۱: آنحضرتﷺنے فرمایا ایک ہی دن میں ایک ہی نماز کو دو مرتبہ پڑھو۔
۲: میں نے کتنی مرتبہ فتویٰ دیا ہے کہ جمعہ کے بعد چار رکعت ظہر کی نیت سے جائز نہیں جس کو ہمارے زمانہ میں احتیاطی کہا جاتا ہے۔
۳: فتح القدیر میں اس کے دلائل کو بسط سے بیان کیا ہے پھر کہا ہم نے اس بحث کو اس لیے طول دیا ہے کہ بعض جاہلوں سے سننے میں آتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو حنفی کہتے ہیں اور جمعہ کو فرض نہیں سمجھتے، میں کہتا ہوں ہمارے زمانہ میں جاہلوں کی اکثریت ہے اور ان کی جہالت کی دلیل یہ ہے کہ وہ جمعہ کے بعد ظہر کی نیت سے چار رکعت پڑھتے ہیں، جس کو بعض متاخرین نے جمعہ میں شک کی وجہ سے جاری کیا ہے اور شک اس بنا پر ہے کہ ایک شہر میں متعدد جمعے جائز نہیں اور یہ روایت صحیح نہیں اور نہ ہی چار رکعت کا ثبوت بعد جمعہ کے امام ابو حنیفہ اور صاحبین سے مروی ہے۔
۴: متوفی
یہ فتویٰ گو نا تمام ہے اور سوال ہی مذکور نہیں، چوں کہ اس کا مضمون نہایت ہی مفید معلوم ہوتا ہے اس لیے بغرض حصول ثواب و افادہ عام و خاص جو کچھ دستیاب ہوسکا ہے، ذیل میں ہدیہ ناظرین ہے، وہو ندا۔
در ہدایہ مرقوم اسعت لاتصح الجنعۃ الا فی مصر جامع او فی مصلی المصر ولا تجوز فی القریٰ لقولہ علیہ السلام لاجمعۃ ولا تشریق ولا فطرو لا اضحٰی الا فی مصر جامع۔ والمصر الجامع کل موضع لہ امیر وقاض ینفذ الاحکام ویقیم الحدودو ھذا عن ابی یوسف وعنہ انھم اذا اجتمعوا فی اکبر مساجدھم لم یسعھم الاول اختیار الکرخی وھو الظاھر والثانی اختیار البلخی ولا تجوز اقامتھا الا للسطان او لمن امر السلطان لانھا تقام بجمع عظیم وقد تقع المنازعۃ فی التقدم والتقدیم وقد یقع فی غیرہ فلا بدمنہ تتمیما لامرھا انتھٰی وشیخ عبدالحق محقق، محدث دہلوی در فتح المنان فی تائید مذہب النعمان می فرماید ھذا تقریر الھدایۃ وظاھرہ یفید الاولویۃ والاحتیاط عقلا لا الاشتراط وعدم جواز الصلوٰۃ بدونہ شرعاً وقال الشیخ ابن الھمام حقیقۃ ھذا الوجہ لا شتراط السلطان لئلا یودی الی عدمھا کما یفیدہ قولہ تتمیما لامرھا انتھی۔
درین جا تقریر دلپذیر بحر العلوم مولانا عبدالعلی مرحوم کہ در ارکان اربعہ می فرماید ملاحظہ باید کرو:
ومنھا السلطان او امرہ باقامۃ الجمعۃ عند الحنفیۃ خاصۃ لاعند الشافعیۃ فانھم یقولون اذا اجتمع مسلموا بلدۃ وقدموا اما ما وصلوا الجمعۃ خلفہ جازت الجمعۃ والمامور من قبل السلطان افضل ولم اطلع علی دلیل یفید اشتراط امر السلطان وما فی الھدایۃ لانھا تقام بجماعۃ فعسی ان تقع منازعۃ فی التقدم والتقدیم لان کل انسان یطلب لنفسہ رتبۃ فلا بد من امر السلطان لیدفع ھذہ المنازعۃ فھذا رأی لا