سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(239) جمعہ اور عاشورہ کی رات ارواح کے گھروں کی طرف آنے کا کیا حکم ہے؟

  • 4428
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 1210

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جمعہ اور عاشورہ کی رات ارواح کے گھروں کی طرف آنے کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مومنوں کی روحیں ہر جمعہ کی رات عید کے دن اور عاشورہ کی رات اور شعبان کی نصب رات کو گھروں میں آتی ہیں۔ صحن میں کھڑی ہو کر ہر ایک کو غمگین آواز سے پکارتی ہیں۔ اے میرے اہل و عیال اور اعزاء و اقرباء صدقہ کے ذریعہ ہم پر مہربانی کرو۔ ہمیں یاد کرو بھلائو نہیں۔ ہماری غربت میں ہم پر رحم کرو جب کہ ہم تنگ و تاریک اور مضبوط جیل کی کوٹھڑی اور طویل ترین غم اور شدید ترین فقر میں مبتلا ہیں اور جو مال اب تمہارے ہاتھوں میں ہے وہ کسی وقت ہمارے پاس تھا۔ اگر ہم اسے اللہ کی راہ میں صرف کرتے تو آج تم سے سوال کی ضرورت نہ پڑتی اب تم تو کھاتے پیتے ہو، مگر ہم عذاب الٰہی میں مبتلا ہیں۔

…جب اہل خانہ ان پر رحم و کرم نہیں کرتے تو وہ حزین و غمگین واپس ہو جاتی ہیں۔ اور ان میں سے ہر ایک یہ پکارتی ہوئی واپس ہوتی ہے… اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت سے مایوس کر دے جس طرح انہوں نے ہمیں صدقہ اور دعا سے محروم کر دیا۔ اھ فتاویٰ غرائب (مترجما من العربیۃ)

 

اقول…(تعاقب):… {الحمد للّٰہ رب العلمین} سائل کو چاہیے تھا کہ اس طرح سوال کرتا کہ روحوں کی آمد ثابت ہے یا نہیں۔ اور جواب اس طرح ہوتا کہ ثابت ہے (پھر اس پر کوئی دلیل ہوتی) جاننا چاہیے کہ مذکورۃ الصدر دنوں اور راتوں میں ارواح کی آمد کی دلیل کسی مرفوع، مسند اور متصل السند حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ واللہ ہاں اگر ان راتوںمیں بغیر فرضیت اور وجوب کے عقیدہ و اصرار کے صدقہ کریں تو یہ جائز ہے مگر اصرار و تاکید سے اس طور پر مستحب بھی کہنا نہ چھوڑا جائے یہ شیطان کا حصہ ہے (صدقہ لوجہ اللہ نہیں ہے) جیسا کہ ملا علی قاری حنفی، طیبی اور سید نے شروع مشکوٰۃ میں اس حدیث کے ذیل میں لکھا ہے:

((لا یجعل للشیطان شیئًا من صلوٰۃ یری ان حقا علیہ ان لا ینصرف الا عن یمینہٖ))

کہ جو شخص مستحب امر پر اصرار کرے اور اسے لازمی اور ضروری قرار دے اور س کی رخصت پر کبھی عمل نہ کرے وہ سمجھے کہ شیطان اسے گمراہ کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔اب آپ خود ہی اندازہ فرما لیں کہ ایک بدعت اور منکر امر پر اصرار کرنے والے کا کیا حکم ہو سکتا ہے۔ (کذا فی مائۃ مسائل ص نمبر ۱۰۴)

اگرچہ معترضین (سائلین) کے کلام میں صدقہ کا ذکر نہیں تھا۔ مگر چونکہ اہل بدعت اور مشرکین نے یہ مشہور کر رکھا ہے کہ (اہل حدیث) جمعہ کی رات کو صدقہ کرنے سے منع کرتے ہیں اس لیے مناسب خیال کر کے مائۃ مسائل کی پوری عبارت ذکر کر دی گئی ہے۔ اور معترضین کی بھی یہی غرض تھی مگر چونکہ ان کے پاس دلیل نہیں تھی۔ اس لیے انہوں نے اس پر اکتفاء کیا ہے۔

