سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(03) مسئلہ جو قریہ حکم مصر کا رکھتا ہو یا

  • 4436
  • تاریخ اشاعت : 2024-10-31
  • مشاہدات : 1314

سوال

(03) مسئلہ جو قریہ حکم مصر کا رکھتا ہو یا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسئلہ جو قریہ حکم مصر کا رکھتا ہو یا..الخ


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسئلہ جو قریہ حکم مصر کا رکھتا ہو یا متعلقات مصر سے ہو اس میں جمعہ واجب ہے علی القول الصحیح مصر کی تعریف بقول راجح یہ ہے کہ مسلمان مکلف اس موضع کے اس قدر ہوں جو مسجد جامع میں نہ آسکیں درمختار میں ہے المصر (۱) وھو مالایسع اکبر مساجدہ اھلہ المکلفین بھا وعلیہ فتوی اکثر الفقھاء مجتبی اور عمدہ حاشیہ شرح وقایہ میں ہے (۲) وفی الولوا لجیۃ وھو الصحیح اور شرح وقایہ میں ہے،  (۳)وما لا یسع اکبر مساجدہ اھلہ اور سلطان کا ہونا شرط نہیں، عمدہ حاشیہ شرح وقایہ میں ہے۔ وھذا (۴) یرشدک الی ان اشتراط السلطان انما ھو علی سبیل الاولویۃ حیث لا یتعدد الجمعۃ وحیث تعددت فلا حاجۃ الی ذلک اور جامع الرموز میں ہے۔ (۵) المراد   بالسلطان الوالی الذی لیس فوقہ وال عادلا کان او جائرا والاطلاق مشعربان الاسلام لیس بشرط وھذا اذا امکن استیذ انہ والا فالسلطان لیس بشرط فلو اجتمعوا علی رجل وصلوا اجازکما فی صلوٰۃ الجنازۃ غیرہ شیخ عبدالحق دہلوی نے فتح المنان میں لکھا ہے۔ (۶) وظاھرہ یفید الاولیۃ والاحتیاط عقلا لا الاشتراط وعدم جواز الصلوٰۃ بدون السلطان شرعا اور مولانا بحرالعلوم لکھنوی حنفیؒ نے رسائل الارکان میں لکھا ہے۔ (۷) لم اطلع علی دلیل یفید اشتراط امر السلطان وما فی الھدایۃ رای لا یثبت بہ الاشتراط لاطلاق نصوص الجمعۃ اور فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے۔ (۸)ناقلا عن التھذیب ان تعذر الاستیذان من الامام فاجتمع الناس علی رجل یصلی بہم الجمعۃ جاز اور مجمع الفتاوی میں ہے۔ (۹) غلب علی المسلمین ولاۃ کفار یجوز للمسلمین اقامۃ الجمع والاعیاد ویصیر القاضی قاضیا بتراضی المسلمین اور عمدہ حاشیہ شرح وقایہ میں۔ لاشک فی وجوب الجمعۃ وصحۃ اداء ھا فی بلاد الھند التی غلبت علیہ النصاری وجعلوا علیھا وجعلوا علیھا ولاۃ کفارا وذلک باتفاق المسلمین وتراضیھم ومن افتے بسقوط الجمعۃ لفقد شرط السلطان فقد ضل واضل۔

۱:  مصر وہ ہے کہ جس کی سب مسجدوں سے بڑی مسجد میں اس جگہ کے رہنے والے جن پر جمعہ واجب ہے ، نہ سما سکیں اور اکثر فقہاء کا فتوی اسی پر ہے۔ ۱۲ع

۲:   اور ولوالجیہ میں ہے کہ (مصر کی) یہی تعریف صحیح ہے۔ ۱۲

۳:  اور جس جگہ کے لوگ سب سے بڑی مسجدوں میں سما نہ سکیں وہ مصر ہے۔

۴:  اور یہ تجھے اسبات کی طرف راہ دکھاتا ہے کہ سلطان کی شرط لگانا بطریق اولویت ہے۔ جہاں جمعہ متعدد جگہوں میں نہ ہوتا ہو۔ اور جہاں متعد ہوں وہاں شرط لگانے کی حاجت ہی نہیں۔ ۱۲ع

۵:  سلطان سے مراد وہ حاکم ہے کہ جس کے اوپر کوئی اور حاکم نہ ہو خواہ وہ عادل ہو یا ظالم اور حاکم کا مطلق بیان کرنا (کہ خواہ عادل ہو یا ظالم) اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جمعہ کے واجب ہونے میں) اسلام کی کوئی شرط نہیں اور یہ اس وقت ہے جب ممکن ہو ورنہ سلطان کا ہونا کوئی شرط نہیں پس اگر کسی ایک آدمی پر اتفاق کریں اور نماز پڑھ لیں تو یہ ان کے لیے جائز ہوگا جیسا کہ صلوٰۃ الجلالی وغیرہ میں بھی ہے۔ ۱۲ع

۶:  ظاہر عبادت سے یہ معلوم ہوتا ہے (کہ سلطان کی شرط لگانے میں) عقل کی رو سے بہتر آئی اور احتیاط ہے نہ یہ کہ (سلطان کی شرط لگانا اور نماز جمعہ) کا بغیر سلطان کے جائز نہ ہونا امر شرعی ہے۔ ۱۲ ع

