اگر کوئی شخص آنحضرت ﷺ کو ثواب پہنچانے کی نیت سے ماہ ربیع الاول میں ٹھیک آنحضور علیہ السلام کی وفات کے روز یا اس تاریخ کے گزر جانے کے بعد مسکینوںوغیرہ کو کھانا کھلائے تو جائز ہے یا نہیں، کیا خلفائے راشدین نے کھانے یا صدقہ وغیرہ کے ذریعہ آنحضرت ﷺ کو ثواب پہنچایا ہے۔ اگر کوئی تونگر شخص اپنے ماں باپ کو ثواب پہنچانے کے لیے مسکینوں کو کھانا کھلائے یا ماہ ذی الحجہ میں آنحضور ﷺ کی طرف سے قربانی کر کے ثواب پہنچائے تو شریعت میں اس کی اجازت ہے؟
ان سوالوں کا خلاصہ یہ ہے کہ میت کے حق میں ایصال ثواب جائز ہے یا نہیں۔ اس کے متعلق ائمہ عظام اور علمائے کرام کا اختلاف ہے۔ بعض جواز کے قائل ہیں اور بعض عدم جواز کے۔ لیکن حق جواز ہے۔ جو خواہ ایصال ثواب صدقہ و خیرات ہو یا دعا اور قرأۃ قرآن سے ہو۔ یا کھانا کھلانے یا پانی پلانے سے ہو۔ مگر یہ سب کچھ بلا تخصیص تاریخ و رسم و رواج کے ہو۔
علامہ محمد بن اسماعیل سبل السلام شرح بلاغ المرام ص ۴۰۶ میں فرماتے ہیں:
((ان ھذہ الادعیۃ ونحوھا نافعۃ للمیّت بلا خلاف واما غیرھأ من قرأۃ القرأن لہ فالشافعی رحمہ اللہ یقول لا یصل ذلک الیہ وذھب احمد وجماعۃ من العلماء اِلٰی وصول ذلک الیہ وذھب جماعۃ من اھل السنۃ والحنفیۃ الی ان للانسان ان یجعل ثواب عملہ غہرہٖ صلوٰۃ کان اوصوماً اوحجا او صدقۃ او قرأۃ قرأن او ای لوع من الواع القراب وھذا ھوا لا رجع دلیلا وقد اخرج الدارقطنی ان رجلا سٔال النبی ﷺ انہ کیف یبرا بویہ بعد موتھما فاجابہ بانہ یصلی لھما مع صلوٰۃ ویبصوم لھما مع صیامہ واخرج ابو داؤد من حدیث معقل بن یسار عنہ ﷺ اقراء اعلی موتاکم سورۃ یٰٓسین وھو شامل للمیّت بل ھو الحقیقۃ فیہ واخرج انہ ﷺ کان یضحی عن نفدہ بکبش وعن امتہٖ بکطش وفیہ اشارۃ الٰی ان الافان ینفعہ عمل غیرہٖ وقد بسطنا الکلام فی حواشی شرو النھار مما یتضع منہ قرۃ ھذا المذہب انتھیٰ))
’’یعنی یہ زیارت قبر کی دعائیں اور مثل ان کے اور دعائیں میت کو نافع ہیں۔ بلا خلاف اور میت کے لیے قرآن پڑھنا سو امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا۔ اور امام احمد اور علماء کی ایک جماعت کا مذہب ہے کہ قرآن پڑھنے کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا۔ اور امام احمد اور علماء کی ایک جماعت کا مذہب ہے کہ قرآن پڑھنے کا ثواب میت کو پہنچتا ہے۔ اور علماء سنت سے ایک جماعت اور حنفیہ کا یہ مذہب ہے کہ انسان کے لیے جائز ہے کہ اپنے عمل کا ثواب غیر کو بخشے، نماز ہو یا روزہ یا صدقہ یا قرأۃ قرآن یا کوئی ذکر یا کسی قسم کی کوئی عبادت۔ اور یہ قول دلیل کی رو سے زیادہ راجح ہے اور دارقطنی نے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ ان کے مرنے کے بعد کیوں کر نیکی اور احسان کرے۔ آپ نے فرمایا کہ اپنی نماز کے ساتھ ان دونوں کے لیے نماز پڑھے اور اپنے روزہ کے ساتھ ان دونو ں کے لیے روزہ رکھے۔ اور ابو داؤد میں معقل بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اپنے مردوں پر سورۃ یٰسین پڑھو اور یہ حکم میت کو بھی شامل ہے بلکہ حقیقتاً میت کے لیے ہی ہے اور صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک بھیڑ اپنی طرف سے قر بان کرتے تھے اور ایک اپنی امت کی طرف سے۔ اور اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ آدمی کو غیر کا عمل نفع دیتا ہے اور ہم نے حواشی ضوء النہار میں اس مسئلہ پر م مبسوط کلام کیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہی مذہب قوی ہے۔‘‘
