سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(240) زید کہتا ہے کہ اہل قبور کی روح قبر میں باقی رہتی ہے..الخ

  • 4429
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1884

سوال

(240) زید کہتا ہے کہ اہل قبور کی روح قبر میں باقی رہتی ہے..الخ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں۔ علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید کہتا ہے کہ اہل قبور کی روح قبر میں باقی رہتی ہے۔ اور ان کو علم اور شعور رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے دوست اور آشنا وغیرہ کو پہچانتا ہے۔ جس وقت اس کی قبر پر زیارت کو آئیں۔ اور یہاں تک کہ ان کی جوتیوں کی تھپک اور ان کی آواز کو سنتا ہے۔ اور علاوہ ازیں جب کوئی پرندہ اس کی قبر پر بیٹھے تو نر اور مادہ میں فرق کر کے پہچان لیتا ہے۔ اور اپنے ثبوت کے لے اس حدیث شریف کو پیش کرتا ہے۔

((عن انس قال قال رسول اللّٰہ ﷺ ان المیت اذا وضع فی قبرہ انہ لیسمع قرع نعالھم اذا انصر فوا رواہ مسلم))

’’جب میت کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو جب لوگ واپس ہوتے ہیں وہ ان کی جوتیوں کی آواز بھی سنتا ہے۔‘‘

اس کے جواب میں عمرو کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:

{ومن اضل ممن یدعوا من دون اللّٰہ من ال یستجیب لہ الی یوم القیامۃ وھم عن دعائھم جاہلون}

بمصداق اس دلیل مبین کے ان کا سننااور جاننا غیر ممکن ہے اور وہ ہر گز گز قیامت تک نہیں سنیں گے اور نہ ان کی پکار کو پہنچیں گے۔ پس آپ حضرات کی خدمت مبارکات میں عرض ہے کہ زید اور عمرو کے خیالات کو موافق قرآن و حدیث کے بیان فرما کر طرفین کے شک اور وہم کو رفع کر دیں۔ اور اس مسئلہ میں کس طرح اعتقاد رکھنا چاہیے۔ اور خوب واضح طور سے بیان فرمائیں تاکہ یقین کام آ جاوے۔ بینوا توجروا۔

