سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(244) جنازہ کے لیے سپیکر پر اعلان

  • 4433
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 3734

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین مندرجہ ذیل مسائل میں

(۱)      نماز جنازہ کے لیے سپیکر پر مسجد میں اعلان کرنا، کہ فلاں وقت نماز جنازہ پڑھی جائے گا۔ یا فلاں شخص فوت ہو گیا ہے، اور ازروئے شریعت جائز ہے کہ نہیںیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہ تابعین و اتباع تابعین و دیگر سلف و صالحین سے اس کا ثبوت ملتا ہے، کہ کسی نے کسی کی وفات پر مسجد میں بذریعہ لاؤڈ سپیکر جنازہ کا اعلان کیا ہو۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز جنازہ کے لیے اعلان کرنا جائز ہے، سنن سعید بن منصور میں ابراہیم نخعی کا قول ہے:

((لا باس اذا مَاتَ الرجل ان یؤذن صدیقہ واصحابہ)) (نیل ص ۵۶ ج۴)

’’یعنی جب کوئی شخص فوت ہو جائے، تو اپنے دوست اور رشتہ داروں اور رفیقوں کو خبر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘

ابو داؤد میں حصین بن دحوح انصاری سے روایت ہے، کہ طلحہ بن براء بیمار تھے، او رقریب المرگ تھے، تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا: کہ جب یہ فوت ہو جائے، ((فأذنونی بہٖ)) ’’تو مجھے خبر دینا۔‘‘

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جنگ موتہ کے شہداء کے فوت ہونے کی خبر دی۔

((فالحاصل ان الاعلام للغسل والتکفین والصلوۃ والعمل والدفن مخصوص من عموم النہی الخ)) (نیل ص ۵۷ ج ۴)

’’یعنی حاصل کلام یہ ہے، کہ غسل، کفن، دفن اور نماز جنازہ……… کے لیے خبر دینا عموم نبی ﷺ سے مخصوص ہے، کہ یہ جائز ہے۔‘‘

(محمد عبد اللہ، ادارہ علوم اثریہ لائلپور)

تعاقب از عارف حصاری:

واضح ہو کہ اس فتویٰ کے مفتی صاحب کوئی معمولی عالم یا مولوی نہیں ہیں۔ بلکہ ادارہ علوم اثریہ کے شیخ الحدیث اور مفتی اعظم ہیں، جن کا اسم گرامی شیخ تعریف مولانا عبد اللہ صاحب محدث لائل پوری مدظلہ العالیٰ ہے، لیکن حیرانگی یہ ہے کہ انہوں نے فتویٰ ایسا صادر کیا ہے، جو اُن کے شایان شان نہیں ہے، باوجودیکہ خود محدث اور شیخ الحدیث ہیں، اور بلند پایۂ محدث مرحوم کے شاگرد ہیں، پھر ایسا سادگی سے فتویٰ لکھا ہے، کہ وہ سوال کے مطابق نہیں ہے، جبکہ اس مقولہ کا مصداق ہے، ’’سوال از آسمان جواب از ریسماں۔‘‘ یا یوں کہیے، سوال گندم جواب چنا، علم اور ناظرین اور دانشور خود سوال و جواب پڑھ کر غور فرما لیں۔ کہ سوال سائل کا لاؤڈ سپیکر پر مسجد میں منادی کرنے کا ہے، جیسا کہ عام رواج ہے، کہ دیہات اور شہروں میں ایسا کر رہے ہیں، لیکن حضرت مفتی نے ادارہ علوم اثریہ کے سمندر علمی میں غوطہ لگا کر جواہرات نکالے ہیں، وہ یہ ہیں کہ موت کی خبر کرنا، اپنے احباب رشتہ داروں اور رفیقوں کو جائز ہے، یہ ایک بدیہی بات ہے، کہ عام منادی کرنا، اور چیز ہے، اور کسی شخص کا اپنے احباب اور اقرباء سے ملتے ہوئے کسی کی موت کی خبر بتانا، اور چیز ہے، سائل کا سوال اول صورت سے ہے، دوسری کے جائز ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں ہے، کہ جب کوئی فوت ہو جاتا ہے، تو سب مسلمان ایک دوسرے کو خبر بتا کر اظہار افسوس کرتے ہیں۔ نہ اس میں اختلاف ہے کہ اپنے امام عالم کو خبر دے کر بلانا جائز ہے، نہلانے والے کو اطلاع دے کر غسل کروانا جائز ہے، اور قبر کھودنے والوں کو بلانا اور بتانا جائز ہے۔

