سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(242) مردے زندوں کی کلام سن سکتے ہیں یا نہیں؟

  • 4431
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 2154

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ مردے زندوں کی کلام سن سکتے ہیں یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

روح کو جسم سے الگ ہونے کے بعد قبر میں ایک ایسی زندگی نصیب ہوتی ہے جس سے وہ لذت حاصل کر سکتا ہے یا عذاب محسوس کر سکتا ہے۔ امام اعظم نے اس کو فقہ اکبر میں بیان کیا ہے اور ملا علی قاری رحمہ اللہ نے اس کی شرح میں فرمایا ہے کہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مردے کو قبر میں دکھ اور لذت کا احساس ہوتا ہے باقی رہا سننے کا معاملہ تو اس پر بھی علماء کا اتفاق ہے کہ مردے نہیں سنتے چنانچہ کتاب الایمان میں اس کی تصریح ہے اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے جو یہ لکھا ہے کہ ’’اکثر فقہاء سننے کا انکار کرتے ہیں اور کچھ فقہاء اور اکثر مشائخ اس کے قائل ہیں۔‘‘ یہ دعویٰ محض بلا دلیل ہے اور شیخ صاحب نے اپنے اس دعوے پر ایک بھی دلیل بیان نہیں فرمائی جو ان کے دعویٰ کی تصدیق کرتی اور یہ تو تحقیق سے ثابت ہے کہ علمائے حنفیہ میں سے ایک بھی سماع موتیٰ کا قائل نہیں ہے ہاں دوسرے لوگوں میں بقدر قلیل کچھ لوگ سماع موتیٰ کی طرف گئے ہیں۔ اور حضرت عائشہ نے ان لوگوں کے جواب دئیے تھے۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں جو لفظ آئے ہیں: ((مَا اَنْتَ بِاَسْمَعَ مِنْھُمْ)) ’’تو ان سے زیادہ نہیں سنتا۔‘‘ تو بعض نے ان الفاظ کو حضرت عمر کے نسیان پر محمول کیا ہے اور بعض نے نبی ﷺ کے معجزہ پر چنانچہ اس کے جواب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے استدلال کو پیش کیا ہے۔ چنانچہ مولہب لدینہ میں اس کی تصریح ہے اور جن احادیث سے مردے کا سننا ثابت ہوتا ہے وہ جلال الدین سیوطی کے رسائل سے نقل کی گئی ہیں۔ اور سیوطی کا ماخذ طبقہ رابعہ کی کتابیں ہیں جو عقیدہ کے اثبات کے لیے غیر معتبر ہیں۔ شاہ عبد العزیز دہلوی نے عجالہ نافعہ میں لکھا ہے کہ سیوطی کی روایت جب تک ثابت نہ ہو جائیں وہ قابل استدلال نہیں ہیں۔