۷:  میں نے ایسی کوئی دلیل نہیں دیکھی کہ جس سے (نماز جمعہ کے وجوب کے لیے) سلطان کی شرط لگانا معلوم ہوا اور کچھ ہدایہ میں ہے وہ ایک ایسی رائے ہے کہ جس سے بوجہ مطلق ہونے نصوص کے جمعہ شرط لگانا ثابت نہیں ہوتا ۔  ۱۲ع

۷:  اور فتاویٰ عالمگیریہ میں تہذیب سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اگر امام سے اجازت لینی ناممکن ہو اور لوگ کسی ایسے آدمی پر اتفاق کریں جو ان کو نماز جمعہ پڑھا دے تو جائز ہے۔ ۱۲

۸:  مسلمانوں پر حکام کفار غالب ہوگئے مسلمانوں کے لیے جمعوں اور عیدوں کا قائم کرنا جائز ہے اور ان کی رضامندی سے جو قاضی مقرر ہو جاوے وہ قاضی ہے۔ ۱۲

۹:  ملک ہند کے ان شہروں میں جن پر نصاریٰ نے غلبہ پایا اور ان پر کافروں کو حاکم مقرر کیا جب مسلمانوں کے اتفاق اور تراضی سے ہو ان میں جمعہ کے وجوب اور ادا ہونے میں کوئی شک نہیں۔ اور جس کسی نے بوجہ مفقود ہونے شرط سلطان کے جمعہ کے موقوف ہونے کا فتویٰ دیا تو وہ خود بھی گمراہ ہوا اور اوروں کو بھی اس نے گمراہ کیا ہے۔ ۱۲ علوے

(۱) اور وہموضع کہ مسافت میں شہر سے ۴۸ میل سے کم ہو ، اگرچہ وہ قریہ چھوٹا ہی ہو وہ بھی مصر کا حکم رکھتا ہے۔ مواہب الرحمن اور اس کی شرح برہان میں لکھا ہے۔  ویوجبھا ابو یوسف علی من کان داخل حد الاقامۃ الذی من فارقہ یصیر مسافرا ومن وصل الیہ یصیر مقیما وھو الاصح اور عمدہ حاشیہ شرح وقایہ میں ہے۔قال فی المعراج الدرایۃ انہ اصح ماقیل فیہ اور احتیاطی پڑھنا ظہر کا جمعہ کے بعد کچھ ضروری نہیں۔ اور نہ اس پر کوئی دلیل شرعی ہے۔ درمختار میں ہے۔ وفی البحر وقد افتیت مرارا بعدم صلوٰۃ الاربع بعدھا بنیۃ اٰخر الظھر خوف اعتقاد عدم فرضیۃ الجمعۃ وھو الاحتیاط فی زماننا۔

۱:  اور ابو یوسفؒ اس شخص کے لیے جمعہ کو واجب کہتے ہیں۔ (جو شہر کے گرد و نواح کی) اس حد میں داخل ہو کہ جس کے گزرنے سے آدمی مسافر ہو جائے۔ اور اس میں آنے سے مقیم بن جائے۔ اور یہ بہت صحیح ہے۔ ۱۲ علوے

۲:  اور معراج الدرایہ میں ہے کہ (ابو یوسفؒ) کا قول اس بارے میں سب قولوں سے بڑھ کر صحیح ہے۔ ۱۲ علوے

۳:  اور میں نے جمعہ کے بعد چار رکعت بنیت ظہر احتیاطی کے ناجائز ہونے میں بارہا فتویٰ دیا ہے اس ڈر سے کہ (لوگ پھر) جمعہ کو فرض نہیں جائیں گے اور ہمارے زمانے میں اسی میں احتیاط ہے۔ ۱۲

اور صاحب درمختار نے ان لوگوں کا قول جو قائل ہیں احتیاطی کے نقل کرکے لکھا ہے۔ (۱) وکل ذلک خلاف المذھب فلا یعقول علیہ محقق شامی نے ردالمحتار پڑھنے کے بارے میں کچھ اقوال اہل علموں کے ذکر کرکے اخیر پر لکھا ہے۔ (۲) قال المقدسی نحن لانامر بذلک امثال ھذہ العوام بل ندل علیہ الخواص۔ پس معلوم ہوا کہ جو علما کہ قائل ہیں احتیاط پڑھنے کے ان کے نزدیک یہ حکم عواموں کے واسطے نہیں بلکہ خواص کے واسطے ہے۔ ھذا وللتفصیل موضع اٰخر واللہ اعلم حررہ عبدالجبار بن الشیخ العارف باللہ عبداللہ الغزنویؓ۔

فتاوی غزنویہ ص ۶۱

۱:  اور یہ سب مذہب حنفی کے خلاف ہے پس اس پر عمل نہ کیا جائے گا۔ ۱۲

۲:  مقدسی نے کہا کہ ہم عواموں کو احتیاطی کا حکم نہیں دیتے بلکہ خواص کو اس پر مطلع کرتے ہیں۔ ۱۲ع

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 48-52

محدث فتویٰ

تبصرے