یثبت للاشتراط لاطلاق نصوص وجوب الجمعۃ ثم ھذہ المنازعۃ تندفع باجماع المسلمین علی تقدیم واحد کما ان رتبۃ السلطان یطلبھا کل احد من الناس فعسی ان تقع المنازغۃ فلا یصح نصب السلطان لکن تندفع ھذہ المنازعۃ باجماع المسلمین علی تقدیم واحد فکذا ھذا وکما فی جماعۃ الصلوٰۃ عسی ان تقع المنازعۃ فی تقدیم رجل لکن تندفع باجماع المصلین فکذا فی الجمعۃ ثم الصحابۃ اقام والجمعۃ فی زمان فتنۃ بلویٰ امیر المومنین عثمان وکان ھو اماما حقا محصورا ولم یعلم انھم طلبوا الاذن فی اقامۃ الجمعۃ بل الظاھر عدم الاذن لان ھولاء الاشقیاء من اصحاب الشرلم یرخصوا ذلک فعلم ان اقامۃ الجمعۃ غیر مشروطۃ عندھم بالاذن لعل لھذہ الواقعۃ یرجع المشائخ عن ھذا الشرط فیما تعذر الاستیذان وافتوا بانہ تعذر الاستیذان من الامام فاجتمع الناس علی رجل یصلی بھم کذا فی العالمگیریۃ ناقلا عن عن التھذیب انتھی۔
الجواب:… ہدایہ میں ہے جمعہ مصر جامع یا شہر کی عید گاہ کے علاوہ جائز نہیں اور بستیوں میں جمعہ پڑھنا جائز نہیں، آپ کا فرمان ہے، جمعہ تشریق، عید الفطر اور عیدالاضحی مصر جامع کے سوا جائز نہیں، مصر جامع ہر وہ جگہ ہے جہاں کوئی امیر یا قاضی ہو، جو احکام کا نفاذ کرے، حدود قائم کرے، یہ امام ابو یوسف کا مذہب ہے۔ اور امام صاحب کے نزدیک مصر جامع وہ ہے کہ اگر وہاں کے رہنے والے سب سے بڑی مسجد میں جمع ہو جائیں تو اس میں سما نہ سکیں، امام کرخی نے اسی کو پسند فرمایا ہے اور دوسرے قول کو بلخی نے پسند کیا ہے۔ نیز جمعہ بادشاہ قائم کرے یا اس کا نائب کیوں کہ اس وقت مجمع کثیر ہوتا ہے۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے فتح المنان میں بیان کیا ہے کہ ہدایہ کی اس تقریر سے ثابت ہوتا ہے کہ اولیٰ یہ ہے کہ بادشاہ حاضر ہو، لیکن شرعی طور پر اس کی عدم موجودگی جواز صلوٰۃ میں مانع نہیں، مولانا عبدالعلی مرحوم ارکان اربعہ میں بیان کرتے ہیں کہ حنفیہ کے نزدیک اقامت جمعہ میں سلطان یا اس کے نائب کا ہونا شرط ہے۔ اور شافعیہ کے نزدیک شرط نہیں وہ کہتے ہیں کہ کسی شہر کے لوگ جمع ہو جائیں اور ایک امام ان کو جمعہ پڑھا دے تو یہ جائز ہے۔ لیکن سلطان وقت کی طرف سے کسی کا مقرر ہونا افضل ہے مگر مجھے کوئی ایسی دلیل نہیں ملتی اور ہدایہ میں جو مذکور ہے کہ اگر اکٹھے ہوں گے اور امامت جمعہ کے لیے تنازع پیدا ہوگا۔ اس لیے سلطان وقت کا ہونا ضروری ہے یہ کوئی ایسی بات نہیں، کیوں کہ لوگ اجماع کے ساتھ کسی ایک کو جمعہ کے لیے مقرر کرلیں گے۔ اس طرح جماعت کی امامت میں بھی تنازع پڑ سکتا ہے۔ لیکن وہ نمازیوں کے اجماع سے رفع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جمعہ بھی ہوسکتا ہے اور حضور سلطان کی شرط کی ضرورت نہیں، صحابہ نے حضرت عثمان کے محاصرہ کے زمانہ میں جمعہ پڑھ لیا تھا۔ حالانکہ حضرت عثمان خلیفہ برحق تھے۔ اور کہیں یہ مروی نہیں کہ انہوں نے اقامتِ جمعہ کے لیے حضرت عثمان سے اجازت طلب کی، بلکہ فتنہ پرداز لوگ اس بات کی رخصت بھی کب دیتے تھے اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کے نزدیک جمعہ کے لیے حضورِ سلطان کی شرط نہیں، ممکن ہے مشائخ اس کی توجیہہ یہ کرتے ہوں کہ اس وقت استیذان متعذر تھا اور اس حالت میں انہوں نے اس بات کا فتویٰ دے دیا ہو کہ کوئی ایک شخص بالاتفاق تمام نمازیوں کو ان کے اجماع سے جمعہ پڑھاوے تو جائز ہے۔ کذافی عالمگیریہ ناقلا عن التہذیب انتہیٰ۔
نیز مخالفین نے جس حدیث لاجمعۃ ولا تشریق الخ سے استدلال کیا ہے، تو باتفاق محدثین ضعیف ہے امام نووی کہتے ہیں حدیث لا جمعۃ ولا تشریق کے ضعف پر تمام محدثین کا اتفاق ہے۔ امام احمد نے بھی اسے ضعیف کہا ہے کہ اس کا مرفوع کرنا صحیح نہیں، ابن حزم نے اس کو موقوف قرار دیا ہے۔ اب اس کی صحت اور عدم کے متعلق تفصیل سے سنیے: حدیث لاجمعۃ ولا تشریق الخ عبدالرزاق کہتے ہیں: کہ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے اور مرفوع صحیح نہیں ابن ابی شیبہ نے عماد بن عوام عن حجاج عن ابی اسحاق عن الحارث عن علی کی سند سے اس کو روایت کیا ہے۔ بیہقی نے معرفت میں عن شعبۃ عن زبید الایامی کے واسطہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے موقوف روایت کیا ہے اور نبیﷺسے اس بارہ میں کچھ ثابت نہیں۔ (تخریج الہدایہ)
عبدالرزاق اور ابن ابی شیبہ کی روایت میں حدیث لاجمعۃ ولا تشریق حارث عن علی رضی اللہ عنہ کی روایت سے مروی ہے۔ لیکن امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی جامع صحیح کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ شعبی کہتے ہیں کہ حارث اعور بڑا کذاب تھا۔ نیز انہوں نے سند کے ساتھ مغیرہ سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے کہا میں نے شعبی سے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ مجھ سے یہ حدیث اعور نے بیان کی، لیکن وہ ایک جھوٹا آدمی ہے، نیز قیتبہ بواسطہ مغیرہ ابراہیم سے بیان کرتے ہیں کہ علقمہ کہنے لگے میں نے قرآن دو سال میں حفظ کیا، یہ سن کر حارث کہنے لگا کہ قرآن تو بہت آسان ہے اور وحی بہت سخت ہے نیز اس روایت کو زائدہ نے اعمش سے اس نے ابراہیم سے بیان کیا ہے کہ حارث کہتا تھا کہ میں نے قرآن تین سال میں سیکھا اور وحی دو سال میں، ابراہیم کہتے ہیں کہ حارث مہتم ہے۔ حمزۃ الزیات کہتے ہیں کہ ہمدانی نے ایک مرتبہ حارث سے کچھ سنا اور کہا دروازہ کے باہر بیٹھو وہ اندر آگیا اور چپکے سے اس کی تلوار پکڑ لی، حافظ ذہبی نے شعبی سے ذکر کیا ہے کہ شعبی اسے کذاب کہا کرتے تھے، ابوبکر بن عیاش مغیرہ سے روایت کرتے ہیں کہ حارث حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کرنے میں سچا نہیں، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مسجد نبوی کے بعد سب سے پہلا جمعہ بحرین میں قریا جواثی میں عبدالقیس نے ادا کیا۔ ابوداؤد میں ہے کہ جواثا بحرین میں ایک قریہ و بستی ہے جو لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس اثر سے استدلال کرتے ہیں کہ جمعہ اور عید صرف شہر میں ہی ہوسکتی ہے۔ یہ روایت بجمیع طرق ضعیف ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اہل میاہ کو لکھا کہ جہاں کہیں ہوا کرو جمعہ ادا کیا کرو۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جمعہ اور تشریق مصر جامع میں ہے مگر یہ حدیث بچند وجوہ صحیح نہیں ہے اس کی اسناد ضعیف ہیں۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے معرفۃ السنن میں روایت کی ہے کہ آنحضرت نے سفر ہجرت میں جب محلہ بنی سلمہ سے گزرے تو وہاں جمعہ ادا کیا اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے کمان کے سہارے پر کھڑے ہو کر خطبہ دیا اسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ’’سویدائ‘‘ میں جمعہ پڑھا، آپ نے خطبہ دیا اور دو رکعت نماز ادا کی۔ واللہ اعلم
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اہل میاہ کو لکھا کہ جہاں بھی ٹھہرو جمعہ بہرصورت ادا کیا کرو اور حدیث لاجمعہ الخ ضعیف ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تلخیص البیر میں تصریح کی ہے۔ اور متعدد روایات سے ثابت ہے کہ آنحضرت نے سفر ہجرت میں محلہ بنی سالم بن عمرو بن عوف میں جمعہ ادا کیا اور یہ پہلا جمعہ ہے جو آپ نے ادا کیا۔
ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت کے مدینہ پہنچنے سے پہلے اہل مدینہ نے جمعہ ادا کیا اور اسعد بن زرارہ نے ان کو جمعہ پڑھایا۔ آنحضرت نے مکہ میں جمعہ اس لیے نہیں پڑھا کہ مکہ کے حالات اجازت نہیں دیتے تھے۔ تفسیر نیشاپوری میں ہے کہ انصار اسعد بن زرارہ کے پاس جمع ہوئے اور جمعہ ادا کیا۔
معلوم ہوا کہ آنحضرتﷺ کے مدینہ پہنچتے ہی اسلام کو غلبہ حاصل نہیں ہوا تھا۔ اور نہ ہی حدود و قصاص کا اجرا کیا تھا۔ لہٰذا حدیث لاجمعہ و لا تشریق سے استدلال بے محل ہے۔ کیوں کہ یہ خبر واحد ہے اور اخبار آحاد دلیل قطعی کے نہ معارض ہوسکتی ہے اور نہ مخصص ہوسکتی جب کہ اصول فقہ کی کتابوں میں تصریح کی گئی ہے۔
