سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(225) اس کا کھانا کیسا ہے؟

  • 4414
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-17
  • مشاہدات : 1161

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جو طعام بے وقت ہو جانے موت کسی آدمی کے بنام نہاد حاضری سوم و چہلم وغیرہ حسب رواج ہر قوم پکوا کر خواہ بطریق دعوت خواہ بطریق بھاجی گھر بگھر تقسیم ہوتا ہے اور قدرے غربا باقی تامم اہل برادری کو کھلایا جاتا ہے۔ اور اس میں اکثر مالدار ہوتے ہیں۔ اور یہ کھانا وارثان میت حسب رواج اپنی قوم کے اکراہاً و بلا اکراہ ہوتے ہیں۔ اور بعض اوقات بخوف طعنہ زنی قرض دام کر کے خواہ مال فروخت کر کے پکواتے ہیں۔ بلکہ بعض اوقات یتیم کے مال کا بھی خیال نہیں کرتے ایسا کرنا جائز ہے۔ یا ناجائز اور اس کا کھانا کیسا ہے۔ اور ازروئے شریعت اسلامی اور زمانہ سلف سے ثواب رسانی موتے کو کس طریق سے ثابت ہے۔ اور کیوں کر کرنا چاہیے اور ایسا کرنے والا جو اوپر طریق مروج ہے مسہرف کہلائے گا یا نہیں۔ بینواتوجروا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو طعام حاضری کا یا سوم یا چہلم میت کا ہے۔ اس میں رواج کسی قوم کا معتبر نہیں کیونکہ کوئی حدیث نبوی ﷺ یا روایت فقہی اس باب میں نہیں پائی جاتی۔بس یہ بالکل بے اصل ہے۔ اور اس کا ضروری اور لازم جاننا بدعت ہے۔ اور دعوت بھی نادرست ہے کیونکہ دعوت شادی اور خوشی میں مشروع ہے نہ غمی میں اور رسم بھاجی کی غمی اور شادی دونوں میں بدعت ہے کیونکہ ا س میں تیاری ہے۔ یعنی آپس میں فخر اور ریاء نمود کرنا ہے ایسے طعام سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے۔مشکوٰۃ شریف صفحہ ۲۲۰ میں ہے۔

((عن عکرمۃ عن ابن عباس ان النبی ﷺ نہی عن طعام المتباریین ان یوکل رواہ ابو داؤد وعن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللّٰہ ﷺ المتباریان لا یجابان ولا یوکل طعامھما قال الامام احمد یعنی المتعارضین بالضیافۃ فخر اوریائ))

خلاصہ ان دونوں حدیثوں کا یہ ہے کہ جو لوگ فخر و مباہاۃ اور نام و نمود کے واسطے کھانا کھلاویں اور دعوت کریں تو ایسے لوگوں کا کھانا نہیں چاہیے۔ اور قرض کرنا ایسے کام کے لیے جو کہ نہ سنت ہے۔ نہ مستحب ہے نہ مباح ہے ہر گز درست نہیں قرض کا ادا کرنا واجب ہو جاتا ہے۔ اور یہ کام مباح بھی نہیں اور مرتکب ایسے افعال کا بلاشبہ مسرف ہے بلکہ مبتدع ہے۔ اور مال یتیم کا ظلم سے کھانا حرام ہے۔ ((قال اللّٰہ تعالیٰ))

{اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَاراً وَسَصْلَوْنَ سَعِیْراً}

’’یعنی بے شک جو لوگ کھاتے ہیں مال یتیموں کا ظلم سے وہ کھاتے ہیں اپنے شکموں میں آگ کو اور عنقریب داخل ہوں گے دوزخ میں۔‘‘

اور ثوب رسانی میں موتے کے طریق سلف کا اور آج تک متبعین سنت کا یہ ہے کہ عبادت مالی کا ثواب مثلاً کنواں بنا کر نقد یا لباس وغیرہ مساکین کو دے کر یا طعام فقراء کو دے کرے مقرر کرنے کسی دن سوم چہلم کے یا عبادت بدنی کا مثل نفل نماز روزہ تلاوت قرآن مجید و ذکر اللہ ودرود و سلام کے ایصال کر کے میت کو پہنچائے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

(کتبہ الفقیر محمد حسین عفا اللہ عنہ) (فقیر محمد حسین) (یقال لہ ابراہیم)

جس طور پر امور مروجہ درج سوال ہیں بے شک ناجائز ہے۔ مال یتیم کا کھانا حرام ہے۔ رسومات کی پابندی بدعت ہے ہاں ایصال ثواب میت کو مال حلال سے یا کلمہ کلام سے جائز اور مستحسن ہے خواب بطور تعیین یا لا علی التعیین مگروہ تعین داخل دین قرار دینا اور امر مستحب پر اصرار بطور لزوم کرنا بے شک بدعت و گمراہی ہے مطلق کو مقید اور مقید کو مطلق کرنا شرک فی النبوت ہے۔

(کرامت اللہ)

ہو الموفق:… بوقت ہو جانے موت کے طعام پکوا کر کھانا یا گھر بگھر تقسیم کرنا جس طور پر کہ سوال میں مذکور ہے بلاشبہ حرام و ناجائز ہے۔ اور ایسے طعام کا کھانا ممنوع ہے۔ اور ایسا کرنے والا بلا شک مسرف ہے۔ متنقی الاخبار میں ہے:

((عن جریر بن عبد اللّٰہ البجلی قال کنا نعد الاجتماع الی اھل المیت وصنعۃ الطعام بعد دفنہ من النیاحۃ رواہ احمد))

 نیل الاوطار ص ۲۴۰ جلد ۳ میں ہے:

((حدیث جریر اخرجہ ایضا ابن ماجۃ واسنادہ صحیح))

ونیز اس میں ہے یعنی:

((انھم کانوا یعدون الاجتماع عند اھل المیت بعد دفنہ واکل الطعام عند ھم نوعا من النیاحۃ لما فی ذلک من التثقیل علیھم وشغلتھم مع ماھم فیہ من شغلۃ الخاطر بموت المیت وما فیہ من مخالفۃ السنۃ لانھم ما مورون بان یصنعوا الاھل المیت طعاما فخالفوا ذلک وکلفو ھم صنعۃ الطعام لغیرھم انتہیٰ))

ایسے طعام کے کھانے کھلانے کی حرمت و ممانعت کتب فقہ حنفی میں بھی مصرح ہے فتح القدیروغیرہ میں ہے:

((اتخاذا لطعام م اھل المیت بدعۃ مستقبحۃ لانہ شرع فی السرور لا فی الشرور انتہی))

اور دعا کا نفع موتے کو باتفاق علمائے سلف و خلف رحمہ اللہ پہنچتا ہے اور عبادات مالیہ کا بھی ثواب موتی کو بالاتفاق پہنچتا ہے۔ اور عبادات بدنیہ کے ثواب پہنچنے میں اختلاف ہے۔ بعض علماء کے نزدیک پہنچتا ہے۔ اور بعض کے نزدیک نہیں پہنچتا ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب کتبہ محمد عبد الرحمن المبارکپوری عفا اللہ عنہ۔

(فتاویٰ نذیریہ ضمیمہ نمبر۲) ( سید محمد نذیر حسین)

 


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 378

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