سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(24) اگر عیدین کے روز جمعہ پڑھا جائے تو..الخ

  • 4456
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1409

سوال

(24) اگر عیدین کے روز جمعہ پڑھا جائے تو..الخ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر عیدین کے روز جمعہ پڑھا جائے تو جمعہ کی نماز درجہ معافی میں ہے یا جمعہ کی نماز عیدین کی نماز کے بعد پڑھنا ہوگا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ حدیث واقعی ہے لیکن حنفیہ کہتے ہیں کہ یہ حکم دیہاتیوں کے لیے ہے۔ شہریوں کے لیے جمعہ فرض ہے۔ محدثین کہتے ہیں جمعہ کی فرضیت ساقط ہو جاتی ہے پڑھنا جائز ہے۔ میرا بھی یہی مسلک ہے۔

شرفیہ

یہ بعض محدثین کا مسلک ہے۔ مگر دلائل میں کلام ہے بعض دلائل یہ ہیں:

اجتمع عید ان علی عھد رسول اللہ ﷺ فی یوم واحد فصلی العید اول النھار فقال یا ایھا الناس ان ھذا یوم قد اجتمع لکم فیہ عید ان فمن احب ان یشھد معنا الجمعۃ فلیفعل ومن احب ان ینصرف فلیفعل رواہ ابوداؤد والنسائی وابن ماجۃ واحمد والحاکم من حدیث زید بن ارقم انہ ﷺ العید ثم رخص فی الجمعۃ فقال من شاء ان یصلی فلیصل صححہ علی بن المدینی رواہ ابوداؤد والنسائی والحاکم من حدیث عطاء ان الزبیر فعل ذالک وانہ سأل ابن عباس فقل اصاب السنۃ وقال المنذر ھذا الحدیث لایثبت وایاس بن ابی رملۃ راویہ عن زید محھول ورواہ ابوداؤد وابن ماجۃ والحاکم من حدیث ابی صالح عن ابی ھریرۃ انہ قال قد اجتمع فی یومکم ھذا عیدان فمن شاء اجزاہ عن الجمعۃ وانا مجمعون وفی اسنادہ بقیۃ رواہ عن شعبۃ عن المغیرۃ الضبی عن عبدالعزیز بن رفیع عن ابی صالح وصحح الدارقطنی ارسالہ لرویتہ حماد عن عبدالعزیز عن ابی صالح وکذا صحح ابن حنبل ارسالہ ورواہ البیھقی من حدیث سفیان بن عینیۃ عن عبدالعزیز موصولا مقید باھل العوالی واسنادہ ضعیف ووقع عند ابن ماجۃ عن عن ابی صالح عن ابن عباس بدل ابی ھریرۃ وھو وھم نبہ ھو علیہ ورواہ البخاری من قول عثمان ورواہ الحاکم من قول عمر بن الخطاب انتھی ما فی التخلیص الجیر (ص۴۹)

حاشیہ پر قول عثمان لکھا ہے مقید باھل العوالی یعنی اذن اہل عوالی کو دیا تھا نہ سب کو اور قول عمر پر بدر کی تصحیح لکھی ہے مگر حاکم کی روایت کو ابن منذر نے تو کہا ہے لایثبت فیہ راو مجہول زید بن ارقم کی روایت میں ایاس بن ابی رملہ ہے جو مجہول ہے اسی لیے ابن منذر نے اس کے بارے میں لایثبت کہا ہے اور عطا والی روایت میں اسباط بن نصر کو کثیر الخطا یغرب لکھا ہے۔ (تقریب التہذیب) نیز اسی میں سلیمان بن مہران اعمش مدلس ہے اور روایت عن سے ہے اور عنعنہ مدلس کا مقبول نہیں کما فی اصول الحدیث اور عطا کی روایت ابن جریج سے بھی آتی ہے۔ اور ابن جریج بھی مدلس ہے اور روایت عن سے ہے لہٰذا غیر مقبول ہے ’’ کان یدلس ویرسل‘‘ (تقریب التہذیب)