درآنکہ مخالفین استدلال نمودہ اند بحدیث لاجمعۃ ولا تشریق الحدیث برشرطیت مصر آن قابل احتجاج واستدلال نمی تواند شد زیرا کہ ضعیف است باتفاق قال الامام النووی حدیث لاجمعۃ ولا تشریق الحدیث متفق علی ضعفہ و امام احمد نیز تضعیفش نمودہ و گفتہ رفع او صحیح نیست، وابن حزم جزم بوقف او نمودہ و اجتہاد را دراں دخل است، پس منتہض نمودہ گفتہ احتجاج نمی شود، حالاں کہ ذکر می شود ضعف حدیث لا جمعۃ ولا تشریق بتفصیل تام فاستمع وانصف ولا تعصب اذاقک اللہ رحیق التحقیق باب صلوٰۃ الجمعۃ الحدیث الاوّل عن النبی ﷺ قال لاجمعۃ ولا تشریق ولا فطر ولا اضحی الا فی مصر جامع قلت غریب مرفوعا وانما وجدناہ موقوفا علی علیؓ رواہ عبدالرزاق فی مصنفہ اخبرنا معمر عن ابی اسحق عن الحارث (۱) عن علیؓ قال لاجمعۃ ولا تشریق الا فی مصر جامع انتھی ورواہ ابن ابی شیبۃ فی مصنفہ حدثنا عباد بن عوام عن حجاج عن ابی اسحاق عن الحارث عن علی قال لاجمعۃ ولا تشریق ولا صلوٰۃ فطر ولا اضحٰی الا فی مصر جامع او فی مدینۃ عظیمۃ انتھی ورواہ عبدالرزاق ایضا انا الثوری عن زبید الایامی بہ عن سعد بن عبیدۃ عن ابی عبدالرحمٰن السلمی عن علیؓ قال لا تشریق ولا جمعۃ الا فی مصر جامع واخرجہ البیھقی فی المعرفۃ عن شعبۃ عن زبید الایامی بہ قال ولذلک رواہ الثوری عن زبید بہ وھذا انما یروی عن علیؓ موقوفا فاما النبی ﷺ فانہ لا یروی عنہ فی ذلک شئی انتھی کلامہ۔ تخریج ھدایۃ للزیلعی۔
۱: قال ابوداؤد فی مقدمۃ واما ابو اسحاق عن الحارث عن علی فلم یسمع ابو اسحاق من الحارث الا اربعۃ احادیث لیسن فیھا مسند واحد انتھی۔
باید دانست کہ در روایت عبدالرزاق وابن ابی شبیہ حدیث لاجمعۃ ولا تشریق مروی است برروایت حارث از علی رضی اللہ عنہ امام مسلم در مقدمہ جامع صحیح خود صفحہ چہار دہم و یا نزدہم نوشتہ حدثنا شیبۃ بن سعید قال حدثنا جریر عن مغیرۃ عن الشعبی قال حدثنی الحارث الاعور وکان کذابا، حدثنا ابوعامر عبداللّٰہ بن براد الاشعری قال حدثنا ابو اسامۃ عن مفضل عن مغیرۃ قال سمعت الشعبی یقول حدثنی الاعور وھو یشھد انہ احد الکاذبین وحدثنا قتیبۃ بن سعید قال حدثنا جریر عن مغیرۃ عن ابراھیم قال قال علقمۃ قرأت القراٰن فی سنتین فقال الحارث القراٰن ھین والوحی اشد وحدثنا حجاج بن الشاعر قال حدثنا احمد یعنی ابن یونس قال حدثنا زائدۃ عن الاعمش عن ابراھیم ان الحارث قال تعلمت القراٰن فی ثلاث سنین والوحی فی سنین او قال الوحی ثلاث سنین والقراٰن فی سنتین وحدثنی حجاج بن الشاعر قال حدثنی احمد وھو ابن یونس قال حدثنا زائدۃ عن منصور و المغیرۃ عن ابراھیم ان الحارث اتھیم وحدثنا قتیبۃ بن سعید قال