اب فقہ حنفی اور تفسیر کی کتابوں کا دوبارہ سماع موتیٰ اقتباس ملاحظہ فرما دیں۔ دو مختار حاشیہ در مختار۔ فتح القدیر جامع صغیر۔ ہدایہ۔ شرح مواقف۔شرح مقاصد۔ فصول فی علم الاصول۔ نظم الدلائل۔ اصول شاشی۔ تفسیر۔ درمنشور۔ تفسیر نیشا پوری۔ تفسیر جامع البیان۔ تفسیر جلالین۔ تفسیر معالم التنزیل۔ تفسیر موضح القرآن۔عینی شرح کنز میں لکھا ہے کہ اگر کوئی آدمی قسم اٹھائے کہ میں تجھ سے بات کروں یا تجھ کو کپڑا پہناؤں یا تجھ کو ماروں یا تیرے پاس آئوں یا میں تیرا بوسہ لوں تو میری عورت کوطلاق ہو یا میرا غلام آزاد ہو جائے گا تو یہ تمام چیزیں زندگی کے ساتھ مقید ہوں گی اگرمرنے کے بعد اس سے کلام کرے یا اس کو کفن پہنائے یا مرنے کے بعد اس کو مارے یا اس کی میت کے پاس جائے۔ تو اس صورت میں نہ اس کی قسم ٹوٹے گی نہ عورت کو طلاق ہو گی نہ اس کا غلام آزاد ہو گا۔ کیونکہ مار یا ادب سکھانے کے لیے ہوتی ہے یا سزا دینے کے لیے اور یہ دونوں چیزیں مردے میں نہیں ہیں۔ اگر کہا جائے۔ کہ میت کو قبر میں عذاب ہوتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ قبر میں رکھے جانے کے بعد ایک طرح کی زندگی اس میں پیدا کی جاتی ہے۔ جس سے وہ بززخ کے عذاب کو محسوس کرتا ہے۔ اور یہ جو فقہاء کہتے ہیں کہ اگر ایک آدمی مچھلی کے شکار کے لیے کنڈی لگائے اور اس کے مرنے کے بعد مچھلی کنڈی میں اٹک جائے۔ تو اس مچھلی کا وہ مالک ہو گا۔ اگر مردہ کسی چیز کا مالک نہیں تو پھر اس کا مالک کیسے بنے گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا وارث اس کے مالک ہوں گے۔ اور میت کی ملک سمجھ کر ورثاء میں تقسیم ہو جائے گی۔ اور آنحضرت ﷺ نے جو بدر کے کافروں سے خطاب کیا تھا۔ تو وہ من حیث المعنی ثابت نہیں ہے کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے قرآن پاک کی آیت: {وَمَا اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ} اور {اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی} سے اس کی تردید کر دی تھی۔ پھر بعض نے اس کو معجزہ پر محمول کیا بعض نے زندوں کی عبرت کے لے اس کو کہا اور وہ جو حدیث میں ہے کہ مردہ جوتیوں کی آواز سنتا ہے وہ قبر میں منکر نکیر کے سوال و جواب کے وقت ہوتا ہے آگے پیچھے نہیں ہوتا۔

اہل سنت والجماعت کا یہی عقیدہ ہے کہ مردے نہیں سنتے البتہ معتزلہ فرقہ کی شاخ صالحیہ مردے کے لیے علم و قدرت۔ سماعت۔ بصارت ثابت کرتے ہیں۔ ان کے مذہب کے مطابق خداوند تعالیٰ ان صفات کے ہوئے ہوئے بھی زندہ نہیں ہیں بلکہ مردہ ہیں۔ غرائب فی تحقیق المذاہب میں ہے کہ ایک آدمی قبرستان میں نیک لوگوں کے پاس جا کر کہہ رہا تھا کہ کیا تم کچھ سنتے ہو یا نہیں؟ تم میں کوئی بھلائی ہے یا نہیں؟ میں کئی مہینوں سے تمہارے پاس آ رہا ہوں میری التجا صرف یہ ہے کہ تم میرے حق میں دعائے خیرکر دو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سن رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: کیا انہوں نے تجھ کو کوئی جواب دیا ہے؟ کہنے لگا نہیں! آپ نے فرمایا: تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں تجھ پر افسوس تو مردوں سے کلام کرتا ہے۔ جو تجھے کوئی جواب نہیں دے سکتے جو آواز نہیں سن سکتے پھر آپ نے قرآن مجید کی آیت پڑھی: {وَمَا اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ} ’’تو قبر والوں کو نہیں سنا سکتا۔‘‘ تفسیر نیشا پوری میں ہے۔ کہ جب نبی اکرم ﷺ نے جنگ بدر میں کفار کے مقتولوں سے سوال کیا تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ’’کہ تو مردوں کو نہیں سنا سکتا۔‘‘ او ریہ تو ظاہر بات ہے کہ خداوند تعالیٰ نے کفار کو عدم سماع کی وجہ سے مردوں سے تشبیہ دی ہے اگر مردے سن سکتے ہوتے تو اللہ تعالیٰ یہ تشبیہ بیان نہ کرتے قصہ مختصر یہ کہ قرآن و حدیث سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ مردے نہیں سنتے۔ واللہ اعلم۔


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 442-444

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