیں۔ لقولہ علیہ السلام من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھورو الحدیثرواہ البخاری۔ یعنی بدعت وہ امر ہے جو ہمارے دین میں نیا نکالا جائے جیسے بدعت عید میلاد و بدعاتِ محرم و بدعت تقلید وغیرہ اور سنت وہ کام ہے جس کو نبیﷺ نے قولاً و عملاً کیا ہو اور اس کو امت کے لیے دین قرار دیا ہو۔ اور آپ کا اسوۂ حسنہ ہو۔ لہٰذا مطلق نئی چیز بعد نبوت بدعت نہیں۔

۳ :      ہر ایک لباس خوراک و ذرائع تجارت و طریقہ معاشرت جو شرعاً منع نہ ہوں اور ان سے تشبہ بکفار لازم نہ آئے درست ہے۔ لقولہ تعالیٰ یَآاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکُمْ لَا تَعْتَدُوْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ۔ یعنی اے ایمان والو جو پاکیزہ چیزیں اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ ہیں ان کو اپنے پر حرام مت کرو، اور حکم خدا سے تجاوز نہ کرو اللہ تعالیٰ حد سے گزرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ دوسری آیت میں فرماتا ہے: کُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا۔الایۃ اسلام کسی ہیئت لباس و خوراک و ذرائع تجارت و طریقہ، معاشرت ملکی سے نہیں روکتا ہے۔ بشرطیکہ وہ شرعاً کسی صورت ممانعت خاص کے تحت نہ ہو، اسلام نے کسی خاص ہیئت لباس و خوراک خصوصی و ذرائع تجارت و طریقہ معاشرت کو محدود و متعین نہیں کیا ہے۔ ہاں تشبہ بالکفار والنسواں واسبال وغیرہ سے منع کیا ہے۔ اس کا خیال رہے۔

۴:       لاؤڈ سپیکر کو امتدادِ صوت کے لیے استعمال کرسکتے ہیں شرعاً کوئی ممانعت نہیں ہے۔ جس جلسہ وعظ میں لاؤڈ سپیکر لگایا ہو اس میں شرکت کرسکتے ہیں کوئی وجہ ممانعت کی نہیں ہے۔ بیت اللہ میں بھی بفتویٰ علماء لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ نماز و خطبہ ہوتا ہے۔ لاؤڈ سپیکر سے مقصود صرف آواز خطیب و واعظ پہنچانا ہے۔ یہ کوئی بے جا نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب

کتبہ ابو محمد عبدالجبار الکھنڈیلوی الجیفوری المدرس الاحمدیۃ السلفیہ لہر یا سرائے بدر بنجہ۔

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 77-80

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