کیا مردوں کی روح دنیا میں آتی ہے؟
یہ سوال اس وقت پیدا ہوتا ہے جب بعض سادہ لوح لوگ جمعرات کا جمعہ کو کھانا پکا کر اپنے محلہ کے امام مسجد کوبلاتے ہیں اور ختم وغیرہ مروجہ طریق پر دلاتے اور مرنے والوں کی ارواح کو ثواب پہنچاتے ہیں ان لوگوں کو ان کے ائمہ مساجد یہ کہتے ہیں کہ ہر جمعرات کور وح قبروں یا گھروں میں آتی اور اپنے ورثاء سے توقع کرتی ہیں کہ انہیں کچھ نہ کچھ دیا جائے۔ طبعی طور پر ہر شخص کے دل پر اثر پڑتا ہے کہ جن لوگوں نے ہمارے لیے اچھے طریق پر دنیا میں کاوش کی اب وہ بے بس ہیں ان کو کچھ دینا چاہیے۔
یہ تو ہیں عوام میں جذباتی تخیلات، بلکہ یوں کہیئے کہ موہوم خیالات۔ مگر اس بن دیکھی داستان کے لیے کسی کے بے چین دل کو مطمین کرنے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ اس کی تصدیق اللہ اور اس کے رسول کریں۔ بات درحقیقت یہ ہے کہ جو لوگ مر جاتے ہیں وہ دوبارہ اس دنیا میں نہیں آتے۔ قرآن پاک کا ارشاد ہے:
{حَرَامٌ عَلیٰ قَرْیَۃٍ اَھْلَکْنَھَا اَنَّھُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ}
’’جس بستی والوں کو ہم نے ہلکا کر دیا وہ دنیا میں واپس نہ آئیں گے۔‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کا مفہوم یوں ادا کرتے ہیں:
((قال ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ عنھما اوجب یعنی قد قد وان کل قریۃ اھلکوا انھم لا یرجعون الی الدنیا قبل یوم القیامۃ ھکذا صرح بہٖ ابن عباس وابو جعفر الباقر وقتادہ وغیر واحدا ابن کثیر مصری جلد نمبر۲ ص ۱۹۴))
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ٹھیک مقدر کر دیا گیا کہ ہر بستی والے پر جو لوگ ہلاک کر دیے گئے ہیں۔ وہ دنیا کی طرف قیامت سے پہلے واپس نہ آئیں گے۔‘‘
یہ صورت ابو جعفر، قتادہ اور دوسرے بزرگون نے کی ہے اسی تفسیر میں بحوالہ صحیح مسلم روایت ہے:
((ان ارواح الھداء فی حواصل طیور خضر تسرح فی الجنۃ حیث شاعت ثم تاویی الٰی قناویل معلقۃ تحت العرش فاطلع علیھم ربک اطلاعۃ فقال ما ذا تبغون فقالوا یا ربنا وای شئی نبضی وقد اعطیتنا ما لم لقط احداً من خلقک ثم عاد علیھم بمثل ھذا فلما رأؤ انھم لا یترکون من یسئلوا قالوا نرید ان ترد نا الی الدار الندیا فنقاتل فی سبیلک حتی نقتل فیک مرۃ اخری لَمَّا یَرَوْنَ من ثواب الشھادۃ فیقول الرب جل جلالہ انی کتبت انھم لا یرجعون)) (ابن کثیر مصری جلد نمبر ۱ ص ۱۹۷)
’’یعنی شہیدوں کی روحیں سبز رنگ جانوروں کے پیٹوں کے اندر جنت میں جہاں چاہتے ہیں پھرتی ہیں۔ پھر وہ عرش کے نیچے لٹکتی ہیں۔ قندیلوں پر آرام کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی طرف نظر کر کے فرماتا ہے۔ کہ تم کچھ اور چاہتے ہو، وہ کہتے ہیں یا اللہ ہمیں اور کیا چاہیے تو نے ہمیں وہ نعمت عطا فرمائی ہے جو کسی کو نہیں دی۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، کچھ مانگو۔ تب سوال کرتی ہیں کہ ہمیں دنیا میں واپس بھیجا جائے تاکہ تیری راہ میں لڑ کر پھر شہید ہوں اور شہادت کالطف اٹھائیں کیوں کہ ہو شہادت کا ثواب اور مزہ دیکھ چکے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ میں نے یہ لکھ دیا ہے کہ دنیا کی طرف دوبارہ جانا نہ ہو گا۔ مطلب یہ کہ تمہارا یہ مطالبہ خدائی قانون کے خلاف ہے۔ اس ہے یہ نہیں مانا جائے گا۔‘‘
