سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(21) چھوٹا گاؤں جس میں جمعہ درست نہیں اس کی کیا تعریف ہے

  • 4453
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1564

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ چھوٹا گاؤں جس میں جمعہ درست نہیں اس کی کیا تعریف ہے۔ اور بڑا گاؤں جس میں جمعہ درست ہے، وہ کتنے آدمیوں کا ہوتا ہے اور اگر چھوٹے گاؤں میں پڑھیں تو پھر ظہر پڑھنا ضرور ہے یا نہیں اور بڑے گاؤں میں جمعہ کے بعد ظہر پڑھیں یا نہیں؟ بینوا توجروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح ہو کہ جمعہ پڑھنے کے لیے کسی خاص قسم کی بستی ہونے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ یہ بات کسی شرعی دلیل سے ثابت نہیں ہے بلکہ شرعی دلیل سے یہ ثابت ہے کہ جمعہ کا پڑھنا ہر جگہ فرض ہے، خواہ شہر ہوں یا گاؤں اور خواہ بڑا گاؤں ہو یا چھوٹا گاؤں ، چنانچہ قرآن شریف میں ہے:

{ یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃ مِنْ یوم الجمعۃ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ }

یعنی اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جاوے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو، ظاہر ہے کہ اس آیت میں جناب باری تعالیٰ نے عام طور پر ہر مسلمان کو فرمایا کہ جمعہ کے دن جمعہ کی اذان ہو، تو لوگ فوراً حاضر ہوں۔ لہٰذا اس آیت سے صاف معلوم ہوا کہ جمعہ کے لیے کسی قسم کی بستی ہونے کی ضرورت نہیں، ہاں البتہ حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جمعہ کے لیے اس قدر آدمی ہونے چاہئیں کہ جماعت ہو جاوے چنانچہ منتقی میں ہے:

عن طارق بن شھاب عن النبی ﷺ قال الجمعۃ حق واجب علی کل مسلم فی جماعۃ الا اربعۃ عبد مملوک او امراۃ او صبی او مریض رواہ ابوداؤد انتھی۔ مختصرا۔

یعنی ہر مسلمان پر فرض ہے کہ جمعہ کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھے، مگر چار شخص غلام، مملوک، عورت اور لڑکا، اور مریض، یعنی ان چار شخصوں پر نماز جمعہ فرض نہیں، پس جمعہ کے لیے اتنے آدمی ہونے چاہئیں کہ جن سے جماعت ہو جاوے اور جماعت کے لیے کم از کم وہ شخص ہونا چاہیے، نیل الاوطار میں ہے:

واما الاثنان فبانضمام احدھما الی الاخر یحصل الاجتماع وقد اطلق الشارع اسم الجماعۃ علیھما فقال الاثنان فما فوقھما جماعۃ کما تقدم فی ابواب الجماعۃ۔

خلاصہ یہ کہ دو شخصوں سے جماعت ہوجاتی ہے، اب آیت اور حدیث دونوں کے ملانے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جمعہ کے لیے کسی خاص قسم کی بستی ہونے کی ضرورت نہیں، بلکہ بقدر جماعت آدمی ہونے چاہئیں جس کا کم سے کم درجہ دو عدد ہے، لہٰذا ان دلیلوں کے بموجب اگر کوئی ایسی بستی ہو کہ اس میں صرف دو ہی مسلمان ہوں تو ان پر بھی جمعہ فرض ہے۔ ہاں البتہ حنفیہ کے نزدیک جمعہ کے لیے مصر یعنی شہر کا ہونا شرط ہے اور اس کے ثبوت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس قول سے لا جمعۃ ولا تشریق ولا فطر ولا اضحی الافی مصر جامع لیکن واضح ہو کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس قول سے جمعہ کے لیے مصر کا ہونا ہرگز ثابت نہیں ہوتا اور خود حنفیہ کے اصول و قواعد کی رو سے بھی ثابت نہیں ہوتا، اس واسطے کہ آیت قرآن اور احادیث صحیحہ مرفوعہ اس قول کی صاف نفی کرتی ہیں، کیوں کہ آیت و احادیث مرفوعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ صحت جمعہ کے لیے مصر کا ہونا شرط نہیں ہے بلکہ ہر جگہ اور ہر مقام میں اقامت جمعہ صحیح و درست ہے، مصر ہو خواہ مصر نہ ہو، اور حنفیہ لکھتے ہیں کہ جب حدیث مرفوع صحابی کے کسی قول کی نفی کرے، یعنی صحابی کا قول حدیث مرفوع کے خلاف ہو، تو وہ قول حجت نہیں ہے۔ فتح القدیر میں ہے (۱) قول الصحابی حجۃ فیجب تقلیدہ عندنا اذا لم ینفہ شئی اٰخر من السنۃ انتھی۔بناء علیہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول مذکور حجت نہیں ہوسکتا، لہٰذا اس قول سے جمعہ کے لیے مصر کا شرط ٹھہرانا خود حنفیہ کے اصول سے بھی باطل ہے، اور جمعہ کے بعد ظہر پڑھنا ہرگز جائز نہیں ہے کیوں کہ کسی دلیل شرعی سے جمعہ کے بعد ظہر پڑھنا ثابت نہیں اور جو لوگ جمعہ کے بعد ظہر پڑھنے کے قائل ہیں، وہ یہ وجہ بیان کرتے ہیں کہ دیہاتوں میں جمعہ کے فرض ہونے میں شک ہے اس وجہ سے احتیاطاً ظہر پڑھ لینا چاہیے، سو یہ وجہ بالکل غلط اور باطل ہے کیوں کہ قرآن و احادیث سے دیہات اور غیر دیہات میں جمعہ کا فرض ہونا نہایت صاف اور صراحت کے ساتھ ثابت ہے اور اس میں کسی قسم کا ذرا بھی شک و شبہ نہیں، پس جمعہ کے بعد ظہر کو جائز بتانا بناء فاسد علی الفاسد ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

