سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

دعائے قنوت میں ہاتھ اٹھانا

  • 438
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 665

سوال

دعائے قنوت میں ہاتھ اٹھانا

سوال: نماز وتر میں قنوت کے وقت ہاتھہ دعا کے انداز میں اٹھانے چاہیے یا باندھ کر رکھے جائیں

جواب: شیخ صالح المنجد ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
سوال : گزارش ہے كہ آپ وتر ميں پڑھى جانے والى دعاء قنوت ذكر كر ديں ؟

الحمد للہ :
اول:
دعاء قنوت وتر كى آخرى ركعت ميں ركوع كے بعد ہوگى، اور اگر ركوع سے قبل بھى پڑھ لى جائے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن ركوع كے بعد افضل ہے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ فتاوى ميں كہتے ہيں:
اور رہى قنوت: تو لوگ اس ميں دو فريق اور ايك وسط طبقہ ہے، ان ميں سے كچھ تو كہتے ہيں كہ قنوت صرف ركوع سے قبل ہے، اور كچھ يہ كہتے ہيں كہ: ركوع كے بعد ہے.
اور اہل حديث كے فقھاء مثلا امام احمد وغيرہ دونوں كو جائز قرار ديتے ہيں، كيونكہ سنت ميں يہ دونوں وارد ہيں، اگرچہ انہوں نے ركوع كے بعد قنوت كواختيار كيا ہے؛ كيونكہ يہ اكثر اور اقيس ہے. اھـ
ديكھيں مجموع الفتاوى ابن تيميہ ( 23 / 100 ).
اور اس ميں وہ ہاتھ اٹھائے، عمر رضى اللہ تعالى عنہ سے يہ ثابت ہے، جيسا كہ بيھقى رحمہ اللہ تعالى نے روايت كى اور اسے صحيح كہا ہے.
ديكھيں: سنن بيھقى ( 2 / 210 ).
اور دعاء كے ليے سينہ كے برابر ہاتھ اٹھائے اس سے زيادہ نہيں، كيونكہ يہ دعاء ابتھال يعنى مباہلہ والى نہيں كہ انسان اس ميں ہاتھ اٹھانے ميں مبالغہ سے كام لے، بلكہ يہ تو رغبت كى دعاء ہے، اور وہ اپنے ہاتھوں كو اس طرح پھيلائے كہ اس كى ہتھيلياں آسمان كى جانب ہوں...
اور اہل علم كے كلام سے ظاہر ہوتا ہے كہ وہ اپنے ہاتھوں كو ملا كر ركھے جس طرح كہ كوئى شخص دوسرے سے كچھ دينے كا كہہ رہا ہو.
اور بہتر يہ ہے كہ وتر ميں قنوت مسقتل نہ كى جائے، بلكہ بعض اوقات كرے كيونكہ يہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں، بلكہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے حسن بن على رضى اللہ تعالى عنہما كو قنوت وتر ميں دعاء كرنے كے ليے سكھائى تھى، جيسا كہ آگے بيان ہو گا
دوم:
اور دعاء قنوت يہ ہے:
حسن بن على رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قنوت وتر ميں كہنے كے ليے كچھ كلمات سكھائے:
" اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ ، وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ ، وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ ، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ ، فإِنَّكَ تَقْضِي وَلا يُقْضَى عَلَيْكَ ، وَإِنَّهُ لا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ ، وَلا يَعِزُّ مَنْ عَادَيْتَ ، تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ ، ولا منجا منك إلا إليك "
اے مجھے ہدايت والوں ميں ہدايت نصيب فرما، اور مجھے عافيت دے، اور ميرا كارساز بن، اور تو نے جو مجھے ديا ہے اس ميں بركت عطا فرما، اور جو تو نے فيصلہ كيا ہے اس كے شر سے مجھے محفوظ ركھ، كيونكہ تو ہى فيصلہ كرنے والا ہے تيرے خلاف كوئى فيصلہ نہيں كر سكتا، اور جس كا تو ولى بن جائے اسے كوئى ذليل نہيں كرسكتا، اور جس كے ساتھ تو دشمنى كرے اسے كوئى عزت نہيں دے سكتا، اے ہمارے رب تو بابركت اور بلند ہے، اور تيرے علاوہ كہيں جائے پناہ نہيں "
اور آخرى جملہ " ولا منجا منك الا اليك " ابن مندہ نے " التوحيد" ميں روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے حسن قرار ديا ہے، ديكھيں: ارواء الغليل حديث نمبر ( 426 ) اور ( 429 ).
سنن ابو داود حديث نمبر ( 1425 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 464 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 1746 ).
پھر اس دعاء كے بعد نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھے.
ديكھيں: الشرح الممتع لابن عثيمين ( 4 / 14 - 52 ).
سوم:
وتر ميں سلام پھيرنے كے بعد اس كے ليے " سبحان الملك القدوس " تين بار كہنا مستحب ہے، اور تيسرى بار اس كى آواز بلند اور لمبى كرے.
ديكھيں: سنن نسائى حديث نمبر ( 1699 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح سنن نسائى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور دار قطنى كى روايت ميں يہ الفاظ زائد ہيں:
" رب الملائكۃ والرح "
ان دونوں روايتوں كى سند صحيح ہے.
ديكھيں: زاد العماد لابن قيم ( 1 / 337 ).
واللہ اعلم .

تبصرے