سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(243) بطور تعزیت کے سفر کر کے وہاں جانا درست ہے؟

  • 4432
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-20
  • مشاہدات : 993

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 اگر کسی شخص کے رشتہ دار قربتی کسی شہرمیں جو کہ فاصلہ پرہو تو اس کو بطور تعزیت کے سفر کر کے وہاں جانا درست ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ امر ظاہر ہے کہ دنیا میں انسان کو وقتاً فوقتاً مختلف مقامات میں سفر کرنے کی ضرورت واقع ہوتی ہے، خواہ وہ ضرورت شدید ہو یا خفیف۔بعض اوقات بلا ضرورت محض سیر و سیاہت اور تفریح طبع کے لیے بھی سفر کیا جاتا ہے، شریعت نے اس کو بھی مباح و مشروع فرمایا ہے۔ اور اس میں قصر صلوٰۃ و افطار صوم کی رخصت فرمائی ہے۔ یہ قید نہیں لگائی۔ کہ سفر اگر ضروری ہو تو رخصت پر عمل کیا جائے، اور اگر غیر ضروری ہو تو نہ کیا جائے، سفر کبھی تجارت اور تحصیل علم کے لیے کیا جاتا ہے، اور کبھی جویش و اقارب و احباب کی ملاقات اور درد مندی اور نفع رسانی وغیرہ کے لیے عمل میں لایا جاتا ہے۔

{قال اللّٰہ تعالیٰ واٰخَرُوْنَ یَضْرِبُوْنَ فِی الْاَرْضِ یَبْتَغُوْنَ مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ}

اس آیت میں اللہ تعالیٰ ان بندوں کی مدح و ثنا فرماتا ہے۔ جو تجارت و حصول علم کے لیے سفر کرتے ہیں۔ حدیث میں وارد ہے:

((قال رسول اللّٰہ ﷺ من سلک طریقا یطلب علما سَھَّلَ اللّٰہ لَہٗ طریقاً الی الجنۃ))

رواہ الترمذی وغیرہ ائمہ محدثین و مجتہدین نے احادیث کی تلاش و جستجو و تحقیق کے لیے بڑے بڑے سفر کیے، ایک ایک حدیث کے لیے دور دراز منزلیں طے فرمائیں۔ ایسے ہی تعزیت و بیمار پرسی کے لیے سفر کرنا مشروع و محمود ہے، کیونکہ اس میں غایت درجہ کی صلہ رحمی اور اخوت و درد مندی پائی جاتی ہے، اور صلہ رحمی کے لیے جس قدر تاکید قرآن و حدیث میں وارد ہے، اس کی تشریح کی ضرورت معلوم نہیںہوتی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

{اِنَّمَا الْمُوْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ}

’’یعنی سب اہل ایمان باہم بھائی بھائی ہیں۔ اگر دو بھائیوں میں نزاع واقع ہو۔ تو رفع نزاع اور مصالحت میں کوشش کرنی چاہیے۔‘‘

اگر ہم کو معلوم ہو کہ فلاں مقام پر جو کہ اپنے وطن سے دور دراز فاصلہ پر واقع ہے، چند مسلمانوں میں خانہ جنگی اور نزاع و خلاف کا شعلہ بھڑک رہا ہے، تویہ کون کہہ سکتا ہے، کہ اس کے بجھانے، اور فروکرنے کے لیے ہم کو سفر کرنا، اور مقام مذکور پر پہنچنا جائز نہیں، بلکہ بہت مناسب اور پسندیدہ اور عمدہ طور پر اتباع سنت و تعمیل ارشاد خداوندی ہے۔

اور جس حدیث سے اس قسم کے سفر کی تا جوازی کا شبہ پیدا ہوتا ہے، اس کی کیفیت مختصر طور پر بیان کی جاتی ہے، وہ حدیث یہ ہے:

((قال رسول اللّٰٰہ ﷺ لا تشد الرحال الّا اِلٰی ثلثۃ مساجد))

