سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(241) امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مردے سنتے ہیں یا نہیں؟

  • 4430
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1682

سوال

(241) امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مردے سنتے ہیں یا نہیں؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جناب کیا خیال ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مردے سنتے ہیں یا نہیں؟ کتاب اور باب کے حوالے سے جواب عنایت فرما دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کتب فقہ حنفی مثلاً کنزالدقائق، شرح وقایہ، ہدایہ، عنایہ، کفایہ، بنا پر مستخلص شرح کنز در مختار وغیرہ کے باب الایمان میں مذکور ہے کہ ’’اگر کوئی آدمی قسم کھائے کہ فلاں آدمی سے بات نہیں کروں گا۔ پھر اس کے مرنے کے بعد یا اس کے جنازہ پر یا قبر پر جا کر بات کرے۔ تو اس کی قسم نہٰں ٹوٹے گی۔ کیونکہ کلام سے مقصود سمجھانا ہے۔ اور سمجھ کا تعلق سنن سے ہے۔ اور مردہ سننے کی قابلیت نہیں رکھتا کیونکہ مردہ میں زندگی نہیں ہے۔ کیونکہ موت زندگی کے زوال کا نام ہے باقی رہا یہ سوال کہ رسول اللہ ﷺ نے قلب بدر والوں سے گفتگو فرمائی تھی۔ تو اس کا جواب مشائخ نے مختلف طریقوں سے دیا ہے۔ بعض نے کہا یہ آنحضرت ﷺ کا معجزہ تھا۔ بعض نے کہا کہ اس وقت تھا۔ جب کہ سوال وجواب کے لیے قبر میں مردہ کی روح لوٹائی جاتی ہے۔ اور اس کے بعد پھر کچھ نہیں رہتا۔ اور بعض نے کہا یہ من حیث المعنی ثابت نہیں۔ بلکہ مقصد زندوں کو تنبیہ کرنا تھا۔ نہ کہ کافروں کو سنانا جب کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا اور قرآن مجید میں ہے کہ مردوں کو نہیں سنا سکتا۔ البتہ اس حدیث کے جواب میں اشکال واقع ہوتا ہے۔ کہ مردہ واپس آنے والے لوگوں کی جوتیوں کی آواز بھی سنتا ہے تو اس کو بھی اول وقت کے لیے مخصوص کیا گیا ہے کہ جب منکر و نکیر قبر میں سوال کرنے کے لیے آتے ہیں اس وقت روح لوٹائی جاتی ہے۔ اس وقت سن بھی لیتا ہے۔ اس طرح حدیث اور قرآن کا مطلب آپس میں متعارض نہیں ہوتا کیونکہ قرآن میں کفار کو سننے کے بعد عدم افاضہ میں مردوں کے ساتھ تشبیہ دی ہے اور وہ عدم سماع موتیٰ کی شاخ ہے یہ خلاصہ ہے کتب مندرجہ بالا کا۔

اور صاحب منارد کتر نے کافی شرح دافی میں اس مسئلہ کو بڑی تفصیل سے لکھا ہے کہ اگر یہ سوال کیا جائے کہ امام بخاری نے باب عذاب القبر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا و ابن عمر کی متعارض حدیثیں بیان کی ہیں۔ اگر مردہ میں سماع نہیں ہے تو ابن عمر کی حدیث بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی اس کا جواب یہ ہے کہ منکر نکیر کے سوال کے وقت سننے کی قوت بحال کر دی جاتی ہے۔ اس وقت سن لیتا ہے بعد میں نہیں سنتا جب کہ کافر اور مومن میں بعد ازاں راحت یا عذاب محسوس کرنے کی قوت باقی رکھی جاتی ہے۔ علامہ عینی حنفی نے شرح بخاری باب عذاب القبر میں لکھا ہے کہ قرآن مجید کی آیت کہ ’’تو مردوں کو نہیں سنا سکتا۔‘‘ اور ’’تو قبروالوں کو نہیں سنا سکتا۔‘‘ کے بعد اس مسئلہ میں کوئی جھگڑا ہی باقی نہیں رہ جاتا کہ مردے نہیں سنتے فقہ حنفی کی کتابیں اس مضمون سے بھری پڑی ہیں صرف دو چار اقتباس بطور نمونہ درج کئے ہیں۔

ہاںمعتزلہ فرقہ کی شاخ صالحیہ کا عقیدہ ہے کہ مردہ میں علم سماعت قدرت اور ارادہ کی قوتیں بحال رہتی ہیں۔ اور ان پر یہ اعتراض کیاہوتا ہے کہ اگر مردہ ان صفات کی موجودگی میں بھی مردہ ہے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی زندہ نہیں ہیں کیونکہ یہ صفات تو ان کے نزدیک مردہ کی ہوئیں۔ واللہ اعلم۔


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 440-442

محدث فتویٰ

تبصرے