بعد ازاں واضح ہو کہ فریق مخالف کے لیے صرف چار چیزیں مسکت جواب بن سکتی ہیں۔ کتاب اللہ، سنت رسول اللہ، مستند اجماع امت، اور قیاس جلی، جو کہ ان تینوں سے مستنبط ہو اور غرائب فتاویٰ کا نقل کر دینا اور وہ بھی خلاف عقل و نقل ہوں۔ مدمقابل پر حجت اور دلیل نہیں بن سکتا۔ اور ان کے غرائب فتاویٰ سے نقل کرنے میں اس بات پر قوی دلیل ہے کہ ان ذلیل لوگوں کو علم حدیث و اسناد بلکہ دین اسلام سے کوئی مس نہیں ہے، کیونکہ یہ لوگ حدیث کو غرائب فتاویٰ سے نقل کرتے ہیں۔ اور نشاندہی بھی نہیں کرتے کہ یہ حدیث ہے (چونکہ خود بھی نہیں سمجھتے) اور پھر اس پر مستزاد یہ کہ حوالہ کا ذکر بھی نہیں کرتے کہ یہ حدیث کس کتاب کی ہے۔

یہ حدیث حدیث کی مشہور کتابوں میں سے کسی میں نہیں ہے۔ اور یہ حدیث اخبار بالغیب کے قبیل میں سے ہے۔ اور اس قسم کی خبروں کا انبیاء کرام کے سوا کسی کو علم نہیں ہو سکتا۔ اور برزخ کے جمیع مسائل انبیاء کرام کو سونپ دیئے گئے ہیں۔ کسی عالم یا مولوی کے احساس کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ فتاویٰ غرائب کی مذکورۃ الصدر عبارت مخالفین کے خیال میں حدیث ہے۔ اور ہم ثابت کریں گے کہ ایسے الفاظ حدیث کے نہیں ہو سکتے اور نہ ہی اہل علم میں سے کسی نے اس کے ساتھ تمسک کیا ہے۔ وہ شخص اس سے استدلال کیسے کر سکتا ہے۔ جو علم سے تہی دامن ہو اور عقل و ایمان سے کورا ہو سوائے ان رسوائے زمانہ علم سے بھاگنے والوں کے۔

یہ بات کہ جمعہ کے دن صدقہ دینا باقی ایام پر زیادہ ثواب کا حق رکھتا ہے۔ جب شارع علیہ السلام نے کسی دن کی تخصیص نہیں کی۔ تو ہمیں کسی دن کی تخصیص کرنا بدعت اور مکروہ ہے۔ بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ جمعہ کے دن اور دوسرے ہفتہ بھر کے تمام دنوں میں بقدر وسعت صدقہ دینا چاہیے۔ نواب سید صدیق حسن خاں مرحوم بلوغ المرام کی شرح مسک الختام میں حدیث: ((لا تخصو الیلۃ الجمعۃ بقیام من اللیالی ولا تخصوا یوم الجمعۃ بصیام من بین الایَّام)) (الحدیث) کے ذیل میں لکھتے ہیں۔ کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جمعہ کی رات کو نماز وتلاوت اور دیگر عبادات کے لیے مخصوس کرنا حرام ہے۔ ہاں جن چیزوں کی نص آ گئی ہے۔انہیں خاص کرنا چاہیے جیسے سورۃ کہف وغیرہ کی تلاوت ہے۔ اھ نیز نواب صاحب شیخ عبد الحق صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ اس کی اقرب وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس میں یہود و نصاریٰ سے مشابہت پائی جاتی ہے۔ کہ وہ مخصوص ایام کی تعظیم کرتے ہیں اور انہیں ہی اطاعت وعبادت کے لیے مخصوص کرتے ہیں۔ جیسا کہ یہود نے ہفتہ کو اور نصاریٰ نے اتوار کو خاص کیا ہوا ہے۔ ہاںجن چیزوں کی تخصیص شرع شریف میں وارد ہو گئی ہے۔ وہ جائز ہے، اور ثابت ہے۔ مگر ہمیں اپنی طرف سے تخصیص کا حق حاصل نہیں ہے۔ اس کے بعد نواب صاحب لکھتے ہیں۔ بندہ ضعیف عفی عنہ کہتا ہے کہ اس نہی کا سبب یہ ہے بندہ کو چاہیے کہ ہر وقت اطاعت و عبادت الٰہی میں مشغول رہے۔ بعض اوقات کو مخصوص کر لینا اور دوسرے اوقات کو معطل کر دینا کوئی اچھی چیز نہیں ہے۔ یہ سبب جمعہ کی رات کو قیام کی نہی کے لیے زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے ((کما لَا یخفٰی علی المتفطن اھ)) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ حجۃ اللہ البالغہ میں اسی حدیث کے ذیل میں رقم طراز ہیں۔

