سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(175) عورت مومنہ بے قرار کو زیارت قبور مطابق سنت رخصت ہے یا نہیں؟

  • 4365
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1092

سوال

(175) عورت مومنہ بے قرار کو زیارت قبور مطابق سنت رخصت ہے یا نہیں؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ عورت مومنہ بے قرار کو زیارت قبور مطابق سنت رخصت ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر عورت صابر ہے۔ اور اس سے کسی قسم کے فتنہ کا خوف نہیں ہے۔ اور نہ اس امر کا خوف ہے کہ قبرستان میں جا کر روئے گی۔ چلائے گی، اور بے صبری کی حرکتیں کرے گی۔ تو اس کے لیے گاہے گاہے زیارت قبور مطابق سنت کے جائز و رخصت ہے۔ اور اگر بے صبر ہے اور اس سے امر مذکور کا خوف ہے تو اس کے لیے جائز نہیں۔ نیل الاوطار میں ہے۔

((قال القرطبی ھذا اللعن انما ھو للمکثرات من الزیادۃ لما تقضیۃ الصفۃ من المبالغۃ ولعلل السبب ما یفضی الیہ ذلک من تضییع حتی الزوج والتبرج وما ینشاء منھمن من ایصیاح ونحو ذلک فقد یقال اذا امن من جمیع ذلک فلا مانع من الاذن لان تذکر الموت یحتاج الیہ الرجال والنساء انتہی وھذا الکلام ھو الذی ینبغی اعتمادہ فی الجمع بین الاحادیث المتعارضۃ)))

’’قرطبی نے کہا قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر جو لعنت آئی ہے یہ بطور مبالغہ ہے اور قبرستان میں اکثر اوقات جانے والی عورتوں کے متعلق ہے کیونکہ اس سے خاوند کے حقوق ضائع ہوتے ہیں، بے پردگی ہوتی ہے بعض دفعہ نوحہ کرنے لگتی ہیں۔ اگر یہ چیزیں نہ ہوں تو پھر جائز ہے۔ کیونکہ موت کی یاد کے لیے جیسے مرد محتاج ہیں، ایسے ہی عورتیں بھی محتاج ہیں۔ اس سے دونوں طرح کی حدیثوں کی تطبیق ہو جاتی ہے۔‘‘

باقی رہا بعد مرنے کے انسان کی روح کا آنا یا نابالغ کی روح کا بڑھنا سو ان باتوں کا شریعت میں کچھ ثبوت نہیں ہے۔ واللہ اعلم حررہ ابو محمد عبد الحق گڑھی عفی عنہ (سید محمد نذیر حسین)

ہو الموفق:

… مردوں کے واسطے زیارت قبور بالاتفاق سنت ہے۔ اور عورتوں کی نسبت اختلاف ہے اکثر علماء کے نزدیک عورتوں کے لیے بھی زیارت قبور جائز و رخصت ہے۔ اور بعض علماء کے نزدیک مکروہ ہے اور اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ عورتوں کی زیارت قبور کی نسبت حدیثیں مختلف آئی ہیں جو اہل علم عورتوں کے لیے بھی زیارت قبور کو جائز بتاتے ہیں۔ ان کی پہلی دلیل یہ ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے ایک عورت کو ایک قبر کے پاس روتے ہوئے دیکھا۔ تو فرمایا کہ اللہ سے ڈر اور صبر کر (رواہ البخاری) اور آپ نے اس کو قبر کے پاس بیٹھنے سے منع نہیں فرمایا اور دوسری دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے تم لوگوں کو زیارت قبور سے منع کیا تھا۔ سو تم لوگ قبروں کی زیارت کرو (رواہ مسلم) وہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ اجازت مردوں اور عورتوں دونوں کو شامل ہے اور (۳) تیسری دلیل یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھائی عبد الرحمن کی قبر کی زیارت کی تو ان سے کسی نے کہا کہ کیا رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کو زیارت قبور سے منع نہیں کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہاں منع کیا تھا، مگر پھر ان کو زیارت قبور کا حکم دیا۔ (رواہ حاکم) اور (۴) چوتھی دلیل یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ جب میں قبروں کی زیارت کروں تو کیا کہوں۔ آپ نے فرمایا کہ جب تو قبروں کی زیارت کرے تو کہہ السلام علی اہل الدیار۔ (الحدیث) رواہ مسلم، او (۵) پانچویں دلیل یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ ہر جمعہ کو اپنے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ کی قبر کی زیارت کرتی تھیں۔ (رواہ الحاکم، وہو مرسل) اور (۶) چھٹی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو اپنے باپ ماں دونوں کی یا ایک کی زیارت ہر جمعہ کو کیا کرے تو اس کی مغفرت کی جاوے گی۔ اور وہ بار لکھا جاوے گا۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان مرسلا) اور جو لوگ عورتوں کے لیے زیارت قبور کو مکروہ بتاتے ہیں۔ ان میں بعض مکروہ بکراہت تحریمی کہتے ہیں۔ اور بعض مکروہ بکراہت تنزیہی۔ ان لوگوں کی پہلی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت کی ہے۔ (اخرجہ الترمذی وصححہ) اور (۲) دوسری دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو سامنے آتے ہوئے دیکھا تو پوچھا کہ کہاں سے آتی ہو انہوں نے کہا کہ اس میت کی تعزیت کو گئی تھی۔ آپ نے فرمایا شاید تو جنازہ کے ہمرا کدیٰ یعنی قبرستان گئی تھی۔ انہوں نے کہا: نہیں۔ (اخرجہ احمد والحاکم وغیرہما)ان لوگوں کی یہی دو دلیلیں ہیں۔ علامہ قرطبی نے ان متعارض و مختلف احادیث کی جمع و توثیق میں جو مضمون لکھا ہے اس کا خلاصہ مجیب نے جواب میں لکھ دیا ہے۔ اور علامہ شوکانی نے اس کو اعتماد کے قابل و لایق بتایا ہے، اور بلاشبہ جمع و توفیق کہ یہ صورت بہت اچھی ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم وعلمکہ اتم ۔ حافظ ابن حجر فتح الباری صفحہ ۶۶۲ جزو ۵ میں لکھتے ہیں۔

((واختلف فی النساء فقیل دخلن فی عموم الاذان وھو قول الا کثر و محلہ ما اذا امنت الفتنۃ ویؤید الجواز حدیث الباب وموضع الدلالۃ منہ انہ ﷺ لم ینکر علی المرأۃ تعودھا عند القبر وتقریرہ حجۃ وممن حمل الاذن علی عمومہ الرجال والنساء عائشۃ فروی الحاکم من طریق ابن ابی ملکیۃ انہ راھا زارت قبر اخیھا عبد الرحمٰن فقیل لھا الیس قد نہی النبی ﷺ عن ذلک قال نعم کان نہی ثم امر بزیارتھا وقیل الاذن خاص بالرجال ولا یجوز النساء زیارۃ القبور وبہ جزم الشیخ ابو اسحٰق فی المھذب واستدل لہ بحدیث عبد اللّٰہ بن عمر والذی تقدمت الاشارۃ الیہ فی باب اتباع النساء بجنائز وبحدیث لعن اللّٰہ زوارات القبور اخرجہ الترمذی وصححۃ من حدیث ابو ھریرۃ ولہ شاھد من حدیث ابن عباس ومن حدیث حسان بن ثابت واختلف من قال بالکراہۃ فی حقھم ھل ھی کراھۃ تحریم او تنزیہ قال القرطبی وھٰذا اللعن انما ھو للمکثرات من الزیارۃ لما تقتضیہ الصفۃ من المبالغۃ ولعل السبب ما یفضی الیہ ذلک من تضیع حق الزوج والتبرج وما ینشاء منھمن من الصیاح ونحو ذلک فقد یقال اذا امن جمعی ذلک فلا مانع من الاذن لان تذکر الموت یحتاج الیہ الرجال والنساء انتھی))