حدثنا جریر عن حمزۃ الزیات قال سمع مرۃ الھدانی من الحارث شیئا فقال اقعد بالباب قال قدخل مرۃ واخذ سیفہ وقال واحسن الحارث من الشر فذھب انتھی مافی مقدمۃ صحیح مسلم وقال الامام الحافظ الذھبی فی میزان الاعتدال روی مغیرۃ عن الشعبی حدثنا الحارث الاعور وکان کذابا وقال منصور عن ابراھیم ان الحارث اتھم وروی ابوبکر بن عیاش عن مغیرۃ قال لم یکن الحارث یصدق عن علی فی الحدیث وقال ابن المدینی کذاب وقال ابن معین ضعیف و قال الدارقطنی ضعف قال ابن عدی عامۃ مایرویہ غیر محفوظ وعن الشعبی ماکذب علی احد من ھذہ الامۃ ما کذب علی علیؓ وقال ایوب کان ابن سیرین یری ان عامۃ مایروی عن علیؓ باطل وقال الاعمش عن ابراھیم عن الحلاث قال تعلمت القراٰن فی ثلاث سنین والوحی فی سنتین وقال مفضل بن مھلھل عن المغیرۃ سمع الشعبی یقول حدثنی الحارث واشھد انہ احد الکذابین وروی محمد بن شعبۃ الضبی عن ابی اسحاق قال زعم الحارث الاعور وکان کذوبا ۱۲ میزان، قال ابن حبان وکان الحارث غالیا فی التشیع واھیا فی الحدیث وھو الذی روی عن علی قال لی النبی ﷺ لا یفتحن علی الامام فی الصلوٰۃ رواہ الفریابی ۱۲ میزان ایضاً۔
باقی حدیث ثوری و بیہقی آن مضطرب است از انکہ بعضے جائے یعنی در روایت ثوری شعبہ مروی عنہ است، وبعضے جائے یعنی در روایت بیہقی شعبہ است راوی این است حال موقوف کہ دانستی و مسند شدن ایں حدیث را بسیارے از علماء انکار نمودہ اند، چنانچہ عبارت زیلعی متقدم برو مشعر است وعن ابن عباسؓ اول جمعۃ جمعت فی مسجد رسول اللّٰہ ﷺ فی مسجد عبدالقیس بجواثی من البحرین رواہ البخاری و ابوداؤد وقال جواثٰی قریۃ من قری البحرین ۱۲ منتقی الاخبار وقال الامام الشوکانی فی نیل الاوطار شرح منتقی الاخبار واحتجوا بما روی عن علی مرفوعاً لاجمعۃ ولا تشریق الا فی مصر جامع وقد ضعف احمد رفعہ وصحح ابن حزم وقفہ وللاجتھا دفیہ مسرح فلا ینتھض للاحتجاج وقدروی ابن ابی شیبۃ عن عمر انہ کتب الی اھل البحرین ان جمسوا حیث ما کنتم وھذا یشمل المدن والقری وصححہ ابن خزیمۃ وروی البیھقی عن اللیث بن سعد ان اھل مصر وسو احلھا کانوا یجمعون علی عھد عمرو عثمان بامرھما وفیھا رجال من الصحابۃ واخرج عبدالرزاق عن ابن عمر باسناد صحیح انہ کان یری اھل المیاہ بین مکۃ والمدینۃ یجمعون فلا یعیب علیھم فما اختلف الصحابۃ وجب الرجوع الی المرفوع ویوید عدم اشتراط المصر حدیث ام عبد اللّٰہ الدوسیۃ المتقدم ۱۲ انتھی۔ حدیث علیؓ لاجمعۃ ولا تشریق الافی مصر جامع ضعفہ احمد واٰخرون ۱۲ بدر المنیر فی تخریج الاحادیث والاٰثار الواقعۃ فی الرافعی الکبیر للشیخ سراج الدین بن الملقن وتحریر شرح احادیث الوجیز للراض قال فی البلدر لا یصلح الاحتجاج بہ للانقاع وضعف اسنادہ ۱۲ وروی البیھقی فی المعرفۃ عن معاذ بن موسی بن عقبۃ و محمد بن اسحاق ان النبی ﷺ حین رکب من بنی عمرو بن عوف فی ھجرتہ الی المدینۃ مر علی بنی سالم وھی قریۃ بین قباء والمدینۃ ادرکتہ الجمعۃ فصلی فیھم الجمعۃ وکانت اول جمعۃ صلاحا حین قدم و وصلہ ابن سقد من طریق الواقدی باسانید لہ وفیہ انھم کانوا احینئذ مائۃ رجل و ذکر عبدالرزاق فی مصنفہ عن ابن جریج انہ ﷺ جمع فی سفر وخطب علی قوس روروی عبدالرزاق ایضا ان عمر بن عبدالعزیز کان مبتدیا بالسودیاء فی امارتہ علی الحجاز فحضرت الجمعۃ فھیئوا لہ مجلسا من البطھاء ثم اذن بالصلوۃ فخرج و خطب وصلی رکعتین وجھر وقال ان الامام یجمع حیث کان وروی البیھقی فی المعرفۃ من طریق جعفر بن برقان ان عمر بن عبدالعزیز کتب الی عدی بن عدی انظر کل قریۃ اھل قرار لیسواھم باھل عمود ینتقلون فامر علیھم امیر اثم مرہ فلیجمع بھم وقال ابن منذر فی الاوسط روینا عن ابن عمر انہ کان یری اھل المیاہ بین مکۃ والمدینۃ یجمعون فلا یصیب ذلک علیھم ثم ساقہ موصولا وروی سعید بن منصور عن ابی ھریرۃؓ ان عمرؓ کتب الیھم ان جمعو احیث ماکنتم وحدیث لاجمعۃ ولا تشریق الا فی مصر ضعفہ احمد کذافی تلخیص الحبیر فی تخریج الاحادیث الرافعی الکبیر للحافظ ابن حجر العسقلانی وایں سند (حدثنا جریر عن منصور عن طلحۃ بن سعد عن عبیدۃ بن عبدالرحمن) کہ صاحب شرح وقایہ آوردہ قابل احتجاج نہ نمودہ شود، کہ راوی این عبیدہ بن عبدالرحمن ضعیف است عبیدۃ بالفتح وقیل بالضم ھو عبیدۃ بن عبدالرحمن ابوعمر البجلی ذکرہ ابن حبان بالوجھین فقال روی عن یحیی بن سعید الانصاری حدیث عن حرمی بن حفص یروی الموضوعات عن الثقات ۱۲ میزان لا اعتدال ولما قدم رسول اللہ ﷺ المدینۃ اقام یوم الاثنین والثلثاء والاربعاء والخمیس فی بنی عمر وبن عوف واسس مسجدھم ثم خرج من بعدھم فادرکتہ الجمعۃ فی بنی سالم بن عوف فصلاھا فی المسجد الذی فی بطن الوادی فکانت اول جمعۃ صلاھا بالمدینۃ اقام یوم الاثنین والثلثاء والاربعاء والخمیس فی بنی عمرو بن عوف ثم خرج من عندھم فادرکتہ الجمعۃ فی بنی سالم بن عوف فصلاھا فی المسجد الذی فی بطن الوادی وکانت اول جمعۃ صلاھا النبی ﷺ انتھی وروی عبدالرزاق باسناد صحیح عن ابن سیرین قال جمع اھل المدینۃ قبل ان یقدمھا النبی ﷺ وقبل ان ینزل سورۃ الجمعۃ فقالت الانصار ان الیھود لھم یوم یجتمون فیہ بعد سبعۃ وللنصاریٰ کذلک فلنجعل یوما لنا نذکر اللہ تعالی ونشکر ونصلی فیہ فجلعوہ یوم العروبۃ واجتمعوا الی اسعد بن زرارۃ فصلی بھم یومئذ رکعتین وذکرھم فسموہ یوم الجمعۃ وانزل اللہ تعالیٰ بعد ذلک واذا نودی