اسی تفسیر میں ایک روایت بحوالہ امام احمد و شافعی و مالک رحمہم اللہ درج ہے:
((قال رسول اللّٰہ ﷺ نسمۃ المؤمنین طائر تعلق فی شجر الجنۃ حتی یرجعہ اللّٰہ الی جدہ یوم یبعثۃ))
’’مومن کی روح جنت کے درختوں میں رہتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کو اللہ اس کے جسم کی طرف قیامت کے دن لوٹائے گا۔‘‘
صاحب تفسیر فرماتے ہیں:
((فقیہ دلالۃ لعموم المؤمنین ایضاً وان کان الشھداء او قد خصص ابا الذکر فی القرأن تشریفا لھم وتکریھا وتعظیماً))
’’اس میں عام مؤمنوں کے ارواح کی شمولیت پر دلالت موجود ہے اگرچہ شہداء کا خاص ذکر ہے۔ اور یہ ان کی عزت و کرامت کے لیے ہے۔‘‘
یہ وہ مضبوط عقیدہ ہے جو قرآن و حدیث صحیح سے ثابت ہے اور عقل سلیم بھی اسے تسلیم کرتی ہے۔ اس کے خلاف مولانا احمد رضا خان بریلوی کا رسالہ چھوٹا سا ہے۔ جس کے ٹائیٹل پر لکھا ہے ارواح مومنین کن دنوں میں اپنے گھر میں آتی ہیں۔ اور اپنے عزیزوں سے کہتی ہیں اور شہداوء صالحین کی روحیں کس قدر آزاد اور کفار کی روحیں مقید ہیں، اس بارے میں حضور پرنور اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مدلل رسالہ: ’’اتیان الارواح لدیارہم بعد الرواح‘‘ اس دعویٰ کے بعد ضرورت تھی کہ اس کے خلاف عقل اور غیر مری امر پر کوئی نقلی قطعی دلیل پیش کی جاتی۔ مگر اعلیٰ حضرت موصوف رحمہ اللہ نے صحیح حدیث اور قرآنی آیت کے مقابلہ میں جو دلائل پیش کیے ہیں وہ بہت ہی بودے ہیں۔ کہیں شیخ عبد الحق کا فتویٰ کہیں کشف الخطاء کا حوالہ، کہیں امام سیوطی رحمہ اللہ کی شرح الصدر سے ضعاف روایات کا حوالہ ذکر کر کے غیظ و غضب میں لکھتے ہیں: ((لکن الوھابیۃ قوم یجھلون)) ’’وہابی جاہل قوم ہیں۔‘‘ ((ولکن النجدیۃ یجھدون الحق وھم یعلمون)) ’’لیکن نجدی جان بوجھ کر حق سے انکار کرتے ہیں۔‘‘ایتان الارواھ صفحہ نمبر ۴ پر جو دلائل آپ نے پیش کیے اس قدر غیظ و غضب کا اظہار کیا ہے، وہ ملاحظہ فرمائیے:
نمبر۱: شیخ عبد الحق فرماتے ہیں: ودر بعضے روایات آمدہ است کہ روح میت مے آید خانہ خود را شب جمعہ پس نظر کند کہ تصدیق میکند ازوے یانہ۔
نمبر۲: شیخ الاسلام کشف الخطاء فصل ہشتم میں فرماتے ہیں: در غرائب و خزانہ نقل کردہ کہ ارواح مؤمنین می آئند خانہ خود را ہر شب جمعہ و روز عید و روز عاشورہ و شب برائ۔ پس ایساتدہ می کنند بیرون خانہ ہاں خود وندامی کند ہر یکے بآواز بلدن اندد ہگیں۔ اے اہل و الاد من۔ نزدیکان من مہربانی کنید برما بصدقہ الخ در شرح الصدر احادیث شتٰی در اکثر ازیں اوقات آور دہ اگرچہ خالی از ضعف نیست ایتان الاراح ص ۳