’’یعنی سو تین مسجدوں کے (مسجد الحرام، مسجد نبوی و مسجد الاقصیٰ) اور کسی کی طرف سفر نہ کیا جائے۔‘‘

علامہ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ فتح الباری میں تھت اس حدیث کے بعد بیان اختلاف و نقل دلائل فریقین کے لکھتے ہیں:

((قال بعض المحققین قولہ الا الی ثلثہ مساجد المستثنی منہ محذوف فاما ان یقدّر عامًا فیصیر لا تشدّ الرحال الی مکان الا الی الثلثۃ اوا خَصَّ من ذلک لا سبیل الی الاوّل لا فضالہ الٰی سدّباب السفر للتجارۃ وصلۃ الرحم وطلب العلم وغیر ھا۔ فتعین الثانی والالی ان یقدّر ما ھو اشد مناسبۃ وھولا تشدّ الرحال الی مسجد للصلوۃ فیہ الا الی الثلثۃ فیبطل بذلک قول من منع شد الرحال الی زیارۃ القبر الشریف وغیرھَا من قبور الصَّالحین واللّٰہ اعلم وقال السبکی الکبیر لیس فی الارض بقعۃ لھا فضل ذاتھا حتی تشد الرحال الیھا غیر البلاد الثلثۃ ومرادی بالفضل مَا شھد الشرع باعتبارہ ورتب علیہ حکماً شرعیاً واما غیرھا من البلاد فلا تشد الیھا لذاتھا بل لزیادۃ اوجہاد او علم او نحو ذلک مِنَ المبَاحات والمندوبات وقد التبس ذلک علی بعضھم فزعم ان شد الرحال الی الزیارۃ لمن فی غیر الثلثۃ داخل فی المنع وھو خطاء لان الا شتثناء انما یکون من جنس المستثنیٰ منہ فمعنی الحدیث لا تشد الرحال الی مسجد من المساجد او الی مکان من الامکنۃ لا جل ذلک المکان الّا الی الثلثۃ المذکُورۃ وشد الرحال والی زیادۃ او طلب علم لیس المکان بل الی من فی ذلک المکان واللّٰہ اعلم))