لیکن لائوڈ سپیکر پر اعلان اور منادی کرنا، یا بازاروں میں کسی ڈھنڈورچی کو بھیج کر مناوی کرانا، کہ فلاں شخص عالم یا خان صاحب، یا چودھری، یا لیڈر، یا صدر مملکت یا وزیر اعظم یا مجسٹریٹ یا سیشن جج یا شیخ الحدیث یا علامہ محدث وغیرہ کا نام لے کر اعلان اور منادی کرنا، اور نماز جنازہ کا وقت بتلانا تاکہ اس وقت لوگوں کا کثیر اجتما ع ہو جائے، بلکہ کسی عالم کے جنازہ کو روک کر رکھناک، اور دور دور کے شہروں کے علماء اور عوام کو بذریعہ تار یا ٹیلی فون کے خبر دے کر جنازہ پر بلانا یہ صورت جائز ہے یا نہیں سائل کا مقصد یہی ہے۔

 

حضرت العلام مولانا عبد اللہ صاحب محدث لائل پوری کو اس صورت کا مدلل جواب دینا چاہیے تھا۔ ان کے پاس ماشاء اللہ کتب، شرعیہ کا اس قدر ذخیرہ ہے، کہ اس کا نصف حصہ بھی اس قلیل البضاعۃ کے پاس نہیں ہے، لیکن اس کا فتویٰ محدثانہ ہے، اور نہ فقہانہ ہے بلکہ عامیانہ ہے، اور طرز استدلال علماء اہل حدیث کا نہیں ہے، بلکہ اہل رائے اور زمانہ کی مصلحت پر مبنی ہے، سائل نے عرض کیا تھا۔ کہ فتویٰ ازروئے شرعیت محمدیہ کے دیا جائے، اور آنجناب نے سب سے پہلے ابراہیم نخعی پیشوا اہل رای کا قول پیش کر دیا ہے، جو سوال کے جواب سے دور ہے، ابراہیم نخعی یہ فرماتے ہیں، کہ اگر کوئی شخص اپنے احباب اور ساتھیوں کو یہ بتا دے، کہ فلاں شخص فوت ہو گیا ہے، تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

یہ دلیل سائل کے سوال کا جواب نہیں ہے، مفتی صاحب محدثانہ طرز استدلال اختیار کرتے، تو یوں جواب دیتے کہ منتقی الاخبار مع نیل الاوطار کے ص ۵۶ ج ۴ پر یوں باب منعقد کیا گیا ہے۔ ((باب ما جاء فی کراھیۃ النعی)) ’’یعنی یہ باب اس مسئلہ کے بیان میں ہے،کہ موت کا اعلان کرنا مکروہ ہے۔‘‘اور ترمذی شریف کا حوالہ دیتے کہ اس کے ص ۱۱۷ میں ((باب ما جاء فی کراھیۃ النعی)) پھر آپ یہ حدیث مرفوع پیش کرتے ہیں:

((عن حذیفۃ رضی اللّٰہ عنہ قال اذا مت فلا تؤذ نوابی احدا فانی اخاف ان یکون نعیا وانی سمعت رسول اللّٰہ ﷺ ینہیٰ عن النعی (ھٰذا حدیث حسن))

’’یعنی حضرت حذیفہ صحابی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ انہوں نے فرمایا: کہ جب میں فوت ہو جائوں، تو میری موت کی عام طور پر خبر نہ کرنا، مجھے اندیشہ ہے، کہ یہ خبر کرنا نعی کی صورت اختیار نہ کر جائے، میں نے جناب رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے، کہ آپ نے موت کی خبر عام پھیلانے اور مشہور کرنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘

باب اور حدیث سے نعی کی ممانعت ثابت ہے، پھر امام ترمذی نے یہ حدیث پیش کی ہے، جو پہلی حدیث کی مؤید ہے۔

((عن النبی ﷺ قال ایاکم والنعی فان النعی من عمل الجاھلیۃ قال عبد اللّٰہ والنعی اذان بالمیت))

’’یعنی حضرت عبد اللہ بن مسعود نے کہا، کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کہ تم میت کا اعلان کرنے سے بچو، کیونکہ اعلان کفر کے زمانہ کی رسم ہے، عبد اللہ بن مسعود نے کہا کہ اعلان او رمنادی کرنی کفر کے زمانہ کی رسم ہے، اس سے بچو۔‘‘

امام ترمذی فرماتے ہیں:

((قد کرہ بعض اھل العلم النعی))

’’بعض علماء نے نعی کو برا سمجھاہے۔‘‘

پھر امام ترمذی فرماتے ہیں:

((والنعی عندھم ان ینادی فی الناس بان فلانا مات لیشھدوا جنازتہ))

’’یعنی نعی عربی محاورہ میں اہل علم کے نزدیک یہ ہے، کہ لوگوں میں عام منادی کرنی کہ فلاں شخص فوت ہو گیا ہے، اس کی غرض یہ ہوتی ہے، کہ لوگ اس میت کے جنازہ پر حاضر ہوجائیں۔‘‘

پھر ابراہیم نخعی کا قول لکھا ہے، کہ اگر کوئی شخص اپنے رشتہ دار کو بتا دے، کہ فلاں شخص مر گیا ہے،تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، دیگر اہل علم نے بھی یہ کہا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے قریبی کو اور اپنے بھائیوں کو خبر کر دے کہ فلاں شخص مر گیا ہے، تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

اس صراحت سے یہ ظاہر ہو گیا ۔ کہ موت کی خبر ایک دوسرے کو بتانا تو جائز ہے، لیکن منادی بازاروں اور سپیکر پر کرنا منع ہے، اس سے سائل کا سوال حل ہو گیا ہے، کہ مسجد میں جو عام منادی کرتے ہیں، کہ فلاں شخص فوت ہو گیا ہے، یا فلاں شخص کا جنازہ تیار ہے، نماز کے لیے حاضر ہو جائو، یہ منع ہے، اگر منادی کرنا جائز ہوتا تو اذان اور تثویب جائز کی جاتی، حالانکہ یہ فرض کفایہ ہے، اس کے لیے ندا، اذان اور تثویب مشروع نہیں کی گئی، اس لیے حضرت حذیفہ جو علم بالمراد ہیں، اپنی قوم کے کسی میت کی عام چیز پھیلانے سے منع کرتے تھے، چنانچہ مسند احمد جدل نمبر ۷ ص ۱۴۴ : ((باب ما جاء فی النعی المیت)) کے تحت یہ حدیث ہے:

((عن حذیفۃ ابن الیمان رضی اللّٰہ عنہ انہ کان اذا مات لا توذ نوابہٖ احداً انی اخاف ان یکون نعیا ای سمعت رسول اللّٰہ ﷺ ینہی عن النعی))

’’یعنی حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ جب ان کا کوئی شخص فوت ہوتا تو اس کی عام طور پر خبر نہ کرتے، اس اندیشہ سے کہ کہیں یہ اس نعی کی صورت اختیار نہ کر جائے، جو منع ہے، کیونکہ میں نے آنحضرت ﷺ سے یہ سنا ہے کہ آپ کسی کی موت کا اعلان کرنے سے منع فرماتے تھے۔‘‘

اب مفتی صاحب انصاف کریں کہ جب صحابی بصورت احتیاط عام خبر پھیلانے سے منع فرماتے تو لاؤڈ سپیکر کی منادی کیسے جائز ہو گی، یہ تھا، محدثانہ استدلال جس سے آپ نے دورہ کر عامیانہ سہل روی کا طریقہ اختیار کیا کہ موت کی خبر دینی جائز ہے کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑہ، آپ نے قصر ادارہ علوم اثریہ میں چسپاں کر دیا، جو شان محدثانہ نہیں ہے۔