اور ابوہریرہ والی روایت میں بقیہ بن ولید کثیر التدلیس من الضعفاء ہے۔ اور مغیرۃ الضبی بھی مدلس ہے اور روایت بھی عن سے ہے۔ تحدیث نہیں، نیل الاوطار میں عطا والی روایت کے بارے میں رجالہ، رجال الصحیح لکھا ہے مگر اعمش اور جریج کی تدلیس اور منعنہ کا جواب کچھ نہیں دیا، لہٰذا اعتراض بحال رہا اور فعل ابن زبیر اور قول ابن عباس والی روایت کو نیل میں رجالہ، رجال الصحیح لکھا ہے، مگر تقریب میں اس کو بخاری کی معلق روایات میں لکھا ہے اور یہ بھی لکھا ہے صدوق رمی بالقدر ربما وہم من السادستہ انتہیٰ لفظ ربما وہم سے کثیر الوہم ثابت ہوتا ہے۔ رب للتکثیر کثیر وللتقلیل قلیل اور یہ مقام بھی اسی قسم کا ہے اس لیے کہ عبداللہ بن زبیر کے وقت صدہا صحابہ موجود تھے، پھر جب ابن زبیر نے جمعہ نہ پڑھا باہر نکلے اور لوگوں نے تنہا تنہا اپنی اپنی نماز پڑھی کما فی روایۃ ابی داؤد اور کسی نے بھی ان کو مکان پر جا کر مطلع نہ کیا۔ اور نہ آنے کی وجہ دریافت کی اور انہوں نے بھی عید کی نماز پڑھ کر لوگوں کو اس امر پر مطلع نہ کیا اور پھر عصر کے وقت بھی اُن سے دریافت نہ کیا حتیٰ کہ جب ابن عباس رضی اللہ عنہ طائف سے واپس آئے تب دریافت کرنے سے انہوں نے ’’ اصاب السنۃ‘‘ کہا گویا سب کے سب صحابہ اور تابعین صدہا بلکہ ہزاروں کی تعداد میں سب ہی بے خبر تھے صرف ابن الزبیر اور ابن عباس ہی اتنے بڑے واقعہ سے خبردار تھے۔ وہذا من العجائب اس لیے اس مسئلہ میں محدثین کا اختلاف ہے۔ امام شافعی وجماعۃ من المحدثین اس کے خلاف ہیں:

قال فی سبل السلام ذھب الشافعی وجماعۃ الی انھا (ای صلاتہ الجمعۃ) لاتصیر رخصۃ مستدلین بالدلیل وجوبھا عام لجمیع الایام وما ذکر من الاحادیث والاثار لایقوی علی تخصیصھا لما فی اسانیدھا من المقال ثم قال صاحب السبل قلت حدیث زید بن ارقم قد صححہ ابن خزیمۃ ولم یطعن غیرہ فیہ فھو یصلح للتخصیص انتھی اقول قد تقدم انہ ضعفہ ابن المنذر وقال لا یثبت وفی سندہ ایاس ابن ابی رملۃ مجھول کیف وقد نقل صاحب سبل ایضاً قبلہ اٰنفا قد ضعف الامام الشافعی وجماعۃ من المحدثین ھذہ الاحادیث والاثار کما فی اسانیدھا من المقال انتھی فکیف یقول صاحب السبل لم یطعن غیرہ فیہ وکیف صلح للتخصیص کلا وحاشا وقد قال اللہ تعالیٰ لا تقف مالیس لک باعلم پ۱۵ رکوع ۶ ولا علم فیہ قطعاً فلا یصلح للتخصیص۔