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن و حدیث کی رو سے زید کا قول غلط ہے۔ اور عمرو کا قول صحیح ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عمرو کے قول کے لیے قرآن و حدیث میں دلیل موجود ہے چنانچہ ایک دلیل وہی آیت: {ومن اضل ممن یدعوا من دون اللّٰہ} ’’اور اس سے زیادہ گمراہ کون جو اللہ کے علاوہ کسی اور کو پکارے۔‘‘ہے جو عمرو کے قول میں موجود ہے۔ اور زید کے قول کے لیے قرآن اور حدیث میں کوئی دلیل نہیںپائی جاتی۔ باقی رہی یہ حدیث ((ان المیت اذا وضع فی قبرہ الخ)) جو زید نے اپنے قول کے ثبوت میں پیش کی ہے۔ اس سے اس کا قول ثابت نہیں ہوتا کیونکہ زید کا اپنے قول میں پہلا دعویٰ یہ ہے کہ اہل قبور کی روح قبر میں باقی رہتی ہے۔ زید نے اپنے اس قول میں کسی خاص وقت کا ذکر نہیں کیا۔ لہٰذا اس کا ظاہر مطلب یہی ہے کہ اہل قبور کی روح قبر میں ہمیشہ باقی رہتی ہے حالانکہ حدیث مذکور سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کیونکہ حدیث مذکور میں صرف یہ ذکر ہے کہ جب لوگ میت کو دفن کر کے لوٹتے ہیں۔ تو میت لوگوں کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے۔ پس حدیث مذکور سے اگر ثابت ہو گا تو صرف اتنا ثابت ہوگا کہ دفن کر کے لوٹتے وقت قبر میں روح باقی رہتی ہے۔ باقی اور اوقات میں روح کا قبر میں رہنا حدیث مذکور سے ثابت نہیں ہوتا۔ زید کا دوسرا دعویٰ یہ ہے کہ اہل قبور کو علم و شعور رہتا ہے کہ جس کی وجہ سے زیارت کے وقت وہ اپنے دوست و آشناء وغیرہ کو پہچانتے ہیں۔ اور ان کے جوتوں کی آواز اور ان کی آواز کو سنتے ہیں۔ اس مقام میں بھی زید نے کسی خاص وقت کا ذکر نہیں کیا۔ لہٰذا یہاں بھی اس دعویٰ کا ظاہر مطلب یہی ہو گا کہ اہل قبور کو ہمیشہ علم وشعور رہتا ہے۔ لیکن یہ دعویٰ بھی حدیث مذکور سے ثابت نہیں ہوتا۔ کیونکہ اوپر مذکور ہو چکا ہے کہ حدیث مذکور میں صرف یہ ذکر ہے کہ جب لوگ میت کو دفن کر کے لوٹتے ہیں۔ تو میت لوگوں کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔ اور یہ میت کا سننا اس واسطے ہے کہ صحیح حدیث کے موافق اس وقت مردے کے جسم میں روح آ جاتی ہے۔ سو اس وقت آنے سے ہمیشہ مردے جسم میں روح کا آنا کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ پس حدیث مذکور سے اگر ثابت ہو گا تو صرف اتنا ثابت ہو گا کہ دفن کر کے لوٹتے وقت میت کو علم و شعور رہتا ہے۔ اور حدیث مذکور سے یہ بات ہر گز ثابت نہیں ہوتی کہ دفن کر کے لوٹنے کے بعد بھی اہل قبور کو علم و شعور رہتا ہے۔ لہٰذا اہل قبور کو ہمیشہ علم و شعور کا رہنا بھی حدیث مذکور سے ثابت نہیں ہوا۔ پس زید کا دوسرا دعویٰ بھی غلط ہو گیا۔ تیسرا دعویٰ زید کا یہ ہے کہ جب کوئی پرندہ اس کی قبر پر بیٹھتا ہے تو نر اور مادہ میں فرق کر کے پہچان لیتا ہے۔ یہ دعویٰ حدیث مذکور سے بالکل ثابت نہیں ہوتا کیونکہ ظاہر بات ہے کہ پرندوں میں فرق کر کے پہچاننا بصارت یعنی آنکھ سے دیکھنے کے متعلق ہے حالانکہ حدیث مذکور سے میت کے لیے بصارت کا ہونا نہیں ثابت ہوتا لہٰذا حدیث مذکور سے میت کا پرندوں میں فرق کر کے پہچان لینا ہر گز ثابت نہیں ہو سکتا اس کے علاوہ حدیث مذکور سے میت کا پرندوں میں فرق کر کے پہچان لینا ہر گز ثابت نہیں ہو سکتا اس کے علاوہ زید کا یہ دعویٰ عقلاً بھی باطل ہے۔ کیونکہ یہ ظاہر ہے کہ اپنی زندگی میں بھی اکثر پرندوں کے نر و مادہ میں نہیں فرق کر سکتا تو موت کے بعد کیوں کر ہو سکتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ زید کا قول بے سند اور خلاف شرع ہے اور عمرو کا قول مدلل اور شرع کے موافق ہے لہٰذا مسلمانوں کو لازم ہے کہ زید کے قول سے پرہیز کریں۔ اور عمرو کے قول کو اختیار کریں۔ واللہ اعلم بالصواب حررہ عبد الحق اعظم گڑھی عفی عنہ۔ (سید محمد نذیر حسین)

ہو الموفق:

… قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے:

{وَمَا اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ} (پارہ ۲۲ سورہ فاطر)

’’یعنی نہیں ہے تو سنانے والا ان لوگوں کو جو قبروں میں ہیں۔‘‘

اور فرماتا ہے:

{اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی} (پارہ ۲۰ سورہ نمل)