آپ یہ بھی جانئے کہ منادی اور اعلان اور اعلام اور آذان بالمیت میں بہت فرق ہے، منادی کا معنی ہے پکارنے والا، اعلان کا معنی ہے مشتہر کرنا، کھولنا، پھیلانا، ظاہر کرنا دونوں کا مطلب یہ ہوا کہ بازاروں میں یا لاؤڈ سپیکر پر کوئی شخص پکار کر اعلان کرے، اور خبر پھیلائے کہ فلاں شخص مر گیا ہے، یا نہ کہے کہ فلاں شخص کا جنازہ تیار ہے، یا فلاں شخص وفات پا گیا، یہ نعی ممنوع ہے، اعلام اور اذان بالمیت یہ ہے کہ اپنے کسی دوست یا رشتہ دار یا اپنے امام کو یہ اطلاع اور خبر دے کہ فلاں شخص مر گیا ہے، یا یہ کہے کہ فلاں شخص کی نماز جنازہ تیار ہے، یہ ایک دوسرے کو بتانا درست ہے، جن حدیثوں میں اذان بالمیت کا ذکر ہے، اس سے یہی مراد ہے، منادی مراد نہیں ہے، فاختری، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے احتیاطاً اس دوسری صورت اعلام سے بھی پرہیز کیا کہ کہیں یہ صورت اعلان ممنوعہ کی نہ ہو جائے، چنانچہ لفظ ((انی اخاف)) اس مراد کا مظہر ہے۔ فتذکروا۔