للصلوۃ من یوم الجمعۃ والحدیث وان کان مرسلا فلہ شاھد حسن اخرجہ ابوداؤد عن کعب بن مالک وصححہ ابن خزیمۃ وھو اول من صلی الجمعۃ بالمدینۃ قبل الھجرۃ اسعد بن زرارۃ قال الحافظ ابن حجر ولا یمنع ذلک انہ ﷺ علمہ بالوحی وھو بمکۃ فلم یتمکن من اقامتھا ثمہ ولذلک جمع لھم اول ما قدم المدینۃ ویدل علی ذلک ما اخرجہ الدارقطنی عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال اذن النبی ﷺ قبل ان یھاجر ولم یستطع ان یجمع بمکۃ فکتب الی مصعب بن عمیر اما بعد فانظر الیوم الذی یجھر فیہ الیھود بالزبور فاجمعوا نساء کم وابناء کم فاذا مال النھار عن شطرہ عند الزوال فتقربوا الی اللہ برکعتین قال فھو اول من جمع حتی قدم النبی ﷺ المدینۃ فجمع عند الزوال من الظھر انتھی ما فی المحلی شرح المؤطا للعلامۃ سلام اللہ من اولاد الشیخ عبدالحق محدث دھلوی وقال فی تفسیر النیشاپوری روی ان الانصار اجتمعوا الی اسعد بن زرارۃ وکنیۃ ابو امامۃ وقالوا ھلموا نجعل لنا یوما نجتمع فیہ فنذکر اللہ تعالیٰ ونصلی فان للیھود السبت وللنصاری الاحد فاجعلوہ یوم العروبۃ فصلی بھم یومئذ رکعتین وذکرھم فسموہ یوم الجمعۃ لاجتماعھم فیہ وانزل اللہ ایٰۃ الجمعۃ فھی اول جمعۃ کانت فی الاسلام قبل مقدم النبی ﷺ واما اول الجمعۃ جمعھا رسول اللہ ﷺ فھی انہ لما قدم المدینۃ مھاجر انزل قبا فی بنی عمرو بن عوف واقام بھا یوم الاثنین والثلثاء والاربعا والخمیس واسس مسجدھم ثم خرج یوم الجمعۃ عامد للمدینۃ فادرکتہ صلوٰۃ الجمعۃ فی بنی سالم بن عوف فی بطن وادیھم فخطب فصلی الجمعۃ انتھی ما فی النیشافوری و اوّل جمعۃ جمھا رسول اللہ ﷺ انہ لما قدم المدینۃ نزل قباء واقام بھا الجمعۃ ثم دخل المدینۃ وصلی الجمعۃ فی دار لبنی سالم بن عوف انتھی ما فی البیضاوی۔ وپس ازیں قصہ صحیحہ مذکورہ ہوید اشد کہ مدینہ منورہ در ابتداء نزول آنحضرت ﷺ شوکت و غلبہ اہل اسلام و ظہور و نفاذ حدود وقصاص نبود باوجود این جمعہ گذاردہ شد، پس حدیث لاجمعۃ ولا تشریق بر تقدیر وفرض ثبوت از قبیل احاد است و خبرد احد معارض دلیل قطعی نمی تواند شدد نہ مخصص عام کما تقرر فی اصول الحنفیۃ من التوضیح والبزودی ومسلم الثبوت نرسد ،اما الحدیث الضعیف فلکذب روایہ وفسقہ لا ینجبر بتعدد طرقہ کذافی خلاصۃ الطیبی والسید وغیرھما من کتب الاصول۔پس حدیث لاجمعۃ ولا تشریق بسب کذب وفسق راوی ضعیف شدد معہذا موقوف است برحضرت علی رضی اللہ عنہ والموقوف ھو مطلقا ما روی عن الصحابی من قول او فعل متصلا کان او منقضعا وھو لیس بحجۃ علی الاصح کذا قال السید جمال الدین وھو لیس بحجۃ کذافی مجمع البحار۔
سید محمد نذیر حسین
فتاویٰ نذیریہ جلد اول ص ۵۸۱