’’بے شک تو نہی سنا سکتا مردوں کو۔‘‘

یہ دونوں آیتیں نص صریح ہیں۔ اس بات پر کہ مردے نہیں سنتے ہیں۔ اور مردے کا سننا جیسا کہ زید کہتا ہے کسی آیت یا کسی حدیث سے ثابت نہیں اور زید کی یہ بات بھی کسی آیت یا حدیث صحیح سے ثابت نہیں کہ قبروں پر جو لوگ زیارت کو آتے ہیں ان کو مردے پہچان لیتے ہیں۔ اورقبروں پر کوئی پرندہ بیٹھتا ہے تو نر اور مادہ میں فرق کرکے پہچان لیتے ہیں۔ اور زید نے اپنے ثبوت کے لیے جو حدیث شریف پیش کی ہے۔ اس سے اس کا مدعا ثابت نہیں ہوتا چونکہ اس زمانہ میں بہت سے عوام و جہاں احناف کا قریب قریب وہی خیال ہے جو زید کا ہے۔ اس لیے یہاں غایۃ الاوطار ترجمۃ در مختار مصنفہ مولوی خرم علی صاحب رحمہ اللہ حنفی سے سماع موتیٰ کے متعلق ایک مضمون نقل کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ مولوی صاحب ممدوح فرماتے ہیں کہ فتح القدیر میں مذکور ہے کہ میت کو سماع نہیں تو فہم بھی نہیں اور بعد موت کے میت کی قبر کی زیارت ہوتی ہے نہ میت کی۔ اور یہ جو صحیح بخاری میں مروی ہے کہ رسول خدا ﷺ نے جنگ بدر کے مقتولوں کی لاشوں کو کنویں میں ڈلوا کر ان سے فرمایا کہ جو تمہارے رب نے وعدہ کیا تھا۔ یعنی شکست کفار اس کو تم نے سچا پایا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا آپ مردوں سے کلام کرتے ہیں یا رسو ل اللہ ! تو فرمایا قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قابو میں میری جان ہے کہ تم ان سے زیادہ نہیں سنتے ہو۔ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ اس حدیث کی معارض صحیح بخاری میں دوسری حدیث ثابت ہے کہ عائشہ صدیقہ نے اس روایت کو قرآن مجید کی دو آیتوں سے رد کیا اول آیت یہ ہے کہ:{وَمَا اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ} ’’یعنی تو سنا نہیں سکتا ان کو جو قبروں میں ہیں۔‘‘ اور ثانی آیت یہ ہے: {فَاِِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی}’’یعنی مقرر تو سنا نہیں سکتا مردوں کو‘‘ اور دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ کلمہ بطریق ضرب المثل تھا۔ زندوں کی نصیحت کے واسطے، چنانچہ حضرت علی مرتضیٰ سے منقول ہے کہ قبرستان میں جا کر فرمایا کہ تمہاری عورتوں کے نکاح ہو گئے۔ اور تمہارے مال تقسیم ہو گئے۔ اور تمہارے مکانوں میں اور لوگ ساکن ہو گئے۔ یہ خبر تمہاری ہے ہمارے پاس سو ہماری خبر تمہارے پاس کیا ہے۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ یہ تکلم اور سماع موتیٰ رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت کی وجہ سے تھا۔ بنا بر اعجاز کے تاکہ کافروں کو حسرت زیادہ ہو اور وہ جو صحیح مسلم میں حدیث مرفوع ہے کہ میت جوتیوں کی آواز سنتا ہے جب لوگ اس کو دفن کر کے پھرتے ہیں اس کا جواب یہ ہے کہ ابتداء دفن کا یہ سماع فہم مقدمہ ہے جوابدہی سوال منکر اور نکیر کا اس خصوصیت کی یہ وجہ ہے تا اور حدیث اور آیتوں کے مضمون میں اتفاق ہو جائے تعارض نہ باقی رہے اس واسطے کہ دونوں آیتیں عدم سماع موتیٰ کے مفید ہیں انتہی کلام الفتح نہر الفائق میں کہا کہ جواب ثالث نہایت خوب جواب ہے یعنی حضرت کا تکلم اور اسماع بطریق معجز ہ تھا۔تو اس عموم سے سماعت موتیٰ ثابت نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ بنا بر اعجاز کے حضرت سے شجر اور حجر نے بھی کلام کیا ہے حالانکہ شجر اور حجر محل کلام نہیں اور صحیح مسلم کی روایت کے جواب کی تقویت دوسری حدیث صحیح سے ہو سکتی ہے کہ جب منکر اور نکیر مومن سے سوال معقول سنتے ہیں۔ تو اسے سے کہتے ہیں کہ : ((نم کنواۃ العروس)) ’’یعنی آرام سے سو جیسے دولہ سوتا ہے۔‘‘ ظاہراً یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ مومن اس عالم سے غافل ہو جاتا ہے جیسے سوتا آدمی غافل ہوتا ہے اور کلام نہیں سنتا۔ بالجملہ ہم لوگ ال تقلید ہیں پایہ اجتہاد کا نہیں رکھتے پھر جن فقہاء کے ہم مقلد ہیں۔ جب ان کے نصوص سے ثابت ہوا کہ میت کو فہم اور سماع نہیں تو اس میں زیادہ گفتگو اور تفتیش کرنا بے موقع ہے۔ واللہ اعلم انتہی ما فی غایۃ الاوطار صفحہ ۳۸۵ جلد ۲۔

الحاص میت کے سماع اور شعور کے متعلق زید کا قول کسی دلیل شرعی سے ثابت نہیں ہے لہٰذا اس کا قول غلط وباطل ہے۔ اور آیات مذکورہ بالا سے اور بعض احادیث سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ مردے نہیں سنتے ہیں۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے بعض اوقات مردوں کو سنا دے جیسا کہ وہ اپنی قدرت سے شجر و حجر وغیرہ کو سنا سکتا ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ محمد عبد الرحمٰں المبارکفوری عفاء اللہ عنہ۔ (فتاویٰ نذیریہ جلد نمبر۱ ص ۴۱۰)

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 440-436

محدث فتویٰ

تبصرے