سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(179) قبور کے پاس دعا کرنا

  • 4369
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-09
  • مشاہدات : 7060

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قبور کے پاس دعا کرنا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(از شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ)

((الحمد لِلّٰہِ رب العالمین واشھد ان لا الٰہ الّا اللّٰہ وَحْدَہٗ لَا شریک لَہٗ واشھد ان محمداً عبدہٗ ورَسولہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم تسلیما کثیرا۔ اما بعد))

قبور کے پاس دعا

’’جو شخص میری قبر کے پاس آ کر سلام کرتا ہے میں اُس کو سنتا ہوں، اور جو کوئی مجھ پر درود بھیجتا ہے وہ مجھ کو پہنچا دیا جاتا ہے۔‘‘

اس کا اسناد کس قدر کمزور ہے، لیکن دوسرے شواہد سے اس کی تقویت ہوتی ہے۔ کیونکہ اہل سنن نے مختلف اسنادوں سے روایت کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:

’’جمعہ کی رات اور جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے دروچ بھیجو، کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔‘‘

صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! ہمارا درود آپ پر کس طرح پیش کیا جائے گا۔ جب کہ آپ کی ہڈیاں بوسیدہ ہو چکی ہوں گی؟ آپ نے فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کا گوشت کھانا حرام کر دیا ہوا ہے۔ نسائی وغیرہ میں آنحضرت ﷺ سے مروی ہے کہ:‘‘

’’اللہ تعالیٰ نے میری قبر پر کچھ فرشتے مقرر کر رکھے ہیں جو مجھ کو میری اُمت کا سلام پہنچاتے ہیں۔‘‘

دعاء کی ممانعت:

تمام علمائے امت میں سے کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں کہ آنحضرت ﷺ کی قبر کے پاس دعا مقبول ہے اور نہ ہی اس بات کو مستحب بتایا ہے کہ آپ کی قبر کی طرف متوجہ ہو کر دعا کا قصد کرے بلکہ اس کی نقیض کی تشریح ہے اور سب علماء امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قبر شریف کی طرف منہ کر کے دعا نہ کرے۔

سلام کے متعلق اختلاف:

سلام کے متعلق اختلاف ہے۔ اکثر ائمہ مثلاً امام مالک رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ وغیرہ کا قول ہے کہ قبر کی طرف منہ کر کے سلام کرے اصحاب شافعی رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتابوں میں یہی لکھا ہے۔ اور میرا خیال ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کا یہی قول ہے۔ لیکن امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور اس کے متبعین یہ کہتے ہیں کہ قبر کی طرف منہ نہ کرے بلکہ کعبہ شریف کی طرف منہ کر کے سلام کرے۔

روضہ کے پاس کھڑے ہونے کی ممانعت:

ائمہ سلف نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ آنحضرت ﷺ کی قبر شریف کے پاس دعاء کے لیے کھڑا نہ ہو۔ چنانچہ اسمٰعیل بن اسحق نے مبسوط میں ایسا ہی لکھا ہے۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی قبر شریف کے پاس کھڑا ہو کر دعا کرنا میرے نزدیک مستحسن نہیں، بلکہ بہتر یہ ہے کہ سلام کر کے چلا جائے، مبسوط میں یہ بھی لکھا ہے کہ جو شخص سفر سے لوٹ آئے یا سفر پر جانا چاہے تو کچھ حرج نہیں، اگر وہ آنحضرت ﷺ کی قبر شریف کے پاس کھڑا ہو کر آپ پر درود بھیجے اور آپ کے حق میں اور شیخین (ابو بکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ) کے حق میں دعا کرے۔

صدر اول کا دستور العمل:

امام صاحب (امام مالک رحمہ اللہ) سے کہا گیا کہ اہل مدینہ ہر ہفتے میں بلکہ بعض اوقات ایک ہی دن میں ایک دو دفعہ قبر شریف کے پاس کھڑے ہو کر سلام کرتے اور دعا مانگتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ ہمارے شہر کے اہل فقہ اس بات کے قائل نہیں۔ مجھ کو ان کا کوئی قول نہیں پہنچا۔ اور اس امت کے پچھلے لوگوں کو بھی انہی باتوں سے اصلاح ہو گی۔ جن سے اس امت کے پہلے لوگوں کی اصلاح ہوئی ہے۔ اور مجھ کو اس امت کے سلف صالح اور صدر اول سے صرف اتنی بات پہنچی ہے کہ جب کوئی شخص سفر سے واپس آتا یا سفر پر جانے لگتا تھا۔ تب وہ ایسا کرتا۔

اہل مدینہ کا طرز عمل:

ابن القاسم کہتے ہی، میں نے اہل مدینہ کو دیکھا کہ جب وہ مدینہ سے نکلتے یا اس میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کی قبر مبارک کے پاس حاضر ہو کر سلام کرتے ہیں اور میرا اپنا بھی یہی عمل ہے۔

امام مالک رحمہ اللہ اپنے زمانہ میں مدینہ منورہ کے سب سے بڑے عالم تھے۔ اور مدینہ کے لوگ صحابہ اور تابعین کے عہد میں تمام دوسرے لوگوں سے مشروع اور غیر مشروع کے زیادہ واقف تھے۔ ان کو اس بات کا علم تھا کہ آنحضرت ﷺ کی قبر شریف کے کیا آداب ہیں؟ لیکن تم نے دیکھ لیا کہ امام صاحب اور علماء مدینہ آپ پر سلام کر لینے کے بعد قبر شریف کے پاس دعا کے لیے ٹھہرنا پسند نہیں کرتے تھے۔

صلوٰۃ و سلام کا مشروع طریقہ:

امام صاحب نے یہ بھی بیان فرمایا کہ مستحب یہی ہے کہ آپ کے لیے اور آپ کے صاحبین (ابو بکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ) کے لیے دعا کرے اور یہی صلوٰۃ و سلام کا مشروع طریقہ ہے۔ نیز یہ کہ ایسا کرنا بھی اہل مدینہ کے لیے ہر وقت مستحب نہیں، بلکہ اس کا استحباب اُس حالت میں ہے۔ جبکہ سفر سے آئے یا سفر پر جائے۔ کیونکہ ایسا کرنا آنحضرت ﷺ کے لیے تحیۃ ہے۔ (تحیہ کے معنی سلام و آداب بجا لانا) لیکن تم جانتے ہو کہ کسی کا تحیہ اور آداب بجا لانے کے لیے ہر وقت آدمی اُس کے گھر میں حاضر نہیں ہوتا۔ البتہ سفر سے آئے یا سفر پر جائے تو ایسا کرنا اچھا معلوم ہوتا ہے۔

ابو وہب نے امام مالک رحمہ اللہ سے روایت کی ہے کہ جب آدمی آنحضرت ﷺ پر سلام کرنا چاہے تو آپ کی قبر کی طرف منہ کر کے، اور اس کے نزدیک ہو جائے، لیکن قبر شریف کو ہاتھ نہ لگائے۔

لفظ زیارت کی کراہیت اور اُس کی فلاسفی:

امام مالک رحمہ اللہ اس بات کوبھی مکروہ سمجھتے ہیں کہ کوئی یہ کہے: ’’ہم آنحضرت ﷺ کی قبر شریف کی زیارت کی۔‘‘

قاضی عیاض رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ امام صاحب اس کو اس واسطے مکروہ سمجھتے ہیں کہ اس میں زیارت کی نسبت قبر کی طرف کی گئی ہے۔ اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ:

((اللھم لا تجعل قبری وثنا یعبد، اشتد غضب اللّٰہ علٰی قوم اتخذط قبور انبیائھم مساجد))

’’اے اللہ! میری قبر کو بت نہ بنا دے جس کی پوجا کی جائے۔ اللہ تعالیٰ اُس قوم پر غصے ہوا جس نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ ٹھہرا لیا۔‘‘

امام صاحب رحمہ اللہ نے زیارت کوق بر کی طرف منسوب کرنے سے اس لیے منع فرمایا کہ ذرئع شرک کا سدباب ہو۔

زیارت قبو ر کا طریقہ:

میں کہتا ہوں (علامہ ابن تیمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں) کہ جو حدیثیں آنحضرت ﷺ کی قبر کی زیارت کے بارے میں مروی ہیں، بایں ہمہ کثرت سب کی سب ضعیف یا موضوع ہیں۔ ائمہ حدیث اور اہل سنن ابو داؤد اور نسائی وغیرہ نے اس باب میں کوئی حدیث روایت نہیں کی۔ البتہ دوسرے موقعہ پر عام قبور کے لیے زیارت کا لفظ استعمال ہوا ہے، فرمایا:

((کنت نھیتکم عن زیارۃ القبور، الا فزوروھا فانھا تذکرکم الاٰخرۃ))

’’میں نے تم کو زیارت قبور سے منع کیا تھا، لیکن اب میں کہتا ہوں کہ بے شک ان کی زیارت کرو، کیونکہ وہ تم کو آخرت یاد دلائیں گی۔‘‘

آنحضرت ﷺ نے اپنے صحابہ کو تعلیم دیا کرتے تھے کہ جب تم قبروں کی زیارت کرو تو اس طرح کہا کرو:

((السلام علیکم اھل الدیار من المومنین والمسلمین وانا شاء اللّٰہ بکم لا حقون، یرحم اللّٰہ المستقدمین منا ومنکم والمستأخرین، نسأل اللّٰہ لنا ولکم العافیۃ))

لیکن چونکہ بعد کے زمانوں میں ’’زیارت‘‘ کا لفظ شرعی اور غیر شرعی دونوں طرح کی زیارت پر اطلاق ہونے لگا، اور اکثر لوگ اس کو غیر شرعی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے بعض ائمہ نے اس کا اطلاق منع کیا ہے۔

زیارت شرعی و بدعی:

زیارت شرعی میت پر نماز جنازہ پرھنے کے مشابہ ہے اور دونوں کا ماحصل اس کے لیے دعا کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے منافقوں کے حق میں آنحضرت ﷺ کو اس طرح مخاطب فرمایا ہے۔

((وَلَا تُصَلِّ عَلٰی اَحَدٍ مِّنْھُمْ مَاتَ اَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ)) (۹:۸۴)

’’اے محمد ﷺ! ان منافقوں میں سے کوئی مر جائے تو تم اس کی نماز جنازہ ہر گز نہ پڑھو اور نہ ہی اُس کی قبر پر (دعا کے لیے ) کھڑے ہو۔‘‘

اس آیت میں چونکہ منافقوں کے حق میں اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ اُن کی نماز جنازہ پڑھی جائے، یا ان کی قبر پر کھڑے ہوں (اور اُن کے لیے دعا کریں) اس لیے اس کا مفہوم مخالف علۃ الحکم سے استدلال کر کے یہ ہو گا کہ مومنوں کے حق میں ایسا کرنا مشروع ہے، اور نیز یہ کہ میت کی قبر پر بعد الدفن کھڑا ہونا قبل الدفن نماز جنازہ کے مشابہ اور اسی قسم سے ہے، اور اُس کی قبر پر کھڑے ہونے کا مقصد بھی اس کے لیے دعا کرنا ہے، یہی اسلام کی سنت مستمرہ ہے اور اسی بات کو علماء سلف انبیاء اور صالحین کی قبروں کے پاس مستحب سمجھتے ہیں، لیکن بدعی اور غیر شرعی زیارت شرک ہے، یا کم از کم شرک کا ذریعہ ہے، اور وہ اُس زیارت کے مشا بہ ہے جو یہود ونصاریٰ اپنے انبیاء ا ور صالحین کی قبروں کی کیا کرتے ہیں۔

درسِ بصیرت:

صحاح اور مسانید میں آنحضرت ﷺ سے مشہور سندوں کے ساتھ مروی ہے۔

((لعنۃ اللّٰہ علی الیہود والنصاریٰ اتخذوا قبور انبیائھم مساجد یحذّر مَا صنعوا))

’’یہود اور نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو، جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبور کو سجدہ گاہ ٹھہرایا۔ اُن کے اس فعل سے میں تم کو ڈراتا ہوں۔‘‘

آنحضرت ﷺ کا مقصد اس بارت کے کہنے سے یہ تھا کہ وہ اپنی امت کو اُن کے افعال سے ڈرائیں۔

آپﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے:

’’تم سے پہلی قومیں اپنے انبیاء کی قبور کو سجدہ گاہ ٹھہرالیتی تھیں، لیکن تم ایسا مت کرو، میں تم کو اس سے منع کرتا ہوں۔‘‘