اس لیے سائل نے کہ وہ بھی ایک عالم ہے، سوال نمبر۴: میں یہ لکھا ہے کہ کسی کی وفات کی صرف ایک دوسرے کو خبر دینے اور بذریعہ سپیکر اعلان کرنے میںکیا فرق ہے، اور ان دونوں میں سے کون سی چیز پر عمل کرنا جائز ہے، تو مفتی صاحب نے پہلو تہی کرتے ہوئے اس کو جواب نہ دیا، اور صرف یہ لکھنے پر کفایت کی کہ اس سوال کا جواب نمبر۱: میں آ گیا ہے، حالانکہ اس کا جواب بالکل نہیں آیا۔اگر آیا ہوتا تو سائل عارف حصاری کے پاس اس مسئلہ کا عرفان حاصل کرنے کو فتویٰ کیوں بھیجتا، عوم تو آپ کے فتویٰ سے دھوکہ یا مغالطہ کھا سکتے ہیں۔ عالم کو تسلی بغیر دلیل شرعی کے نہیں ہو سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ شرعی حکم اور صورت اور ہے، اور رواج عام اور ہے دیہات میں جہاں سپیکر نہیں ہے، وہاں نقارہ بجاتے ہیں یہ بھی بدعت ہے، دیہاتی مولوی اس کو بھی جائز کہتے ہیں کہ یہ بھی اعلام اور آذان بالمیت کی صورت ہے، یہ بھی مفتی صاحب کی طرح قیاس کرتے ہیں، یہ قیاس مردود ہے، نقارہ بجانا بھی اعلان اور منادی میں شمار ہوتا ہے، جو ممنوع ہے، پھر مفتی صاحب نے ابو داؤد کے حوالہ سے حصین بن دحوح انصاری کی حدیث پیش کی ہے، اس میں بھی منادی اور اعلان کا کوئی ذکر نہیں ہے، صرف یہ ذکر ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: کہ یہ قریب المرگ ہے جب یہ فوت ہو جائے تو اس کی مجھے خبر دینا یہ کسی دانش مند کے نزدیک بھی منادی نہیں ہے۔ افسوس ہے کہ آنجناب نے منادی اور لفی کی تعریب کے پیش نظر جواب نہیں لکھا ہے، پھر تیسری دلیل جنگ موتہ کے شہداء کی بر کرنے کی پیش کی ہے، کہ یہ بھی سوال کے مطابق نہیں ہے، لفظ اذان کئی محاروں میں مشترک ہے، لغوی معنی اس کے آگاہ کرنے کے ہیں۔ شرعی معنی یہ ہیں کہ نماز کے لے پکارنا، جیسے صلوات خمسہ کے لیے اذان دی جاتی ہے کہ اس میں پکارنے کا مفہوم ہے، جب کسی بات کی خبر دی جائے، تو اس کو بھی اذان کہتے ہیں، جیسے جھاڑ دینے والی عورت کو رات کو دفن کیا، اور آنحضرت ﷺ کو خبر نہ کی تو آپ نے فرمایا: ((الا اٰذنتمونی)) ’’مجھے خبر کیوں نہ دی۔‘‘اور ایک حدیث میں ہے: ((فاذا فرغتن فاذنتنی)) ’’یعنی تم میت کے غسل سے فارغ ہو جائو تو مجھے خبر دینا،۔‘‘ اسی طرح شہدا کی آپ نے لوگوں کو خبر دی، نجاشی کی وفات کی خبر دی، یہ نعی ممنوعہ نہیں ہے، نعی کی تعریف ص ۵۶ جلد۴ میں نہایہ کے حوالہ سے یہ لکھی ہے: ((نعی المیت نعیا اذاع موتہ واخبر بہ)) ’’کہ میت کی نعی یہہے کہ اس کی موت کا اعلان کرنا اور اس کی لوگوں کو خبر دینا۔‘‘ پھر فتح الباری کے حوالہ سے یہ لکھا ہے: ((انما نھی عما کان اصل الجاھلیۃ یصنوعونہ وکانوا یرسلون من یعلن بخبر موت المیت علی ابواب الدور و الاسواق)) ’’یعنی کفر کے زمانہ کے لوگ جو نعی کرتے تھے، اس سے منع فرمایا، اور وہ یہ ہے کہ اہل میت کسی کو بھیجتے تاکہ وہ لوگوں میں عام اعلان کر دے کہ فلاں شخص مر گیا ہے وہ لوگوں کے دروازوں پر اور بازاروں میں اعلان کرتا پھرتا۔‘‘ اس واسطے ابن عون نے کہا کہ : ((قلت لا براھیم ھل کانوا یکرھون النعی قال نعم)) ’’کہ میں نے ابراہیم نخعی سے پوچھا کہ صحابہ کرام نعی کو مکروہ جانتے تھے، اس نے کہا:ہاں!‘‘ میں ہے: ((انما یکرہ ان یطاف فی المجالس)) ’’کہ مکروہ یہ ہے کہ منادی کی مجلسوں میں پھرایا جائے کہ فلاں شخص فوت ہو گیا ہے۔‘‘ اعلان اور منادی کی صورت سے جو شرعاً منع ہے، پھر امام شوکافی نے نعی کے تین حالات بیان کیے ہیں، اول یہ کہ اپنے رشتہ داروں کو اور دوستوں کو اور صالح لوگوں کو موت سے آگاہ کرنا، یہ تو سنت ہے، دوسرا یہ کہ اعلان کرنا کہ لوگ کثرت سے جمع ہو جائیں، اور وہ فخر کریں کہ ہماری میت پر اجتماع کثیر تھا۔ تیسرا یہ کہ نوحہ او ربین کر کے لوگوں کو خبردار کرنا یہ دونوں حرام ہیں، پہلا جائز ہے، پہلے اعلام میں صرف ایک دوسرے ذکر کیا جاتا ہے، کہ فلاں شخص فوت ہو گیا ہے، یا اعلان عام نہیں ہے، مجمع الزوائد جلد نمبر۳ میں ہے:

((عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ قال جاء رجل یؤذن بجنازۃ الناس فقال رسول اللّٰہ ﷺ ایھا الناس سلوا الی اللّٰہ لموتاکم ولا تؤذنون بہم الناس رواہ الطبرانی فی الکبیر))

’’یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ ایک شخص جنازہ کی لوگوں میں منادی کراتا ہوا آیا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے لوگو! تم اپنے مردوں کی بابت اللہ تعالیٰ کی طرف سوال کرو، اور لوگوں میں ان کے متعلق منادی نہ کرو۔‘‘

(عبد القادر عارف حصاری) (ہفت روزہ اہل حدیث لاہور جلد نمبر ۶، شمارہ نمبر ۲۰)

