سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(15) کیا جمعہ کا خطبہ منبر پر بیٹھ کر کہنا جائز ہے؟

  • 4448
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 4367

سوال

(15) کیا جمعہ کا خطبہ منبر پر بیٹھ کر کہنا جائز ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا جمعہ کا خطبہ منبر پر بیٹھ کر کہنا جائز ہے، ہمارے یہاں ایک مولانا اس کے جواز کا فتویٰ دیتے ہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جمعہ کے خطبہ میں قیام ضروری ہے جس طرح فرض نماز کے لیے قیام ضروری ہے۔ بلا عذر شرعی کے قیام کا چھوڑنا جائز نہیں۔ رسول اللہﷺ نے زندگی بھر قیام ہی کے ساتھ جمعہ کا خطبہ دیا ہے۔ قرآن مجید میں ہے: { وَاِذَا رَأَوْا تِجَارَۃً اَوْلَھْوَن انْفَضُّوْا اِلَیْھَا وَتَرَکُوکَ قَائِمًا} ۔ اس آیت میں قائم کا لفظ ہے۔ جس سے محدثین نے جمعہ کے خطبہ میں قیام کو ضروری قرار دیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ کَانَ یَخْطُبُ قَائِمًا ثم یَجْلِسُ ثم یَقُوْمُ فَیَخْطُبُ قَائِمًا فَمَنْ نَبَّأَکَ اَنّہٗ یَخْطُبُ جَالِسًا فَقَدْ کَذَبَ۔ (مسلم، ابوداؤد)

یعنی رسول اللہﷺ کھڑے ہو کر جمعہ کا خطبہ دیتے پھر بیٹھ جاتے اور پھر کھڑے ہو کر دوسرا خطبہ دیتے تھے، جو شخص تجھ سے یہ کہے کہ حضورﷺ نے بیٹھ کر جمعہ کا خطبہ دیا ہے، اس نے جھوٹ بولا۔

علامہ نووی(۱) شرح مسلم میں ان دونوں حدیثوں کے تحت لکھتے ہیں:

فی ھذہٖ الرویۃ دلیل لمذھب الشافعیؒ والاکثرین اِنَّ خُطبۃَ الجمعۃ لاتصح من القادر علی القیام الا قائمًا فی الخطبتین ولا تصح حتی یجلس بینھما وان الجمعۃ لا تصح الا بخطبتین وقال القاضی ذَھَبَ عَامَۃُ العلمائِ الٰی اِشْتَرِاط الخُطْبَتَیْنِ لِصَحِیّۃِ الْجُمعۃِ وحکی اِبْنُ عَبْدِ البَّر اِجْمَاعَ الْعُلمائِ عَلٰی اِن الْخُطْبَۃً لَا یَکُوْنُ اِلاَّ قَائِمًا لِمَنْ اَطَاقَہٗ۔

۱:  یحییٰ بن شرف نووی الحزامی ۶۳۱ھ میں پیدا ہوئے۔ قرآن کریم کی تعلیم کے بعد ۶۴۹ھ میں تشریف لے گئے اور مذہب شافعی پڑھا۔ دو برس تک رہیں قیام کیا۔ شب و روز تعلیم میں منہمک رہتے تھے۔ روزانہ مختلف علوم و فنون کے بارہ اسباق پڑھتے تھے۔ زیادہ تر استفادہ کمال الدین مغربی سے کیا۔ آپ نہایت دیندار متقی اور زاہد شب زندہ دار تھے۔ چوبیس گھنٹوں میں صرف ایک ہی مرتبہ عشاء کی نماز کے بعد کھانا تناول فرماتے۔ آپ کو شادی کرنے کا اتفاق بھی نہیں ہوا۔ دو مرتبہ حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے۔ ۶۶۵ھ میں دارالحدیث اشرفیہ کے متولی قرار پائے۔ آپ نے کبھی دارالحدیث کی خدمت پر معاوضہ وصول نہیں کیا تھا۔ نہایت پر وجاہت اور باوقار چہرہ تھا۔ ۶۷۶ھ میں اپنے والدین کی موجودگی ہی میں بیمار ہوئے۔ اور ۱۴؍ رجب سوموار کی رات وفات پاگئے۔ آپ نہایت منصف مزاج اور شستہ قلم مصنف تھے۔ اپنی تصانیف میں شافعی المسلک ہونے کے باوجود امام ابوحنیفہؒ کے اقوال نقل کرتے تھے۔

عبدالرشید اظہر مدرس جامعہ سعیدیہ خانیوال

خلاصہ یہ ہے کہ امام شافعی اور دیگر اکثر علماء کا یہی مذہب ہے کہ جو شخص قیام پر قدرت رکھتا ہو اس کا خطبہ جمعہ بغیر قیام کے صحیح نہ ہوگا۔ دونوں خطبے کھڑے ہو کردے۔ یہ دونوں خطبے اسی وقت ظہور میں آئیں گے جب کہ درمیان میں بیٹھا بھی جائے اگر بیٹھ کر خطبہ دیا جائے تو ایک ہی خطبہ شمار ہوگا۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ بھی یہی کہتے ہیں کہ عام علماء کے نزدیک جمعہ بغیر دو خطبوں کے صحیح نہ ہوگا۔ اور حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے کہا کہ اس بات پر اجماع ہے کہ جو شخص طاقت رکھتا ہو اس کو کھڑے ہو کر خطبہ دینا چاہیے۔

مسلم شریف میں کعب بن عجرہ سے یہ واقعہ مروی ہے: دَخَلَ المسجدَ وَعَبْدُ الرحمٰنِ بن ام الحکم یخطب قَاعِدًا فقال انظروا الٰی ھذا الخبیث یخطب قَاعِدًا وقَالَ اللّٰہ تَعالیٰ وَاِذَا رَأَوْ تجارۃً اَوْ لَھون اَنْفَضُوْ اِلَیْھَا وَتَرَکُوکَ قَائِمًا۔یعنی کعب بن عجرہ مسجد میں داخل ہوئے اور عبدالرحمن بن ام الحکم کو دیکھا کہ وہ بیٹھ کر خطبہ دے رہا ہے تو آپ نے فرمایا کہ دیکھو اس خبیث کی طرف کہ بیٹھ کر خطبہ دے رہا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے نبی کے خطبے کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ جمعہ کا خطبہ دیتے وقت کھڑے رہتے ہیں۔ پس ہمیں اپنے نبی کی اتباع کرنی چاہیے۔ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ۔ اور فرمایا ما اٰتَکُمُ الرَّسُوْلُ فخذوہ اور رسول اللہﷺ نے فرمایا: صلوا کَمَارَ أَیتمونِیْ اصلی(کذافی النووی فی شرح مسلم ص۲۸۴) یہ فتویٰ دینا کہ خطبہ جمعہ بیٹھ کر دینا جائز ہے یا بغیر خطبہ کہے بھی جمعہ کی نماز صحیح ہو جاتی ہے سنت قدیمہ کے خلاف ہے۔

مولانا عبدالسلام بستوی ریاض العلوم، دہلی     

ترجمان ۸؍ شوال ۱۳۸۱ھ
 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 57

محدث فتویٰ

تبصرے