ایک دوسری حدیث میں ہے۔

’’سب سے برے لوگ وہ ہیں، جو قبروں کو مسجد بنا لیتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اُن عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو قبروںکی زیارت کرتی ہیں، نیز ان پر بھی لعنت ہے جو قبروں پر مسجدیں بناتے اور اُن پر چراغ جلاتے ہیں۔‘‘

نتیجہ بحث:

اب جبکہ آنحضرت ﷺ نے انبیاء اور صالحین کی قبروں کو مسجد بنا لینے اور سجدہ گاہ ٹھہرانے سے منع فرمایا ہے تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے پاس دعا کرنا مستحب نہیں ہو گا، کیونکہ جس جگہ پر دعا مستحب ہے، وہاں نماز پڑھنا بھی مسحتب ہے۔ نماز پڑھ کر دعا کرنا زیادت تر مستجاب ہوتی ہے، اور شریعت میں کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں دعا کرنا مستحب ہو اور نماز پڑھنا مسحتب نہ ہو۔

قبروں کے پاس نماز نہ پڑھنے کی فلاسفی:

امام شافعی رحمہ اللہ اور دوسرے ائمہ نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ قبروں کے پاس نماز پڑھنا اس لیے ممنوع قرار دیا گیا ہے کہ اس سے شرک میں مبتلا ہونے کا خوف ہے۔ اس کی علت صرف مکان کی نجاست نہیں جیسے کہ بعض لوگوں کا ٰخیال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علماء سلف حکم دیا کرتے تھے کہ خوف فتنہ (شرک میں مبتلا ہونے کا خوف) کی حالت میں قبروں کو ہموار کر دیا جائے، اور مٹا دیا جائے۔

ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ:

چنانچہ جب تستر کے مقام پر دانیال علیہ السلام کی قبر ظاہر ہوئی تو سپہ سالار جیش ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے خلیفہ وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس کی بابت اطلاع دی اور لکھا کہ لوگ اس کے وسیلہ سے بارش مانگتے ہیں۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں لکھا کہ دن کے وقت تیرہ قبریں کھودی جائیں، اور رات کے وقت اس کو کسی ایک میں دفن کرکے اس کا نشان مٹا دیا جائے، تاکہ لوگ شرک کے فتنہ میں مبتلا نہ ہوں۔

امام مالک رحمہ اللہ اور سلف صالحین:

امام مالک رحمہ اللہ وغیرہ کا جو قول ہم نے نقل کیا ہے، یہی قول سلف کے نزدیک مشہور اور مقبول تھا جیسے کہ ابو یعلیٰ موصلی نے اپنے مسند میں اور ابو عبد اللہ المقدسی نے مختار میں امام زین العابدین سے روایت کی ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ آنحضرت ﷺ کی قبر شریف کے روزن کے پاس حاضر ہو کر اس میں اپنا منہ داخل کرتا اور دعا مانگتا تھا۔ امام صاحب نے اس کو اس سے منع کیا۔ اور فرمایا میں تم کو ایک حدیث سناتا ہوں جس کو میں نے اپنے باپ دادا سے سُنا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا میری قبر کو عید مت بنائو، اور اپنے گھروں کو قبریں مت ٹھہرائو، کیوں کہ تمہارا سلام مجھ کو پہنچ جاتا ہے جہاں بھی تم رہو۔

ارشاد جناب رسالت مآب ﷺ:

یہی حدیث ابو داؤد میں بروایت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ موجود ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں۔

’’اپنے گھروں کو قبریں مت ٹھہرائو اور میری قبر کو عید نہ بنائو، مجھ پر درود بھیجو، کیونکہ جہاں بھی تم رہو تمہارا درود مجھ کو پہنچ جاتا ہے۔‘‘

سنن سعید بن منصور میں روایت ہے، سہیل بن ابی سہیل کہتے ہیں کہ مجھ کو امام حسن بن حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے جبکہ وہ بیت فاطمہ رضی اللہ عنہا میں شام کا کھانا تناول فرما رہے تھے، قبر کے پاس دیکھا، اور وہیں سے مجھ کو آواز دی کہ آئو کھانا کھا لو۔ میں نے عرض کیا میں کھانا نہیں کھانا چاہتا۔ اس کے بعد آپ نے پوچھا کہ تم قبر کے پاس کیوں گئے تھے؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے آنحضرت ﷺ پر سلام کیا۔ آپ نے فرمایا: جب تم مسجد میں داخل ہوا کرو تو سلام کرو۔ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں۔

’’میری قبر کو عید نہ بنائو اور اپنے گھروں کو قبریں نہ ٹھہرائو، اللہ تعالیٰ نے یہود اور نصاریٰ پر اس لیے لعنت کی کہ انہوں نے اپنے انبیاء علیہم السلام کی قبروں کی سجدہ گاہ ٹھہرایا۔ تم مجھ پر درود بھیجو کیوں کہ تمہارا درود مجھ کو پہنچ جاتا ہے جہاں بھی تم رہو۔ تم اور اہل اندلس اس میں برابر ہیں۔‘‘

روضۂ اطہر اور دوسری قبریں:

اب تم خود سچ لو کہ جب سید الاولین والآخرین خیر الخلق اجمعین آنحضرت ﷺ کی قبر شریف کے حق میں صرف اتنا ہی مشروع ہے جس کی ابھی تصریح کی گئی تو دوسری قبر کی کیا ہستی ہے؟

توسل کا طریقہ

صحابہ کا دستور العمل:

صحابہ رضوان اللہ علہیم اجمعین سے تواتر کے ساتھ منقول ہے جب ان پر کوئی سخت آتی تھی، مثلاً قحط سالی وغیرہ، نیز قتال وجدال کے معرکوں میں جبکہ ان کے دشمن پر فتح حاصل کرنے میں وقت پیش آتی تھی۔ تو وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے اور گھروں او مسجدوں میں اس کی بارگاہ کبریا میں دست نیاز پھیلاتے۔ لیکن کسی واقعہ میں منقول نہیں کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کی قبر شریف یا دوسے انبیاء اور صالحین کی قبروں کی طرف رجوع کیا ہو، اور وہاں جا کر دعا مانگی ہو۔

بلکہ صحیح بخاری میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ دعا منقول ہے:

’’بار خدایا! جب ہم پر قحط سالی آتی تھی، تو ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی کریم ﷺ کے واسطہ سے توسل کیا کرتے تھے، اور تو ہماری دعا قبول فرما کر ہمیں پانی دیا کرتا تھا۔ اور بے شک اب ہم آنحضرت ﷺ کے چچا عباس رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے توسل کرتے ہیں۔ بار خدایا! ہمیں پانی دے۔‘‘

روایت مذکور میں ہے کہ پھر ان کو اللہ تعالیٰ پانی دیتا تھا۔

رسول اللہ ﷺ سے توسل:

اس روایت کا ملخص یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی حیات مبارکہ میں صحابہ آپ سے توسل کیا کرتے تھے۔ تو آپ کے انتقال کے بعد انہوں نے آپ کے چچا عباس رضی اللہ عنہ سے توسل کیا۔ جس کے بالفاظ دیگر یہ معنی ہوئے کہ آنحضرت ﷺ کے عہد شریف میں آپ سے دعا کرایا کرتے تھے (جس کو توسل سے تعبیر کیا گیا ہے) اور آپ کی وفات کے بعد آپ کے چچا سے دعا کرائی اور اس کو شفیع بنایا۔ (توسل کے یہ معنی ہر گز نہیں کہ صرف کسی کا نام لے کر دعا کی جائے)۔

مخلوقات کے نام کا واسطہ:

الغرض صحابہ کرام نے قبر شریف کے پاس حاضر ہو کر دعا نہیں کی، اور نہ اللہ تعالیٰ کو اُس کی مخلوقات میں سے کسی کے نام کا واسطہ دیا ہے۔ بلکہ شرعی طریقہ پر مشروع وسائل سے توسل کیا ہے، یعنی اعمال صالحہ اور مومنوں کی دعا کے ساتھ توسل کرنا، جیسا کہ ہر ایک مومن آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے اور آپ ﷺ کے ساتھ سچی محبت رکھنے سے بارگاہ کبریا عزوجل میں توسل کرسکتا، اور کرتا ہے، اور جیسے کہ صحابہ آنحضرت ﷺ کے عہد زندگی میں آپ کی دعا سے توسل کرتے اور آپ ﷺ کو شفیع بتاتے تھے، اسی طرح آخرت میں جملہ مخلوقات آنحضرت ﷺ کی دعا کو وسیلہ بنا سکتے ہیں۔(جیسے کہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عن نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو وسیلہ بنایا اور) جیسے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ:

’’تمہیں تو کمزور لوگوں کی دعا اور استغفار کی بدولت رزق دیا جاتا ہے اور دشمنوں پر فتح حاصل ہوتی ہے۔‘‘

نتیجہ فکر:

یہ ایک معلوم بات ہے اور ہر شخص بدیہی طور پر جانتا ہے کہ اگر کسی قبر کے نزدیک دعا کرنا افضل ہوتا اور اس میں استجابت دعا کی زیادہ اُمید ہوتی تو سلف صالحین کو سب سے پہلے اس کا علم ہوتا اور وہ ضرور اس پر عمل پیرا ہوتے، کیونکہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی محبوب اور پسندیدہ باتوں کو سب سے اچھا جانتے تھے، اور اس کی اطاعت اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے میں سب سے زیادہ کوشاں تھے۔

منصب رسالت کا اقتضائ:

علاوہ ازیں آنحضرت ﷺ کے منصب رسالت کا مقتضاء یہ تھا کہ وہ اس بات کو لوگوں کے سامنے بیان کرتے اور اُس کی طرف ان کو توجہ دلاتے، کیوں کہ خود بقول آنحضرت ﷺ کے، کوئی نیکی کی بات ایسی نہیں رہ گئی، جس کو آپ نے بیان نہ فرمایا ہو، اور کوئی برائی کی بات نہیں جس سے آپ نے اپنی امت کو منع نہ فرمایا ہو، کوئی بات جو جنت اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی طرف لے جانے والی ہو۔ یا انسان کو دوزخ کی آگ سے بچانے اور دور رکھنے میں مدد دے۔ آنحضرت ﷺ نے بیان کئے بغیر نہیں چھوڑی۔ آپ نے اپنی امت کو ایک واضح راستے پر چلایا، جس پر رات کو بھی روز روشن کی طرح چل سکتے ہیں۔ جو شخص بھی اس کو چھوڑ کر دوسری طرف چلے گا۔ اُس کا انجام یقینا ہلاکت ہے۔

صریح ممانعت:

آنحضرت ﷺ نے تو اس نوعیت کی باتوں سے صریحاً منع فرمایا ہے اور قبروں کو سجدہ گاہ ٹھہرانے کے فعل کو مستوجب لعنت قرار دے کر ان شر کی اُمور کا سدباب فرمایا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے تو ذرائع کو روکنے کے اُصول پر کاربند ہو کر اس بارے میں اس حد تک احتیاط کو ضروری سمجھا کہ قبر کی طرف منہ کر کے اللہ تعالیٰ کے لیے بھی نماز پڑھنا منع فرمایا، چاہے نماز کے دل میں غیر اللہ کی عبادت کا خیال تک نہ ہو۔

حفظ ما تقدم:

آنحضرت ﷺ نے آفتاب کے طلوع اور غروب کے اوقات میں اللہ کے لیے نماز پڑھنے سے منع فرمایا کہ ان اوقات میں بعض بت پرست سورج کو سجدہ کرتے ہیں۔ ان لوگوںسے مشابہت آ جانے کی وجہ سے ایک موحد کو خدائے پاک کی عبادت سے منع کیا گیا تاکہ اس کی عبادت غیر اللہ کی عبادت کی فقط ظاہری مشابہت اور شرک کے تو ہم تک سے پاک رہے، اگرچہ موحد نماز کے دل میں اس کا خیال تک نہیں آتا کہ سورج بھی کوئی قابل تعظیم ہستی ہے۔ اب تم خود سوچ لو کہ جب کسی خرابی کے توہم تک سے پرہیز کرنا لازم سمجھا گیا ہے تو جہاں خرابی کا وجود یقینی ہو، اس صورت سے پرہیز کرنا لازم نہیں ہو گا؟

دور حاضرہ میں زیارت قبور:

آج کل جس صورت میں قبروںپر جا کردعا کی جاتی ہے۔ اس میں یقینا شرک کے شوائب موجود ہیں، کیونکہ میت کو پکارا جاتا ہے، اور اس کے نام کا واسطہ دے کر دعا کی جاتی ہے جس سے صریح شرک تک پہنچ جانے میں ایک دو قدم کا فاصلہ رہ جاتا ہے۔

بت پرستی

تعظیم قبور:

بت پرستی کی ابتداء دراصل تعظیم قبور ہی سے تو ہوئی ہے قرآن کریم میں وارد ہے:

{وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِھَتَکُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا وَّیَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْراً} (۷۱:۲۳)

’’نوح علیہ السلام کی قوم کے لوگوں نے آپس میں کہا، کہ تم خداؤں کو ہر گز مت چھوڑو بالخصوص ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کی عبادت کو مت چھوڑو۔‘‘

اس آیت کی تفسیر میں رئیس المفسرین ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ یہ پانچویں نام نوح علیہ السلام کے عہد کے صالحین کے نام ہیں۔ جب یہ لوگ مر گئے تو لوگوں نے ان کی قبروں پر بیٹھنا شروع کیا، ان کی تصویریں بنائیں، اور پھر ان کو پوجنے لگے۔

علاوہ ازیں جن صالحین کی قبروں کو اس زمانے میں تریاق مجرب کہا جاتا ہے۔ اُن سے صحابہ اور تابعین کا درجہ یقینا اعلیٰ و ارفع ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ مؤخر الذکر کو چھوڑ کر ان صالحین کی قبروں کو چن لیا گیا ہے۔

شیخ کے توسل سے مراد مانگنا:

ایک اور تعجب انگیز بات سنئے، ہر ایک شیخ کی تعظیم اس کے اپنے معتقدمین کی جماعت کرتی ہے، اور وہی لوگ اس سے یا اُس کے واسطہ سے اپنی حاجتیں مانگتے ہیں، دوسرے شیخ کے معتقدین، ایک دوسری جماعت ہوتی ہے جو اپنے اس دوسرے شٰخ کو وسیلہ ٹھہراتی اور اس کے توسل سے اپنی مرادیں طلب کرتی ہے، یہ بیعنہٖ وہی بات ہے کہ مشرکوں کی ہر ایک قوم نے اپنے اپنے خدا مقرر کر رکھے ہیں، قرآن کریم میں ہے۔

{اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَحُمْ وَرُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَالْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ وَمَآ اُمِرُوْآ اِلّا لِیَعْبُدُوْا اِلٰھًا وَّاحِدًا، لَّا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ط سُبْحَانَہٗ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ} (۹:۳)

’’یہود اور نصاریٰ نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اپنے علماء اور مشائخ اور عیسیٰ بن مریم کو خدا بنا رکھا ہے، بحالیکہ ان کو ایک ہی خدا کی پرستش کا حکم دیا گیاتھا۔ وہ ایک خدا ہے جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں ہے، اور وہ اس سے پاک اور برتر ہے جو یہ لوگ شرک کرتے ہیں۔‘‘

مصیبت میں شیخ طریقت کو پکارنا:

یہ جو بعض مشائخ سے منقول ہے کہ جب تم کو کوئی تکلیف یا مصیبت پیش آئے یا تمہیں کسی بات کا خوف ہو تو تم مجھ کو پکارو، چاہے میں زندہ ہوں یا مردہ۔ اس سے تمہاری مصیبت ٹل جائے گی۔‘‘ یا تو اس شیخ پر (جس کی طرف یہ منسوب ہے) افترا ہے یا بصورت دیگر قائل کی غلطی او غلط فہمی ہے، کیونکہ اس کا قائل غیر معصوم ہے، اور یہ صریح گمراہی ہو گی کہ قائل معصوم کے قول کو چھوڑ کر غیر معصوم قائل کا اتباع کیا جائے۔

قال اللہ وقال الرسول:

اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے اس قسم کی باتوں کی تعلیم نہیں فرمائی بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:

{فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ وَاِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ} (۹۴:۶،۷)

’’جب تم فراغت پائو تو عبادت کی تکلیف برداشت کرو۔ اور اپنے رب کی طرف رغبت کرو۔‘‘

یہ نہیں فرمایا کہ انبیاء اور صالحین کی قبروں کی طرف رجوع کرو۔ دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

((قُلِ ادْعُوْا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُوْنِہٖ فَلَا یَمْلِکُوْنَ کَشَفَ الضُّرِ عَنْکُمْ وَلَا تَحْوِیْلًا اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلٰی رَبِّھِمُ الْوَسِیْلَۃَ اَیُّھُمْ اَقْرَبُ وَیَرْجُوْنَ رَحْمَتَہٗ وَیَحَافُوْنَ عَذَابَہٗ اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحْذُوْرًا)) (۱۷:۵۶،۵۷)

’’اے محمدﷺ! کہہ دے، جن کو تم نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر خدا مقرر کر رکھا ہے، اُن کو پکارو (جس کا کچھ بھی فائدہ نہیں) کیونکہ یہ اشخاص نہ تو تمہاری تکلیف کو دور کر سکتے ہیں۔ اور نہ کسی دوسرے کی طرف منتقل کر سکتے ہیں۔ یہ اشخاص جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں۔ ان میں سے جن کو نہایت قرب کا درجہ حاصل ہے۔ وہی اپنے رب تعالیٰ کا قرب ڈھونڈھتے ہیں۔ ان کی عبادت کرتے ہیں ۔ اور اس کی رحمت کے اُمید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ بے شک تیرے رب کا عذاب ڈرنے کے قابل ہے۔‘‘

علماء سلف کی ایک جماعت کا قول ہے کہ یہ آیت اُن لوگوں کے حق میں نازل ہوئی ہے جو حضرت مسیح علیہ السلام، حضرت عزیز علیہ السلام اور ملائکہ کو معبود سمجھے ہوئے ہیں۔ بارگاہ عزت میں بھلا مشائخ کی کیا مجال ہے کہ اس قسم کا کلمہ منہ سے نکالیں؟ حالانکہ سید الاولین والآخرین آنحضرت ﷺ نے کبھی اپنے کسی صحابی سے یہ نہیں کہا کہ جب تم پر کوئی مصیبت آئے تو مجھ کو پکارو، بلکہ اس کے برعکس اپنے چچا زاد بھائی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ تاکید فرمائی کہ: ’’اللہ تعالیٰ کا لحاظ رکھو وہ بھی تمہارا لحاظ رکھے گا، اللہ تعالیٰ کا لحاظ رکھو، اس کو ہر وقت اپنے سامنے پائو گے، خوشحالی کے وقت میں اُس کے ساتھ پہچان حاصل کرو (اس کی عبادت اور اُس کے پکارنے میں مشغول رہو) سختی کے وقت میں وہ تم کو نظر انداز نہیں فرمائے گا۔ جب تمہیں کوئی سوال کرنا ہو تو اللہ تعالیٰ سے سوال کرو اور مدد مانگنی ہو تو اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو۔‘‘

رسول اللہ ﷺ کا واسطہ دے کر سوال کرنا:

بعض جاہل لوگ یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ : ’’جب تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرنے لگو تو میرا واسطہ دے کر سوال کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک میری بڑی حرمت ہے۔‘‘

یہ روایت موضوع اور سفید جھوٹ ہے، اہل علم میں سے کسی نے اس کو روایت نہیں کیا ہے، اور نہ یہ روایت مسلمانوں کی کسی معتبر کتاب میں لکھی ہے، اگر کسی میت میں یہ فضیلت ہوتی کہ بارگاہ کبریاء میں اس کا واسطہ دے کر دعا کی جا سکتی ہے تو بے شک سب سے مقدم آنحضرت ﷺ کو یہ فضیلت حاصل ہوتی اور اگر اس سے کچھ فائدہ کا حصول متصور ہوتا تو سب سے پہلے آنحضرت ﷺ کے صحابہ کرام آپ کے انتقال کے بعد آپ کے واسطہ دینا اپنا دستور العمل ٹھہراتے (لیکن نہ تو آنحضرت ﷺ نے اپنی یہ فضیلت کبھی بیان فرمائی اور نہ صحابہ کرام نے کبھی آپ کے نام کا واسطہ دے کر دعا ء کی)

خلاصہ کلام:

اس تمام تر تقریر کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ قول صریح گمراہی ہے، اور اگر فی الواقع کسی شیخ طریقت نے ایسا کہا بھی ہو تو یہ اُس کی غلطی اور غلط فہمی ہے۔ اور اگر وہ مجتہد ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کی اس غلطی کو معاف فرمائے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ لیکن وہ شیخ طریقت یا مجتہد نبیوں کی طرح معصوم نہیں ہے۔ کہ اُس کے قول کا اتباع کیا جائے! اللہ تعالیٰ کا یہ قول اس بارے میں فصل الخطاب کا حکم رکھتا ہے۔

((فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئً فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ والرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُوْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ)) (۴:۵۹)

’’اگر تم کسی بات میں جھگڑ پڑو تو (اس اختلاف کو مٹانے اور اُس کا فیصلہ کرنے کے لیے ) اللہ اور رسول ﷺ کی طرف رجوع کرے، اگر تم اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی قبر

عمل شرک:

بعض خوش عقیدہ لوگوں کا قول ہے کہ ’’جو شخص آیۃ الکرسی پڑھ کر شیخ عبد القادرجیلانی رحمہ اللہ کی قبر کی طرف منہ کرے، اس پر سلام کہے، اور ہر ایک دفعہ سلام کہتے ہوئے ایک قدم اٹھائے، اور اس طرح سات قدم پورے کرے اس کی حاجت پوری ہو گی۔‘‘ یہ عمل شرک ہے اور اس میں ذرہ بھی شک نہیں کہ شیخ علیہ الرحمۃ نے یہ نہیں کیا اور نہ کسی کو اس کی تعلیم دی۔ اور اگر کوئی اُن کی طرف منسوب کرے تویہ نرا جھوٹ ہو گا۔ اس قسم کی باتیں اہل غلو اور اہل شرک کے من گھڑت افسانے ہیں، جن کو مشائخ کے اعتقاد میں منہمک ہو کر حق و باطل کی تمیز نہیں رہتی۔

مشابہت نصاریٰ:

آنحضرت ﷺ کی ایک صحیح حدیث ہے : ’’قبروں پر مت بیٹھو او ر اُن کی طرف منہ کر کے نماز مت پڑھو۔‘‘ جب آپ نے نماز میں بھی محض خدائے تعالیٰ کی عبادت ہے، قبر کی طرف منہ کرنا منع فرمایا ہے تو یہ کیسے جائز ہو گا کہ باوجود بعد مسافت کے کسی شیخ کی قبر کی طرف منہ کرے اور غیر اللہ سے مدد مانگے۔ کیا اس کا یہ عمل نصاریٰ کے عمل کے مشابع نہیں جو احبار اور رہبان کو اپنا خدا بنا رکھتے ہیں۔ اور اُن کو اپنا قاضی الحاجات تصور کرتے کرکے اُن سے او اُن کا واسطہ دے کر دعائیں مانگتے ہیں؟

استجابت دعاء کے اوقات و مقامات

آسمان دنیاپر نزول باری تعالیٰ:

بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا کسی معین وقت یا کسی خاص مکان میں دعا زیادہ مقبول ہوتی ہے؟ (جس سے اُن کا اشارہ کسی نبی یا ولی کی قبر کی طرف ہوتا ہے) اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک بعض خاص اوقات میں اور بعض خاص حالات میں دعا زیادہ مقبول ہوتی ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری ا ورصحیح مسلم میں آنحضرت ﷺ کی ایک حدیث ہے کہ جب ایک تہائی رات رہ جاتی ہے تو ہمارا رب تبارک و تعالیٰ آسمان دنیا کی طرف نزول فرما کر یہ فرماتا ہے۔

’’کوئی دعا مانگنے والا ہے جس کی دعاء قبول کروں؟ کوئی ہے جو مجھ سے سوال کرے تاکہ میں اُس کی حاجت پوری کروں؟ کوئی بخشش طلب کرنے والا ہے جس کو میں بخش دوں؟ طلوع فجر تک اسی طرح فرماتا ہے۔‘‘

