علیین اور سجیین کہاں ہیں، روح کا تعلق قبر سے کیسا ہے کیا روح اور جسد دونوں کو راحت یا عذاب ہے یا کہ صرف روح کو؟
علیین اور سجین دو کتابیں ہیں۔ ایک میں نیکوں کے اعمال ہیں اور ایک میں بدوں کے اعمال۔ قرآن مجید میں ہے کتاب مرقوم: (الاعتصام جلد نمبر ۲۰ ش ۳۷)
… علیین اور سجین دو کتابیں ہیں۔ ایک سجین اور ایک علیین۔ سجین سجن سے ہے او ر سجن قید خانہ اور تنگ جگہ کو کہتے ہیں۔ حضرت براء بن عازب کی طویل حدیث میں ہے کہ کافر کی روح کے بارہ میں جناب باری تعالیٰ کا ارشاد ہوتا ہے کہ اس کا نام کتاب سجین میں لکھ دو اور سجین ساتوں زمین کے نیچے ہے کہا گیا ہے یہ یہ ساتویں زمین کے نیچے سبز رنگ کی ایک چٹان ہے اور کہا گیا کہ جہنم میں ایک گڑھا ہے۔ ابن جریر کی ایک غریب منکر اور غیر صحیح حدیث میں ہے کہ فلق جہنم کا ایک منہ بند کردہ کنواں ہے اور سجین کھلے منہ والا گڑھا ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ ا س کے معنی ہیں تنگ جگہ جیل خانہ کے۔ نیچے کی مخلوق میں تنگی ہے اور اوپر کی مخلوق میں کشادگی۔
آسمانوں میں ہر اوپر والا آسمان نیچے والے آسمان سے کشادہ ہے اور زمینوں میں ہر نیچے کی زمین اوپر کی زمین سے تنگ ہے یہاں تک کہ بالکل نیچے کی تہہ بہت تنگ ہے اور سب سے تنگ جگہ ساتویں زمین کا وسط مرکز ہے۔ چونکہ کافروں کے لوٹنے کی جگہ جہنم ہے اور وہ سب سے زیادہ نیچے ہے اور جگہ ہے۔
{ثم رَدَدْنَاہُ اَسْفَلَ سَافِلِیْنَ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ}
’’یعنی ہم نے اسے پھر نیچوں کا نیچ کر دیا، ہاں جو ایمان لائے اور نیک اعمال والے ہیں۔‘‘
غرض سجین ایک تنگ اور تہہ کی جگہ ہے جیسے قرآن کریم نے اور جگہ فرمایا ہے:
{اِذَا اُلْقُوْ مِنْھَا مَکَانًا ضَیِّقًا مُقَرَّنِیْنَ دَعَوْا ھُنَالِکَ ثَبُوْرًا}
’’جب وہ جہنم کی کسی تنگ جگہ میں ہاتھ پائوں جکڑ کر ڈال دئیے جائیں گے، وہاں موت ہی موت پکاریں گے۔‘‘
((کِتَابٌ مَرْقُوْمٌ)) یہ سجین کی تفسیر نہیں ہے بلکہ یہ تفسیر ہے اس کی جو ان کے لیے لکھا جا چکا ہے کہ آخرش جہنم میں پہنچیں گے ان کا نتیجہ لکھا جا چکا ہے اور اس سے فراغت حاصل کر لی گئی ہے نہ اُس میں اب کچھ زیادتی ہو نہ کمی تو فرمایا ان کا انجام سجین میں ہونا ہماری کتاب میں پہلے ہی لکھا جا چکا ہے۔ نیکوں کا ٹھکانہ علیین ہے جو کہ سجین کے بالکل برعکس ہے حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے سجین کا سوال کیا تو فرمایا کہ وہ ساتویں زمین ہے اور اس میں کافروں کی روحیں ہیں اور علیین کے سوال کے جواب میں فرماای یہ ساتویں آسمان پر ہے اور اس میں مومنوں کی روحیں ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مراس اس سے جنت ہے۔ عوفی آپ سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے اعمال اللہ کے نزدیک آسمان ہیں، قتادہ فرماتے ہیں یہ عرش کا داہنا پایہ ہے۔ اور لوگ کہتے ہیں یہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس ہے ظاہر یہ ہے کہ لفظ عُلو یعنی بلندی سے ماخوذ ہے، جس قدر کوئی چیز اونچی اور بلند ہو گی اسی قدر بڑی اور کشادہ ہو گی۔ اسی لیے اُس کی عظمت و بزرگی کے اظہار کے لیے فرمایا تمہیں اُس کی حقیقت معلوم ہی نہیں پھر اس کی تاکید کی کہ یہ یقینی ہے کتاب میں لکھی جا چکی ہے کہ یہ لوگ علیین میں جائیں گے جس کے پا س ہر آسمان کے مقرب فرشتے جاتے ہیں (تفسیر ابن کثیر مترجم دہلی جلد ۵ ص ۴۳۹، ۴۴۰) باقی رہا روح اور جسم کا تعلق کہ راحت یا عذاب ددنوں کو ہے یا صرف روح کو۔ جب احکام الٰہی کے دونوں مکلف ہیں۔ دونوں مل کر احکام الٰہی کی ادائیگی کرتے، خلاف ورزی کی صورت میں دونوں نفسانی خواہشات کی لذت حاصل کرتے ہیں تو راحت یا عذاب میں ایک کو مخصوص کرنا قانون قدرت اور انسانی عقل کے بھی خلاف ہے۔ لہٰذا راحت یا عذاب روح اور جسد دونوں کو ہوتا ہے۔ باقی اس کیفیت سو قرآنی تعلیم کے مطابق {وَلَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ} یہ برزخی معاملہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سونپنا چاہیے۔
ہذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب وعندہ علم الکتاب ۔ حرہ علی محمد سعیدی