توضیح الکلام بر فتاویٰ علماء کرام:

… سابق مفتی صاحب کا نظریہ درست ہے، لیکن سوال کے جواب میں تشنگی ہے، جس کی وضاحت ضروری ہے۔

سوال:… میں یہ دریافت کیا گیا ہے، کہ نماز جنازہ کے لیے لاؤڈ سپیکر میں اعلان کرنا جائز ہے، یا نہیں، کیا صحابہ کرام تابعین اور تبع تابعین سے اعلان کا ثبوت ملتا ہے، یا کہ نہیں، جواب یہ تھا کہ اصل مقصد رشتہ داروں، دوستوں، اور دیگر صلحاء کو میت کی بخشش کی سفارش کے لیے مدعو کرنا ہے اور ساتھ ہی اہل بیت کی ہمدردیل، دلجوئی، اور تعزیت بھی ہو جائے، باقی رہا سپیکر کا استعمال سو یہ دور حاضر کی ایجاد ہے جس کے استعمال پر علماء کرام کا عموماً اتفاق ہو چکا ہے، اور اس کی ممانعت پر کوئی دلیل نہیں ہے، البتہ یہ صرف جواز ہے، فرض یا واجب نہیں ہے، سپیکر کے مسئلہ پر تفصیلی بحث فتاویٰ علماء حدیث کی جلد چہارم کے صفحہ ۷۸،۷۹ پر گذر چکی ہے۔ جس میں مولانا محمد اسمٰعیل سلفی رحمہ اللہ اور شیخ الحدیث مولانا عبد الجبار کھنڈیلوی کے خیالات ہیں۔

باقی محقق عارف حصاری صاحب مدظلہ کے تعاقب میں افراط و تفریط ہے، بعض ایسی چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے، کہ جس کے نہ صرف سابق مفتی (مولانا عبد اللہ صاحب( بلکہ جماعت اہل حدیث کا کوئی فرد بھی قائل نہ ہو گا۔ مثلاً گلی، کوچوں اور بازاروں میں ڈھنڈورچی بھیج کر منادی کرنا وغیرہ محترم حصاری صاحب ’’نعی المیت‘‘ کی جو تعریف نہایہ ابن الاثیر اور فتح الباری سے نقل کی ہے، وہ صحیح ہے، لیکن ((وما نحن فیہ)) سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، یعنی کفر کے زمانہ میں جو لوگ نعی کرتے تھے، وہ یہ ہے کہ اہل میت کسی کو بھیجتے تاکہ وہ عامۃ الناس میں اعلان کر دے کہ فلاں شخص مر گیا ہے، وہ لگوں کے دروازوں پر اور بازاروں میں اعلان کرتا تھا، اسی نعی کے بارے میں ابن عون نے ابراہم نخعی سے دریافت کیا تھا کہ ((ھل کانوا یکرھون العنی)) ’’یعنی کیا صحابہ کرام نعی کو مکروہ جانتے تھے؟‘‘ تو ابراہیم نے جواب دیا: ((انما یکرہ ان یطاف فی المجالس)) ’’یعنی منادی کو مجالس میں پھرانا مکروہ ہے۔‘‘ منادی اور اعلان کی یہ صورت شرعاً منع ہے، پھر محقق شبیر نے نعی کے بارے میں امام شوکانی سے تین صورتیں ذکر کی ہیں، اول یہ کہ اپنے رشتہ داروں، دوستوں اور دیگر صلحاء کو مطلع کرنا تو درست ہے، دوم یہ کہ اعلان کرنا تاکہ لوگ بکثرت جمع ہو جائیں، اور اہل میت اس کثرت پر فخر کریں، سوم یہ کہ نوحہ اور بین کرکے لوگوں کو خبردار کرنا، آخری دونوں صورتیں ناجائز ہیں، سپیکر میں اعلان کرنا منادی اور ڈھنڈورہ نہیں ہے، بلکہ اعزاء واقرباء اور احباب کو اطلاع دینے کا ایک طریقہ ہے، جو پہلی صورت میں داخل اور جائز ہے۔

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 447-459

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