’’قبروں کی زیارت کے لیے عورتوں کے جانے میں اختلاف ہے اکثر کا یہ مذہب ہے کہ جب قبور کی زیارت کی اجازت ہوئی تو اس میں عورتوں کو بھی اجازت ہو گی۔ بشرطیکہ زیادہ نہ جائیں۔ اور وہاں جا کر بے صبری نہ کریں رسول اللہ ﷺ نے ایک عورت کو قبر کے پاس بیٹھے دیکھا۔ تو اس کو منع نہ کیا حضرت عائشہ اپنے بھائی عبد الرحمن کی قبر پر زیارت کے لیے گئیں۔ کسی نے کہا رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کو قبرستان میں جانے سے روکا ہے۔ کہنے لگیں جب روکا تھا ۔ تو سب کو روکا تھا۔ اور جب اجازت ہوئی تو عورتوں کو بھی ہو گئی۔ ابو اسحٰق نے مہذب میں کہا ہے کہ اجازت صرف مردوں کو ہوئی ہے۔ عورتوں کو نہیں۔ مانعین عبد اللہ بن عمر کی حدیث سے اور لعن اللہ زوارات القبور سے استدلال کرتے ہیں۔ پھرمکروہ کہنے والوں میں سے بعض مکروہ تنزیہی کہتے ہیں۔ اور بعض مکروہ تحریمی۔ قرطبی کہتے ہیں اگر عورت قبرستان میں زیادہ نہ جائے نوحہ نہ کرے مرد کے حقوق ضائع نہ کرے۔ تو اس کو جانا جائز ہے ورنہ نہیں، رسول اللہ ﷺ نے جو زیارت کرنے والی عورتوں کو لعنت کی ہے، یہ رخصت سے پہلے تھی۔ جب رخصت ہوئی تو عورتوں مردوں کو ہو گئی۔ اور عورتوں کے لیے جو زیارت مکروہ ہے وہ صرف بے قراری اور بے صبری کی وجہ سے ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی جب اپنے بھائی عبد الرحمن کی قبر کی زیارت کی تو دردناک شعر پڑھے۔ اور حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ سے پوچھا جب میں قبرستان میں جائوںتو کیا کہا کروں۔ آپ نے دعا سکھائی ان کو منع نہ کیا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی قبر پر ہر جمعہ کو جایا کرتی تھیں۔ اور حدیث میں ہے جو ہر جمعہ اپنے والدین کی قبر پر جائے اس کو بخش دیا جائے گا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنے والا لکھا جائے گا۔‘‘

بلوغ المرام اور اس کی شرح سبل السلام میں ہے:

((وعن ابی ھریرۃ ان رسول اللّٰہ ﷺ لعن زایرات القبور اخرجہ الترمذی وصححہ ابن ھبان وقال الترمذی بعد اخراجہ ھذا حدیث حسن وفی الباب عن ابن عباس وحسان وقد قال بعض اھل العلم ان ھذا کان قبل ان یرخص النبی ﷺ فی زیارۃ القبور فلما رخص دخل فی الرخصۃ الرجال والنساء وقال بعضھم انما کرہ زیارۃ القبور للنساء لقلۃ صبرھن وکثرۃ جزعھن ثم ساق سندہ ابن عبد الرحمٰن بن ابی بکر توفی ودفن فی مکۃ واتت عائشۃ قبرہ ثم قالت شعراء

وکنا کند ما فی جذیمۃ حقبۃ

من الدھر حتی قیل لن یتصدعا

وعشنا بخبر فی الحیوۃ وقبلنا

اصاب المنایا یا رھط کسری وتبعا

ولما تفرقنا کافی وما لکا

لطول اجتماع لم نبت لیلۃ معا

انتہی ویدل لما قالہ بعض اھل العلم ما اخرجہ مسلم عن عَائشۃ قالت کیف اقول یا رسول اللّٰہ اِذَا زُرْتُ القبور فقال قولی السلام علٰی اھل الدیار من المسلمین المؤمنین یرحم اللّٰہ المتقدمین منا والمتاخرین وانا ان شاء اللّیہ بکم لا حقون وما اخرج الحاکم من حدیث علی بن الحسین ان فاطمۃ علیھا السلام کانت تزور قبر عمھا حمزۃ کل جمعۃ فتصلی وتبکی عندہ قلت وھو حدیث مرسل کان علی بن الحسین لم یدرک فاطمۃ بنت محمد ﷺ وعموم ما اخرجہ البیہقی فی شعب الایمان مرسلا من زار قبر الوالدین لواحد ھما فی کل جمعۃ غفرلہ رکتب بارا انتہی))

(واللہ تعالیٰ اعلم کتبہٗ محمد عبد الرحمن المبارکفوری عفا اللہ عنہ)

 


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 297-302

محدث فتویٰ

تبصرے