((السرفیہ شیئان احدھما سر التعمق لان الشار لما خصہ بطاعات وبین فضلہ کان مظنہ انیتعمن المتعمقون فلیلحقون بھا حرم بذالک الیوم اھ))

یہ مضمون تلاش و جستجو سے دوسری حادیث سے بھی مل سکتا ہے۔ صحیح احادیث میں وارد ہے کہ مومنوں کی روحیں آسمان پر رہتی ہیں۔

((عن عبد الرحمٰن بن کعب عن ابیہ قال لما حضرت کعب الوفاۃ اَتَتْ ام بسر بنت البراء بن معرور فقالت یا ابا عبد الرحمٰن ان لقیت فلانا قرأ علیہ منی السلام فقال غفر اللّٰہ لک یا ام بسر نحن اشغل من ذالک فقالت یا ابا عبد الرحمٰن اما سمعت رسول اللہ یقول ان ارواح المؤمنین فی طیر خضر تعلق بشجر الجنۃ فقال بلیٰ قالت فھو ذاک روہ ابن ماجۃ والبیہقی فی کتاب البعث والنشور))

((وعنہ عن ابیہ ان کان یحدث ان رسول اللّٰہ ﷺ قال انما نمسۃ المؤمن طیر تعلق شجر الجنۃ حتی یرجعہ اللّٰہ تعالیٰ فی جسدہ یوم یبعژہ اللّٰہ رواہ مالک والنسائی والبیہقی فی کتاب البعث والنشور وذکرھما صاحب المشکوٰۃ))

خلاصہ یہ کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرماتے ہیں مومنوں کی روحیں جنت میں عیش و عشرت سے رہتی ہیں تا آنکہ اللہ تعالیٰ انہیں ان کے بدنوں میں واپس کریں قیامت کے دن۔

کسی بھی گمراہ آدمی کے لیے اس سے بڑھ کر اور کون سی حدیث ہدایت کر سکتی ہے۔ اگر کسی کی فطرت سلیم ہو اور وہ شیطان کے اغواء سے محفوظ ہو تو وہ فوراً جان لے گا کہ حدیث الفاظ: ((تعلق فی شجر الجنۃ حتی یرجعہ اللّٰہ فی جسدہ)) اس پر صریح دلالت کرتے ہیں کہ روحیں ہمیشہ جنت میں رہتی ہیں۔ پھر اس حدیث کی تخصیص کے لیے بھی حدیث موجود ہو جو یہ بتائے کہ مومنوں کی روحیں گھروں کو آتی ہیں مخصص حدیث حدیث بالا سے اصح ہو یا کم از کم اس کی ہم پلہ ہی ہو، چنانچہ مندرجہ بالا حدیث کی تائید میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت بھی ہے:

((قال قال رسول اللّٰہ ﷺ اذا حضر المؤمن الموت اتت ملٰئِکَِ الرحمۃ بحریر بیضاء فیقولون اخرجی راضیۃ مرضیا عنک الی روح اللّٰہ وریحان ورب غیر غضبان فتخرج کا طیب ریح المسک حتی انہ لینا ولی بعضھم بعض حتی یاتون بہ اوبواب السماء فیقولون ما اطیب ھذہ الریح اللتی جَائتکم من الارض فیأتون بہ ارواح المؤمنی فھد اشد فرحاً بہ من احدکم بِغائِبِہٖ یقدم علیہ فیسألونہ ما ذا فعل فلان ما ذا فعل فلان فیقولون دعوہ فانہ کان فی غم الدنیا فیقول قدمات اما اتاکم فیقولون قد ذھب بہ الی امہ الھاویۃ وان الکافر اذا احتضر اتتہ ملٰئِکَۃ العذاب بمسح فیقولون اخرجی ساخطۃ مسخوطاً علیک الی عذاب اللّٰہ عزوجل فتخرج کانتن ریح جیفۃ حتی یأتون بہ الی باب الارض فیقولون مَا انْتَنَ ھذہ الریح حتی یأتون بہ الی ارواح الکفار رواہ احمد والنسائی کذا فی المشکوٰۃ))

سوال یہ ہے کہ اگر مومنوں کی روحیں گھروں کو آتی ہیں۔ تو پھر وہ مرنے والے کے روح سے کیوں کہتی ہیں ((مَا ذا فعل فلان مَ ذا فعل فلان)) انہیں اپنے اہل خانہ کے حالات کا علم کیوں نہیں ہوتا۔ جب کہ ہو خود بھی ہر آٹھ روز کے بعد گھروںکو واپس آتی ہیں۔ اور ((فیقولون دعوۃ فانہ کانہ فی غم الدنیا)) کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ نابکار ملحدین کے گھروں میں بھی نہیں آتیں۔ خواہ ان کے اعزاء واقارب ہی ہوں اور مشکوٰۃ کے باب المعراج میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے متفق علیہ روایت موجود ہے جس کے الفاظ اس طرح ہیں۔

((ثم اخذ بیدی فعجر بی الی السماء فلما جئت الی السماء الدنیا قال جبریل لخازن السماء افتح قال من ھذا قال ھذا جبریل قال ھل معک قال نعم معی محمد ﷺ قال ارسل الیہ قال نمم فلمان علون السماء الدنیا اذا رجل قاعد عن یمینہ اسودۃ وعن یسارہ اسودۃ اذا نظر قبل یمینہ ضحک واذا نظر قبل شمالہ بکی فقال مرحباً بالنبی الصالح والابن الصالح قلت لجبریل من ھذا قال ھذا اٰدم وھذا الاسودۃ عن یمینہ وعن شمالہ نسم بنیہ فاھل الیمین منھم اہل الجنۃ والاسودۃ اللتی عن شمالہ اھل النار فاذا انظر قبل یمینہ ضحک واذ انظر قبل سمالہ بکی)) (الحدیث)