ایک اور حدیث میں ہے کہ ’’رات کے درمیانی حصہ میں انسان کو اپنے رب تعالیٰ سے بہت زیادہ قرب حاصل ہوتا ہے۔‘‘ (دعائے نیم شبی اس لیے مشہور اور زبان زدِ خلائق ہے)

اوقات دعا:

اسی طرح نزول باراں کے وقت، گھمسان لڑائی کے وقت دوران میں اذان اور اقامت کے خاتمہ پر، نماز پڑھ چکنے کے بعد، سجدے کی حالت میں، جبکہ آدمی مسافر یا روزہ دار ہو، اور نیز مظلوم کی دعا زیادہ مقبول ہوتی ہے۔

مشاعر حج:

صحاح اور مسانید میں ایسی حدیثیں موجود ہیں، جن میں اس بات کا ذکر ہے کہ کن حالتوں میں دعا زیادہ مقبول ہوتی ہے؟ بعض مکان بھی ایسے ہی،جہاں دعا قبول ہوتی ہے۔ جیسے عرفات، مزدلفہ، منیٰ اور مُلتزم وغیرہ ( یہ سب جگہیں مکہ معظمہ میں ہیں اور حج کے مناسب بجا لاتے ہوئے ان مقامات پر دعا کرنے کا موقع ملتا ہے۔)

اسی طرح مسجد میں دعا کرنا افضل ہے۔ اور بالخصوص جن مساجد کو بروئے حدیث خاص فضیلت ہے، مسجد الحرام، مسجد نبوی ﷺ، اور بیت المقدس کی مسجد۔ اُن میں اسی نسبت سے نماز پڑھنا اور دعا کرنا افضل ہے۔ لیکن یہ خیال کرنا کہ کسی خاص مکان میں اس لیے نماز یا دعا کو فضیلت حاصل ہے کہ وہاں پر کسی نبی یا ولی کی قبر موجود ہے۔ علماء سلف اور ائمہ سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں۔ بلکہ نصاریٰ کی مشابہت سے بعض اہل بدعت نے اس کو رواج دیا ہے، اور اس کی اصل مشرکوں کے دین میں ہے، موحدین اور مخلصین کے مذہب میں یہ بات نہیں۔

قبر کے واسطہ سے دعاء

سلف صالحین کا قول:

بعض قبریں جو کسی نبی یا صحابی یا ولی کی بیان کی جاتی ہیں۔ بعض لوگ وہاں جا کر نماز پڑھتے ہیں،ا ور دعا کرتے ہیں۔ یا اپنے جسم کو قبر سے لگاتے ہیں۔ یا قبر کی کسی چیز کو چھوتے اور جسم پر پھیرتے ہیں۔ یہ فعل ان کا بدعت ہے اور سنت نبوی ﷺ کے مخالف ہے، کیونکہ علماء سلف کا اس پر اتفاق ہے کہ ایسی جگہوں میں نماز اور دعا کی کوئی خاص فضیلت نہیں ہے اور نہ ہی سلف صالحین میں سے کسی سے ایسا کرنا منقول ہے، بلکہ ایسا کرنے سے ایسی حالت میں بھی منع کرتے تھے۔ جبکہ وہ قبر سے یا اُس کے واسطہ سے دعا نہ مانگیں، چہ جائیکہ یہ بھی اس کے ساتھ جمع ہو۔ اور اس لیے تم خود سمجھ سکتے ہو کہ تمہارے اہل زمان جو قبروں پر جا کر اہل قبور سے یا اُن کے واسطہ سے دعا مانگتے ہیں۔ ان لوگوں کو وہ کس نظر سے دیکھتے؟

واسطہ دے کر دعا مانگنا

کلام مجید اور کعبہ:

بعض لوگ یہ بھی پوچھتے ہیں کہ کیا کسی پیغمبر یا ولی کا واسطہ دے کر یا کلام مجید اور کعبہ شریف کا واسطہ دے کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا جائز ہے؟ اور کیا یہ جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے ’’بحق فلاں‘‘ یا ’’بحرمت فلاں‘‘ یا ’’بجاہ المقربین‘‘ کہے یا انبیاء اور صالحین کے اعمال اور افعال کا واسطہ دے کر دعا مانگے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ وہ دعائیں جن کا ذکر آنحضرت ﷺ کی احادیث شریفہ میں ہے۔ ان میں اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ اور اُس کی صفات علیاء کے واسطہ سے دعا مانگی گئی ہے، نیز کلام پاک کے ساتھ پناہ مانگنے کا بھی ذکر ہے۔ جیسے کہ سنن میں یہ دعا منقول ہے۔

((اللھم انی اسالک بان لک الحمد انت اللّٰہ بدیع السمٰوٰت والارض یا ذوالجلال والاکرام یا حیّ یا قیّوم))

اور جیسے کہ:

((اللھم انی اسالک بانک انت اللہ الاحد الصمد الذی لم یا ولم یولد ولم یکن لہ کفوا احد))

اور جیسے کہ یہ دعا جو سند میں موجود ہے۔

((اللھم انی اسالک بکل اسم ھو لک سمیت بہ نفسک او انزلتہ فی کتابک او علمت احدا من خلقک او استأثرت بہٖ فی علم الغیب عندک))

مخلوقات کی قسم کھانا شرک ہے:

وہ دعائیں جو عوام میں مشہور ہیں اور جن کو بازاروںمیں بیٹھ کر تعویذ فروش لکھا کرتے ہیں۔ جیسے کہ یہ دعا کہ:

((اسالک باحتیاط قاف وھو یوف الحاف والطور العرش والکرسی وزمزم والمقام والبلد الحرام))

اور اسی قسم کی دوسری دعائیں، ان میں سے کوئی بھی آنحضرت ﷺ یا آپ کے صحابہ و تابعین اور ائمہ دین سے منقول نہیں۔ اور کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ ان چیزوں پر حلف کھائے یا اللہ تعالیٰ سے اُن کا واسطہ دے کر درخواست کرے۔

صحیح حدیث میں ہے۔

’’جو شخص قسم کھانا چاہتا ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ کے نام پر قسم کھانا چاہیے، بصورت دیگر چپ رہے۔‘‘

’’جس نے سوائے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی قسم کھائی۔اس نے شرک کیا۔‘‘

الغرض کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ مخلوقات میں سے کسی کی قسم کھائے۔

اللہ کے مقبول بندوں کی دعا:

اللہ تعالیٰ کے بعض ایسے مقبول بندے ہیں جن کی قسموں کو وہ رد نہیں فرماتا، چنانچہ صحیح بخاری میں یہ روایت موجود ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے قصاصاً ربیع کا دانت توڑنے کا حکم دیاتو انس بن النضیررضی اللہ عنہ نے کہا: ’’مجھے اُس خدا کی قسم جس نے آپ کو سچا نبی بنا کر بھیجا کہ بیع کا دانت نہیں توڑا جائے گا۔‘‘ اس پر فریق ثانی نے قصاص کا مطالبہ چھوڑ دیا اور دیت پر راضی ہو گئے۔ جس سے انس بن النضیر رضی اللہ عنہ کی قسم پوری ہو گئی، اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا:

((اِنَّ مِنْ عِبَادِ اللّٰہِ، مَنْ لَوْ اَقْسَمَ عَلَی اللّٰہِ لَابَرَّہٗ))

’’اللہ تعالیٰ کے بندوں میں ایسے بندے بھی ہیں جو اگر قسم کھا کر خدائے تعالیٰ سے کوئی التماس پورا کرنے پر اصرار کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم کو ضرور پورا کرتا ہے۔‘‘

توسل کے مشرو ع وسائل:

انس بن النضیر رضی اللہ عنہ کی طرح ایک موقع پر براء بن مالک رضی اللہ عنہ نے بھی کہا تھا کہ بارخدایا! میں تجھے قسم دیتا ہوں کہ تو ایسا کرے! چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اُس کی قسم پوری کی۔

انسان ہمیشہ رب تعالیٰ سے سوال کرتے ہوئے اُن اسباب کا وسیلہ ڈھونڈھتا ہے جو اس کے مطلوب کے مقتضی ہیں یعنی!

(۱)      اعمال صالحہ پر اللہ تعالیٰ نے ثواب دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔

(۲)      اللہ تعالیٰ کے مومن بندوں سے (جو مستجاب الدعوات ہیں) دعا کرائے، جیسے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کبریاء میں اس کے نبی کریم ﷺ اور اُن کے چچا عباس رضی اللہ عنہ اور دوسرے صالحین کی دعا سے توسل کیا کرتے تھے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جس میں اس بات کا ذکر ہے کہ آپ نے استسقاء کے موقع پر حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے دعا کرائی تھی، جو اس سے پہلے گذر چکی ہے اور اسی قبیل سے وہ روایت ہے جس کو اہل سنن نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اس کو صحیح الاسناد کہا ہے کہ : ’’ایک شخص نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں میرے لیے دعا کیجئے کہ مجھے آنکھیں بخش دے۔ آپ نے اُس کو حکم دیا کہ وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھے اور اس کے بعد یہ کہے کہ: ’’بار خدایا! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں۔ اور تیرے نبی الرحمۃمحمد ﷺ کو وسیلہ بنا کر تیری طرف توجہ کرتا ہوں۔ یا محمدﷺ! یا رسول اللہ! میں آپ کو وسیلہ بنا کر اپنے رب تعالیٰ کی طرف اپنی حاجت کے بارے میں متوجہ ہوتا ہوں کہ وہ اس کو پورا کرے۔ بار خدایا! آپ ﷺ کی شفاعت میرے حق میں قبول فرما۔‘‘

اس کا ملخص یہ ہے کہ سائل نے آنحضرت ﷺ کی دعاء کو سیلہ بنا کر بارگاہ الٰہی جل شانہ میں اس کو شفیع لایا۔ اور اس میں اللہ تعالیٰ سے اس بات کی استدعا کی کہ وہ آپ ﷺ کی شفاعت یعنی دعا کو اُس کے حق میں قبول فرمائے۔

مخلوق کے واسطہ دے کر توسل چاہنا:

یہ (ایک اندھے والی حدیث کا) واقعہ بعینہٖ اُن دوسرے واقعات کی طرح ہے جن میں صحابہ کرام آپ کی دعا سے توسل کیا کرتے تھے۔ لیکن کسی کا یہ کہنا: ’’بار خدایا! میں تجھ سے بحق ملائکہ یا بحق تیرے رسولوں اور انبیاء کے یا بحق فلاں رسول کے یا بحق بیت الحرام وغیرہ سوال کرتا ہوں۔‘‘

اس قسم کی دعا آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ و تابعین میں سے کسی سے بھی منقول نہیں، بلکہ بہت سے علماء مثلاً امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور اُن کے اصحاب امام ابو یوسف رحمہ اللہ وغیرہ نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ ان الفاظ میں دعا کرنا جائز نہیں، کیونکہ اس میں کسی مخلوق کا واسطہ دے کر اور اس کی قسم کھا کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا ہے، لیکن سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کسی کی قسم کھانا جائز نہیں، اگرچہ وہ اس کو قضائے حاجت کا ایک وسیلہ سمجھ کر اس کا واسطہ دے۔

دو مستحسن طریق دعا:

اگر کوئی شخص اپنے اعمال صالحہ کے توسل سے دعا کرے یا نبی کریم ﷺ اور دوسرے صالحین کی دعا سے توسل کرے(اُن سے دعا کرائے) تو اس میں شک نہیں کہ اعمال صالحہ پر اللہ تعالیٰ نے ثواب دینے کا وعدہ فرمایا ہے (اور اس کی دعا قبول کر لینا بھی ایک قسم کا ثواب ہے) اور صالحین کی دعا زیادہ تر مقبول ہوتی ہے، اس لیے کسی شخص کا ان دو طریقوں سے دعا کرنا توسل بالاسباب ہے۔ چنانچہ غار کی مشہور حدیث میں تین آدمیوں نے اپنے اعمال صالحہ کے توسل سے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے اس کو قبول فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کبریاء میں توسل الانبیاء کے یہ معنی ہیں کہ ان پر ایمان لائے۔ اور ان کی اطاعت کرے اُن پر درود اور سلام بھیجے اور اُن سے سچی محبت رکھے، یا اُن کی حیات میں اُن سے دعا کرائے۔

توسل بلااسباب:

انبیاء علیہم السلام اور صالحین کی ذات سے توسل کرنے اور اُن کے نام کا واسطہ دینے میں حصول مطلوب او رقضائے حاجت کا کوئی سبب مقتضی نہیں۔ اور اس لیے یہ توسل بالاسباب میں داخل نہیںہو گا، اور اسی بنا پر اس کا یہ قول قانون قدرت (اسباب اور مسببات کا قانون) کے خلاف ہو گا۔ (جس کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا۔ اللہ تعالیٰ نہیںچاہتا کہ اُس کے بندے قانون قدرت کی خلاف ورزی کریں) چاہے دراصل انبیاء علیہم السلام کا کتنا ہی بڑا مرتبہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے وہ نہایت ہی مقبول بندے ہیں۔لیکن دوسروں کی دعا قبول کرنے کے لیے اُن کی ذات یا اُن کے نام کا توسل کچھ فائدہ بخش نہیں۔ اُن کا توسل صرف اُس صورت میں فائدہ دیتا ہے جبکہ خود داعی کی ذات میں اُن کا توسل اجابت دعا کا سبب پیدا کر دے۔ مثلاً اُن پر ایمان لانا، اُن کی اطاعت اور محبت، دوسری صورت یہ ہے، کہ اُن کی ذات میں اجابت کا سبب موجود ہو، مثلاً ان کا اُس کے لیے عہد زندگی میں دعا کرنا، اور شفیع بننا، یہی دو باتیں ہیں، جن کے ذریعہ انبیاء علیہم السلام اور صالحین سے توسل کیا جا سکتا ہے اور بس!