 حررہ ابو محمد عبدالحق اعظم گڑھی عفی عنہ ۹؍ ذی قعدہ ۱۳۱۶ئ۔ 

سید محمد نذیر حسین

ھو الموفق

فی الواقع قرآن و حدیث سے یہی ثابت ہے کہ ہر جگہ اور ہر مقام میں اقامت جمعہ درست ہے۔ چھوٹے اور بڑے گاؤں کی تفریق نہیں آتی ہے کہ بڑے گاؤں میں تو جمعہ درست ہو اور چھوٹے گاؤں میں نادرست بلکہ ہر جگہ اور ہر گاؤں میں خواہ کتنا ہی چھوٹا ہو اقامت جمعہ درست ہے، اور علمائے حنفیہ جمعہ کے درست ہونے کے لیے جو مصر کا ہونا شرط لکھتے ہیں سو ان کی یہ بات بالکل بے دلیل ہے اور ساتھ اس کے مصر کی تعریف میں انہوں نے بڑا ہی اختلاف کیا ہے، کوئی مصر کی تعریف کچھ لکھتا ہے اور کوئی کچھ اور ان کی تعریفات متخالفہ و متناقضہ میں سے کوئی تعریف بھی نہ لغت سے ثابت ہے اور نہ قرآن و حدیث سے بلکہ فقہائے حنفیہ نے محض اپنی اپنی رائے سے لکھی ہیں اور جمعہ کے بعد ظہر پڑھنا ہرگز جائز نہیں نہ چھوٹے گاؤں میں اور نہ بڑے گاؤں میں اور نہ کسی اور مقام میں، رسالہ تحقیقات العلیٰ میں مرقوم ہے کہ نماز جمعہ فرضِ عین ہے۔ فرضیت ظہر اس سے ساقط ہو جاتی ہے۔ اس لیے کہ صلوٰۃ جمعہ قائم مقام صلوٰۃ ظہر ہے پس جس شخص نے ظہر احتیاطی ادا کی اس نے ایک صلوٰۃ مفروضہ کو دوبار ایک دن، ایک وقت میں بلا اذن شارع ادا کیا اور یہ ممنوع ہے عن ابن عمر قال قال رسول اللّٰہ ﷺ (۱)لا تصلوا صلوۃ فی یوم مرتین رواہ احمد و ابوداؤد النسائی۔ پس جب جمعہ بالکل قائم مقام ظہر کے ہوا تو اب جمعہ کے بعد ظہر پڑھنا جائز نہ ہوا اور کسی سلف صالحین صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین و تبع تابعین و ائمہ مجتہدین اور محدثین  رحمہم اللہ سے یہ ظہر احتیاطی منقول نہیں، نہ ان میں سے کسی نے پڑھا اور نہ پڑھنے کا حکم دیا، بلکہ یہ ظہر احتیاطی بدعت و محدث فی الدین ہے۔ پڑھنے والا اس کا عاصی و اثم ہوگا، کیوں کہ یہ ایک بدعت نکالی گئی ہے۔ دین میں بعض متاخرین حنفیہ نے اس کو نکالا ہے، جیسا کہ بحرالرائق میں ہے (۲) وقد افتیت مرار ابعدم صلوٰۃ الاربع بعدھا بنیۃ ظھر خوف اعتقادھم عدم فرضیۃ الجمعۃ وھو الاحتیاط فی زماننا اور بھی بحر الرائق میں ہے (۳)لھذا طال فی فتح القدیر فی بیان دلائلھا ثم قال انما اکثرنا فیہ نوعا من الاکثار لما تسمع من بعض الجھلۃ انھم ینتسبون الی مذھب الحنفیۃ عدم افتر اضھار الی قولہ اقول قد اکثر ذلک من جھلۃ زماننا ایضا ومنشاء جھلھم صلوٰۃ الاربع بعد الجمعۃ بنیۃ الظھر وانما وضعھا بعض المتأخرین عند الشک فی صحۃ الجمعۃ بسبب روایۃ عدم تعددھا فی مصر واحد ولیست ھذہ الروایۃ بالمختارۃ ولیس ھذا القول اعنی اختیار صلوٰۃ الاربع بعدھا مرویا عن ابی حنیفۃ وصاحبیہ انتھٰی کلامہ۔پس مرد متبع سنت وہ ہے جو کہ اس بدعت و محدث فی الدین کی بیخ کنی کرے اور لوگوں کو اس ظہر احتیاطی کے پڑھنے سے روکے، انتہیٰ مافی تحقیقات العلیٰ محتصراً۔ واللہ اعلم کتبہ محمد عبدالرحمن (۴) المباکفوری عفا اللہ عنہ

فتاویٰ نذیریہ جلد اول صفحہ ۵۷۷

 


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 64-66

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