(۱) قبر کا بوسہ لینا جائز ہے یا حرام (۲) قبر کا طواف کرنا کیسا ہے؟
(۱) قبر کا بوسہ لینا حرام ہے فی المدارج (؎۱) وبوسہ دادن قبر راد سجدہ کردن آنراد سر نہاون حرام و ممنوع است ودر بوسیدن قبر والدین روایت فقہی نقل مے کنند و صحیح آنست کہ لا یجوز انتہیٰ واوفی لا یجوز گناہ صغیرہ است واصرار برآن کبیرہ است بکذا فی شرح علین العلم (۲) قبر کا طواف حرام ہے اگر مستحب جان کر کرے کافر ہو گا فی شرح المناسک :
(؎۱) قبر کو بوسہ دینا اس کو سجدہ کرنا اور سر جھکانا حرام و ممنوع ہے۔ ماں باپ کی قبر کو بوسہ دینے کے متعلق ایک روایت بیان کرتے ہیں اور صحیح یہی ہے کہ جائزنہیں ہے اور لا یجوز کا ادنیٰ درجہ گناہ صغیرہ ہے اور اس پر اصرار کرنا کبیرہ گناہ ہے۔
((للقاری ولا یطوف ای لا یدور حول البقعۃ الشریفۃ لان الطواف من مختصات الکعبۃ المیفۃ فیحرم حول قبور الانبیاء والاولیا ولا عبرۃ بما یفعلہ العازمۃ الجھلۃ ولو کانوا فی صورۃ المشائخ والعلماء انتہی ھکذا فی البحر والنھر))
’’ملا قاری لکھتے ہیں کہ آپ کی قبر مبارک کے گرد طواف نہ کرے کیونکہ طواف خانہ کعبہ کی خصوصیت ہے اور نبیوں اور ولیوں کی قبروں کے گرد طواف کرنا جائز نہیں ہے۔ اور جو عوام جاہل لوگ ایسا کرتے ہیں اس کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔ اگرچہ وہ جاہل علماء اور مشائخ کی صورت میں ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘
(جواب صحیح: سید محمد نذیر حسین، ابو الفیض محمد عبد اللہ حنفی، احمد الدین، جواب سب صحیح ہیں۔ رشید احمد گنگوہی، پیر محمد دارم صد شکر کہ من، محمد ہاشم، سید محمد عبد السلام غفرلہ، جواب صحیح اور درست ہیں۔)