نیل الاوطار ص ۳۳۵ ج۳ میں ہے:
((والحق انہ یخصص عموم الایۃ بالصدقۃ من الولد کما فی احادیث الباب وبالحج من الولد فی خبر الخثعمیۃ ومن غیر الولد ایضاً کما فی حدیث المحرم عن اخیہ بشرمۃ ولم یستفصلہٗ ﷺ ھل اوصی شبرمۃ ام لا وبالعتق من الولد کما وقع فی البخاری فی حدیث سعد خلافا للمالکیۃ علی المشھور عندھم وبالصلوٰۃ من الولد ایضاً لما روی الدارقطنی ان رجلا قال یا رسول اللّٰہ ﷺ انہ کان فی ابوان ابرھما فی حال حیاتھما فکیف فی ببرھما بعبد مرتھما فقال صلی اللّٰہ علیہ ان من البر بعد البران تصلی لھما صلوٰتک وان تصوم لھما مع صیامک وبالصیام من الولد لھذا الحدیث ولحدیث ابن عباس عند البخاری ومسلم ان امرأۃ قالت یا رسول اللّٰہ ان امی ماتت وعلیھا صوم نذر فقال ارئیت لو کان دین علی امک فقضیۃ اکان یودی عنھا قال تنعم قال نصومی عن اتک واخرج مسلم وابو داؤ والترمذی من حدیث بریدۃ ان امرأۃ قالت انہ کان علی امی صوم شھر فاصوم عنھا قال صومی عنھا ومن غیر الولد ایضاً لحدیث من مأ وعلیہ صیام صام عنہ ولیہ (متفق علیہ) وبقراٰت یٰٓسین من الولد وغیرہ لحدیث اقرؤا علی موتاکم یٰٓسین وبالدعاء من الولد لحدیث او ولد صالح یدعو الہ ومن غیرہ لحدیث اسغفرو الاخیکم وسئلو الہ التشبیت ولقولہ تعالیٰ والذین جائو من بعدھم یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاَخْوَانِِنَا الذِّیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ ولما وثبت من الدعاء للمیّت عند الزیارت وبجمع مأ یفعلہ الولد لوالدیہ من اعمال البر لحدیث ولدا الانسان من سعیہ انتھیٰ))
’’حاصل اور خلاصہ اس عبارت کا بقدر ضرورت یہ ہے کہ حق یہ ہے کہ آیۃ ((وَاَنْ لَیْسَ الْاِنْسَانَ اِلَّا مَا سَعَی)) اپنے عموم پر نہیں ہے۔ اور اس کے عموم سے اولاد کا صدقہ خارج ہے۔ یعنی اولاد اپنے مرے ہوئے والدین کے لیے جو صدقہ کرے اس کا ثواب والدین کو پہنچتا ہے۔ جیسا کہ بخاری میں سعد کی حدیث سے ثابت ہے۔ اور اولاد جو اپنے والدین کے لیے نماز پڑھے یا روزہ رکھے سو اس کا بھی ثواب والدین کو پہنچتا ہے۔ اس واسطے کہ دارقطنی میں ہے کہ ایک شخص نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ میرے ماں باپ جب زندہ تھے تو میں ان کے ساتھ نیکی اور احسان کرتا تھا۔ اب ان کے مرنے کے بعد ان کے ساتھ کیوں کر نیکی کروں، آپ نے فرمایا: نیکی کے بعد نیکی یہ ہے کہ اپنی نماز کے ساتھ اپنے والدین کے لیے بھی نماز پرھے اور اپنے روزہ کے ساتھ اپنے والدین کے لیے بھی روزہ رکھ اور صحیحین میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ ایک عورت نے کہا یا رسول اللہ ,ﷺ میری ماں مر گئی اور اس کے ذمہ نذر کے روزے تھے۔ آپ نے فرمایا: بتا اگر تیری ماں کے ذمے قرض ہوتا اور تو اس کی طرف سے ادا کرتی تو ادا ہو جاتایا نہیں؟ اس نے کہا: ہاں ! ادا ہو جاتا۔ آپ نے فرمایا: روزہ رکھ اپنی ماں کی طرف سے ۔ اور صحیح مسلم وغیرہ میں ہے کہ ایک عورت نے کہا میری ماں کے ذمہ ایک ماہ کے روزے ہیں۔ تو کیا میں اس کی طرف سے رکھوں۔ آپ نے فرمایا: اپنی ماں کی طرف سے روزے رکھ، غیر اولاد کے روزے کا ثواب بھی میت کو پہنچتا ہے۔اس واسطے کہ متفق علیہ حدیث میں آیا ہے، کہ جو شخص مر جائے اور اس کے ذمہ روزے ہوں تو اس کی طرف اس کا ولی روزے رکھے اور سورۃ یٓس کا ثواب بھی میت کو پہنچتا ہے۔ اولاد کی طرف سے بھی اور غیر اولاد کی طرف سے بھی۔ اس وا سطے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اپنے مردوں پر سورۃ یٓس پڑھو۔ اور دعا کا نفع بھی میت کو پہنچتا ہے۔ اولاد دعا کرے یا کوئی اور۔ اور جو بھی کار خیر اولاد اپنے والدین کے لیے کرے۔ سب کا ثواب والدین کا پہنچتا ہے۔ اس واسطے کہ حدیث میں آیا ہے کہ انسان کی اولاد اس کی سعی و جدوجہد کا نتیجہ ہے۔‘‘
جب علامہ شوکانی اور محمد بن اسماعیل امیر کی تحقیق بھی سن لینا خالی از فائدہ نہیں۔ آپ شرح المنہاج میں فرماتے ہیں:
((لا یصل عندنا ثواب القرأت علی المشھور والمختار الوصول اذ سأل اللّٰہ ایصال ثواب قرأۃ وینبغی الجزم بہ لانہ دُعَاء فا ذا جاز الدعاء للمیّت بما لیس لاداعی فلان یجوز بھا ھو لہ اوفیٰ ویبقی الامر فیہ موقوفا علی استجابۃ الدعاء وھذا المعنی لا یختص بالقرأۃ بل یجری فی سائر الاعمال والظاہر ان الدعاء متفق علیہ انہ ینفع المیّت والحی القریب والبعید بومیۃ وغیرھا وعلی ذلک احادیث کثیرۃ بل کان افضل ان یدعو لاخیہ بظھر الغیب انتہٰی ذکرہ فی نیل الاوطار))
’’یعنی ہمارے نزدیک مشہور قول پر قرأۃ قرآن کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا ہے اور مختار یہ ہے کہ پہنچتا ہے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ سے قرأۃ قرآن کے ثواب پہنچنے کا سوال کرے۔ (یعنی قرآن پڑھ کر دعا کرے اور یہ سوال کرے کہ یا اللہ اس قرأت کا ثواب فلاں میت کو پہنچا دے) اور دعا قبول ہونے پر امر موقوف رہے گا (یعنی اگر اس کی دعا قبول ہوئی تو قرأت کا ثواب میت کو پہنچے گا اور اگر قبول نہ ہوئی تو نہیں پہنچے گا) اور اس طرح پر قرأت کے ثواب پہنچنے کا جزم و یقین کرنا لائق ہے۔ اس واسطے کہ یہ دعا ہے پس جبکہ میت کے لیے ایسی چیز کی دعا کرنا جائز ہے جو داعی کے اعتبار میں نہیں ہے۔ پس جبکہ میت کے لیے ایسی چیز کی دعا کرنا بدرجہ اولیٰ جائز ہو گا۔ جو داعی کے اختیا رمیں ہے۔ اور یہ بات ظاہر ہے کہ دعا کا نفع میت کا بالاتفاق پہنچتا ہے اور زندہ کو بھی پہنچتا ہے۔ نزدیک ہو یا دور ہو۔ اور اس بارے میں بہت سی احادیث آئی ہیں۔ بلکہ افضل یہ ہے کہ آدمی اپنے بھائی کے لے غائبانہ دعاکرے۔‘‘
شرح کنز میں ہے:ـ
((ان للانسان ان یجعل ثواب عملہ لغیرۃ صلوٰۃ کان او صوماً او حجاً او صدقۃً او قرأۃ قرأن او غیر ذلک من جمیع انواع البر ویصل ذلک الی المیّت وینفعہ عند اھل الاسلام))