نمبر۳: خزانۃ الروایات میں ہے:
((عن بعض العلماء المحققین ان الارواح یتخلص لیلۃۃ الجمعۃ وتنتشر فجاؤا الی مقابرھم ثم جاؤا فی بیوتھم))
’’یعنی خزانہ الروایات میں ہے کہ بعض محققین علمائے سے روایت ہے کہ روحیں شب جمعہ چھٹی پاتی اور پھیلتی ہیں۔ پہلے وہ اپنی قبروں پر آتی ہیں پھر اپنے گھروں میں آتی ہیں۔‘‘(ایتان الارواح ص ۷)
ٍ ان تمام حوالوں میں کوئی ایک بھی قابل اعتماد دلیل نہیں جو دل کو مطمئن کر سکے۔ اس لیے کہ غیر مری اور غیر محسوس چیز کو تسلیم کرانے کے لیے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا صحیح فرمان ہی تسلی بخش ہو سکتا ہے۔ یہ باتیں کہ فلاں شخص نے خواب دیکھا یا یہ کہنا کہ علمائے محققین نے فرمایا ہے بعض روایات میں آیا ہے۔ اگر وہ ضعیف ہیں مگر ان کو مان لینا چاہیے۔ کسی طرح بھی قابل تسلیم نہیں وہ سکتیں۔ اس کے خلاف قرآن اور حدیث صحیح سے روحوں کا آنا امر ثابت ہے جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے اس کے علاوہ محقق علماء کی تحقیق بھی سن لیجئے۔
نمبر۱: مولانا شاہ محمد اسحاق رحمہ اللہ کی کتاب مائۃ مسائل کے اردو ترجمہ امداد السائل ص ۱۱۹ میں ہے۔ کھانے کی چیزوں شیرینی وغیرہ پر فاتحہ دلانا ان راتوں میں یعنی جمعہ کی رات، شب عاشورہ، شب برأت، شب قدر وغیرہ احادیث و تکب معتبرہ کی روایات سے ثابت نہیں، اور احادیث صحیحہ مرفوعہ متصل الاسناد سے ارواح کا ان راتوں میں آنا ثابت نہیں۔
(فتاویٰ ثنائیہ جلد اول ص ۱۲۵)
نمبر۲: فتاویٰ نذیریہ میں ہے کوئی حدیث صحیح قابل اطمینان سماع موتیٰ میں نہیں آتی، اور جو ہیں وہ ضعاف و ومنکرات اور آیات قرآنی کے خلاف اور مسائل اربعین مولانا اسحاق صاحب محدث نے بھی سماع موتیٰ سے انکا کیا (فتاویٰ ثنائیہ جلد اول صفحہ ۵۴۱ بحوالہ فتاویٰ نزیریہ جلد اول صٖحہ ۳۹۹ اس عقیدہ کو ثابت کرنے والے ایک حدیث بیان کرتے ہیں کہ تفسیر ابن کثر میں ابن ابی دنیا کی کتاب القبور سے ایک روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کی گئی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں :
((ما من رجل یزور قبر اخیہ ویجلس عدنہ الا استأنس بہ ورد علیہ حتّی یقوم))
روایت ہذا کے معانی میں جو نکارت ہے وہ ظاہر ہے اس کے علاوہ اس کی سند ذکر نہیں کی گئی جس پر بحث ہو سکے۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ صاحب کتاب نے بھی اس کو بے سند ہی روایت کیا ہے۔ کیوں کہ مولانا احمد رضا خان نے یہ تسلیم کیا ہے کہ ایسے مسائل میں بے سند روایت بھی کام دے دیتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے امام سیوطی رحمہ اللہ کا ایک حرالہ نقل کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
((امام جلال الملت والدین سیوطی مناھل الصفا))میں فرماتے ہیں:
((لم اجدہ فی شئی من کتب الاثر لکن صاحب اقتباس الانوار وابن الحاج فی مدخلہ ذکراہ فی ضمن حدیث طویل وکفی بذلک سنداً لمثلہ فانہ لبس مما یتعلق بالاحکام (ایتان الارواح))
’’یعنی میں نے یہ حدیث کسی کتاب حدیث میں نہ پائی مگر صاحب اقتباس الانوار اور ابن الحاج نے اپنی کتاب مدخل میں اسے ایک حدیث طویل میں بے سند ذکر کیا ہے۔ ایسی حدیث کے لیے اتنی ہی سند کافی ہے کہ وہ کچھ احکام کے متعلق نہیں۔‘‘
ا س کا مطلب بالکل صاف اور واضح ہے کہ اس عقیدہ کے قائل یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس موضوع پرحدیث بے سند بھی دلیل ہو سکتی ہے۔ حالاں کہ ایسی بن دیکھی اور عقل میں نہ آنے والی چیز کے متعلق اطمینان کی صورت یہی ہو سکتی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے تسلی بخش طریق پر کوئی بات پہنچ جائے اور یہاں صحیح حدیث اور قرآنی آیات کے مقابلہ بے سند روایت بلکہ خوابوں پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ایک دلیل یہ ہے کہ ایک بزرگ اپنے باپ کی قبر پر روتا روتا سو گیا اور اس نے خواب میں دیکھا کہ قبر پھٹ گئی، اور باپ نظر آیا اس نے کہا: بیٹا میں تجھے ہر روز پہنچتا ہوں۔ اور ایسی ہی دیگر حکایات ذکر کر کے صاحب تفسیر (ابن کثیر۱۲) لکھتے ہیں: ((وھذا باب فیہ آثار کثیرۃ عن الصحابۃ)) اس وہمی طریق استدلال کو قرآن کریم کی نص صریح اور حدیث صحیح کے معارضہ میں پیش کیا جا رہا ہے۔ عجیب استدلال:
((وقد عَلَّمَ النبی ﷺ اذا رأو القبور ان یقولوا السلام علیکم اھل الدیار الخ فھو السلام والخطاب والنداء یوجب یسمع ویخاطب یعقل ویرد وان لم یعلم المسلم الرد))
’’یعنی نبی ﷺ نے تعلیم دی کہ جب قبروں کو دیکھو تو سلام کہو تو یہ سلام اور یہ خطاب اور آواز اسی مخاطب کو دی جاتی ہے، جو سمجھے اور سنے اور جواب بھی دے سکے اگر سلام دینے والا اس کا جواب نہ سن سکے۔‘‘
اس استدلال میں کمزوری استدلال کنندگان بھی محسوس کرتے ہیں چنانچہ واپسی جواب کے غیر معلوم ہونے کو تسلیم کرتے ہیں، مگریہ باورکرتے ہیں کہ اگرچہ وہ جواب سنا نہیں جاتا مگر وہ جواب دیتے ہیں کیوں کہ بصیغہ خطاب سلام کہنا اس امر کی دلیل ہے۔ حالاں کہ عبرت کی غرض سے جمادات کو بھی بصیغہ خطاب مخاطب کیا جانا منقول ہے۔ صحیح روایات میں باسند ذکر آیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو خطاب کیا تھا :
((یَا حَجَرُ اِنِّیْ اَعْلَمُ اَنَّکَ لَا یَّضُّرُ وَلَا تَنْفَعُ))
’’اے حجر اسود! میں جانتا ہوں تو نفع و نقصان کا مالک نہیں۔‘‘
اہل قبور کو سالم کہنے اور ان کی زیارت میں حکمت خود رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرما دی:
((فانھا تزھد عن الدنیا وتذکر الاخرۃ))
قبروں کی زیارت وغیرہ سے عبرت ملتی ہے کہ کل یہی مخاطب بالمشافہ سلام کا جواب دیتا تھا اور آج خاموشی کے عالم میں ہے۔ (الاعتصام جلد ۱۵ ش نمبر۱)