مرنے والے کے لیے دعاء مغفرت کی جائے اور اس کے لواحقین کو اس کے مرنے کے بعد اصول نبوی کے ماتحت کیا کچھ کرنا چاہیے ۔ جیسے کہ عام طور پر تیسرا دسواں اور چالیسواں وغیرہ دنیا کرتی ہے اور یہ کیوں کہ رائج کیا گیا ہیَ
(۲) یہ آخیر چہار شنبہ کی جو تعطیل منائی جاتی ہے۔ یہ دن کیوں منایا جاتا ہے اور اس روز مسلمان کو کیا کرنا چاہیے یا یہ ویسے ہی رسم و رواج ہے۔
موت کے بعد میت کے لیے دعاء اور صدقہ یقینا مفید ہیں۔ جنازہ خود میت کے لیے دعا ہے لیکن صدقہ اور دعا کے لیے کسی وقت کا تعین شرعاً ثابت نہیں۔ موت کے بعد میت کے گھر بیٹھ کر عموماً دعائوں کا تانتا باندھ دیا جاتا ہے۔ ہر آنے والا دعا کے لیے اس انداز سے درخواست کرتا ہے گویا وہ اپنی حاضری نوٹ کرا رہا ہے۔ ایک سیکنڈ میں دعا ختم ہو جاتی ہے۔ اور حقہ اور گپوں کا دور شروع ہو جاتا ہے۔ اور دعا کے وقت بھی دل حاضر نہیں ہوتا۔ حلاں کہ اس کی توجہ دعا کے لیے از بس ضروری ہے۔ ((لَا یَقْبَلُ اللّٰہُ مِنْ قَلْبِ لَاہٍ)) ’’اللہ تعالیٰ غافل دل کی دعا قبول نہیں کرتا۔‘‘
میت کے لیے دعا ہر وقت بلا تخصیص کی جا سکتی ہے اور زندوں کی طرف سے یہی بہترین صلہ ہے جو میت کو دیا جاتا ہے بشرطیکہ سنت کے مطابق ہو۔ تعزیت کا مطلب گھر والوں کی تسکین ہے۔ دعا اگر مجلس کی بجائے انفراداً کی جائے تو دعا کا مقصد پورا ہو سکتا ہے۔ غرض یہ تین دن کا جلسہ دعائیہ سنت سے ثابت نہیں۔ ان مجالس میں حقہ اور بھی دین کے مقصد کو برباد کر دیتا ہے۔ قرآن مجید کا ثواب ہدیۃً میت کو دینا اس میں اختلاف ہے۔ بعض لوگ اسے مفید کہتے ہیں۔ میری نظر میں اس کی کوئی دلیل نہں۔ اگر یہ امر مستحسن ہوتا تو آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد بیسیوں قرآن کا ثواب ہدیہ کرتے۔ لیکن سنت میں آنحضرت ﷺ سے ایک دفعہ قرآن پڑھنا بھی ثابت نہیں۔
تیسرا، دسواں اور چالیسواں یہ تمام امور بدعت سیئہ ہیں۔ آنحضرت ﷺ اور ائمہ اسلام رضی اللہ عنہ سے اس کے متعلق ایک حرف بھی ثابت نہیں، احناف میں اس کا رواج حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اسم گرامی پر ایک تہمت ہے۔
(۲) آخری چہار شنبہ کوئی اسلامی تہوار نہیں۔ یہ محض جہلا کی ایک رسم ہے۔ مسلمانوں کی کوئی تاریخی یادگار اس سے وابستہ نہیں۔ (الاعتصام گوجرانوالہ: ۲۸ دسمبر ۱۹۵۱ئ)