انبیاء کی یادگاریں

تشبیہ یہود و نصاریٰ:

بعض لوگوں کا یہ قول کہ کیا اُس مکان کی تعظیم جائز ہے جس میں آنحضرت ﷺ کو خواب میں دیکھا گیا؟ اس کے جواب میں کہا جائے گا، کہ ایسی جگہوں کو مساجد اور زیارت گاہ بنانا یہود و نصاریٰ کے اعمال میں سے ہے جن کے ساتھ تشبیہ سے ہمیں منع کیا گیا ہے۔

ایک صحیح روایت میں ہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اپنے سفر میں ایک قوم کو دیکھا جو ایک مکان کی طر ف دوڑ رہے تھے۔ خلیفۂ حق نے پوچھا یہ کیا ہے؟ انہو ں نے کہا یہ مکان ہے، جہاں آنحضرت ﷺ نے نمازپڑھی تھی، آپ نے کہا کہ جب آنحضرت ﷺ نے اس میں نماز پڑھی ہے، تو کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اپنے انبیاء علیہم السلام کی یادگاروں کو مسجد بناوئ۔ اگر کسی شخص پر ایسے مقام میں نمازکا وقت آ جائے تو نماز پڑھ لے۔، ورنہ چلا جائے۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ صحابہ کی جماعت کے سامنے فرمایا۔

بدعت کا دروازہ کھولنا:

یہ ایک معلوم بات ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے سفروں میں متعدد جگہوں پر نماز پڑھی ہے۔ اور مؤمنان صادق نے کئی جگہوں پر آپ کو خواب میں دیکھا۔ لیکن سلف صالح نے ان جگہوں میں سے کسی جگہ کو بھی مسجد نہیں بنایا، اور نہ اس کو زیارت گاہ ٹھہرایا، اور اگر ایسی باتوں کا دروازہ کھو ل دیا جائے، تو مسلمانوں کے اکثر گھر مسجدیں اور زیارت گاہ بنائے جائیں گے، کیونکہ مؤمنان صادق ہمیشہ آنحضرت کو خواب میں برابر دیکھتے رہے ہیں اور بہت سے مومن ایسے ہیں جن کے گھر میں آنحضرت ﷺ تشریف لائے۔ ایسی جگہوں کو مقدس سمجھ کر زعفران وغیرہ کا چھڑکنا سخت ناپسندیدہ بدعت ہے۔

دروغ بافی کی حد ہو گئی:

بعض دروغ باف اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ جاتے ہیں۔ کسی جگہ پر نشان قدم دیکھ لیا جاتا ہے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ آپ ﷺ کا قدم مبارک ہے، اور پھر اُس کی تعظیم شروع ہو جاتی ہے، اور وہاں پر میلے منعقد ہونے لگتے ہیں، یہ سب جھوٹی اور بے اصل باتیں ہیں۔

علیٰ ہذا القیاس یہ جو بعض لوگ پتھروں پر قدم کا نشان لیے پھرتے ہیں اور لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں کہ یہ آنحضرت ﷺ کے قدم مبارک کا نشان ہے، یہ بھی کذب و افتراء ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی نبی کے قیام گاہ اور نشست گاہ کو سجدہ گاہ ٹھہرانے کا حکم نہیں دیا۔ یہ حکم صرف مقام ابراہیم علیہ السلام کے لیے مخصوص ہے۔ فرمایا:

{وَاتَّخَذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاھِمَ مُصَلّٰی} (۲:۱۲۵)

’’حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قیام گاہ کو جائے نماز سمجھو۔‘‘

جیسے کہ استلام (چھونا بطریق تعظیم اور بوسہ دینا تمام دنیا کے پتھروں میں سے حجر اسود کے لیے مخصوص کیا گیا ہے، اسی طرح بیت الحرام کو یہ فضیلت بخشی ہے کہ اُس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی جائے۔ لیکن اس پر مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ اور کسی جگہ کو ان جگہوں پر قیاس نہیں کیا جا سکتا اور اگر کوئی اس اختصاص کو اٹھاوے تو اُس کی بعینہٖ یہ مثال ہو گی کہ کوئی شخص کعبہ شریف کو چھوڑ کر کسی اور مقام کو حج کے لیے معین کر دے۔ یا شعبان میں رمضان کے روزے رکھے، وغیرہ وغیرہ۔

بیت المقدس کا صخرہ:

بیت المقدس کا صخرہ ایک قابل احترام جگہ ہے لیکن اس پر اجماع ہے کہ حجر اسود کی طرح اس کو بوسہ نہیں دینا چاہیے۔ بلکہ صخرہ کے نزدیک نماز پڑھنے اور دعا مانگنے کی بھی کوئی خاص فضیلت نہیں، بلکہ جس مسجد کو حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کے لیے وہاں پر بنایا، اس کے قبلہ میں نماز پڑھنا صخرہ کے نزدیک نماز پڑھنے اور دعا مانگنے سے افضل ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور صخرہ:

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب یروشلم کا شہر فتح کیا تو آپ نے کعب الاحبار سے مشورہ لیا کہ مسلمانوں کے لیے کہاں پر مسجد بنائی جائے؟کعب الاحبار نے آپ کو مشورہ دیا کہ صخرہ کے پیچھے اس کا تعمیر کرانا مناسب ہو گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اُس سے اس طرح مخاطب ہوئے کہ ’’اے یہودیہ کے بیٹے! ابھی تک تمہارے عقائد اور خیالات میں یہودیت سرایت کیے ہوئے ہے۔ میں تمہارا یہ کہانہ مانوں گا بلکہ صخرہ کے سامنے مسجد بنوائوں گا۔‘‘اس کے بعد انہوں نے یہ مسجد تعمیر کرائی۔ جس کو عام لوگ ’’مسجد اقصیٰ‘‘ کہتے ہیں، آ پ نے نہ تو صخرہ کو ہاتھ لگایا۔ اور نہ اس کو بوسہ دیا اورنہ اُس کے پاس نماز پڑھی۔

صحیح بخاری میں آپ کا یہ قول منقول ہے کہ جب آپ نے حجر اسود کو بوسہ دیا تو اس طرح گویا ہوئے:

’’خدا کی قسم! میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے جو نہ نفع دے سکتا ہے، اورنہ ضرور پہنچا سکتا ہے، اور اگر آنحضرت ﷺ کو نہ دیکھا ہوتا کہ تجھے انہوں نے بوسہ دیا تو میں تجھے ہر گز نہ چومتا۔‘‘

سلف صالحین کا طرز عمل:

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب مسجد اقصیٰ میں وارد ہوتے تو وہاں نماز پڑھتے تھے، لیکن صخرہ کے پاس نہیں جاتے تھے۔ دوسرے سلف صالحین کا بھی یہی دستور العمل تھا۔ اسی طرح وہ حجرہ شریف جس میں آنحضرت ﷺ کی قبر مبارک ہے، یا وہ حجرہ جس میں حضرت ابراہیم خلیل علیہ الصلوۃ والسلام مدفون ہیں اور دوسرے حجرے جن میں کوئی نبی یا مرد صالح مدفون ہیں، اس کو ہاتھ لگانا یا بوسہ دینا مستحب نہیں، اس پر ائمہ دین کا اتفاق ہے، بلکہ اکثروں نے اس سے منع کیا ہے۔ لیکن اگر کوئی ان کو سجدہ کرے یا صاحب قبر کو اس طرح مخاطب کرے جس طرح اللہ تعالیٰ کو مخاطب کیا جاتا ہے، مثلاً یہ کہ میری تقصیرات معاف فرمائو، یا مجھ کو دشمن پر فتح دو، وغیرہ تو اس کا یہ فعل اور قول کفر ہے۔

مقدس مقامات سے توسل

نیاز چڑھانا:

عوام الناس کا یہ عقیدہ اور عمل ہے کہ بعض درختوں، پتھروں، اور چشموں کو مقدس سمجھتے اور اُن کے لیے نذریں مانتے اور اُن پر نیاز چڑھاتے ہیں۔ بعض لوگ ان پرچیتھڑے لٹکاتے ہیں یا کسی درخت کے پتے لے کر اس سے تبرک حاصل کرتے ہیں یا ان چیزوں کے پاس نماز پڑھتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

یہ سب باتیں سخت ناپسندیدہ بدعت ہیں۔ ایسا کرنا اعمال جاہلیت میں سے ہے، اور یہ شرک کے ذرائع ہیں، جن کا سدباب کرنا نہایت ضروری ہے۔

ذات انواط:

صحیح بخاری میں یہ روایت موجود ہے کہ مشرکین ایک درخت پر اپنے ہتھیار لٹکایا کرتے تھے۔ اور وہ درخت ان کے ہاں ’’ذات انواط‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔ بعض لوگوں نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! جس طرح ہمارے حریفوں کو ایک ’’ذات انواط‘‘ ہے، اسی طرح ہمارے لیے بھی ایک ذات انواط مقرر فرمائیں۔ آپ نے یہ سن کر اللہ اکبر کا نعرہ بلند فرمایا اور فرمانے لگے: ’’یہ تو تم نے ایسی بات کہی جیسے کہ بنی اسرائیل نے (جن کے رگ و ریشہ میں شرک سرایت کیے ہوئے تھا) حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کہا تھا کہ:

{یٰمُوْسٰی اجْعَلْ لَّنَآ اِلٰھًا کَمَا لَھُم اٰلِھَۃٌ} (۷:۱۳۸)

’’اے موسیٰ علیہ السلام! ہمارے لیے بھی ایک خدا بنا دو جس طرح ان لوگوں کے خدا ہیں۔‘‘

’’بے شک تم پہلے لوگوںکے نقش قدم پر چلو گے اور اُن سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں رہو گے، یہاں تک کہ اگر کوئی اُن میں سے گوہ کے سوراخ میں داخل ہوا ہے تو تم بھی ویسا ہی کرو گے اور اگر کسی نے راستے میں اپنی بیوی سے مجامعت کی ہے تو تم بھی اُس کی تقلید کرو گے۔‘‘

بیعت الرضوان:

نیز ایک صحیح روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کسی نے کہا کہ کچھ لوگ اس درخت کے پا س جا کر نماز پڑھنا چاہتے ہیں۔ جس کے نیچے آنحضرت ﷺ نے حدیبیہ کے مقام پر بیعت الرضوان کی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ اُس درخت کو کاٹ دیا جائے۔‘‘ علمائے دین کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی ان جگہوں میں سے کسی جگہ کے لیے نذر کرے تو اُس کا پوراکرنا واجب نہیں۔ کیونکہ ان جیسے مقامات میں نماز ادا کرنے یا دوسرے عبادت بجا لانے کی کوئی خاص فضیلت نہیں۔

خدا کی یاداور مساجد

انبیاء و صلحاء کے مقدس مقامات:

ان باتوں کے رد و ابطال کا اصول یہ ہے کہ شریعت اسلام نے اللہ تعالیٰ کی عباعت، نماز، دعا، اور خدا کی یاد کے لیے مسجدوں کے بغیر اور کوئی جگہ مقرر نہیں فرمائی، البتہ مشاعر حج، جہاں پر حج کے اعمال بجا لائے جاتے ہیں، اس عموم سے مستثنیٰ ہیں۔ لیکن انبیاء اور صالحین کے مزارات وہ جگہیں ہیں جو کسی نہ کسی طرح ان کی طرف ہیں۔ یا ان کی عبادت گاہیں از قسم کہوف و مغارات (وہ کھوئیں جو پہاڑوں میں ہوتی ہیں) یا کو رطور جس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہم کلام ہوئے تھے، یا غار حرا، جس میں آنحضرت ﷺ قبل از بعثت عبادت فرمایا کرتے تھے، یا وہ غار جس میں آنحضرت ﷺ کافروں کے خوف سے ہجرت کے وقت میں چھپے تھے اور جس کا ذکر قرآن شریف میں ہے یا دمشق میں جبل قاسیوں کا غار جو ’’مغارۃ الدّم‘‘ کے نام سے مشہور ہے، اور وہ دو مقام جو اُس کے مشرقی اور مغربی جانب واقع ہیں، جن میں سے ایک کو مقام ابراہیم اور دوسرے کو مقام عیسیٰ کہتے ہیں، اور نیز اس قسم کے دوسرے مقامات جو مشرق و مغرب میں روئے زمین پر پھیلے ہوئے ہیں، ان کی زیارت کے لیے سفر کرنا مشروع نہیں، اور اگر کسی نے ان مقامات کی طرف جانے کی منت مانی تو باتفاق ائمہ اُس پر ایفاء واجب نہیں۔

شدرحال:

صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بروایت ابو ہریرہ و ابو سعید رضی اللہ عنہم وغیرہ کے آنحضرت ﷺ سے یہ حدیث ثابت ہے کہ:

’’مسجد حرام، مسجد اقصیٰ اور میری مسجد کے بغیر اور کسی مقام کے لیے سفر نہ کیا جائے۔‘‘

ایک تاریخی واقعہ:

یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ جب صحابہ کرام نے بلاد شام و عراق و مصر و خراسان کو فتح کیا تو انہوں نے کبھی ان مقامات کا قصد نہیں کیا، اورنہ اُن کی زیارت کے لیے سفر کیا اور نہ ہی اُن کو نماز پڑھنے اور دعا مانگنے کے لیے مخصوص کیا، بلکہ وہ اپنے نبی کریم ﷺ کے لائے ہوئے دین اور شریعت کے پابند تھے، اور مسجدوں کے آباد رکھنے میں مشغول رہتے تھے، جن کے حق میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:

{وَمَنق اَظلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللّٰہِ اَنْ یُّذْکَرَ فَیْھَا اسْمُہٗ} (۲:۱۱۴)

’’کون ہے ظالم تر اُس شخص سے جو اللہ کی مسجدوں میں خدا کی یاد سے روکے۔‘‘

دوسری جگہ ہے:ـ

{اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسَاجَدَ اللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمَ الاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلوٰۃَ وَاٰتَیْ الزَّکَوٰۃَ وَلَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰہَ} (۹:۱۸)

’’بے شک اللہ تعالیٰ کی مسجدوں کو وہی شخص آباد رکھتا ہے جو اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ایمان لایا ہے، نماز کو قائم رکھتا ہے، زکوٰۃ دیتا ہے، اور سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کسی کا خوف دل میں نہیں رکھتا۔‘‘

اور ارشاد ہوتا ہے:

{قُلْ اَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ وَاَقِیْمُوْا وُجُوْھَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ}

’’اے محمد ﷺ! کہہ دے میرے رب نے انصاف کا حکم دے دیا ہے، اور نیز یہ کہ تم ہر ایک ایسے وقت میں جبکہ مسجد کو جائو اپنے منہ کو سیدھا کر لو۔‘‘

اور فرمایا:

{وَاَنَّ الْمَسَاجِدَ لِِلّٰہِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا} (۷۲:۱۸)

’’اور بے شک مسجدیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے مخصوص ہیں، اس لیے ان میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو مت پکارو۔‘‘

اسی طرح مساجد کے حق میں بے شمار آیتیں کلام مجید میں موجود ہیں۔

مسجد میں نماز پڑھنا:

صحیح بخاری اور صحیح مسلم میںآنحضرت ﷺ سے مروی ہے کہ کسی شخص کا مسجد میں نماز پڑھنا اُس کے گھر میں نماز پڑھنے اور بازار میں نماز پڑھنے پر پچیس درجہ فوقیت رکھتا ہے، کیونکہ جب کوئی شخص اچھی طرح وضو کر لیتا ہے، اور پھر مسجد میں حاضر ہوتا ہے، بشرطیکہ اُس کے مسجد میں آنے کا سوائے نماز ادا کرنے کے اور کوئی باعث اور محرک نہ ہو تو اُس کو ہر ایک قدم پر ثواب ملتا ہے، جب وہ قدم اُٹھاتا ہے تو اُس کا ایک درجہ بلند ہوتا ہے اور جب قدم رکھتا ہے تو اس کا ایک گناہ کم ہوتا ہے، اُس کو نماز میں شمار کیا جتا ہے۔ اور جب وہ نماز پڑھ چکتا ہے تو جب تک وہ اپنی نماز کی جگہ میں رہے، ملائکہ اُس پر رحمت بھیجتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’بار خدایا! تو اس کو بخش دے، بارخدایا! تو اس پر اپنی رحمت نازل فرما۔‘‘

مشاہد کے لیے سفر کرنا:

جو شخص کسی نبی کی قبر یا دوسرے مشاہد کے لیے سفر کرے، اُس کے بارے میں متاخرین نے اختلاف کیا ہے۔ محققین کا قول یہ ہے کہ یہ سفر معصیت ہے اور نماز کا قصر کرنا اس میں جائز نہیں، جیسے کہ دوسرے سفر ہائے معصیت میں قصر جائز نہیں، ابن عقیل وغیرہ رضی اللہ عنہ نے اس بات کی تصریح کی ہے۔ا بو عبد اللہ بن بطہ رضی اللہ عنہ نے لکھا ہے کہ یہ ایک نوپیدا بدعت ہے، بلکہ اگر کوئی ان مقامات میں نماز پڑھنے یا دعا مانگنے کا قصد کرے تو اس کی بھی شریعت غراء میں کوئی اصلیت نہیں، اور نہ ہی سابقین اولین (صحابہ اور تابعین) میں سے کسی نے نماز پڑھنے یا دعا مانگنے کے لیے ایسے مقامات کا قصد کیا ہے۔

صحابہ اور تابعین کا طرز عمل:

صحابہ اور تابعین صرف مسجدوں کا قصد کیا کرتے تھے، بلکہ جو مسجدیں غیر مشروع طور پر بنائی گئیں، مثلاً مسجد ضرار، اُن میں بھی نماز ادا کرنے سے پرہیز کرتے تھے۔ قال اللہ تعالیٰ۔

{وَ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّ کُفْرًا وَّ تَفْرِیْقًا بَیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ مِنْ قَبْلُ وَ لَیَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَآ اِلَّا الْحُسْنٰی وَ اللّٰہُ یَشْہَدُ اِنَّہُمْ لَکٰذِبُوْنَ، لَا تَقُمْ فِیْہِ اَبَدًا لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْہِ فِیْہِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَہَّرُوْا وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمُطَّہِّرِیْنَ}

(۹:۱۰۷،۱۰۸)

’’جن لوگوں نے ایک ایسی مسجد بنائی ہے جس کا مقصد ضرر پہنچانا ہے، اس کا محرک اور باعث ان کا کفر اور مومنوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے کا خیال ہے، اور ایک ایسے شخص کے لیے کمین گاہ بنائی ہے۔ جو اس سے پہلے اللہ اور رسول کے ساتھ لڑائی کر چکا ہے۔ یہ لوگ قسمیں کھائیں گے کہ ہما را ارادہ تو نہایت ہی اچھا تھا، بحالیکہ اللہ تعالیٰ اس شہادت کا اظہار فرماتا ہے کہ بے شک وہ جھوٹے ہیں، تو اس مسجد میں مت کھڑا ہو، یقینا وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن تقویٰ پر ڈالی گئی تھی، اس بات کی زیادہ مستحق ہے کہ تو اس میں کھڑا ہو، اس مسجد میں ایسے لوگ ہیں جو پاکیزہ رہنا پسند کرتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ پاکیزہ رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔‘‘

قبر کو مسجد بنانا:

جو مسجدیں انبیاء اور صالحین کی قبروں پر بنائی گئی ہیں۔ اُن میں ہر گز نماز جائز نہیں۔ اور اُن کی تعمیر حرام ہے، جیسے کہ اکثر ائمہ رحمہ اللہ نے اس بات کی تصریح فرمائی ہے، کیونکہ آنحضرت سے صحاح اور سنن اور مسانید میں (حدیث کی کتابوں کی قسمیں ہیں) مستفیض طور پر ثابت ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے:

’’بے شک جو تم سے پہلے قومیں گذری ہیں، وہ قبروں کو مسجدیں بنا لیتے تھے، میں تم کو آگاہ کرتا ہوں کہ تم ایسا مت کرو، بے شک میںتم کو اس سے منع کرتا ہوں۔‘‘

آپ ﷺ نے اپنی مرض الموت میں فرمایا: ’’یہود و نصاریٰ پر خدا کی لعنت ہو، جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا تھا۔‘‘

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ کا اس فرمان سے مقصد یہ تھا کہ وہ اپنی امت کو ان افعال سے ڈرانا اور پرہیز کرانا چاہتے تھے۔ اور اگر یہ خوف نہ ہوتو تو آپ ﷺ کی قبر کھلی جگہ میںبنائی جاتی۔ آپ ﷺ اس بات کو سخت ناپسند کرتے تھے کہ آپ ﷺ کی قبر کو مسجد ٹھہرا لیا جائے۔‘‘

آپ کا حجرہ مبارک جس میں کہ آپ مدفون ہیں مسجد سے خارج تھا۔ جب ولید بن عبد الملک خلیفہ ہوا تو اُ س نے عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کو خط لکھا جو اُس کی طرف سے مدینہ کا حاکم تھا کہ ’’مسجد نبوی ﷺ کے حدود میں وسعت کی جائے۔‘‘ چنانچہ اُس نے ازواج مطہرات کے حجروں کو جو مسجد کے مشرقی جانب تھے، خرید کر مسجد میں شامل کر لیا۔ اس طرح آپ ﷺ کا مدفن شریف بھی مسجد میں داخل ہو گیا اور اس حجرے کو انہو ںنے قبلے کی جانب میں کوہان پشت بنایا، تاکہ کوئی شخص اس کی طرف نماز نہ پڑھے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قبر:

اسی طرح جب مسلمانوں نے بلاد شام کو فتح کیا تو ابراہیم خلیل علیہ الصلوۃ کی قبر پر سور سلیمانی موجود تھی، جس میں کوئی شخص داخل نہ ہوتا تھا، اور نہ کوئی اُس کی طرف نماز پڑھتا تھا، مسلمان لوگ اپنی نماز میں قریۃ الخلیل کی ایک مسجد میں پڑھا کرتے تھے، خلفائے راشدین کے عہد میں اور اُس کے بعد بھی کچھ عرصہ تک یہی حالت رہی، جس کے بعد سور سلیمان کی دیوار میں سوراخ پڑ گیا اور پھر اُس میں دروازبنایا گیا۔

خلاصۂ کلام:

الغرض تقریر مندرجہ بالا اُن قبروں کے متعلق ہے جو درحقیقت انبیاء علیہ السلام اور صالحین کی قبور ہیں۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ عام طور پر جو قبریں انبیاء علیھم السلام کی طرف منسوب ہیں، وہ جھوٹے طور پر ان کی طف منسوب کی گئی ہیں، جیسے ایک قبر جو نوح علیہ السلام کی قبر کے نام سے مشہور ہے، ابھی تھوڑی مدت ہوئی جاہلوں نے اس کو ظاہر کر کے مشہور کیا ہے، اور حقیقت میں سفید جھوٹ ہے، اس میں ذرہ بھی شک نہیں۔

زیارت عسقلان:

