شہروں اور دیہاتوں میں جمعہ کا پڑھنا
عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال اوّل جمعۃ جمعت بعد جمعۃ جمعت فی مسجد رسول اللّٰہ ﷺ فی مسجد عبدالقیس بجواثٰی من البحرین رواہ البخاری وابوداؤد قال جواثٰی قریۃ من قری البحرین یعنی اوّل جمعہ جو پڑھا گیا مسجد نبوی کے جمعہ کے بعد مسجد جواثٰی میں تھا۔ جو بحرین کی بستیوں میں سے بستی ہے۔ وعن طارق ابن شھاب عن النبی ﷺ قال الجمعۃ حق واجب فی جماعۃ علی کل مسلم الا اربعۃ عبد مملوک او امراء ۃ اوصبی او مریض رواہ ابوداؤداگر گاؤں میں جمعہ کی فرضیت نہ ہوتی تو حدیث میں غلام وصبی و عورت و مریض کی طرح گاؤں کیوں مستثنیٰ نہ ہو ا اور ابن ابی شیبہ میں ہے۔ عن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ انہ کتب الی اھل البحرین ان جمعوا حیث ما کنتم وھذا یشمل المدن والقری وصححہ بن خزیمۃ وروی البیھقی عن اللیث بن سعد ان اھل مصر وسواحلھا کانوا یجمعون علی عھد عمر و عثمان بامرھما و فیھا رجال من الصحابۃ واخرج عبدالرزاق عن ابن عمر باسناد صحیح انہ کان یری اھل المیاہ بین مکۃ والمدینۃ یجمعون فلا یعیب علیھم دلائل مذکورہ سے ثابت ہوا کہ جمعہ جیسا شہروں میں پڑھا جاتا ہے اسی طرح دیہات میں بھی پڑھا جائے علماء حنفیہ رحمہ اللہ کا فتویٰ ہے۔ جو گاؤں کہ مسافت میں شہر سے ۴۸ میل سے کم ہو وہ بھی شہر کا حکم رکھتا ہے۔ مواہب الرحمن اور اس کی شرح برہان میں لکھا ہے۔
۱: بخاری اور ابوداؤد میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا جو جمعہ رسول اللہﷺ کی مسجد میں پڑھا گیا اور اس کے بعد پہلا جمعہ وہ ہے جو ایک بستی جواثیٰ نام علاقہ بحرین کی مسجد عبدالقیس میں پڑھا گیا (اور ابوداؤد کی روایت میں یوں ہے) کہ جواثی میں جو بحرین کے بستیوں میں ایک بستی ہے۔ ۱۲
۲: اور ابوداؤد میں طارق بن شہاب نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا غلام اور عورت اور چھوٹے بچے اور بیمار ان چاروں کے سوا سب مسلمانوں پر جماعت کے ساتھ جمعہ پڑھنا واجب ہے۔ ۱۲
۳: اور عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے بحرین والوں کی طرف لکھ بھیجا کہ تم جہاں کہیں بھی ہو۔ وہاں نماز جمعہ پڑھا لیا کرو، اور (حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ حکم) بستیوں اور شہروں سب کو شامل ہے اور ابن خزیمہ نے اس کو صحیح کہا ہے۔ اور امام بیہقی نے لیث بن سعد سے روایت کی ہے کہ مصر اور اس کے گرد و نواح والے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں آپ کے حکم سے جمعہ پڑھتے تھے اور وہاں چند اصحاب رضی اللہ عنہم بھی موجود تھے (یعنی کسی نے انکار نہ کیا) اور عبدالرزاق نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح سند سے روایت کی ہے کہ وہ مکہ اور مدینہ کے درمیان پانی والوں کو جمعہ پڑھتے ہوتے دیکھتے ان کو منع نہ فرماتے۔ ۱۲ ع
ویوجبھا (۱)ابو یوسف علی من کان داخل حد الاقامۃ الذی من فارقہ یصیر مسافرا ومن وصل الیہ یصیر مقیما وھو الاصح اور عمدہ حاشیہ شرح وقایہ میں ہے۔ قال(۲) فی معراج الدرایۃ انہ اصح ماقیل فیہ اور پنجاب میں کم ایسی بستی ہوگی کہ شہر سے اڑتالیس میل کے فاصلہ پر ہو۔ اور علمائے حنفیہ کے نزدیک شہر وہ موضع ہے کہ باشندہ اُس کے اُس شہر کی بڑی مسجد میں نہ آسکیں در مختار میں ہے۔ المصر (۳) ھو مالا یسع اکبر مساجدہ اھلہ المکلفین بھا وعلیہ فتوی اکثر الفقھاء مجتبی اور عمدہ حاشیہ شرح وقایہ میں ہے۔ (۴)وفی الو لوالجیۃ الجیۃ وھو الصحیح اور شرح وقایہ میں ہے (۵) ومالا یسع اکبر مساجد اھلہ مصر فقط حررہ عبدالجبار بن الشیخ العارف باللہ عبد اللہ الغزنوی (عفی اللہ عنہا)۔
فتاویٰ غزنویہ ص ۵۸
۱: اور ابو یوسفؒ اس شخص کے لیے (جمعہ) کو واجب کہتے ہیں جو (شہر کے گردنواح کی) اس حد میں داخل ہو کہ جس سے گزرنے سے آدمی مسافر ہو جاوے اور اس میں آنے سے مقیم بن جاوے اور یہ بہت صحیح ہے۔ ۱۲ع
۲: اور معراج الدرایہ میں ہے کہ (ابو یوسفؒ) کا قول اس بارے میں سب قولوں سے بڑھ کر ہے۔ ۱۲ع
۳: مصر وہ ہے کہ جس کی سب مسجدوں سے بڑی مسجد میں اس شہر کے رہنے والے جن پر جمعہ واجب ہے نہ سما سکیں۔ ۱۲ ع
۴: اور ولوالجیہ میں ہے کہ یہی معنی صحیح ہیں۔ ۱۲ ع
۵: جس جگہ کی سب مسجدوں سے بڑی مسجد میں اس جگہ کے رہنے والے نہ سما سکیں وہ مصر ہے۔ ۱۲ ع