بعض محققین نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمانا کہ سو اتین مسجدوں کے کسی کی طرف سفر کرنا جائز نہیں۔ اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ کسی مقام کی طرف خواہ وہ مسجد ہو یا غیر مسجد سفر کرنا سو اتین مسجدوں کے جائز نہیں۔ دوم یہ کہ کسی مسجدکی طرف سوا تین مسجدوں کے سفر کرنا جائز نہیں۔ پہلے معنی تو صحیح نہیں ہو سکتے، کیونکہ اس سے لازم آتا ہے کہ تجارت و طلب علم و صلہ رحم کے لیے بھی سفر نہ کیا جائے، پس معنی دوم صحیح ہوئے، زیادہ تر مناسب معنی اس حدیث کے یہ ہیں۔ کہ ادائے نماز کے لیے کسی مسجد کی طرف تین مسجدوں کے لیے سفر کرنا درست نہیں، پس جو لوگ رسول اللہ ﷺ کی قبر شریف کی زیارت یا اولیا و صالحین کی زیارت قبور کے لیے سفر کرنامنع کرتے ہیں۔ ان کا قول اس سے باطل ہے۔ علامہ سبکی کہتے ہیں۔ روئے زمین پر سوا تین مسجدوں کے اور کوئی جگہ ایسی نہیں جس کو ذاتی فضیلت اور شرافت ثابت ہو، اور اس قابل ہو کہ اس کی طرف سفر کیا جائے، فضیلت سے مراد وہ ہے، جس کا شریعت نے اعتبار کیا، اور اس پر حکم شرعی قائم فرمایا، ان تین کے سوا اور کسی شہر و مقام کو ذاتی فضیلت و کرامت ثابت نہیں، اس لیے خاص ان کی ذات کے لیے سفر کرنا درست نہیں، بلکہ زیارت یا طلب علم یا جہاد وغیرہ کے لیے مشروع ہے، بعض علماء کو اس سے شبہ پیدا ہوا، انہوں نے زیارت کے لیے کسی مقام کی طرف سوا ان تین مسجدوں کے سفر کرنا درست نہیں قرار دیا، یہ اُن کی غلطی ہے، کیونکہ استثناء مستثنیٰ منہ کی جنس سے ہونا چاہیے، پس حدیث کے یہ معنی ہوئے کہ کسی مسجد یا مکان کی طرف خاص اس کی ذات کے لیے سفر کرنا، سو ان تین مسجدوں کے جائز نہیں، زیارت یا طلب علم کے لیے کسی مقام کی طرف سفر کرنا خاص اس مکان کی ذات کے لیے نہیں ہوتا، بلکہ اس مکان میں موجود ہوتا ہے، (علم والا یا قابل زیارت) اس کے لیے ہوتا ہے، (فتح الباری پارہ پنجم ص ۶۲۳) پس معلوم ہوا کہ کسی رشتہ دار یا دوست وغیرہ کی تعزیت و عیادت کے لیے سفر کرنا ممنوع نہیں، بلکہ فعل محمود اور موجب ثوا ب ہے، اگر یہ شبہ گذرے کہ اس سفر کے مشروع قرار دینے سے یہ خرابی ہو گی کہ لوگ کثرت سے زیارت قبور کے لیے سفر کریں گے اور افعال شرکیہ بجا لائیں گے، تو جواب اس کا یہ ہے، کہ اس قسم کے اشخاص ہر زمانہ میں بکثرت پائے گئے ہیں، آنحضرت ﷺ نے اولاًزیارت قبور سے اسی لیے منع فرمایا تھا، کہ لوگ افعال شرکیہ و جزع و فزع میں مبتلا ہوتے ہیں، جب اسلام کی ترقی ہوئی، اور احکام شرعیہ بخوبی شائع ہوئے، تب آپ نے فرمایا: ((کنت نھیتکم عن زیارۃ القبور فزوروھا)) بغیر سفر کے زیارت قبور میںلوگ افعال شرکیہ کرتے ہیں، یہی کیفیت سفر کی ہے، واللہ اعلم۔

(فتاویٰ ارشاد السائلین الی المسائل الثلثین ص ۳۱، ۳۲) (حررہ عبد الجبار عمر پوری)

توضیح الکلام:

… زیارت قبور کا مقصد صرف عبرت حاصل کرنا ہے، جیسا کہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے: ((فزوروا القبور فانھا تذکر الموت)) ۔ مشکوٰۃ شریف ص ۱۵۴ جلد نمبر۱ بحوالہ مسلم شریف

اولیاء و صلحاء اور خویش و اقرباء (فوت شدہ) کی ملاقات مقصود نہیں ہے، چونکہ نہ ہم انہیں دیکھ سکتے ہیں، اور نہ ان سے ہم کلام ہو سکتے ہیں۔ جیسے قرآن کریم میں ہے۔

{وَمَا اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ}

جب ہم انہیں دیکھ نہیں سکتے، او ر نہ ہی گفتگو کر سکتے ہیں۔ تو پھر دور دراز کے سفر کی کیا ضرورت ہے، دیدۂ عبرت نگاہ ہو تو قرب و جوار کے قبرستان ہی کافی ہیں، بلکہ حصول مقصد کے لیے کوئی بوسیدہ اور گرا ہوا قبرستان زیادہ موزوں ہے۔

سلف و خلف میں سے کسی محدث و فقیہ سے زیارت قبور کے لیے دور دراز کا سفر کرنا منقول نہیں ہے، حالانکہ تجارت، طالب علم، صلہ رحمی، تعزیت اور ہمدردی کے لیے جانا ثابت ہے، اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اس کے لے عقلی و نقلی دلائل موجود ہیں، صرف زیارت قبور کے لیے دور دراز کے سفر کرکے جانے پر کوئی عقلی و نقلی دلیل نہیں ہے۔ واللہ اعلم ۔

(حررہ علی محمد سعیدی خانیوال)

 


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 446

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