معلوم ہونا چاہیے کہ مومنوں کی روحیں دو امروں سے خالی نہیں ہیں۔ یا تو ان پر نعمت کے آثار مرتب ہیں۔ یا عذاب کے آچار اگر آثار نعمت میں ہیں تو انہیں اہل دنیا سے مانگنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ جیسا کہ عبد الرحمان کی حدیث گذشتہ میں ہے کہ قیامت تک جنت میں رہیں گے۔ اگر اس کا عکس ہے۔ تو ان پر عذاب کے آثار مرتب ہوں گے۔ جیسا کہ سمرہ بن جندب کی روایت (جو بخاری میں ہے) سے معلوم ہوتا ہے ۔ جو کہ مشکوٰۃ المصابیح کے کتاب الرؤیا میں بھی مذکور ہے۔ کہ دو آدمی آئے اور مجھے اوپر لے گئے۔ میں نے وہاں لوگوں کو گوناگوں عذاب میں مبتلاد یکھا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ تو مجھے ان کے بارے میں بتایا گیا۔ چنانچہ اس طویل حدیث کے آخر میں یہ الفاظ ہیںـ: ((فیضع بہ ما تری الی یوم القیامۃ)) ’’یعنی انہیں قیامت تک اسی طرح عذاب ہوتا رہے گا۔‘‘ اب سوال یہ ہے کہ جب کفار کی روحیں عذاب میں مبتلا ہیں تو گھر کیسے آ سکتی ہیں۔ لیکن اس قسم کے مسائل صرف وہی شخص سمجھ سکتا ہے۔ جس کا دل نور ایمان سے روشن ہو، اور اس نے سنت رسول کا ذوق بھی چکھا ہو ان اہل بدعت کو کیسے معلوم ہو سکتا ہے ۔ جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ سے کوسوں دور ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

{فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَیَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ الْحِقُّ مِنْ رَّبِّہِمْ وَ اَمَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَیَقُوْلُوْنَ مَاذَآ اَرَادَ اللّٰہُ بِہٰذَا مَثَلًا یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا وَّ یَہْدیْ بِہٖ کَثِیْرًا الخ … الایۃ}

پس جو شخص منصف مزاج اور سنت کا پیروکار ہے۔ وہ جانتا ہے کہ یہ حق ہے ۔ اور جو شخص متعصب اور ہواو ہوس کا پوجاری ہو۔ وہ شوروغوغا کرتا ہے ۔ اور فاسقین کے گروہ میں شامل ہو جاتا ہے۔

ویسے یہ مسئلہ ضروریات دین میں سے بھی نہیں ہے۔ اگر کسی صحیح مرفوع حدیث سے ثابت کر دیں۔ تو سر آنکھوں پر ہمیں اس سے کوئی اختلاف کرتے ہوئے کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ اگر ہوائے نفسانی کی وجہ سے وہابی ہونے کا طعنہ دیں تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ پھر وہ اس آیت شریفہ کا مصداق ہیں:

{وَاِذَا قِیْلَ لَہُ اتَّقِ اللّٰہَ اَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بِالْاِثْمِ فَحَسْبُہٗ جَہَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِہَاد}

((لا حول وال قوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم وصلی اللّٰہ علی خیر خلقہ محمد وعلیٰ اٰلِہٖ واصحابہ اجمعین))(قد تَمَّتْ)

((فتاویٰ صاعقۃ الرحمٰن علٰی حزب الشیطان ص قلمی از مولانا محمد بن محمد حسن القاضی الخانفوری المولود س ۱۲۷۰ھ ۴ شعبان والمتوفی ۶ جمادی الاخریٰ ۱۳۴۸ھ تلمیذ میاں صاحب سید نذیر حسین محدث دہلوی قدس اللّٰہ سرہ العزیز))

۱۔                 تصدیقات سید نذیر حسین محدث دہلوی        م       ۱۰ رجب ۱۳۲۰ ھ مطابق ۱۳ اکتوبر ۱۹۰۲ء

۲۔                سید شریف حسین محدث دہلی                  م        ۱۳۰۴ھ           مطابق   ۱۸۸۸ئ

۳۔                ڈپٹی احمد حسن محدث دہلوی                   م   ۱۳۳۸ھ مطابق        ۱۹۲۰

۴۔                سید عبد الواحد الغزنوی                         م

۵۔                محمد بن عبد اللہ الغزنوی                        م        ۱۲۹۶ھ

 ((رحمھم اللہ تعالیٰ رحمۃ واسعۃ وغیرھم))                         (فارسی سے اردو ترجمہ)

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 428-436

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