اور جو فتاویٰ میں کہ حنفیہ کہتے ہیں یہ حکم دیہاتیوں کے لیے ہے الخ میں کہتا ہوں یہ حنفیہ ہی نہیں کہتے امام شافعی اور ایک جماعت محدثین بھی یہی کہتے ہیں اور خود صحیح بخاری میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے یہ امر مصرح ہے۔ صحیح بخاری کتاب الاضاحی باب مایوکل من لحوم الاضاحیٰ وما یتز ودمنہا میں ہے فی اثناء حدیث فقال ابوعبید ثم شھدت مع عثمان ابن عفان وکان یوم الجمعۃ فصلی قبل الخطبۃ ثم خطب فقال یا ایھا الناس ان ھذا یوم قد اجتمع لکم فیہ عید ان فمن احب ان ینتظر الجمعۃ من اھل العوالی فلینتظر ومن احب ان یرجع فقد اذنت لہ قال ابوعبید ثم شھدت مع علی بن ابی طالب فصلی قبل الخطبۃ ثم خطب الناس فقال ان رسول اللہ ﷺ نھاکم ان تاکلو الحوم نسککم فوق ثلاث الحدیث قال فی فتح الباری تحت ھذا الحدیث قولہ ومن احباب ان یرجع فقد اذنت لہ استدل بہ من قال بسقوط الجمعۃ عمن صلی العید اذا وافق العید یوم الجمعۃ وھو محکی عن احمد واحبیب بان قولہ اذنت لہ لیس فیہ تصریح بعدم العودو ایضا فظاھر الحدیث فی کونھم من اھل العوالی انھم لم یکونوا ممن تجب علیھم الجمعۃ لبعد منازلھم المسجد وقدورد فی اصل المسئلۃ حدیث مرفوع انتھٰی ۳۳۵ج۲۳ میں کہتا ہوں اس سے واضح ہوگیا کہ چوں کہ یہ دن عید الاضحی کا تھا اور اہل عوالی چار چار پانچ پانچ میل سے آٹھ آٹھ میل تک مدینہ منورہ آتے تھے اور جمعہ کی نماز بوقت ظہر مدینہ میں پڑھ کر آٹھ آٹھ میل تک جا کر قربانی کرنا اور پھر بطریق مسنون قربانی کے گوشت سے کھانا کھانا بہت ہی تکلیف دہ تھا اس لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو اجازت دی کہ تم جاؤ جا کر قربانی کرکے نماز پڑھنا جیسے جمعہ کی نماز بھی بارہا وہیں پڑھا کرتے ہو پڑھنا اور پنچ وقتہ جماعت بھی تو ہمیشہ وہیں کرتے تھے۔

صحیح بخاری میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ عوالی مدینہ سے مدینہ منورہ میں رسول اللہﷺ کے پاس باری باری جایا کرتے تھے جمعہ ہو یا ویسے ہی اخبار وحی کے معلوم کرنے کے لیے روزانہ نہیں جایا کرتے تھے۔ باب التناوب فی العلم الخ عن عمر قال کنت انا وجارلی من الانصار فی بنی امیۃ بن زید وھی من عوالی المدینۃ وکنا نتناوب النزول علی رسول اللہ ﷺ فھو ینزل یومًا وانزل یوما فاذا نزلت جئتہ بخبر ذالک الیوم من الوحی وغیرھا واذا نزل فعل مثل ذلک الحدیث ص۱۹،۱،وایضاً فی ص۳۳۴،ج۱وص۳۷۰ج۲۔

پس ثابت ہوا کہ چوں کہ اہل عوالی سب ہی ہر جمعہ کو نہیں آیا کرتے تھے بعض آتے اور بعض اپنی اپنی بستیوں میں پنج وقتی نماز اور جمعہ پڑھتے تھے۔ بس انہیں کو آپ نے حکم دیا تھا کہ جاؤ قربانی میں بہت تاخیر ہو جائے گی تم اپنے گھروں میں اپنی بستیوں میں جمعہ پڑھنا اور ہم یہاں پڑھیں گے اور روایات مذکورہ بالا مرفوعہ اگر صحیح تسلیم کی جائیں تو ان کا مطلب بھی یہی ہوگا پس اسقاط جمعہ غلط اور فرضیت پہلے ہی اولہ قطعیہ سے ثابت ہے پھر وہ ایسے مشکوک و بے ثبوت دلائل سے کیسے ساقط ہوسکتا ہے ہرگز نہیں۔ لعل فیہ کفایۃ لمن لہ درایۃ واللہ یھدی من یشاء الیٰ صراط مستقیم۔

(ابو سعید محمد شرف الدین دہلوی کان اللہ لہٗ) فتاویٰ ثنایہ ص۵۶۱


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 74-77

محدث فتویٰ

تبصرے