’’یعنی اہل سنت کے نزدیک انسان کے ہر نیک عمل کا ثواب خواہ نماز و روزہ ہو یا حج و صدقہ یا قرأت قرآن میت کو پہنچتا ہے۔ اور انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے اعمال صالحہ کا ثواب مردوں کو پہنچاتا رہے۔‘‘
امام نووی شرح مقدمہ مسلم میں لکھتے ہیں۔
((واَمَّا قرأۃ القرأن فالمشھور من مذھب الشافعی رحمہ اللہ انہ لا یصلی ثوابھا الی المیت وقال بعض اصحابہ یصلی الی المیّت وثواب جمیع العبادات من الصلوٰۃ والصوم والقرأۃ وغیر ذلک))
’’یعنی مشہور یہی ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک قرآن پڑھنے کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا۔ لیکن بعض شوافع المسلک علماء کے نزدیک جملہ عبادات کا ثواب میت کو پہنچتا ہے۔‘‘
اور اذکار میں لکھتے ہیں:
((وذھب احمد بن حنبل بجماعۃ منا العلماء وجماعۃ من اصحاب الشافعی رحمہ اللہ الی انہ یعمل))
کار خیر خواہ کوئی بھی ہو ہر ایک کا ثواب میت کو پہنچتا ہے۔ میت خواہ نبی ہو یا ولی ہو، یا صحابی و امام ہو یا ماں باپ استاد ہو۔ لہٰذا تاریخ مقرر کرنا رسم و رواج کی پابندی کرنا ناجائز ہے۔ بلکہ بدعت ہے۔
آنحضور ﷺ کی وفات کی صحیح تاریخ ۱۳ ماہ ربیع الاول ۱۱ھ یوم دو شنبہ وقت چاشت ہے (رحمۃ للعالمین ص ۲۰۲) اس تاریخ کو معین کر کے کھانا کھلانے کا ثبوت نہیں ہے۔ البتہ سال بھر میں کسی دن بھی بغیر تعیین کے کھانا کھلا کر آنحضور ﷺ کو ثواب پہنچانا جائز ہے۔ خلفاء راشدین نے موجودہ طریقہ کے مطابق کسی میت کو کھانا کھلا کر ثواب نہیں پہنچایا۔ ذی الحجہ میں جانور کی قربانی کا ثواب آنحضور ﷺ کو پہنچایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ہر سال حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کی طرف سے بھیڑے کی قربانی کرتے تھے۔ (ترمذی شریف ص ۳۵۳ جلد ۱) (ترجمان دہلی جلد نمبر۶ ش ۱۶)
… مجیب علام نے سوال کے جواب میں ہر پہلو پر با دلائل وضاحت فرمائی ہے۔ لیکن ارواح انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام خصوصاً آنحضرت ﷺ کے لیے صدقہ خیرات سے ایصال ثواب میں کچھ تشنگی باقی ہے، جس پر ما سوا عمومات کے کوئی دلیل بیان نہیں فرمائی۔ حضور ﷺ کے لیے درود شریف اور سلام بھیجنے کے لیے تو نصوص قرآنی اور احادیث رسول سبحانی میں متعدد دلائل موجود ہیں۔ جو کسی سے مخفی نہیں اور آپ کے لیے قربانی کرنا بھی نص حدیث سے ثابت ہے۔ باقی عشر، زکوٰۃ، صدقہ، خیرات بذریعہ خوردونوش اور لباس وغیرہ کے ایصال ثواب پر کوئی دلیل نہیں۔ بلکہ اس کے خلاف دلائل موجود ہیں۔
نمبر۱: جب دنیاوی زندگی میں عشر، زکوٰۃ، صدقہ، خیرات (جو اوساخ الناس ہے) آپ کے لیے حلال نہیں تو عالم برزخ میں کیسے جائز اور حلال ہو سکتے ہیں۔
نمبر۲: اسی لیے خلفاء راشدین، صحابہ کرام،تابعین، تبع تابعین اور دیگر ائمہ دین رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ثابت نہیں کہ کسی نے بھی حضور ﷺ کے لیے بذریعہ خوردونوش کے ایصال ثواب کیا ہو۔ اگر جائز اور ثابت ہوتا تو حضور علیہ السلام کے ساتھ محبت میں سلف صالحین ہم سے کئی گناہ زیادہ تھے۔ معلوم ہوا کہ پیٹ پروری کے لیے یہ بھی ایک رسم اور بدعت ہے۔ جس سے ہر مسلمان کو اجتناب اور پرہیز ضروری ہے۔ واللہ اعلم (سعیدی)