سائل نے منجملہ دوسرے مزارات کے زیارت عسقلان کی بابت بھی دریافت کیا ہے، اُس کو معلوم ہونا چاہیے کہ عسقلان زمانہ قدیم یعنی عصر اول میں اسلامی خلافت کی ایک سرحد تھی، اور سرفروش مسلمان جہاد کے انتظار میں رہنے کی غرض سے وہاں جا کر رہتے تھے۔ (کیونکہ سرحدی مقامات پر جہاد کا موقعہ اکثر پیش آتا ہے) اسی طرح دوسرے سرحدی مقامات پر بھی مجاہدین اسی غرض کے لیے مقیم رہتے تھے، جیسے کہ جبل لبنان سرزمین شام میں، اسکندریہ مصر ہیں، عباد ان اور قزوین وغیرہ عراق ہیں، اس طرح سرحدی مقامات میں رہ کر جہاد کے انتظار کرنے کو شرعی اصطلاح میں رباط کہتے ہیں۔ اور جس کی بابت اس آیت میں حکم دیا گیا ہے۔

{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَ صَابِرُوْا وَ رَابِطُوْا وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ} (۳:۲۰۰)

’’اے مسلمانو! استقلال اور ثابت قدمی اختیار کرو، دشمن کے مقابلے میں مضبوط رہو، جہاد کے لیے تیار رہو، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو، جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم کامیاب رہو گے۔‘‘

صحیح مسلم میں بروایت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث ہے کہ خدا کے راستے میں ایک دن رات رباط کرنا پورے ایک مہینہ کے روزے رکھنے اور قیام کرنے سے بہتر ہے، اور جو شخص رباط کی حالت میں مر جائے، وہ مجاہد مرا، اس کا عمل نیک اس کے بعد بھی جاری رہے گا۔ اس کو جنت میں رزق دیا جائے گا، اور فتنے سے محفوظ رہے گا۔‘‘

رباط، حرمین کی مجاورت سے افضل ہے:

سنن ابو داؤد وغیرہ حدیث کی کتابوں میں بروایت عثمان رضی اللہ عنہ آنحضرت ﷺ کی حدیث میں ہے کہ:

’’ایک دن رباط میں رہنا دوسرے مقامات میں ہزار دن رہنے سے بہتر ہے۔‘‘

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ:

’’اگر میں ایک رات رباط کی حالت میں رہ جائوں تو میرے نزدیک اس سے بہتر ہے کہ حجر اسود کے پاس شب قدر کی عبادت میں مشغول رہوں۔‘‘

انہی حدیثوں کی بناء پر علماء کا قول ہے کہ سرحدی مقامات پر رباط کی حالت میں رہنا حرمین شریفین کی مجاورت سے بہتر ہے، کیونکہ رباط جہاد کی ایک قسم ہے، اور مجاورت حرمین حج کی ایک قسم ہے، اور تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ حج سے جہاد افضل ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

{اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْجَآجِّ وَ عِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ جٰہَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَا یَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ، اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ ہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِہِمْ وَ اَنْفُسِہِمْ اَعْظَمُ دَرَجَۃً عِنْدَ اللّٰہِ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفَآئِزُوْنَ} (۹:۱۹۔۲۰)

’’کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد حرام کو آباد رکھنا ایسا ہی خیال کیا ہے، جیسے کوئی شخص اللہ تعالیٰ پر اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرتا ہے، یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے نزدیک برابر نہیں۔ اور اللہ تعالیٰ ظالموں کی قوم کو ہدایت نہیں بخشتا جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور جان و مال سے اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کیا، یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت بڑا درجہ رکھتے ہیں، اور یہی لوگ کامیاب ہوں گے۔‘‘

فضیلت رباط کی وجہ:

الغرض اُن سرحدی مقامات کو قابل تعظیم سمجھنے کی اصلیت یہ ہے جس کا ابھی بیان کیا گیا۔ کچھ زمانہ گذرنے کے بعد ان میں سے بعض مقامات پر تو کافروں نے قبضہ کر لیا، یا اہل بدعت اور فاسق و فاجر لوگ وہاں رہنے لگے، اور بعض اُن میں سے ویران اور غیر آباد ہو گئے، اور دوسرے مقامات کو رباط کی جگہ ہونے کی وجہ سے فضیلت حاصل ہو گئی، کیونکہ پہلے مقامات کی فضیلت بھی اسی وجہ سے تھی، حقیقت یہ ہے کہ جگہوں میں بذات خود کوئی فضیلت نہیں ہوتی، اس لیے تغیر حالات کے بموجب ان کے احکام بھی متبدل ہوتے رہتے ہیں۔

دارالاسلام اور دارالکفر کی وجہ تسمیہ:

ایک ملک میں کافر رہتے ہیں، اس لیے اُس کو دارالکفر کہا جاتا ہے، لیکن وہی لوگ جب اسلام اختیار کر لیتے ہیں، تو ُن کی وجہ سے وہی سرزمین دارالاسلام کہلاتی ہے، چنانچہ مکہ معظمہ ابتداء میں دارالکفر اور دارالحرب تھا، لیکن جب آنحضرت ﷺ نے اُس کو فتح کیا تو وہ دارالسلام بن گیا، اسی طرح ارض مقدسہ میںپہلے کافر اور جبار لوگ رہتے تھے، جن کا قصہ سورۂ مائدہ کے پانچویں رکوع میں مفصل مذکور ہے، اور قرآن کریم میں اُس کو ’’دارالفاسقین‘‘ کہا ہے چنانچہ جب موسیٰ علیہ السلام اور اُس کی قوم کو اللہ تعالیٰ نے غرق ہونے سے نجات دی تو اُن سے اس طرح خطاب فرمایا:

{سَاُوِرِیْکُمْ دَارَالْفَاسِقِیْنَ}

’’عنقریب میں تم کو بے فرمان لوگوں کا ملک او روطن دکھائوں گا۔‘‘

اُس وقت میںوہ ملک فی الواقع دارالفاسقین تھا، کیونکہ اُس میں خدا کے نافرمان بندے رہتے تھے، لیکن جب اُس میں بنی اسرائیل کی قوم کے صالحین سکونت پذیر ہو گئے تو وہ ملک دارالصالحین بن گیا۔

کسی جگہ کا محمود و مذموم ہونا:

یہ ایک ایسا اصول ہے جس کا پہنچاننا نہایت ضروری ہے، کیونکہ ایک ہی جگہ (شہر یا ملک) کے سکان کی حالت مختلف ہونے کی وجہ سے ایک وقت میں محمود اور قابل تعریف اور دوسرے وقت میں مذموم اور قابل نفرین ہوتی ہے، الغرض جگہوں کی خوبی یا عدم خوبی ہمیشہ ایک اضافی امر ہوتا ہے، اور دراصل مدح یا ذم ایمان اور عمل صالح کے وجود اور عدم پر مرتب ہوتی ہے۔

انسان کی فضیلت کا انحصار:

اسی طرح آدمیوںکی فضیلت بھی کچھ باب داد پر منحصر نہیں، بلکہ اس کا تعلق خود اُن کے ذاتی کمالات اور خوبیوں، ایمان اور عمل صالح سے ہے، کلام پاک میں ارشاد ہوتا ہے:

{ٰٓیاََیُّہَا النَّاسُ اِِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ اِِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ} (۴۹:۱۳)

’’اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک ہی نر و مادہ سے پیدا کیا۔ اور اس لیے تم کو قوموں اور گوتوں میں تقسیم کیا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو، (اس لیے نہیں کہ اس کے ذریعہ تم ایک دوسرے پر فخر کرو اور ایک دوسرے کی تحقیر کرو) بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو۔‘‘

آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں:

’’کسی عربی کو کسی عجمی پر فضیلت نہیں اور نہ بالعکس اسی طرح کسی گورے چٹے کو کالے حبشی پر فوقیت حاصل نہیں، امتیاز کی چیز صرف تقویٰ (اور نیک عمل) ہے، سب لوگ آدم کے بیٹے ہیں، اور آدم مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔‘‘

ابو الدرداء رضی اللہ عنہ اور سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے درمیان آنحضرت ﷺ نے عقد و مواخات کیا تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانے میں سلمان فارسی رضی اللہ عنہ عراق میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نائب تھا، اور ابو الدرداء رضی اللہ عنہ شام میں رہتا تھا۔ مؤخر الذکر کو لکھا کہ آئو پاک سرزمین میں چلے آئو۔ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں لکھا کہ:

’’کوئی پاک سرزمین کسی کو پاک نہیں بناتی، صرف نیک عمل ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو پاک اور مقدس بناتا ہے۔‘‘

استغاثہ بجاہ فلاں

عیسائیوں کی مشابہت:

جب کسی کا قدم پھسل جائے، اور وہ یہ کہے کہ:

((یا جاہ محمّد یا للست نفیسہ یا سیّدی الشیخ فلان (یا غوث الاعظم وغیرہ))

اس قسم کے الفاظ جن میں سوال اور استغاثہ پایا جاتا ہے، ایسا کہنا ناجائز اور شرک میں داخل ہے، کیونکہ کوئی میت خواہ وہ نبی ہو یا ولی اُس کو حاجت کے وقت پکارنا، اُس سے دعا مانگنا، یا اُس سے فریاد کرنا جائز نہیں، خواہ وہ پکارنے والا قبر کے پاس ہو، یا اُس سے دور ہو، یہ فعل اور عمل جیسا عیسائیوں کے فعل اور عمل سے مشابہ ہیں، جنہوں نے اپنے علماء اور مشائخ کو خدا مقرر کر رکھا تھا، اور ایسے لوگوں کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی ہے۔

{قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ فَلَا یَمْلِکُوْنَ کَشْفَ الضُّرِّعَنْکُمْ وَ لَا تَحْوِیْلًا۔ اِلٰی اٰخِرِہٖ} (۱۷:۵۶)

’’اے محمدﷺ! کہہ دے جن کو تم نے اللہ تعالیٰ کو چھو ڑ کر خدا مقرر کر رکھا ہے اُن کو پکارو (جس کا کچھ بھی فائدہ نہیں) کیونکہ یہ اشخاص نہ تو تمہاری تکلیف دور کر سکتے ہیں، اور نہ کسی دوسرے کی طرف منتقل کر سکتے ہیں۔‘‘(آخر آیت تک)

ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

{مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّؤْتِیَہُ اللّٰہُ الْکِتٰبَ وَ الْحُکْمَ وَ النُّبُوَّۃَ ثُمَّ یَقُوْلَ لِلنَّاسِ کُوْنُوْا عِبَادًا لِّیْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ لٰکِنْ کُوْنُوْا رَبّٰنِیّٖنَ بِمَا کُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْکِتٰبَ وَ بِمَا کُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ، وَ لَا یَاْمُرَکُمْ اَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلٰٓئِکَۃَ وَ النَّبِیّٖنَ اَرْبَابًا اَیَاْمُرُکُمْ بِالْکُفْرِ بَعْدَ اِذْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْن} (۳:۷۹،۸۰)

’’کسی بشر کو یہ حق حاصل نہیں کہ اللہ تعالیٰ اُس کو (اپنے الطاف خسروانہ کا مورد بنا کر) اپنی کتاب حکومت اور پیغمبر عنایت فرمائے اور (وہ ان عظیم نعمتوں کی ناشکری کر کے بجائے اس کے کہ لوگوں کو خدائے واحد لا شریک کی عبادت کے لیے بلائے) لوگوں سے یہ کہنے لگے کہ خدا کو چھوڑ کر تم میرے بندے بن جائو، بلکہ وہ کہے گا کہ چونکہ تم کتاب اللہ کے عالم اور اُس کے پڑھنے والے ہو، اس لیے تم خدا پرست اور خدا کی طرف بلانے والے ہو جائو۔ وہ تم سے یہ ہر گز نہیں کہے گا کہ تم ملائکہ اور انبیاء کو خدا بنا لو، کیا جب تم مسلمان اور مطعی فرمان ہو چکے ایسی حالت میں وہ تم کو کافر ہو جانے کی تلقین کرے گا؟‘‘

ان امور شرکیہ کی کسی دوسری جگہ پر مزید تفصیل کی گئی ہے۔

قبر پر چراغاں یا نذر کرنا

لعنت و معصیت:

اسی طرح ابراہیم خلیل علیہ الصلوٰۃ والسلام یا کسی شیخ یا اہل بیت کے کسی آدمی کے لیے یا کسی ولی کی قبر کے لیے نذر کرنا اور منت ماننا معصیت ہے، جس کا ایفاء باتفاق ائمہ واجب نہیں، بلکہ جائز نہیں۔ کیونک حدیث صحیح میں آنحضرت ﷺ سے منقول ہے کہ:

’’جو شخص طاعت کی نذر مانے، اُس کو ایفاء کرنا چاہیے، لیکن اگر کسی نے خدا کی نافرمانی کرنے کی منت مانی تو اُس کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرے۔‘‘

سنن میں آنحضرت ﷺ سے روایت ہے کہ: ’’قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر اور جو لوگ اُن پر مسجدیں بناتے اور چراغ جلاتے ہیں، اُن پر خدا کی لعنت ہے۔‘‘

اس سے تم کو معلوم ہو گیا کہ جو لوگ قبروں پر مسجدیں بنائیں یا اُن پر قندیلوں اور چراغ روشن کریں، وہ ملعون ہیں، اس لیے تم سمجھ سکتے ہو کہ جو لوگ مزارات پر سونے اور چاندی کی قندیلیں رکھتے ہیں، اور سیم و زکے شمع دان جلاتے ہیں وہ کس خلعت کے لائق ہوں گے؟ اور اس لیے جو شخص کسی نبی یا ولی کی قبر پر شمع جلانے یا اُس کے لیے تیل مہیا کرنے یا روپے دینے کی منت مانے، اُس کی یہ نذر معصیت ہے، اور اُس کا ایفاء جائز نہیں، او رکیا اس نذر کی وجہ سے اُس پر کفایت عین لازم آتی ہے یا نہ؟

کفارت یمین:

اس کے متعلق علمائے کرام کا اختلاف ہے جو نذر اُس نے مانی ہے، اگر وہ اس کو خیرات و مبرات کے مستحقین میں تقسیم کر دے، مثلاً تنگدست اور محتاج اصلاح کی اس سے دستگیری کرے تو وہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت بہتر اور بہت زیادہ مفید ہو گا، کیونکہ اُس کا یہ عمل عمل صالح شمار کیا جائے گا۔ جس کا اُس کو ثواب ملے گا۔ اللہ تعالیٰ کسی نیکی کرنے والے کا اجر ضائع نہیں فرماتا۔ اللہ تعالیٰ اپس متصدق کو ضرور جزا دے گا، جو خالص اُس کی خوشنودی کے لیے صدقہ دیتا ہے، اور مخلوق سے اُس کا اجرطلب نہیں کرتا، قال اللہ تعالیٰ:

{وَسَیُجَنَّبُہَا الْاَتْقٰی الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰی اِِلَّا ابْتِغَائَ وَجْہِ رَبِّہٖ الْاَعْلٰی وَلَسَوْفَ یَرْضٰی} (۹۲:۱۷ تا ۲۱)

’’اُس جلتی آگ سے اُس بڑے پرہیز گار کو بچایا جائے گا، جو نفس کی پاکیزگی کے لیے اپنا مال خرچ کرتا ہے، اُس پر کسی کا احسان نہیں جس کا وہ بدلہ اُتارنا چاہتا ہے، وہ صرف اپنے برتر خدا کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتا ہے، اور (اس کو اس قدر ثواب دیا جائے گا کہ جس سے)وہ خوش ہو گا۔‘‘

ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

{وَ مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمُ ابْتِغَآئَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ وَ تَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِہِمْ کَمَثَلِ جَنَّۃٍ بِرَبْوَۃٍ} (۲:۲۶۵)

’’جو لوگ اپنے مال کو دل کی مضبوطی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ڈھونڈنے کے لیے خرچ کرتے ہیں، ان کی مثال ایک باغ والوں کی ہے۔‘‘

جو ٹیلے پر واقع ہے (اس سے آگے پوری مثال ہے جس کا ملحض یہ ہے کہ اس کا یہ صدقہ اچھی طرح پھلے اور پھولے گا، اور بے انتہاء اجر اُس کو ملے گا۔)

صدقہ ٔ ابرار:

ابرار کے صدقے کی تعریف میں اللہ تعالیٰ نے اُن کا یہ قول نقل کیا ہے۔

{اِِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللّٰہِ لَا نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَّلَا شُکُوْرًا} (۹:۷۶)

’’بے شک ہم تمہیں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کھانا کھلاتے ہیں، اور تم سے کسی قسم کا بدلہ یا شکر گذاری نہیں چاہتے۔‘‘

غیر اللہ کا وسیلہ:

اسی بناء پر کسی کو نہیں چاہیے کہ غیر اللہ کے وسیلہ سے کسی سے سوال کرے، مثلاً یہ کہے کہ : ’’حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ یا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے واسطے مجھ کو دو۔‘‘ یا’’میں فلاں شخ اور فلاں ولی کا تمہیں واسطہ دیتا ہوں۔ ‘ ‘ بلکہ دینے والے کو چاہے کہ صرف اس شخص کو اپنا صدقہ دے جو محض خدا کے لیے مانگے۔

تمام عبادات بدنیہ اور مالیہ مثلاً نماز، روزہ اور صدقہ اور حج میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو مدنظر رکھنا ایک مسلمان کا فرض مؤکدہ ہے۔ رکوع اور سجود خالص اللہ تعالیٰ کے لیے ہو، روزہ خالص اللہ تعالیٰ کے لیے ہو، حج خاص اُسی کے گھر کے لیے ہو، دعا صرف اُسی سے کی جائے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

{وَ قَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہ} (۸:۳۹)

’’کافروں سے اُس وقت تک لڑو جبکہ کچھ بھی فتنہ باقی نہ رہے، اور جبکہ دین سارے کا سارا خالص اللہ تعالیٰ کے لیے ہو جائے۔‘‘

آنحضرت ﷺ کو اخلاص کی تلقین فرماتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے:

{قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ} (۶:۱۶۲)

’’صاف کہہ دو کہ بے شک میری نماز، اور میری قربانی اور میری زندگی (یہ ایک ایسا جامع لفظ ہے، جس میں انسان کے تمام اعمال اور اقوال آ جاتے ہیں) اور میری موت خالص اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، جو تمام عالموں کا پرورش کرنے والا ہے۔‘‘

ایک اور آیت کریمہ ہے:

{تَنْزِیْلُ الْکِتٰبِ مِنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ، اِِنَّا اَنزَلْنَا اِِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدُ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہٗ الدِّیْنَ} (۳۹:۱،۲)

’’یہ کتاب خدائے غالب اور حکیم کی طرف سے نازل کی گئی ہے، ہم نے تیری طرف اپنی کتاب کو سچے طور پر نازل فرمایا، لہٰذا تم کو چاہیے کہ اپنے دین کو خالص کرکے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔‘‘

اسلام کا نچوڑ:

یہی اسلام کا اصل الاصول ہے کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی دوسرے کی عبادت نہ کی جائے، اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اُس طریقے کے مطابق کی جائے،جس کی خود اُس نے تعلیم فرمائی ہے، اپنی رائے اور بدعت پر عبادت مقبول نہیں۔

کلام پاک میںہے:

{فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا} (۱۸:۱۱۰)

’’جو شخص اپنے رب سے ملاقی ہونے کی امید رکھتا ہے اُس کو چاہیے کہ نیک عمل کرے اور اپنے رب تعالیٰ کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے۔‘‘

نیز ارشاد ہوا ہے:

{خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا} (۶۷:۲)

’’اللہ تعالیٰ نے موت اور زندگی بنائی تاکہ تم کو آزمائے، کون تم میں سے سب سے اچھا عمل کرتا ہے۔‘‘

فضیل بن عیاض رضی اللہ عنہ کا قول ہے، کہ : نیک اور اچھے عمل سے مراد وہی ہے جو بہت خالص اور بہت ٹھیک ہو۔‘‘ حاضرین نے اس کا مطلب دریافت کیا تو آپ نے اس کی اس طرح تشریح کی: ’’عمل اگر خالص ہو اور ٹھیک نہ ہو (کتاب و سنت کے مطابق نہ ہو) تب بھی مقبول نہیں اور ٹھیک ہے لیکن خالص نہیں تب بھی مقبول نہیں، اس لیے میں کہتا ہوں کہ بہت خالص اور بہت ٹھیک ہو۔

خالص اور ٹھیک عمل کی تشریح:

اب خالص اور ٹھیک کی تشریح سن لو۔ خالص ہو ہے جو محض اللہ تعالیٰ کے لیے ہو اور ٹھیک وہ ہے جو کتاب و سنت کے مطابق ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دین مقبول صرف اللہ کا دین ہے۔ جس کو اُس کے رسول ﷺ نے ہم تک پہنچایا، اس لیے حرام وہی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا اور بتایا ہوا اور دین وہی ہے جس کو اُسی نے نازل فرمایا ہے، جو لوگ دین میں نئی بدعتیں نکالتے ہیں وہ مشرکوں کے بھائی ہیں۔ کلام پاک میں ہے:

{اَمْ لَہُمْ شُرَکَائُ شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنْ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْ بِہٖ اللّٰہُ} (۴۲:۲۱)

’’کیا انہوں نے اپنے لیے خدا کے شریک مقرر کر رکھے ہیں جنہوں نے اُن کے لیے ایک ایسا دین پیدا کیا ہیجس کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہیں دی۔‘‘

اس آیت کریمہ سے صاف طور پر واضح ہوتا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے خلاف اور اس کی اجازت کے بغیر کوئی نئی راہ نکالتے ہیں وہ مشرک ہیں۔

رہبانیت:

مشرکوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے جا بجا اس لیے مذموم بتایا ہے کہ انہوں نے دین میں نئی راہیں نکالیں، (ویسے زبانی تو وہ بھی آپ کو دین ابراہیم علیہ السلام کا پیرو سمجھتے تھے) اور ایسی چیزوں کو حرام ٹھہرایا جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام نہیں فرمایا تھا، مثلاً بحیرہ اور سائبہ وغیرہ۔ عیسائیوں نے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر رہبانیت اختیار کی تھی، لیکن چونکہ اُن کا یہ فعل اللہ تعالیٰ کے ارشاد کی تعمیل نہیں تھا، اس لیے اسلام نے اس کو ابطال کیا کہ: ((لَا رَھْبَانِیَّۃَ فِی الْاِسْلَامِ))

تمام انبیاء کا دین:

اسلام، تمام رسل اور انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کا دین ہے اور اس کا ملحض اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی اور اُسی کے فرمان کے آگے گردن جھکانا ہے۔ جس شخص نے تدبر کے ساتھ قرآن کریم پڑھا ہے، اس کو معلوم ہے کہ تمام مشہور انبیاء علیہم السلام نے مسلم ہونے پر فخر کیا ہے۔

سورہ یونس میں اول الرسل حضرت نوح علیہ السلام کا قول منقول ہے کہ:

{وَاُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ} (۲۸:۹۱)

’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلمان ہوں۔‘‘

پہلے سیپارے کے آخری رکوع میں اس بات کی تصریح ہے کہ ابو الانبیائ، حضرت ابراہیم علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے جدا امجد حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے ان الفاظ میں وصیت کی تھی کہ:

{اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی لَکُمُ الدِّیْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ} (۲:۱۳۲)

’’بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ایک خالص دین (دین اسلام) پسند کیا ہے، اس لیے تو کو چاہیے کہ مسلمان ہو کر مرو۔‘‘

حضرت موسی علیہ السلام نے اپنی قوم سے اس طرح خطاب کیا تھا کہ:

{فَعَلَیْہِ تَوَکَّلُوْا اِنْ کُنْتُمْ مُسْلِمِیْنَ} (۵:۱۱۱)

’’اُسی اللہ پر بھروسہ رکھو اگر تم مسلمان ہو۔‘‘

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حوارین کا قول ہے۔

{وَاشْھَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ} (۵:۱۱۱)

’’اور تم گواہ رہو کہ ہم مسلمان ہیں۔‘‘

صحیحین میں آنحضرت ﷺ کی ایک حدیث میں ہے کہ:

((اِنَّا معاشر الانبیاء دیننا واحدٌ))

’’ہماری پیغمبروں کی سب جماعت کا ایک ہی دین ہے۔‘‘

((وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ))

توضیح:… یہ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا ایک مستقل رسالہ ہے، جس کا الگ اردو ترجمہ بھی شائع ہو چکا ہے، کتاب الجنائز سے اس کی مناسبت ظاہر راقم نے اُسے اپنی پسند اور انتخاب کے پیش نظر درج کر دیا ہے، انشاء اللہ قارئین محظوظ ہوں گے۔ (علی محمد سعیدی)

 


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 303-343

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